چین سے متعلق امریکی فوجی حکمتِ عملی

امریکا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنا ہے۔ اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے کی کوششیں اب تک ملے جلے اثرات کی حامل رہی ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے چین کے خلاف بحری و فضائی جنگ کی سوچ اپنائی ہے مگر ناقدین نے اس میں خامیاں تلاش کی ہیں۔

گزشتہ عشرے کے بیشتر حصے میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات نے امریکا میں صنعتی سطح پر مقبولیت حاصل کی اور اس کے نتیجے میں اسٹریٹجک سوچ رکھنے والے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ مگر اب دفاعی امور میں ایک نئے فیشن کی آمد ہوئی ہے۔ گزشتہ ماہ سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ کے لیے جمع ہونے والے ایشیائی وزرائے دفاع کے سامنے امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے ایک منصوبہ رکھا جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ امریکا ایشیا میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے اور اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کیا کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے عسکری وسائل کی تقسیم کا خاکہ بھی پیش کیا۔ لیون پنیٹا نے بتایا کہ ۲۰۲۰ء تک امریکی جنگی مشینری کا ۶۰ فیصد (بشمول ۶ بحری بیڑے) ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں تعینات ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ عسکری ساز و سامان کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھائی جاتی رہے گی تاکہ ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت کے باعث کبھی عملاً کچھ کرنے تک نوبت پہنچے تو امریکا کو ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ چین کے ساحل کے نزدیک جنگی جہازوں اور آبدوزوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت اور میزائل کو راستے ہی میں تباہ کرنے کے نظام پر جاپان سے اشتراک عمل ہو رہا ہے۔ سائبر وار فیئر کو فروغ دیا جارہا ہے۔ مواصلاتی نظام کو کمزور اور ناکارہ بنانے پر بھی خاص توجہ دی جارہی ہے۔ ایک ایسا بمبار طیارہ تیار کیا جارہا ہے جو دشمن کے علاقے میں بہت اندر تک حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

امریکا اب عراق سے نکل چکا ہے اور افغانستان میں بھی جنگ کی بساط لپیٹ رہا ہے۔ اس کے پاس اب اتنی طاقت اور گنجائش ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت اور کسی حد تک ایران کے عزائم کی راہ روکنے پر توجہ دے سکے۔ امریکی مفادات کے لیے جنوب مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا اور ایشیا بحرالکاہل بہت اہم خطے ہیں۔ ان مفادات سے چشم پوشی برتنے کی صورت میں امریکی بالا دستی کو غیر معمولی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکا کو چین اور دیگر حریفوں کی جانب سے ٹیکنالوجی کے شعبے میں غیر معمولی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ چین اب اس قدر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے کہ اگر امریکا نے اس سے نمٹنے کے لیے انقلابی نوعیت کے اقدامات نہ کیے تو اس کے لیے ناقابل فہم مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی امریکا کے لیے یہ بھی ناگزیر ہے کہ ایشیا میں اپنے اتحادیوں اور طفیلیوں کو یقین دلائے کہ اگر کبھی چین نے آنکھیں دکھائیں تو وہ مدد کے لیے فوراً آن کھڑا ہوگا۔ امریکا کو اندازہ ہے کہ اگر چین کا سامنا عمدگی سے کرنا ہے تو ٹیکنالوجی میں برتری برقرار رکھنا ہوگی۔

امریکا جانتا ہے کہ چین یا کوئی بھی دوسرا ابھرتا ہوا ملک کبھی آسانی سے اسے اپنے علاقے میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ اس کے لیے لازم ہے کہ کوئی اور ہی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ چین کے پڑوسیوں میں جاپان اب تک امریکا کا اتحادی ہے اور ہر معاملے میں اس کا ساتھ دے رہا ہے۔ یہ چین کے لیے تشویش کی بات ہے مگر اس سے زیادہ خود جاپان کے لیے بھی تشویشناک ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ چین تک برّی رسائی میں ناکامی کی صور ت میں اسے بحری اور فضائی راستوں سے گھیر کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے۔ امریکا اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ چین کو ہر معاملے میں دباکر، دبوچ کر رکھنا ممکن نہ ہوگا۔ امریکا کے پاس ایسے حربی آلات کی کمی نہیں جو ٹھیک نشانے پر وار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی نے خطے کی ابھرتی ہوئی قوتوں کو بھی تحریک دی ہے کہ پریسیشن وار فیئر تیار کریں۔

امریکا کی جانب سے ممکنہ حملوں کو ناکام بنانے کے لیے چین کو بھی ہتھیاروں پر بہت زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ اس حوالے سے ٹیکنالوجی کو مستقل بنیاد پر اپ گریڈ کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی ہے۔ اینٹی شپ کروز اور بیلیسٹک میزائل، میری ٹائم بامبر، میزائل اور تارپیڈو بردار آبدوزیں اور تیز رفتار گشتی کشتیاں تیار کرنے پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ یہ تمام چیزیں جنگ کے میدان میں حریف کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے ناگزیر ہیں۔ چین اب اینٹی سیٹلائٹ سسٹم پر بھی کام کر رہا ہے۔ اگر وہ اس حوالے سے تیزی سے کامیابی حاصل کرتا ہے تو امریکا کے لیے چین کے ساحلی علاقوں میں کوئی بڑا حملہ ناممکن ہو جائے گا کیونکہ مواصلاتی نظام ہی پر اُس کے فوجی انحصار کریں گے اور اگر یہ نظام ناکام ہوا تو ان کے پاس کچھ بھی نہ رہے گا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے امریکیوں نے بیشتر حملے اپنے اڈوں سے کیے ہیں اور اپنے طیارہ بردار جہازوں کو بھی اس طرح استعمال کیا ہے کہ دشمن ان تک نہ پہنچ پائیں۔ یہ سب کچھ مواصلاتی نظام پر منحصر ہے۔ اب یہ صورت حال تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ ٹیکنالوجی میں پیش رفت نے کئی ممالک کو اس قابل بنادیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہوئے دوسروں پر حملے کریں۔

مگر ان تمام باتوں کے باوجود فضائی جنگ اور اس سے جڑا ہوا ’’جوائنٹ آپریٹنگ ایکسیس کونسپیٹ‘‘ بہت متنازع ہے۔ چند ناقدین کہتے ہیں کہ امریکی دفاعی بجٹ میں فضائیہ اور بحریہ کا حصہ خاصا کم رہا ہے۔ اب شاید نئی حکمتِ عملی کے تحت بری فوج کا حصہ گھٹایا جارہا ہے۔ اسے امریکی فوج کی اندرونی کشمکش بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے دس برسوں میں دفاعی بجٹ میں مجموعی طور پر ۴۸۰؍ارب ڈالر کی کٹوتی کا اعلان کیا ہے۔ ایسے میں تینوں مسلح افواج کے درمیان زیادہ سے زیادہ حصہ پانے کی کشمکش بھی جاری ہے۔

امریکا نے ایشیا میں عسکری موجودگی بڑھانے کے حوالے سے جو حکمتِ عملی اپنائی ہے اس میں کہیں بھی مرکزی دشمن کی حیثیت سے چین کا نام شامل نہیں تاہم کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ میلہ کس کے لیے لگایا اور سجایا جارہا ہے۔ چین کے وزیر دفاع نے سنگاپور کے شنگریلا مذاکرات میں شرکت نہیں کی تھی۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں سابق سوویت یونین کی جانب سے مشرقی یورپ کے ذریعے پورے یورپ پر چھا جانے کا خطرہ حقیقی تھا اور اس خطرے کا سامنا کرنے کے لیے یورپ اور امریکا ایک ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا اور یورپ میں عام آدمی کو چین سے لاحق خطرات کا یقین کس طور دلایا جاسکے گا؟ چین امریکا اور یورپ دونوں سے ہزاروں میل دور ہے۔ ایسے میں چین کی جانب سے لشکر کشی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے وائس چیئرمین جنرل جیمز کارٹ رائٹ نے گزشتہ ماہ جوائنٹ وار فائٹنگ کانفرنس میں کہا تھا ’’بحری و فضائی جنگ کی تشریح بہت مشکل ہے۔ یہ کوئی نظریہ ہے نہ منظر نامہ۔ اس سے کہیں بڑھ کر پریشان کن بات یہ ہے کہ بحری و فضائی جنگ کا تصور چین کو رفتہ رفتہ ایک خطرناک دشمن کے روپ میں پیش کر رہا ہے جو کسی بھی طور ہمارے حق میں نہیں جاتا۔‘‘

واشنگٹن کے سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹر نیشنل اسٹڈیز کے ماہر نیتھن فریئر نے حالیہ ایک مقالے میں لکھا ہے کہ ’’چین سے کسی بھی تصادم میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوسکتی ہیں مگر ایسا کوئی بھی تصادم بہت حد تک قیاس پر مبنی ہے‘‘۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان، شمالی کوریا اور ایران کو امریکی مفادات کے لیے زیادہ بڑا خطرہ گردانا جاسکتا ہے۔ اس نکتے کو بحری و فضائی جنگ کا نظریہ پیش کرنے والوں نے نظرانداز کردیا ہے۔ میرین کور کی حکمت عملی کے حوالے سے مشیر Noel Williams کا کہنا ہے کہ محض فضائی اور بحری قوت پر دار ومدار اچھی بات ہے۔ چین میں بہت اندر تک حملہ کرنا امریکا کے لیے ممکن بھی ہو تو سوال یہ ہے کہ بری افواج کی غیر موجودگی کس نوعیت کی صورت حال پیدا کرے گی۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا کی ملٹری اکیڈمی کے پروفیسر گائن جینٹائل کا کہنا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے کی جانے والی کارروائیاں رفتہ رفتہ تکنیکی حکمت عملی میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ ان کا کہنا دراصل یہ تھا کہ ٹیکٹیکل دُم اب اسٹریٹجک کُتے کو ہلا رہی ہے! ان کے نزدیک بحری و فضائی جنگ کا نظریہ دراصل ایک حقیقی عسکری خطرے کے جواب میں اپنایا جانے والا اچھا ہتھکنڈا ہے۔ فی الحال یہ بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ امریکا کو چین کے حوالے سے جو تزویراتی خطرات درپیش ہے اس کا جواب یہ کس طرح دیتا ہے۔

(“The China Syndrome”… “Economist”. June 9th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*