
یہ حقیقت ہے کہ لال مسجد سے تعلق رکھنے والے علماء کئی پہلوئوں سے قانون شکنی کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے سی ڈی اے کی زمین پر قبضہ کیا، اپنے طلبہ کو ایک لائبریری کو قبضے میں لینے پر اکسایا اور کچھ پاکستانی خواتین، پولیس اہلکار اور چینی خواتین کو اغوا کیا۔علاوہ ازیں جب رینجرز کو لال مسجد کے گردوپیش تعینات کیا گیا توطلبہ نے انہیں دھمکیاں دیں، ان پر حملہ کیا اور ایک عمارت کو آگ لگا دی۔ طلبہ اسلحہ بردار ہوتے تھے بعض طلبہ گیس ماسک بھی پہنے ہوتے تھے، طلبہ نے سیکورٹی اہلکاروں پر فائرنگ بھی کی۔ کیا یہ ریاست کے خلاف مسلح بغاوت نہیں ہے ؟ اگر یہ بغاوت ہے تو کون سی ریاست اس کی اجازت دے گی ؟ اسلام کی سیاسی فلسفے سے جو کچھ سمجھا ہے اس کی روشنی میں، میں کہ سکتا ہوں کہ اسلام بھی ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کی اجازت نہیں دیتا،قطع نظر اس سے کہ وہ ریاست اسلامی ہو یا نہ ہو ایسے کتنے ہی اسلامی احکامات ہیں جو فتنہ سے گریز کرنے پر تاکید کرتے ہیں۔سیاسی مفکرین کا موقف بالکل واضح ہے کہ خراب حکومت طوائف الملوکی سے بہتر ہے۔
۱۹۷۹ میں سعودی عرب میں جب شدت پسندوں نے کعبہ پر قبضہ کر لیا توان پر حملہ کر کے ان کا صفایا کر دیا گیا مختصر یہ کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عمل داری کو مسلح جدوجہد کے ذریعے چیلنج کیے جانے سے اس طریقے سے محفوظ رکھے۔ اگر سر پھروں کا ہر گروہ حق و باطل کے خود ساختہ مفہوم کے ساتھ لوگوں کو اغوا کرنے لگے اور مسلح کارروائیوں کے دھمکیاں دینے لگے تو ریاست انتشار کی صورت میں اپنی حیثیت کھو بیٹھے گی۔ جمہوری ریاستوں میں حکمرانوں کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے جو ذرائع ہیں وہ انتخابات، ہڑتالوں اور مظاہروںپر مشتمل ہیں۔ لیکن شہریوں کو طوائف الملوکی کی حالت میں جھونک دینا کسی صورت جائز نہیں۔ اسے ہر حال میں ختم ہونا چاہیے بہتر ہے کہ اس صورت حال کا خاتمہ مذاکرات سے ہو لیکن اگر یہ کارگر نہ ہو تو طاقت یا طاقت کے استعمال کی دھمکی سے اسے ممکن بنانا چاہے۔ لہذا جو لوگ انتہا پسند ملائوں کے خلاف کارروائی پر جنرل پرویز مشرف کو مورد الزام ٹہراتے ہیں وہ گویا اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ وہ کس قدر خطرناک موقف کی تائید اور وکالت کررہے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر اقدام جو حکومت نے اٹھایا وہ درست تھا۔ حکومت نے اس بحران کو تقریباً چھ مہینے تک کھولنے اور پکنے کی اجازت دی۔ جامعہ حفصہ کی ڈنڈا بردار لڑکیوں کو غیر معمولی طریقے سے ان کو ان کی کامیاب اسلامی جنگجوہونے کے خبط میں مبتلا کیا گیا۔ طالبات اور ان کے ساتھ طلبہ بھی اس طرح کے کاموں کے لیے بڑھ چڑھ کر جرات کا مظاہرہ کرتے رہے لیکن انہیں نہیں روکا گیا۔ ان کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو ہیرو سمجھنے لگے۔ مدرسہ کو ٹی وی پر دکھایا جاتا رہا ملائوں کو شیر دل شخصیات کے طور پر پیش کیا جا تا رہا، لڑکیوں سے ٹی وی پر انٹرویو لیے جاتے رہے۔ اس سارے عمل سے ان کے ذہن میں یہ سودا سما گیا کہ وہ کوئی انقلاب برپا کرنے جا رہے ہیں۔ ان ساری باتوں سے گریز کیا جا سکتا تھا اگر خواتین پولیس کو استعمال کرتے ہوئے بحران کے ابتداء ہی میں انہیں مناسب سزا دی جاتی۔
ایک آدمی کو یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ کس طرح خفیہ ایجنسیوں نے مسجد میں اسلحے کی اتنی بڑی تعداد کو جمع ہونے دیا۔ اگر وہ لوگ بہت طاقت ور جنگجو تھے جیسا کہ شواہد ہیں کہ وہ ایسے ہی تھے تو انہیں مسجد میں گھسنے کیوں دیا گیا؟ یا تو ایجنسیوں نے اس کام کے لیے خود ملائوں کی حوصلہ افزائی کی تاکہ لوگوں کی توجہ کو عدالتی بحران سے ہٹایا جا سکے یا پھر ایجنسیاں حقیقتاً اتنی بے خبر تھیں کہ ان کو معلوم نہ تھا کہ ان کی ناک کے نیچے ہو کیا رہا ہے۔ علاوہ ازیں اگر مولانا عبدالرشید غازی نے کسی وقت محفوظ راستہ مانگا تھا تو انہیں دے دیا جاتا یہ سچ ہے کہ اسے کمزوری پر محمول کیا جا تا اور فوجی اہلکار اور طلبہ کی قربانیاں ضائع ہوتی نظر آتی لیکن اتنا رسک تو لیا ہی جا سکتا تھا۔جو خطرہ نہیں لیا جا سکتا تھا وہ عام لوگوں اور متوسط طبقے کے ردعمل کا خطرہ تھا ۔ یعنی یہ کہ حکومت پر ان کی طرف سے سفاکیت کا الزام عائد کیا جائے یا یہ کہ یہ سب کچھ حکومت نے امریکہ کی خوشنودی کے لیے کیا۔لہذا انسانی اور سیاسی ہر دو وجوہ کی بنا پر مولانا عبدالرشید غازی کو شہید بننے نہیں دینا چاہیے تھا ۔پھر دوسری بڑی غلطی یہ تھی کہ میڈیا کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا یعنی میڈیا کے لوگوں کو اندر جانے سے روک دیا گیا، انہوں لوگوں سے ملنے سے روک دیا گیا حتیٰ کہ انہیں آپریشن کے ختم ہونے کے بعد بھی لال مسجد کا پورے طور سے مشاہدہ نہیں کرنے دیا گیا۔ اس کے برعکس ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میڈیا کو ہر چیز کی تصویر اتارنے کی اجازت دینی چاہیے تھی،خواہ مناظر کتنے ہی بھیانک کیوں نہ تھے اب جب کہ انہیں اس اقدام سے باز رکھا گیا تو میڈیا کے لوگوں نے بھی حکومت کے تئیں منفی رویہ اختیار کیاجو کہ شدت پسندوں کے حق میں جاتا ہے۔ انتہا پسندوں کو مضبوط ہونے میں مدد دینا نہ تو حکومت کے مفاد میں ہے نہ ہی میڈیا کے اور نہ ہی در حقیقت عام شہریوں کے مفاد میں ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ یہ خود انتہا پسندوں کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انتہا پسندوں کا کوئی گروہ اگر جنگ جیت بھی گیا تو اسے دوسرے گروہوں نے چیلنج کر دیا اور یوں ملک خانہ جنگی سے دوچار ہو گیا۔ میڈیا کا خود اپنا کردار بہرحال ستائش و تنقید دونوں کا مستحق ہے۔ ابتدا میں میڈیا ضدی اور ہٹ دھرم ملّائوں کا مخالف تھا۔ اس بحران کی کوریج میں نامہ نگاروں کی زندگی خطرے میں تھی۔ حتیٰ کہ ایک کیمرہ مین مارا بھی گیا۔ بہرحال جب مولانا عبدالعزیز گرفتار ہو گئے تو میڈیا کا کردار غیرذمہ دارانہ ہو گیا۔ برقع اور مضحکہ خیز حالت میں دکھا کر ان کا مذاق اڑایا گیا۔ اس کے بعد ان کو اسی برقعے میں پی ٹی وی پر انٹرویو کے لیے آنے پر مجبور کیا گیا۔ واقعتا یہ روش بہت مجرمانہ تھی۔ کسی بھی وجہ سے اس طرح کسی کی توہین اور دل آزاری کا حق کسی کو کبھی بھی نہیں پہنچتا ہے اور وہ بھی دانستہ طور سے۔ مولانا سے اختلاف ایک چیز ہے لیکن ان کے احساسات کا احترام نہ کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ صرف یہ ایک اہم واقعہ، ممکن ہے لال مسجد کے مسئلے کے پُرامن حل میں مانع بن گیا ہو۔ مولانا عبدالعزیز کا اقدام ایک معنی میں قابلِ تعریف ہے کیونکہ ضد پر اَڑ کر بے شمار معصوم لوگوں کی جان لینے سے فرار ہو جانا بہتر تھا۔ بعد میں یا تو میڈیا کے ساتھ بدسلوکی روا رکھے جانے کی وجہ سے یا میڈیا کے لوگوں کا مذہبی جذبات کے زیرِ اثر آجانے کی وجہ سے ٹی وی کے بہت سارے تبصرہ نگاروں نے عبدالرشید غازی کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ ان کے آخری الفاظ کو تکرار کے ساتھ میڈیا پر نشر کیا گیا اور حکومت کو کہیں زیادہ موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ ان میں سے بیشتر حکومت کو پہلے کارروائی نہ کرنے پر قصوروار ٹھہرا رہے تھے جبکہ اب کارروائی پر انھیں لعنت ملامت کر رہے تھے۔ یہ صورتِ حال کسی کے لیے بھی مفید اور مددگار نہیں تھی۔
میڈیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جہاں اس کی ذمہ داری اسٹوری کے تمام پہلوئوں کو پیش کرنا ہے، وہیں اس کو واقعات کی تعبیر بھی کرنی ہے۔ اگر یہ تعبیر اس بنیادی اصول کے خلاف جاتی ہے کہ ریاست کو مسلح قوت سے چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے تو یہ عوام کے لیے گمراہ کُن ہو گی۔ یہ انتہا پسند اسلامی قوتوں اور معاشرے کے ماڈریٹ عناصر کے خلاف جنگ کی ابتدا ہے۔
میڈیا کس طرف ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ خفیہ ایجنسیاں کس کی طرفدار ہیں؟ اور مسلح افواج میں موجود اس کے عناصر کس طرف ہیں؟ سیاسی گروہ کس طرف ہیں؟ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک لمبے عرصے سے اسلام پسند طبقہ سیکولر جنگ لڑنے میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ یعنی افغانستان میں امریکا کی جنگ سوویت یونین کے خلاف اور پاکستان کی جنگ کشمیر میں بھارت کے خلاف۔ حکام کے ذریعہ اسلام کا نام میڈیا میں، کتابوں میں اور تقریروں میں مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ۲۰۰۲ء میں کہا کہ انھوں نے ان سب کو اُلٹے سمت میں پھیر دیا ہے لیکن کیا حقیقتاً ان سب کو اُلٹے سمت میں پھیر دیا گیا ہے؟ یا ایسے عناصر جابجا موجود ہیں جو اُن پرانی پالیسیوں کو کبھی بعد میں پھر سے اختیار کریں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر پاکستان کی تقدیر کا انحصار ہے۔ ہمیں لازماً یہ سمجھنا چاہیے کہ مدارس ہی اسلامی ’’تشدد‘‘ کا واحد سرچشمہ نہیں ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے سیکولر اداروں میں تعلیم حاصل کی ہے مثلاً ڈاکٹرز، انجینئرز اور کالج لیکچرارز بھی پوری دنیا میں انتہا پسندوں کے حلقوں میں سرگرم رہے ہیں۔ دنیا غیرعادل اور غیرمنصف ہے اور جب تک امریکا اپنی پالیسیاں تبدیل کرتا ہے جو کہ اسرائیل کے حق میں اور فلسطینیوں کے خلاف ہیں، اور جب تک مغربی طاقتیں مسلمانوں کے احساسات اور خیالات کے تئیں حساسیت کے مظاہرہ نہیں کرتی ہیں، لوگوں میں غصہ موجود رہے گا۔ یہ صورتِ حال عالمی امن کے لیے بہت ہی خطرناک ہے لیکن ہم بیرونی قوتوں پر اثرانداز نہیں ہو سکتے ہیں۔ جو کچھ ہم کر سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم اپنی داخلی پالیسیاں تبدیل کریں۔ یہاں بھی بہت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ چونکہ پاکستان روز بروز غیرمنصفانہ معاشرے کی جانب گامزن ہے اور غریب و امیر کے مابین خلیج روز بروز بڑھ رہی ہے چنانچہ مایوسی کے شکار نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا اور یہ اپنی مایوسیوں کو دور کرنے کے لیے اسلام کے نعروں کا استعمال کریں گے۔ اگر کوئی مسجد کے مناظر پر نظر دوڑائے تو معلوم ہو گا کہ غریب اور دیہات کے رہنے والے لوگ جن کا تعلق عام طور سے معاشرے کے محروم طبقوں سے ہے، علماء کے پُرتشدد پیغامات سے مرعوب و مبہوت ہو گئے ہیں۔ آیا وہ اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے یا اپنے کنارے لگا دیے جانے کے احساس میں مبتلا ہیں یا پھر اس احساس سے دوچار ہیں کہ انھیں سسٹم نے دھوکا دیا ہے، غازی برادران کے لیے جنگ لڑوا کر۔ ہمارا نظام غیرمنصفانہ ہے اور غریب عوام کا ان سب پر ردِعمل اسلام یا قومیت کے نام پر ہوتا ہے یا کسی ایسے نام سے ہوتا ہے جو ان کو اندھی عقیدت کی وجہ سے بھاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں عوام تک انصاف، مادی ساز و سامان، سروسز (مثلاً اسپتال، اسکول، تفریح گاہ وغیرہ) کی فراہمی کی جانب سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔
علاوہ ازیں حکمراں طبقۂ اشراف کو قانون کی پاسداری کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ کوئی قانون شکنی کے مرتکب افراد کو اخلاقاً اُسی وقت چیلنج کر سکتا ہے جبکہ وہ خود قانون کی پاسداری کرتا ہو۔ مجھے نہیں معلوم کہ تاریخ ہمیں اپنی اصلاح کے لیے اتنی مہلت فراہم کرتی ہے یا نہیں۔ لیکن کوشش کرنے میں کیا نقصان ہے؟
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۱۷ جولائی ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply