
چین پاکستان کے مرکزی میڈیا میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے، دونوں ممالک ٹیلی کمیونیکیشن اور میڈیا کی نگرانی کے شعبے میں دو طرفہ تعاون پر مل کر کام کررہے ہیں، دو طرفہ تعاون کی مدد سے سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ کے ذریعے پاکستانی حکومت پرہونے والی تنقید کو مقامی طور پر سنسر کیا جاسکے گا، یہ صورتحال چین کے حق میں کس طرح فائدہ مند ہے اورچین کی وسیع تر میڈیا پالیسی کیسے اس صورتحال میں اپنے قدم جما سکے گی؟
چین کے طرز پرپاکستانی میڈیاپر سنسر شپ کا نفاذ
۲۰۱۲ء سے پاکستانی حکومت یہ کوشش کر رہی ہے کہ آن لائن مواد کے اشتراک (content sharing) کو کس طرح قابو میں کیا جائے، اس پر سنسر شپ نافذ کی جائے۔ پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ ۲۰۱۶ ء کے ذریعے ایک ایسا قانون متعارف کرایا گیا ہے، جو دہشت گر دوں کے جانب سے کیے گئے پروپیگنڈے کو سنسر کرے گا لیکن یہی قانون حزب اختلاف کی جانب سے حکومت پر کی گئی تنقید کو سنسر کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
پاکستان نے جنوری ۲۰۲۰ء میں شہریوں کی حفاظت کے لیے نئے اصول طے کیے ہیں، اس منصوبے میں وزیر انفارمیشن و ٹیکنالوجی اینڈ کمیونیکیشن کو آن لائن مواد کے اصول و قواعد طے کرنے کے لیے مقامی نمائندہ مقرر کرنا تھا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور وفاقی یونین جرنلسٹ نے اس کی مذمت کی ہے اور اسے خلاف آئین قرار دیا ہے۔ ’’رپورٹس ودآؤٹ بارڈر ز‘‘اور قانونی ماہرین نے یہ بات واضح کی ہے کہ لفظ ’’نفرت پر مبنی‘‘ یا ’’ریاست کے خلاف‘‘ کی تعریفیں اتنی وسیع ہیں کہ اسے استعمال کرتے ہوئے کسی بھی طرح کے مواد یا تحریر کو شدت پسندانہ قرار دے کر ہٹایا جاسکتاہے۔
درخواست کی شق نمبر ۶سوشل میڈیا کمپنیز کو نجی ڈیٹافراہم کرنے پر مجبور کرتی ہے، سوشل میڈیا کمپنیاں اس کے علاوہ صارف کی معلومات،ڈیٹا ٹریفک،تحریری مواد کے ساتھ ساتھ دیگر معلومات بھی فراہم کرنے کی پابند ہیں۔
اس نئے ضابطے کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان میں اپنے دفاتر کھولنے کی پابند ہوں گی جہاں ان پر ڈیٹا کو ڈیلیٹ کرنے کے لیے سخت دباؤ ڈالا جاسکے گا، یہ مقامی نمائندہ کی ذمہ داری ہوگی کہ آن لائن پلیٹ فارم کاتمام نجی و غیر نجی ڈیٹا یا مواد تک اس کی پہنچ ہوگی۔یہ صورتحال بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے پریشان کن ہے اور وہ پاکستان میں اپنے آپریشن کو جاری رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہیں۔ ’’ایشین انٹرنیٹ اتحاد‘‘ نے وزیراعظم عمران خان کے سامنے اپنے بیان میں تحفظات کا اظہار کیا ہے، تاہم یہ اقدامات چینی کمپنیوں کے لیے قال قبول ہیں، چین کی آن لائن کمپنیاں پاکستان کو متبادل ملک کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔
گو کہ اس طرح کا تعاون کبھی نہیں ہوا، لیکن پاکستان میں کمیونی کیشن کے شعبے میں چین کے بڑھتے اثرات بتا رہے ہیں کہ بہت جلد یہ معاملات طے پاجائیں گے، جیسے پاک چین سرحد پر نئی فائبر آپٹک کیبل بچھائی گئی ہے، جو سنکیانگ سے براستہ خنجراب راولپنڈی تک جاتی ہے۔ اس میں چین کے regulated نیٹ ورک کے ذریعے انٹرنیٹ ٹریفک کی روٹنگ کی جائے گی، اس سے براہ راست رابطے کے ذریعے پاکستان کو برآمد شدہ چین کے فائروال سسٹم کو سہولت ہوگی۔ چین دیگر ممالک کو سوشل میڈیا نگرانی کے آلات بر آمد کرتا رہا ہے۔ یہاں پرچین کا مقصد اقوام متحدہ کے بین الاقوامی اصولوں کے تحت انٹرنیٹ کی آزادی اور اس کے تحت دوسرے قوانین کے لیے کام کرنے والے گروپ کے سامنے اپنے انٹرنیٹ کنٹرول آلات کی نمائش بھی ہے۔
چین کی میڈیا حکمت عملی کے ساتھ صف بندی
دسمبر ۲۰۱۹ء میں وزیراعظم پاکستان کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے مقامی ذرائع ابلاغ سے اپیل کی کہ وہ ’’چین پاک اقتصادی راہداری‘‘ کی کامیابی کے لیے کام کرے اور اس کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا جواب دے، انہوں نے یہ بیان امریکا کی طرف سے نامزد کردہ جنوبی ایشیا کے اسسٹنٹ سیکیرٹری ایلس ویلز کی طرف سے اقتصادی راہداری کو شدید تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد دیا تھا۔
اس وقت سے پاکستانی اور چینی ذرائع ابلاغ قریبی تعلقات اورتعاون کا اعادہ کرتے رہے ہیں، اس سلسلے میں کافی حد تک کام شروع بھی ہوچکا ہے۔ مقامی پاکستانی میڈیا اور چین کی سنہوا نیوز ایجنسی کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں۔اس معاہدے میں چینی عہدیدار اپنے پاکستانی ہم منصب کو اردو اور انگریزی میں موجود مواد (content) فراہم کرنے کے پابند ہوں گے، مواد کی فراہمی دونوں ملکوں کے میڈیا کو قابو میں رکھنے میں مددگار ثابت ہوگی، مرکزی میڈیا کے لیے اہم اصول بنانے میں آسانی رہے گی اس کے علاوہ بیلٹ اور روڈ منصوبے کے لیے ذرائع ابلاغ فعال کردار ادا کرے گا۔
اس کے ساتھ یہاں پر ایک وسیع حکمت عملی کام کررہی ہے، چین اداروں کے ذریعے نیوز پروڈکشن کی برآمد پر کام کررہا ہے۔ جیسے بیلٹ اینڈ روڈنیوز نیٹ ورک کا منصوبہ،اس کے ذریعے بہت سارے منصوبے ترتیب دیے جاچکے ہیں۔ ریاستی چینلز کی مدد سے بڑی تعداد میں آن لائن موادچھاپا جارہا ہے، حالیہ انٹرویو میں پاکستان کے ریاستی میڈیا نے یہ رپورٹ کیا ہے کہ سی پیک کے خلاف پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے پاکستان میں چین کے تعاون سے ’’ریپڈ رسپانس انیشیٹو سسٹم‘‘ نافذ کیا جائے گا۔فوری طور پر پاکستان کے صحافیوں کے لیے چین میں تربیتی پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔ چین دنیا میں ایک نئی طرز کی صحافت متعارف کرانے جارہا ہے، اس سلسلے میں بین القوامی کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے گا جیسے ’’بیلٹ اینڈ روڈ صحافتی فورم‘‘ یا ’’پاک چین میڈیا فورم‘‘۔
مواد (content) کوکنٹرول کرنے سے قطع نظر چین اس وقت ذرائع ابلاغ کے شعبے میں سرمایہ کاری کے ذریعے ریاستی میڈیا تیار کررہا ہے تاکہ وہ آزادپبلک یا پرائیویٹ میڈیا کوقابو کرنے میں زیادہ وقت ضائع کرنے سے بچ سکے۔ چین کی نظر میں آزاد میڈیا کو کنٹرول کرنے کی محنت سے زیادہ بہتر ہے کہ ریاست کا حمایتی میڈیا متعارف کروایا جائے، جو پاکستان اور چین دونوں حکومتوں کے مفادات کے لیے یکساں طور کام کرے۔
پاک چین ذرائع ابلاغ کا مستقبل
پاکستان اور چین جیسے جیسے ذرائع ابلاغ کی ترقی اور اسے تقویت دینے کے لیے کام کر رہے ہیں، ویسے ویسے چین کا ’’کنٹرولڈ میڈیا ماڈل‘‘ اسلام آباد کے لیے قابل قبول ہوتا جارہا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں پاکستانی میڈیا میں سی پیک پر ہونے والی تنقید کو ختم کیا جاچکا ہے۔حالیہ دنوں میں چین کے تعاون سے جس طرح ٹیکنالوجی کی مدد سے میڈیا کی نگرانی اور میڈیا سنسرشپ پر کام کیا گیا ہے، آنے والے دنوں میں اس کا نتیجہ آزادی اظہار میں رکاوٹ یا سوشل میڈیا پر پابندی کی صورت میں نکلے گا۔
(مترجم: سمیہ اختر)
“The China factor in Pakistan’s media landscape”. (“eurasiareview.com”. June 2,2020)
Leave a Reply