یہاں ایک معمہ ہے! گذشتہ دو سال کے عرصے میں کس ترقی پذیر ملک نے سب سے زیادہ ڈرامائی انداز میں معاشی‘ سیاسی و سماجی اصلاحات کا دنیا میں بیڑا اٹھایا۔ اس کے لیے کچھ اشارے یہ ہیں کہ اس ملک نے اپنی معیشت کو آزاد کیا‘ اپنے ٹیکس قوانین کو آسان بنایا اور اپنے مالیاتی امور کو درست کیا جس کے نتیجے میں اس سال ۲ء۸ فیصد کی افزائش ہوئی اور دس فیصد کی افزائش پیداوار میں ہوئی۔ اس نے عظیم اصلاحات پر مبنی ۹ بڑے مراعات کا اعلان کیا جس کی وجہ سے حکومت میں فوج کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے اور سیاسی اختلاف اور مذہبی تکثیریت (Religious Pluralism) کو تحفظ دیا۔ ٹارچر کے خلاف سخت قوانین منظور کیے‘ سزاے موت کو ختم کیا اور عرصۂ دراز سے مظلومیت کی شکار اقلیت کو کئی اہم حقوق عطا کیے۔ جواب ترکی ہے۔ اگر یہ مشرقِ وسطیٰ سے قریب کا کوئی مسلم ملک نہیں ہوتا تو اس کی کارکردگی کو حیرت انگیز خیال کیا جاتا لیکن ان سب کے باوجود گذشتہ ہفتے کے واقعات کے پیشِ نظر یورپی یونین کا ایک مکمل رکن بننے کی اس کی دیرینہ خواہش کو ٹھیس لگ سکتی ہے۔
ترکی حکومت کا ایک ایسا قانون سامنے لانے پر اصرار جو زنا کو ایک مجرمانہ اقدام قرار دیتا ہے‘ اس کی بات کو خراب کر سکتا ہے۔ وزیراعظم طیب ایردوان نے بہت غصے میں یہ بات کہی ہے کہ حرام کاری کا معاملہ ایسا نہیں ہے جو یورپی یونین کے طے کردہ معیارات کا جزو ہو۔ تکنیکی اعتبار سے وہ درست ہیں لیکن سیاسی اعتبار سے یہ بیان احمقانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ میں بہت سارے ممالک ایسے ہیں جو ترکی کو یورپی یونین سے باہر رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ایک بڑا‘ غریب اور سب سے اہم بات یہ کہ ایک مسلم ملک ہے۔ زنا سے متعلق قوانین ان ممالک کا اہم عوامی مسئلہ بن جائیں گے جو ان کے خوف کی علامت ٹھہرے گا۔ لیکن اگر زنا سے متعلق قوانین منظور بھی ہو جاتے ہیں تو کیا ہوا؟ یورپ کی پریشانی ایک امرِ فضول ہے۔ بہتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ یورپ میں اسلامی خطرے کا مظہر ہے۔ زنا کی ممانعت ’’دس احکامات‘‘ (Ten Commandments) میں شامل رہی ہے جو یہودیوں کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے تھے اور یہ حال تک تقریباً ہر یورپی ملک میں ایک قابلِ تعزیر جرم رہا ہے۔ آئرلینڈ نے اس قسم کا قانون ۱۹۸۱ء میں‘ فرانس نے ۱۹۷۵ء میں اور اٹلی نے ۱۹۶۹ء میں ختم کیا ہے۔ امریکا کی ۲۳ ریاستوں میں کاغذ پر یہ قوانین اب بھی موجود ہیں۔ مجھے غلط نہ سمجھیے گا‘ میں ترکی کے اس قانون کا مخالف ہوں لیکن ترکی جیسے ترقی پذیر ملک کی صورتحال کا ۲۰۰۴ء کے مابعد جدید یورپ کے معیارات سے اندازہ لگاتے وقت اس نکتے کو ہم حذف کر جاتے ہیں۔ اگر ترکی مکمل طور پر ایک جدید معاشرہ ہوتا تو اسے یورپی یونین کی رکنیت کی ضرورت نہ ہوتی اور اگر ترکی ایک یورپی ملک ہوتا تو یہاں زنا سے متعلق قوانین فوراً کالعدم قرار پاتے‘ جس دم یورپی عدالتوں نے اُن کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ زنا سے متعلق قوانین جو قدرے کم اہمیت کے حامل ہیں‘ پر شور شرابے میں جو چیز گذشتہ ہفتے دب گئی وہ ترکی پارلیمنٹ کے ذریعہ ۲۱۸ قوانین کا منظور کیا جانا ہے جو ترکی کے تعزیری قوانین میں یورپی معیارات کے مطابق اصلاح کے موجب ہوئے ہیں۔ ترکی کی طرف سے اصلاحات کا ریکارڈ یونین کی رکنیت کے بیشتر سابق امیدوار ممالک کے مساوی ہے۔ یورپیوں کا ایک ممتاز گروہ جس میں فن لینڈ کے سابق وزیراعظم مارتی احتیساری (Martti Ahtissari) بھی شامل ہیں‘ نے دو ہفتہ پہلے اپنے جاری کردہ ایک رپورٹ میں واضح بیان دیا ہے کہ بلغاریہ و رومانیہ جیسے ممالک کے مقابلے میں ترکی کی کارکردگی یورپی یونین کی رکنیت کے لیے نسبتاً بہتر ہے۔ شاید سب سے اہم ترین نکتہ جو فراموش کیا جارہا ہے وہ یہ کہ تمام ترقی پسند اور جدید اقدام اس سیاسی پارٹی کے ذریعہ کیے جارہے ہیں جو عوام کی نمائندہ ہے۔ عرب دنیا کے اُن بہت سارے آزاد خیالوں (Liberals) کے برعکس جو ایک غیرمنتخب اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں‘ اے کے پارٹی نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ اسلام سے وفاداری لبرلزم‘ پلورلزم اور ڈیمو کریسی سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جدید اسلام کی آج دنیا میں ایک انتہائی مضبوط علامت ہے۔ ایک ایسی علامت جو مشرقِ وسطیٰ‘ یورپ کی اپنی مسلمان آبادی اور پوری اسلامی دنیا کے لیے پیغام رکھتی ہے۔ برسوں سے لوگ ترکی کو مسلم سیاست کے ایک نمونہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ گراہم فلر (Graham Fuller) نے ’’دی واشنگٹن کوارٹرلی‘‘ میں شائع شدہ اپنے ایک فکر انگیز مضمون میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ یہ ایک مغربی واہمہ تھا‘ ورنہ اتاترک کی انتہائی سیکولر ریاست جس کی دوستی اسرائیل اور امریکا سے رہی ہے‘ کبھی بھی مسلمانوں کے دل کی دھڑکن بننے کے قابل نہیں۔ اے کے پارٹی نے یہ صورتحال تبدیل کی ہے۔ ترکی کی شدتِ لادینیت میں کمی لاتے ہوئے‘ شفاف حکومت پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے اور مشرقِ وسطیٰ کا قرب اختیار کرتے ہوئے اب مسلمانوں کے لیے وہ نمونہ ہے جس کی جانب وہ رجوع کر سکتے ہیں لیکن اس طرح کا امیج بنانے کے لیے اسے ضرور کچھ ایسے کام کرنے ہوں گے جو مسلم عوام کی تشویشوں کو دور کرتے ہوں نہ کہ طبقۂ اشراف کے۔ ان تشویشوں میں وہ قوانین بھی شامل ہیں جن کے نفاذ کو مسلمان تجدد خیال کرتے ہیں اور اسی بنا پر انہیں اپنے بے راہرو اور مادر پدر آزاد ہو جانے کا خوف ہے۔یہ تشویش صرف اسلامی برادری سے مخصوص نہیں ہے‘ مغربی دنیا میں ہر قدامت پسند تحریک یا پارٹی کو گذشتہ ۲۰۰ سالوں سے یہ تشویش بڑی شدت سے لاحق ہے۔ بالآخر یورپی یونین کا فیصلہ ترکی کی کارکردگی کے بارے میں نہیں ہو گا جو کسی کی بھی توقع سے بہتر رہی ہے۔ یورپ یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا وہ مستقبل کے حوالے سے پُراعتماد ہے یا خوف زدہ۔ پہلی صورت میں ترکی یورپ کے لیبر مسئلے کو حل کرنے میں مدد دے سکتا ہے پھر یہ کہ مسلم آبادی کو اپنے اندر ضم کرنے کے حوالے سے جو یورپ کے مسائل ہیں‘ اس میں ترکی مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور یوں ایک مضبوط اشارہ پوری دنیا کو دے سکتا ہے۔
بعد والی صورتحال کی بہترین عکاسی جرمن قدامت پرست رہنما Angela Merkl جو ترکی کی یونین میں شمولیت کے سخت مخالف ہیں‘ کے موقف سے ہوتی ہے اور جو اِن مثبت اثرات کا اعتراف کرتے ہیں لیکن حال ہی میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ ’’ہم اندر کی جانب دیکھتے ہیں‘‘۔ افسوس کہ آج بہت سارے ایسے یورپی رہنما ہیں جو صرف اندر کی جانب دیکھتے ہیں۔
(اداریہ ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲۷ ستمبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply