
بعض اوقات مجھے شک ہونے لگتا ہے کہ بنی نوع انسان کی مشرق ِوسطیٰ کے حالات پر خو د کو، اپنے ہی الفاظ سے بے وقوف بنانے کی صلاحیت اُن کی جنگ کرنے کی حماقت سے کہیں بڑھ کرہے۔ حماقت اور بے وقوفی ایک دوسرے کی مسابقت میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جب گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کوانسانیت کے خلاف عالمی جرم کا ارتکاب کیا گیا تو میں بحر اوقیانوس عبور کررہا تھا۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی جہاز نے رخ موڑا اور کئی ٹن فیول جلا کر واپس حفاظت سے یورپ کی محفوظ فضاؤں میں ہوتا ہوا لینڈ کرگیا۔ اُس وقت یورپ محفوظ تھا، اب نہیں۔ اس سے پہلے کہ ہمارا جہاز زمین پر اُترتا، تیسرے درجے کے سیاست دان، جو ہزاروں، لاکھوں عربوں اور کچھ یورپی باشندوں کو مشرق ِوسطیٰ میں موت کے گھاٹ اتارنے والے تھے، ہم پر اپنا داؤ آزمانے میں کامیاب ہوگئے۔
سب سے پہلا کیا گیا شاطرانہ تبصرہ یہ تھا کہ ’’نائن الیون حملوں نے دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تبدیل کردیا ہے‘‘۔ اخبارات کے اداریو ں میں سیاست دانوں کے اسی بیان کی جھلک دکھائی دی، عوام بھی اس رو میں بہہ نکلے۔ اگر ہم واقعی مغرب کی ’’جمہوری اقدار اور آزادی‘‘ پر یقین رکھتے تھے، اور ہم نے یکا یک یہ اقدار دریافت کرڈالی تھیں، تو ہم نے اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ نائن الیون کے قاتل ہمارے معاشروں کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے، اور نہ کبھی ہوں گے۔ صرف یہی نہیں، ایک اور بیانیہ بھی تھا جو مجھے اُس وقت سمجھ میں نہ آیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ امریکا ’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘‘شروع کرنے جارہا ہے۔ میرے فہم سے بالا تر لفظ ’’دہشت گردی‘‘ نہیں تھا، کیونکہ نیویارک، واشنگٹن اور پنسلووینیا پر حملوں کے بعد اس کا مخصوص اور من پسند استعمال قابل ِمعافی تھا، حالانکہ صدر بش، ولادیمر پیوٹن اورمشرق ِوسطیٰ کے آمروں کے منہ سے یہ لفظ سن کر گھن آتی تھی کیونکہ وہ اسے اپنی اپنی پالیسیاں آگے بڑھانے کے لیے استعمال کررہے تھے۔ نہیں، میں لفظ ’’دہشت گردی‘‘ پر کنفیوژن کا شکار نہیں تھا۔ یہ لفظ ’’عالمی جنگ‘‘ تھا، جس کا میں نے اُس وقت نوٹس نہ لیا۔
نائن الیون جیسی ایک اور مثال، پرل ہاربر بھی ہمارے سامنے تھی۔ نائن الیون حملوں میں ہونے والا جانی نقصان ۱۹۴۱ء میں پر ل ہاربر پر حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کے کم و بیش برابر تھا، لیکن وہ نقصان ہٹلر کے ہاتھوں ہونے والے جانی نقصان کا عشر عشیر بھی نہ تھا۔ اس کا حقیقی موازنہ ۱۸۔۱۹۱۴ء میں لڑی جانے والی پہلی جنگ ِعظیم سے کیا جانا چاہیے۔ اس جنگ نے یورپ کو خون میں نہلا کر اس کے نظام کو تہہ وبالا کردیا۔ اس کا آغاز ایسے واقعات سے ہوا کہ کوئی بھی توقع نہیں کر رہا تھا کہ جنگ کا دائرہ اس قدر وسیع ہوجائے گا، اور یہ وہی جنگ تھی جس کے نتیجے میں بعد میں چل کر، ہمارے دور میں نائن الیون کا واقعہ پیش آیا اور مغرب کو مشرق ِوسطیٰ پر بے تحاشہ بمباری کرنے کا جواز مل گیا۔
معاف کیجیے، میں غلط موازنہ کررہا ہوں۔آج واقعے کے پندرہ سال بعد میں یہ دیکھنے کی پوزیشن میں ہوں کہ نائن الیون کے بعد ہمارا رد ِعمل اگست ۱۹۱۴ء سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ اسے ستمبر ۱۹۳۹ء یا دسمبر ۱۹۴۱ء سے زیادہ مطابقت نہیں دی جاسکتی، جب امریکا دوسری جنگ ِعظیم کے آخری لمحات میں اس میں کود پڑا تھا۔ ۱۹۱۴ء میں یورپ ایک محفوظ دنیا میں رہتا تھا، اور اس کی محفوظ دنیا کا دارومدار طاقت کے توازن پر تھا۔ اس کے عوام صنعتی دور سے خوشحال ہورہے تھے، چنانچہ جدیدیت اپنا راستہ بنا رہی تھی۔ ٹرانسپورٹ، صحت، کلچر، سائنس، حتیٰ کہ سیاسی سمجھ بوجھ کو فروغ حاصل ہورہا تھا۔ تاہم اُس دنیا میں بھی انقلاب، یا تباہی کے بیج بوئے جاچکے تھے۔ کسی نے بھی سکیورٹی معاہدوں میں پنہاں دھماکہ خیز تباہی کے عوامل کو برہم نہیں کیا، لیکن جب ’’جدید توازن‘‘بگڑ گیا تو ایک معمولی سے واقعے، سراجیو میں ہونے والی ایک ہلاکت، نے پوری دنیا کو تسخیر کردیا۔ تمام نظام چین ری ایکشن سے منہدم ہونے لگا۔ ہم یورپی سکیورٹی معاہدوں پر اتنا یقین رکھتے تھے کہ ہمارے پاس اس تباہی سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے سسٹم کا کسی نے فیوز اُڑا دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جدیدیت ایک طرف، ہم ابھی تک استعماری جنگوں کے دور میں رہ رہے تھے۔
دوسری پیش رفت، جس کا ہم نے نوٹس نہیں لیا، یا جسے بوجوہ سمجھنے سے انکار کردیا، جو جدیدیت کی پیداوار ہے اور جس پر ہمیں بھروسہ تھا کہ اس میدان میں ہمیں ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا پڑے گا، وہ ’’جنگ‘‘ تھی۔ پہلی جنگ ِعظیم میں مشین گن، مارٹر گن، توپ خانے اور دیگر جدید اسلحے نے جنگ اور دنیا کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کردیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ ہم ابھی بھی یہ بحث کریں کہ کیا برطانیہ کو فرانس کا ساتھ دینے کی ضرورت تھی۔ اگر کوئی ریفرنڈم ہوتا تو ہوسکتا ہے کہ ایک سوسال پہلے ہم ’’Entente Cordiale‘‘ (برطانیہ اور فرانس کے درمیان ہونے والے معاہدے) سے بھی ’’بریگزٹ‘‘ کر جاتے۔ لیکن جرمنی کے بلجیم اور فرانس پر حملے کے بعد ہماری طرف سے انتہائی شدید رد ِعمل قابل ِ بحث نہیں ہے۔ وسیع تر تاریخی آئینہ ایک سوسال کے فرق سے دو نسلوں کو جنگ شروع کرتے دکھاتا ہے۔ اتحاد، حب الوطنی اور قومی برتری کے دعووں کے ساتھ عظیم فتح کی نوید سنائی جاتی ہے، چاہے مستقبل میں وسیع پیمانے پر ہلاکتیں کیوں نہ برداشت کرنی پڑیں۔ خود کو درست قراردینے کی پالیسی کا رخ قبرستان کی طرف ہوتا ہے۔ چنانچہ پہلی جنگ ِعظیم کو چھوڑ کر نائن الیون کے فوری مضمرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگرچہ یورپ پہلی جنگ ِعظیم کا باعث بننے والے عوامل سے آشنا تھا، لیکن نائن الیون کے مخصوص حقائق آج پندرہ سال بعد بھی، جبکہ میڈیا اتنی ترقی کرچکا ہے، مکمل طور پر منظر ِعام پر نہیں آسکے۔ ہم کچھ سوالات ضرور اٹھا سکتے ہیں۔۔۔’’انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے‘‘ وہ انیس افراد تودہشت گرد ٹھہرے لیکن ان کے بارے میں سوال اٹھانے والوں، جن میں، میں بھی شامل ہوں، کو دہشت گردوں کا ہمدرد کیوں کہا جاتا ہے ؟ہمیں یہ سوال اٹھانے کی بھی اجازت نہیں کہ تمام حملہ آور عرب نسل سے کیوں تعلق رکھتے تھے اور اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ مشرق ِوسطیٰ میں کوئی مسئلہ تھا؟ایک ضمنی سوال یہ بھی نکل آتا ہے کہ اس خطے (مشرق ِوسطیٰ) میں تو ہماری افواج بہت دیرسے موجود تھیں اور وہاں حکومت بھی ہمارے حلیف آمروں کی تھی، تو پھر وہاں معاملات اس نہج تک کیسے پہنچے؟
اسی طرح نائن الیون کے بعد سامنے آنے والی سرکاری رپورٹ میں ۲۹ صفحات اغواکاروں کے عرب ملک سے تعلق ثابت کرتے ہیں۔ یہ صفحات ’’سکیورٹی‘‘ کی وجوہ پر کیوں شائع نہ کیے گئے (یہ امسال منظر ِعام پر آئے)، حالانکہ یہ بات بہت سے باخبر حلقے جانتے تھے کہ عرب ملک انتہا پسندوں کو فنڈنگ کررہا ہے۔ یقیناً ’’سکیورٹی‘‘ وجوہ بہت سنگین ہوں گی، کیونکہ اگر شروع سے ہی عرب ملک پر الزام لگایا جاتا تو امریکا اور ہمارے ایک وزیرِاعظم، جن کا نام بھی لینا میرے لیے مشکل ہے کہ زبان گوارا نہیں کرتی، کس طرح صدام حسین کے عراق پر نائن الیون کا الزام لگاکر اسے تباہ و برباد کرسکتے تھے؟ اُس وقت عراق جنگ کی تجویز پر سنجیدہ سوال اٹھ جاتا۔
اس بات پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ مسلمانوں کا نائن الیون کی پندرہویں برسی پر ردِعمل لاتعلقی کا رنگ لیے ہوئے تھا۔ ایران اور لبنان وہ پہلے ممالک تھے، جنہوں نے نائن الیون حملوں کی عالم ِاسلام سے تعزیت کی۔ تاہم میں چند دن پہلے ایک پاکستانی ڈاکٹر کے الفاظ سن کر سکتے میں آگیا۔ وہ کہنے لگی۔۔۔’’نائن الیون کے بعد امریکا نے عالم ِاسلام کا جتنا نقصان کردیا ہے، یہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔‘‘ اُس کا کہنا تھا کہ امریکی حملوں میں ہلاک ہونے والے لاکھوں مسلمان دہشت گردوں کے حامی نہ تھے۔ جس طرح پہلی جنگ ِعظیم نے دوسری جنگ ِعظیم کی راہ ہموار کی،اسی طرح موجودہ دور میں القاعدہ کے خلاف لڑی جانے والی جنگ اب داعش کے خلاف لڑی جارہی ہے۔ یاد رہے، ابھی القاعدہ کو شکست دینا باقی ہے۔ ہم نے تاریخ کودہرانے کی کیا اجازت دی۔ پہلے ہم نے افغانستان پر چڑھائی کردی، اس کا نتیجہ دیکھے بغیر ہماری توجہ،جس میں ہمارے سابق وزیرِاعظم کی عقابی نظریں بھی شامل تھیں، عراق کی طرف ہوگئی۔
نائن الیون کے بعد جارج ڈبلیو بش نے وائٹ ہاؤس جانے کا کہا۔ اُنھوں نے اپنی بیوی اور دوبیٹیوں کا پوچھا۔ اُنہیں یقین دلایا گیا کہ وہ محفوظ ہیں۔ پھر امریکی صدر نے دریافت کیا ’’اور ہمارا برنی‘‘؟ برنی اُن کا فیملی ڈاگ تھا۔ اُنہیں بتایا گیا کہ اُن کا تمام خاندان محفوظ ہے۔
“The called war on terror a new world war- then forgot all about it”.
(“The Independent”. Sept. 15, 2016)
Leave a Reply