
چند عشروں کے دوران ایشیا کے طول و عرض اور بحرالکاہل کے خطے میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ کئی ممالک مضبوط ہوکر ابھرے ہیں۔ چین، بھارت اور ترکی اس حوالے سے مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ ترکی کا معاملہ وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ تک محدود ہے۔ جنوب مشرقی اور جنوبی ایشیا میں بھارت کے لیے امکانات بھی ہیں اور مشکلات بھی۔ چین ایک بڑے حریف کی شکل میں موجود ہے، جسے منہ دیے بغیر کچھ کر دکھانا، کسی مقام تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے۔
علاقائی اور عالمی حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ عمل پیچیدہ بھی ہے۔ ہر معاملہ پوری توجہ چاہتا ہے۔ کوئی ایک چھوٹی غلطی بھی خاصا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ایسے میں بھارت کو تیزی سے ایسے فیصلے کرنے ہیں، جو اس کے مفادات کو حقیقی تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت بنیں۔ چند عشروں کے دوران ایشیا و بحرالکاہل کے خطے میں ایک طرف جاپان تیزی سے ابھرا ہے اور عالمی سیاست میں اپنی بات منوانے کے لیے کوشاں ہے۔ جاپان معاشی اعتبار سے بہت مضبوط ہے تاہم جغرافیائی طور پر محدود ہونے اور کمزور ثقافتی اثرات کا حامل ہونے کے باعث وہ عالمی سطح پر کوئی بڑا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دوسری طرف ویتنام اور بھارت بھی خود کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر حقیقی خطرہ یہ ہے کہ چین ابھر چکا ہے۔ چین معاشی اعتبار سے اس قدر مضبوط ہوچکا ہے کہ اب جاپان اور امریکا کے لیے حقیقی خطرہ بن گیا ہے۔ عالمی سیاست و معیشت میں امریکا کی بالادستی رفتہ رفتہ محدود ہوتی جارہی ہے۔ سات آٹھ عشروں سے عالمی نظام کی قیادت امریکا کے ہاتھ میں رہی ہے۔ چین عالمی نظام کی قیادت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے یا پھر اِس امر کے لیے کوشاں ہے کہ چند ہم خیال اور طاقتور ممالک کے ذریعے امریکا کو ایک طرف ہٹاکر خطوں کی تقدیر لکھنا شروع کردے۔ امریکا اور یورپ بھانپ چکے ہیں کہ اُن کے لیے گنجائش تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ امریکا اب تک ہارڈ پاور یعنی عسکری قوت کے ذریعے معاملات کو اپنے حق میں کرنے کے درپے رہا ہے۔ دوسری طرف یورپ سوفٹ پاور یعنی جدید ترین علوم و فنون اور معاشی اقدامات کے ذریعے اپنی آبرو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مشترکہ اقدار رکھنے والی مضبوط اقوام اپنی برادری قائم کرلیں۔ نئے تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ معاشی اور سیاسی سطح پر ایسے فیصلے کیے جائیں جن سے موجودہ بڑی طاقتوں کے لیے مسائل پیدا ہوں۔ معاشروں کی اقدار اور سلامتی خطرے میں ہے۔ امریکا اور یورپ پہلے ہی اس خطرے کو بھانپ چکے ہیں۔ دونوں چین سے خائف ہیں۔ بھارت سمیت کئی پڑوسی بھی چین سے خائف دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ چین اپنی غیر معمولی مینوفیکچرنگ پاور سے ان کی مارکیٹس پر قبضہ نہ کرلے۔
چین کسی زمانے میں سپر پاور کا درجہ رکھتا تھا۔ پندرہویں صدی عیسوی تک عالمی معیشت میں چین کا عمل دخل غیر معمولی تھا۔ ایک عظیم قوم اپنے ماضی کو نہیں بھولتی۔ چین کا بھی یہی معاملہ ہے۔ چینی قوم اب اپنی طاقت کا احیا چاہتی ہے۔ وہ ایسی طاقت بننا چاہتی ہے، جو عالمگیر سطح پر کیے جانے والے فیصلوں پر اثر انداز ہو۔ پندرہویں صدی کے خاتمے پر طاقت میں نمایاں کمی واقع ہونے سے چین کے ہاتھ سے بہت کچھ نکل چکا تھا۔ وہ کئی علاقوں سے محروم کردیا گیا۔ استعماری (مغربی) قوتوں نے اُسے معاہدوں کے چنگل میں پھنساکر بہت کچھ چھین لیا۔ چین چاہتا ہے کہ جو کچھ استعماری قوتوں نے اس سے چھین لیا تھا، وہ واپس لیا جائے۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے چینی قیادت بہت کچھ کر رہی ہے۔ بھارت سے سرحدی تنازع بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ چینی قیادت چاہتی ہے کہ بھارت سے جُڑے ہوئے اپنے علاقے واپس لے۔ اروناچل پردیش کا بڑا حصہ چین نے واپس لے لیا ہے۔ اب لداخ پر بھی اُس کا دعویٰ ہے۔
چین پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) بھارت کے لیے ایک بڑا دردِ سر ہے۔ جموں و کشمیر کے علاوہ گلگت بلتستان اور اُس سے جُڑے ہوئے دوسرے علاقوں پر بھارت کا دعوٰی ہے۔ سی پیک سے وابستہ منصوبوں نے بھارت کی راتوں کی نیندیں اڑادی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اُسے بھارت کا باضابطہ حصہ بنانے کا عمل بھی اِسی ذیل میں ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ جموں و کشمیر کو مرکزی دھارے میں شامل کرے، وہاں اپنا عمل دخل اِتنا بڑھادے کہ چین اور پاکستان اُس کے حوالے سے کچھ زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں۔ شاہراہِ قراقرم اور گوادر میں چین کی بڑھی ہوئی دلچسپی نے بھارتی قیادت کے لیے شدید الجھن پیدا کی ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے بھارتی قیادت پر زور دیا کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان سے مذاکرات کرے۔ اِس کے اگلے ہی روز بھارتی فوج نے مبینہ طور پر بالاکوٹ کو نشانہ بنایا۔ بالاکوٹ حملے کے ذریعے بھارت نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ جب بھی اس کے مفادات پر ضرب پڑے گی، تب وہ اپنے طور پر فیصلہ کن کارروائی کرے گا۔ یہ کارروائی اس لیے بھی کی گئی کہ شی جن پنگ نے کشمیر پر مذاکرات کے لیے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردی کا بڑا ہدف بھارت نہیں، پاکستان ہے۔ بھارت کو چین اور پاکستان کی افواج کے درمیان بڑھتے ہوئے اشتراکِ عمل پر بھی تشویش لاحق رہتی ہے۔ بالا کوٹ پر حملے کے ذریعے بھارت نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان کی طرف سے جوہری حملوں کی (مبینہ) دھمکیوں سے خوفزدہ ہے نہ کہ پاک چین دوستی سے۔
علاقائی اور عالمی سطح پر بالاتر حیثیت کے حوالے سے امریکا اور چین کے درمیان رسّہ کشی جاری ہے۔ ایسے میں بھارت کے لیے لاتعلق رہنے کا آپشن نہیں رہا۔ اُسے بدلتی ہوئی صورتِ حال کے مطابق اپنی پالیسیوں کو بدلنا ہوگا۔ مستقبل کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کی یہی ایک صورت ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے اشتراکِ عمل کو محض تماشائی بن کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ بھارتی پالیسی سازوں کو قومی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے انتہائی دانش مندی کا مظاہرہ کرنا ہے، اور وہ بھی بروقت۔
جے دیو رہانڈے بھارت کی کابینہ سیکریٹریٹ کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری اور سینٹر فار چائنا اینالسز اینڈ اسٹریٹجی کے موجودہ صدر ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The China-Pak nexus is a threat. India is countering it well”.(“Hindustan Times”. Dec. 1, 2019)
Leave a Reply