خلیہ، جاندار اجسام کی بنیادی اکائی ہے۔ یہ مختلف سائز اور شکل کے ہوتے ہیں۔ عموماً خلیہ انتہائی چھوٹا ذرّہ ہے جو سادہ آنکھ سے بلکہ سادہ خوردبین سے بھی دیکھا نہیں جا سکتا اس کو الیکٹرانک خوردبین سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن بعض خلیے جسامت میں کافی بڑے ہوتے ہیں۔ مثلاً شتر مرغ کا انڈا، خلیہ ہے جو جسامت میں سب سے بڑا ہوتا ہے۔
انسانی جسم میں پائے جانے والے خلیوں کی تقریباً ۲۰۰ اقسام ہیں جو جسم کی تمام کارکردگی کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ یہ نہ صرف جسامت بلکہ شکل کے اعتبار سے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ فرق اعصابی، عضلاتی اور خون کے خلیوں کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ شکلی و ساختی اعتبار سے مختلف ہونے کے باوجود تمام خلیوں کی بنیاد ایک ہی ہے۔
آیئے عصبی اور خون کے خلیوں کے نمونوں پر غور کرتے ہیں۔ اعصابی خلیوں کا طول ایک میٹر ہوتا ہے جو ریڑھ کی ہڈی سے شروع ہو کر پاؤں تک چلے جاتے ہیں۔ اس طرح جسم میں واقع ہونے والی حرکات کے احکام ایک خط منقسم پر چلتے ہوئے خلیوں کے ذریعہ نہایت قلیل وقت میں نہایت تیزی کے ساتھ دماغ تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس خون کے خلیوں کا طول صرف ۷ مائیکرو میٹر ہوتا ہے۔ اس قدر چھوٹے حجم کے باعث خون کے خلیے جسم کی ہر باریک رگ میں داخل ہو جاتے ہیں اور ان میں بہ آسانی حرکت کرتے ہیں خون کے خلیے ساختی اعتبار سے کھوکھلے سلینڈر نما ہوتے ہیں اس کا اندرونی خلاء آکسیجن گیس کو جذب کرنے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خارج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسی طرح آنکھ، ناک کان میں پائے جانے والے خلیوں میں بھی شکلی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کان میں پائے جانے والے خلیے باریک ریشوں کی شکل میں ہوتے ہیں جو باہر سے آنے والی صوتی موجوں سے متحرک ہو جاتے ہیں اور آواز کے اس دباؤ کو وہ کان کے اندر مائع میں تبدیل کر دیتے ہیں جو ایک عصبی گنتی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
آنکھ کی پُتلی کے خلیوں کی شکل مخروطی ہوتی ہے تاکہ ان کی کارکردگی بہتر ہو سکے یہ مخروطی خلیہ اعصابی رابطہ کی آسانی کے لیے کئی پردوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ان میں روشنی کو محسوس کرنے والے کئی رنگ بھی ہوتے ہیں۔
آنتوں کے اندر خوراک جذب کرنے والے خلیوں کی شکل ان کے کام کی نوعیت کے لحاظ سے معاون ہوتی ہے۔ ان خلیوں کے اوپر باریک بالوں پر مشتمل جالی ہوتی ہے جو میکرو فلک کہلاتی ہے۔ یہ بال اپنی ضرورت کے مطابق غذا کو جذب کر لیتے ہیں اور باقی کو باہر پھینک دیتے ہیں۔ واضح ہو کہ جسم کے اندر پائے جانے والے تمام خلیوں کی پیداوار صرف ایک واحد خلیہ سے عمل میں آتی ہے اور بعد ازاں یہ خلیہ جسم میں اپنے کے کام کی نوعیت کے لحاظ سے شکل اور ساخت اختیار کرلیتے ہیں۔ واضح ہو کہ زندگی کی ابتداء Zygot سے ہوتی ہے جو کہ ایک Diploid خلیہ ہے۔ اس میں بعد ازاں تقسیمی عمل سے لاکھوں کروڑوں خلیوں کی پیداوار ہوتی ہے چند خلیہ جسمانی اعضاء کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔ کچھ خلیہ آنکھ بنانے کے لیے، کچھ کان، کچھ ناک اور اسی طرح ہر عضو کی تیاری کے لیے خلیے استعمال ہوتے ہیں اور وہ اپنے کام کے لحاظ سے حسب ضرورت شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ انسانی جسم کی بناوٹ کے متعلق بہت کچھ معلومات کی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ رحم کے اندر انسان ایک لوتھڑے کی شکل میں ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ بعض خلیوں سے ہاتھ، بعض سے اندرونی اعضاء اور کچھ خلیوں سے آنکھیں وغیرہ بنتی چلی جاتی ہیں۔ اس کارروائی کی تکمیل کے لیے خلیے ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں اور ہر خلیہ کو اپنے مقام اور جگہ کا علم ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی جانتا ہے کہ اسے کب تک دوسرے خلیے بنانے ہیں اور کب اس کام کو روکنا ہے۔لیکن جب ہم اس لوتھڑے کے تشکیل کی بات کریں گے تو اور بھی حیرت ہو گی۔ اگر ہم لوتھڑے کے ہر عضو کے خلیوں کو کیلشیم کی مقدار کم کر کے الگ الگ کر دیں اور پھر ان کو مناسب ماحول میں ایک جگہ رکھ دیں تو آخر کار ایک ایک عضو کے خلیے ایک دوسرے کو پہچاننے کی وجہ سے یکجا ہو جائیں گے۔ (پروفیسر احمد نایان، مطبوعہ نشریات متکستان، انقرہ ۱۹۸۸ء) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم خلیوں کو الگ الگ کر دیں اور اس کے بعد دوبارہ ان کو ایک جگہ رکھ دیں تو ایک عضو بنانے کے لیے استعمال ہونے والے خلیے ایک الگ مجموعہ کی شکل میں خاص عضو بنانے کے لیے یکجا ہو جائیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر خلیے ایک دوسرے کو پہچانتے کس طرح ہیں؟ کیا ان میں عقلی، کوئی اعصابی نظام یا آنکھ ہوتی ہے؟ یہ خلیے اپنے جیسے خلیوں کودوسرے خلیوں سے علیحدہ شناخت کیسے کرتے ہیں؟ ہر خلیہ ایک جزئیہ ہونے کے باوجود دوسرے خلیوں سے نوعی اختلاف کو کس طرح پہچانتا ہے؟ حالانکہ اس میں فہم و ادراک نہیں ہوتا۔ عقل کے گھوڑے دوڑانے والوں سے پوچھیے کہ وہ کون ہے جو ایک عضو بنانے کے لیے ایک جیسے خلیوں کو یکجا کرتا ہے؟ جزئیات میں اس درجہ کی فہم و فراست پیدا کرنے والا کون ہے؟ بلاشبہ عقل و فہم کا منبع اور سرچشمہ وہ اللہ ہی کی ذات ہے جو جہانوں کا پروردگار ہے اور جس نے کائنات کو عدم سے وجود بخشا ہے۔
(بشکریہ: ’’سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply