
تیرہ سال پہلے جب امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ صدر پرویز مشرف کے پاس اپنی پتلون کی عقبی جیب میں ایک فہرست سمیت پہنچا اور اس نے بتایا کہ وہائٹ ہاؤس کے ایک حالیہ اجلاس میں صدر بش نے اس بات پر ناراضی اور مایوسی کا اظہار کیا کہ اس فہرست میں شامل زیادہ تر دہشت گرد امریکا کے ایک اتحادی پاکستان کی سرزمین میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اجلاس کے شرکا کے مطابق مشرف نے اس معاملے پر توجہ دینے کا وعدہ کیا اور ایک ماہ سے کم عرصے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی ISI نے اس فہرست کے سب سے اہم فرد کو گرفتار کرلیا۔
امریکی خفیہ ایجنسی کے سابقہ اعلیٰ عہدیدار کے مطابق ’’سچائی تو یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں بڑی حد تک امریکا کا سب سے بہتر شریکِ کار رہا ہے۔ کسی اور نے پاکستانیوں سے زیادہ دشمنوں کو میدانِ جنگ سے باہر (گرفتار کرکے) نہیں نکالا‘‘۔ لیکن اس کے باوجود ناقابل فہم اور پریشان کن چیزیں ان کے تعاون میں شامل ہیں۔ آئی ایس آئی نے بعض دہشت گرد گروہوں، مثلاً القاعدہ اور پاکستانی طالبان کے خلاف تو مکمل تعاون کیا، لیکن اس کے ساتھ افغان طالبان اور حقانی گروپ کی مدد کرتی رہی۔ کم ازکم دو مرتبہ سی آئی اے کے سابقہ قائم مقام ڈائریکٹر مائیکل موریل ایک فہرست کے ساتھ یہ امید لے کر آئے کہ پاکستان ان لوگوں کو گرفتار کرے گا یا گرفتار کرنے کی کوشش کرے گا۔
گزشتہ ماہ ہی امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس بھی اسی قسم کے مشن پر وہاں گئے تھے۔ایک سابقہ انٹیلی جنس افسر نے مجھے بتایا کہ ’’بڑے غصہ اور مایوسی کی بات ہے کہ گزشتہ پندرہ سالوں سے ہم ایک جیسی باتیں کررہے ہیں، کہ تمہیں دہشت گردی سے سختی سے نپٹنا چاہیے اور ان کے سارے محفوظ ٹھکانے بند کردینے چاہئیں‘‘۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ تیسرے صدر ہیں جنہوں نے گزشتہ ہفتے اس غصہ و مایوسی کا اظہار کیا اور ٹوئیٹ کیا کہ ‘‘گزشتہ پندرہ سالوں میں امریکا نے احمقانہ طور پر پاکستان کو ۳۳؍ارب ڈالر کی امداد دی اور انہوں نے اس کے بدلے ہم سے جھوٹ بولا اور ہمیں بیوقوف بنایا‘‘۔
تین دن بعد ٹرمپ حکومت سابقہ امریکی حکومتوں سے ایک اور قدم آگے چلی گئی، بقول ایک اعلیٰ حکومتی افسر کے جب تک پاکستان افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک اور ایسے تمام گروہوں، جو افغانستان میں امریکی مفادات اور امریکی فوجی اہلکاروں کے لیے خطرہ بن رہے ہیں، کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کرے گا اس وقت تک کے لیے محکمہ خارجہ نے پاکستان کے لیے تمام فوجی سازوسامان کی فراہمی اور مالی امداد کو معطل کرنے کا اعلان کردیا۔
اس ساری امداد کی مالیت تقریباً دو ارب ڈالر ہے، بشمول اس فوجی ساز و سامان کے جو پاکستان نے ۲۰۱۳ء میں آرڈر کیا تھا، لیکن ابھی تک پاکستان کے حوالے نہیں کیا گیا۔
امریکی حکام پاکستان کی دورُخی پالیسی کے بارے میں اندھے نہیں تھے، بلکہ اوباما حکومت کے ایک سابقہ قومی سلامتی کے مشیر جوشوا وہائیٹ کے مطابق یہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی قیمت میں شامل تھی۔
عمومی طور پر امریکا کی دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بہت اچھا تعاون کیا، ان کی حکومت نے سی آئی اے کو اپنے قبائلی علاقوں پر جہاں بہت سارے مزاحمت کار چھپتے تھے مسلح ڈرون اڑانے کی اجازت دی۔ بلکہ سی آئی اے نے ابتدائی طور پر ڈرون پاکستان کی سرزمین پر بھی رکھے، جس میں سی آئی اے اور آئی ایس آئی مشترکہ طور پر مطلوبہ دہشت گردوں کی فہرست پر کام کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ ٹارگٹ کی فہرست پر موجود افراد کو نشانہ بنایا جاتا اور نئے نام جن میں زیادہ تر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی راہنما ہوتے شامل کر دیے جاتے۔
یہ قریبی تعاون اس وقت خراب ہوا، جب ۲۰۱۰ء میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف جوناتھن بینکس کا نام پاکستانی اخبارات میں افشا ہوا اور امریکیوں کو شبہ تھا کہ یہ آئی ایس آئی نے جان بوجھ کر کرایا ہے۔
اس کی جگہ مارک کیلٹون بہت بُرے وقت پر آئے۔ اس کی آمد کے اگلے ہی دن سی آئی اے کے ایک کنٹریکٹر ریمنڈڈیوس کے ہاتھوں لاہور میں دو افراد مارے گئے (اس کا دعویٰ ہے کہ اسے لوٹنے کی کوشش کی گئی تھی)۔ کیلٹون اس وقت بھی وہیں (پاکستان میں) تھا، جب ۲۰۱۱ء میں امریکی بحریہ کے سیل (کمانڈوز) نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پاکستان میں حملہ کر کے القاعدہ کے راہنما اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ میں گھس کر اسے قتل کردیا۔ ایک مرحلے پر اس وقت کے آئی ایس آئی چیف احمد شجاع پاشا نے امریکی سفیر کیمرون منٹر کو (درشت لہجے میں) کہا ’’کیلٹون کو دیکھ کر ایک چلتی پھرتی لاش کا خیال آتا ہے‘‘۔ اس کے چند دنوں کے بعد ہی کیلٹون پراسرار طور پر بیمار ہوگیا اس کے خیال میں اسے زہر دیا گیا تھا۔
آخر کار سی آئی اے نے آئی ایس آئی کو ڈرون حملوں کی پیشگی اطلاع دینے کا سلسلہ بند کردیا، دوسری طرف کئی سابقہ حکام کے مطابق پاکستانی حکام بھی امریکی ڈرون حملوں میں مرنے والے شہریوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے۔ حکام کے مطابق سی آئی اے پوری کوشش کرتی تھی کہ شہریوں کی موت سے بچا جائے۔ مثال کے طور پر مئی ۲۰۱۳ء میں پاکستانی طالبان کا نائب امیر ولی الرحمن گرمیوں کے موسم میں ایک گھر کی چھت پر دیکھا گیا۔ فضا میں گھومتے ڈرون کے لیے وہ آسان شکار تھا، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ہیڈکوارٹر میں بیٹھے ہوئے سی آئی اے کے افسر کو فکر تھی کہ براہ راست فائر پورے گھر کو تباہ کردے گا اور نہ جانے کتنی عورتیں اور بچے مارے جائیں گے۔ کئی گھنٹوں تک اس مقام کا جائزہ لینے کے بعد آخرکار وہ ایک ایسا زاویہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے، جو صرف ولی الرحمن اور اس کے ساتھیوں کو لگے اور باقی بلڈنگ محفوظ رہے۔ ڈرون نے انتہائی نیچے آکر کئی میزائل اس طرح سے فائر کیے جو چھت کو چھوتے ہوئے نکل گئے اور کوئی شہری نہیں مارا گیا۔
۲۰۱۵ء تک سی آئی اے کی پاکستان کی حد تک القاعدہ کے مطلوب ٹارگیٹس کی فہرست خالی ہونے لگی۔ اس سال صرف دس ڈرون حملے ہوئے تھے جبکہ ۲۰۱۰ء میں حملوں کی تعداد ۲۲۱ تھے۔ جوشوا گیلٹزر، (اوباما کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے سابقہ سینئر ڈائریکٹر) نے مجھے بتایا کہ ’’القاعدہ کے لیے بنیادی طور پر (جنگ کا) مرکز ثقل پاکستان سے شام کی طرف منتقل ہورہا تھا‘‘۔
حالانکہ ٹرمپ حکومت نے اپنی نئی پالیسی کو امریکا کی پاکستان کے ساتھ ناکامیوں کے جواب کے طور پیش کیا ہے لیکن درحقیقت موجودہ اور سابقہ قومی سلامتی کے افسران کے مطابق سی آئی اے کی دہشت گردی کے خلاف کامیابی اورپاکستان میں القاعدہ کی کمزور ہوتی حیثیت نے ٹرمپ کو اس بات کا موقع فراہم کیا۔مختصر یہ کہ القاعدہ کی پاکستان میں کارروائیاں اب پہلے کی طرح خطرہ نہیں ہیں (اس لیے پاکستان کو ڈمپ کرنے کا بہترین موقع ہے)۔
سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر مائیکل ہیڈن نے سی آئی اے کے ڈرون پروگرام پر تبصرہ یا تصدیق کرنے سے معذرت کرلی، لیکن اس نے ٹرمپ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا۔ ’’ٹرمپ کو اعتماد ہوگا کہ ہم نے صورتحال کو اتنا تبدیل کردیا ہے کہ اب اگر اس پالیسی کا کوئی نقصان بھی ہوگا تو قابل برداشت ہوگا‘‘۔
لیکن القاعدہ واحد دہشت گرد گروپ نہیں ہے جو پاکستان میں کام کررہا ہے۔ وہاں سے مزاحمت کار بالخصوص حقانی نیٹ ورک افغان فوج، شہریوں اور امریکی فوج پر ہلاکت خیز حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔شمالی ایشیا کے سابق مشیر وائیٹ کا کہنا ہے کہ ’’القاعدہ کی باقیات کی فہرست شاید چھوٹی ہوگئی ہے، لیکن حقانی نیٹ ورک کی فہرست بڑھتی جارہی ہے‘‘۔ امریکی حکام کی درخواست پاکستانی فوجی و انٹیلی جنس افسران سے یہ ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے پیچھے جائیں۔ کبھی کبھی معمولی ایکشن نظر آتا ہے لیکن عموماً ہم ایک دیوار سے سر ٹکرا رہے ہیں۔
ٹرمپ کے قومی سلامتی مشیر میک ماسٹر نے افغان طالبان کے خلاف جنگ میں نئی توانائی لانے کے لیے پاکستان کے خلاف سخت رویے کی حمایت کی۔ گزشتہ سال میک ماسٹر نے لیز کرٹز اور حسین حقانی کی مشترکہ رپورٹ ’’پاکستان کے لیے امریکا کا نیا طریقہ کار‘‘ دیکھی، جس میں ان دونوں نے ٹرمپ حکومت کو مشورہ دیا کہ یہ سوچنا کہ پاکستان امداد روکنے کی دھمکی کے بعد ممکنہ طور پر بعض دہشت گرد گروپوں کے خلاف اپنی پالیسی تبدیل کردے گا، ایک سراب ہے لہٰذا اس کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دے۔ پاکستان امریکا کا اتحادی نہیں ہے۔
میک ماسٹر نے کرٹز کو (جوکہ سی آئی اے اور محکمہ خارجہ میں کام کرچکی ہے اور پاکستان کا تجربہ رکھتی ہے) قومی سلامتی کمیٹی میں بطور سینئر ڈائریکٹر جنوبی و وسطی ایشیا کے متعین کیا ہے۔ اور بعض ذرائع کے مطابق یہ پیپرز جو اس نے حسین حقانی کے ساتھ مل کر لکھے ہیں وہ ٹرمپ کی پاکستان پالیسی کا بلیوپرنٹ بن گئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے امداد کی معطلی کے بعد اگلا سوال یہ ہے کہ اب مزید کیا کیا جاسکتا ہے؟ اپنے مقالے میں کرٹز اور حسین حقانی کا مشورہ ہے کہ… امریکا پاکستان کو دہشت گردی کی اسپانسرحکومتوں میں شامل کرنے کی دھمکی دے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ دونوں ممالک کے درمیان مکمل تعلقات توڑنے کے مترادف ہے اور ممکن ہے موجودہ اور سابقہ پاکستانی حکام پر پابندیاں بھی لگ جائیں۔
پینٹاگون اور محکمہ خارجہ نے نئی سخت روی کی پالیسی کی مزاحمت کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان ممکنہ طور پر زمینی اور ہوائی راستے جو کہ امریکی فوج کو افغانستان سپلائی کے لیے اہم ہیں بند کرسکتا ہے۔ محکمہ خارجہ کے حکام ٹرمپ کے گزشتہ ہفتے کے ٹوئٹ پر ششدر رہ گئے تھے۔
امریکی وزیر دفاع جان میٹس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دوسرے حکام کو دھمکیاں دینے سے منع کیا تھا۔ ایک اعلیٰ افسر نے مجھے بتایا کہ میٹس ابھی تک اس معاملے میں اپنی بات پر قائم ہیں۔ لیکن اس نے اس بات کی تردید کی کہ محکمہ خارجہ اور دفاع نئی پالیسی بنانے کے حامی نہیں ہیں۔ کرٹز اور حقانی کے مقالے (جس کو بلیو پرنٹ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے) کے بارے میں کہا کہ دراصل ایک تفصیلی پروسیس چل رہا جس میں مختلف ایجنسیاں مشاورت میں شامل ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں کا اعلان ٹرمپ حکومت کی ہمہ جہت پالیسی کا اظہار ہے، جس کے مطابق طالبان و افغان حکومت کے درمیان ایک سیاسی حل ڈھونڈا جائے لیکن حکام کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک طالبان و حقانی نیٹ ورک خود کو پاکستان میں محفوظ سمجھیں گے، انہیں مذاکرات کی میز پر آنے کی اتنی زیادہ تمنا نہیں ہوگی۔
ایک سابق انٹیلی جنس افسر کے مطابق، وہ ٹرمپ حکومت کی سخت پالیسی سے ہمدردی رکھتا ہے لیکن یہ توقع رکھنا کہ آئی ایس آئی طالبان و حقانی سے قطع تعلق کرلیں گے اتنی ہی معصوم اور بچکانا لگتی ہے جتنا کہ افغانستان میں امریکی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنا۔ اس نے کہا اگر پاکستان انتہائی فرمانبردار ملک بن بھی جائے تب بھی افغانستان سوئٹزرلینڈ نہیں بننے جارہا۔۔۔۔۔
(ترجمہ: اعظم علی)
“The CIA’s Haddening Relationship with Pakistan”. (“newyorker.com”. Jan.12, 2018)
Leave a Reply