سن ۲۰۱۷ء میں جب چینی ریڈکراس فاؤنڈیشن (سی آر سی ایف)نے پاکستان میں چین کے زیر انتظام گوادر کی بندرگاہ پراسپتال تعمیر کیا تو ان کے مقاصداس غریب علاقے میں لوگوں کو بنیادی طبی سہولیات دینے سے زیادہ بڑے تھے۔ یہ چین میں موجود جدید اسپتالوں کی طرح کا ایک جدید ہسپتا ل ہے۔اور یہ سینٹر چین پاک اقتصادی راہداری کے ساتھ بننے والے ’’لائف ریسکیو کوریڈور ‘‘ کا پہلا پروجیکٹ ہے۔
سی آر سی ایف، چینی ریڈ کراس سوسائٹی کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اس ادارے کی منصوبہ بندی کے مطابق چین پاک اقتصادی راہداری کے ساتھ ساتھ ۷ بڑے اور جدید میڈیکل سینٹر تعمیر کیے جائیں گے۔ جہاں تجربہ کار عملہ اور ایمبولینس بھی موجود ہوں گی۔ اس سارے عمل کے بنیادی طور پر دو مقاصد ہیں۔پہلا یہ کہ اس اقتصادی راہداری سے فائدہ اٹھانے والے چینی اور پاکستانی تاجروں کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی اور دوسرامقصد مقامی لوگوں کو مفت طبی سہولیات فراہم کر کے چینیوں کے تاثر کو بہتر بنانا۔
چین پاک اقتصادی راہداری دراصل ایشیا،یورپ اور افریقا کو ملانے والے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہے۔یہ اقتصادی راہداری پاکستان کی جنوب مغربی بندرگاہ گوادر سے شروع ہو کر پاکستان کی شمال مشرقی سرحد تک جاتی ہے۔ اگرچہ اس منصوبے کو پاکستانی حکومت کی بھرپور تائید حاصل رہی ہے لیکن پھر بھی اسے سکیورٹی کے حوالے سے خطرات کا سامنا رہا ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان کے صوبے بلوچستان میں اس منصوبے پر کام کرنے والے لوگوں پر حالیہ برسوں میں کئی حملے بھی ہو چکے ہیں۔
سی آرسی ایف کے نائب صدر Liu Xuanguo کا کہنا ہے کہ اس طرح کے طبی مراکز بنانے کامقصد اس بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل ممالک کے مقامی لوگوں کواس منصوبے میں شامل کرنا تھا۔گوادر میں اس منصوبے کو سی آرسی ایف اور پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی مل کر چلارہی ہیں۔اس منصوبے کے لیے مالی وسائل چینی حکومت اور سی آر سی ایف نے چینی تاجروں کے ذریعے چندہ جمع کر کے مہیا کیے ہیں۔
Liu نے اس اخبار کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ’’انسانیت کی خدمت کے لیے معاشرتی اور حکومتی وسائل کا اکٹھا ہونا اس بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ممالک کے لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کا باعث بنے گا‘‘۔ایسے منصوبوں میں مقامی لوگ سب سے زیادہ فوائد حاصل کرتے ہیں۔تو ہی ان کو اندازہ ہوتا ہے کہ ان منصوبوں سے انھیں ہی فائدہ ہو رہا ہے۔
اس مرکز کے کھلنے کے دو سال بعد چین کو اس فلاحی منصوبے کے فوائد اور اس کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کا اندازہ ہوا۔اس کے ساتھ اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ سیاسی طور پر غیر مستحکم ممالک میں جس جارحانہ اندازسے وہ اپنی سرمایہ کاری کر رہا ہے وہاں کس قسم کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جہاں ایک طرف تو گوادر میں کھلنے والا یہ مرکز اپنی خدمات کی وجہ سے عوام میں بہت مقبول ہے وہیں اس مرکز میں کام کرنے والے عملے کو علیحدگی پسند گروہ ’’بلوچستان لبریشن آرمی‘‘ کی جانب سے مستقل دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تنظیم چینیوں کو بلوچستان سے نکالنے کے مشن پر کام کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے اب سی پیک کے بقیہ طبی مراکز پر چینی ڈاکٹر اور دیگر عملہ نہیں بھیجا جائے گا۔ اس کے بجائے سی آر ایف اب پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کو آلات اور تربیت دے گی اور پاکستانی سوسائٹی مقامی ڈاکٹروں کو بھرتی کر کے یہ کام کرے گی۔ ابھی تک سات میں سے ایک مرکز تعمیر ہوا ہے بقیہ ۶ طبی مراکز کی تعمیر باقی ہے۔
۲۰۱۷ء میں جب سے اس طبی مرکز کا افتتاح ہوا ہے، چین سے دس ڈاکٹروں کے تین وفود مختلف مواقع پر یہاں ڈیوٹی کے لیے آچکے ہیں۔ ڈاکٹروں کا ہر وفد نو ماہ کے لیے یہاں آتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں گوادر کی بندرگاہ کا کنٹرول سنگاپور کے سرمایہ داروں سے لے کر Chinese Overseas Port Holding Company کو دیا گیا۔ اور اس کے چندماہ بعد ہی اس میڈیکل سینٹر کی تعمیر شروع ہوئی تھی۔ اس تزویراتی بندرگاہ کے حصول سے چین کا آبنائے ملاکا تک کنٹرول بڑھ گیا ہے اور چین کے شمال مغربی حصوں کو بندرگاہ تک رسائی مل گئی ہے جو کہ چین کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔چین کی یہ پیش قدمی پڑوسی ممالک،خاص طور پر بھارت کی لیے تشویش کا باعث بن رہی ہے۔
آغاز میں تو اس طبی مرکز میں چینی تعمیراتی کمپنیوں کے ملازمین ہی آیا کرتے تھے۔یہاں آنے والی ڈاکٹروں کی پہلی ٹیم، جو کہ ستمبر ۲۰۱۷ء میں آئی تھی، کے افسر Yin Tao کا کہنا تھا ’’ کہ اس اسپتال میں بہت کم لوگ آیا کرتے تھے کیوں کہ لوگ ڈرتے تھے کہ کہیں اس جگہ پر دہشت گردوں کا حملہ نہ ہو جائے۔ لیکن فروری ۲۰۱۸ء سے مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہونے لگا۔ ہمارے اسپتال میں گائناکولوجسٹ بھی موجود تھی۔ یہ بات کسی نے گاؤں والوں کو جاکر بتا دی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ چین کے اسپتالوں میں سے ایک لگنے لگا، جہاں مریضوں کا بے پناہ رش ہوتا ہے‘‘۔ اس دوران چینی تعمیراتی کمپنیوں کے ملازمین تو اپنا کام مکمل کر کے چین واپس جانے لگے تھے۔یہ سال ہمارے لیے تبدیلی کا سال ثابت ہوا۔ اس سے پہلے چینی اور پاکستانی مریضوں کا تناسب ۸ اور ۲ ہوتا تھا، لیکن اب یہ تناسب ۸ پاکستانی مریض اور ۲ چینی مریض ہے۔
یہ سینٹر تقریباً ۷۰ سے ۸۰ ہزار لوگوں کی آبادی کے لیے کافی ہے۔ مریضوں کی تعداد میں کمی و اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مارچ ۲۰۱۹ء کے پہلے دو ہفتوں میں ۲۹۰ مریضوں کا علاج کیا گیا۔ اس اسپتال کے علاوہ گوادر میں دو مزید اسپتال بھی موجود ہیں لیکن وہاں مریضوں کی تعداد بہت زیادہ اور سہولیات کی کمی ہے۔
سی آرسی ایف کے شعبہ بنیادی صحت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اس اسپتال کا ذکر لوگوں کی زبانوں پر آیا تو خود بخود ہی اس کی شہرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔پھر لوگ اس اسپتال کی تعریف سن کر اپنے گھر والوں کو علاج کے لیے یہاں لانے لگے۔
سکیورٹی کی صورتحال:
اس بات میں کوئی شک نہیں کے طبی مرکز کی کامیابی کا دارومدار سکیورٹی کی صورتحال پر تھا۔گوادر میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی کی ’’تین پرتیں‘‘ ہیں۔ طبی مرکز پہلی رکاوٹ کے بعد بنا ہوا ہے،یہاں کام کرنے والے ملازمیں اپنی شناخت ظاہر کر کے دوسری رکاوٹ عبور کرسکتے ہیں جب کہ چینی عملے اور ڈاکٹروں کے گھروں کی حدود میں داخل ہونے کے لیے سکیورٹی چیک کے تین مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کے گھروں کے گرد سکیورٹی کا سخت حصا ر موجود ہے۔ پہلی چیک پوسٹ پر نیوی کے اہلکار موجود ہوتے ہیں، جو مریضوں کی تلاشی کے بعد انھیں گزرنے دیتے ہیں۔اس کے بعد مریضوں کو طبی مرکز کے اپنے سکیورٹی گارڈز کے پاس سے گزرنا ہوتا ہے۔
Liu کا کہنا ہے کہ اتنی سخت سکیورٹی کے بعد وہ اپنے آپ کو اور طبی مرکزکو محفوظ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ہمیں پاکستانی فوج اور مقامی حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ جب ہمارے ڈاکٹر یا دیگر عملے نے ہوائی اڈے پر یا کہیں باہر جانا ہوتا ہے تو آرمی کی گاڑیاں ہماری حفاظت کے لیے ساتھ ہوتی ہیں۔اس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔
ایک وقت ایسا بھی تھا، جب ہمارے عملے کو انتہائی سخت سکیورٹی میں رہنا پڑتا تھا خاص کر جب کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ ہوا تھا۔ ’’بلوچستان لبریشن آرمی‘‘ نامی تنظیم نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’’اس حملے کی وجہ چینیوں کا ہمارے وسائل پر قابض ہونا ہے‘‘۔
مئی ۲۰۱۸ء سے لے کر جنوری ۹ٍ۲۰۱ء تک کے ۸ ماہ سکیورٹی کے حوالے سے بہت خطر ناک تھے،ہفتے میں دو دو مرتبہ ایمرجنسی الارم بجا کرتا تھا اور جب یہ الارم بجتا تو ہمارے عملے کو فوراً طبی مرکز بند کر کے سکیورٹی کے حصار میں داخل ہو کر پناہ لینی پڑتی۔سی آر سی ایف کے ایک اور عہدیدار کا کہناتھا کہ اب ہمارے ڈاکٹر اپنی مہارت کی وجہ سے علاقے میں مشہور ہو چکے تھے لیکن سکیورٹی کی وجہ سے ان ۸ ما ہ میں ہر مہینے میں تقریبا ۲ ہفتوں کے لیے مرکز بند رکھنا پڑتا تھا ۔جس سے ہمارا کام متاثر ہوتا رہا۔
جب کراچی میں حملہ ہوا تو ہم لوگ بہت پریشان ہو گئے تھے اور ہمیں لگتا تھا کہ اب گوادر کی بندرگاہ کو بھی خطرہ لاحق ہو گا۔ہمارا عملہ رات میں خوف کی حالت میں رہتا تھا۔ہمارے گھروں سے مستقل فون آتے تھے اور ہمارے گھر والے واپسی کے لیے اصرار کرتے تھے لیکن ہم انھیں یقین دلاتے تھے کہ ہم یہاں محفوظ ہیں‘‘۔
چینی قونصل خانے پر حملے کے ایک ہفتے بعد یہاں کی مقامی پولیس نے ایک مکان پر چھاپہ مار کر بڑی مقدار میں اسلحہ بارود برآمد کیا اور جو لوگ پکڑے گئے ان کا کہنا تھا کہ ہم کئی ماہ سے گوادر بندرگاہ پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
اس سال مئی میں گوادر کے واحد پنج ستارہ ہوٹل،جہاں بڑی تعداد میں چینی سرمایہ دار ٹہرتے ہیں پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ اس حملے میں پانچ مقامی لوگ ہلا ک ہوئے اور دہشت گرد بھی مارے گئے۔
اس خوف وہراس اور حملوں کے باوجود مقامی لوگ چینیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ Xen کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان کے لوگ بہت محبت کرنے والے ہیں ۔ایک دفعہ میں کراچی کے ہوائی اڈے پر موجود تھا تو لوگ مجھے دیکھ کر میرے ساتھ تصاویر بنوا رہے تھے ‘‘۔
Liu کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر تو سی آر سی ایف کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ اس سال یہ طبی مرکز پاکستانی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کو دے دیا جائے اور وہ ہی اس کا نظم و نسق سنبھالے،لیکن پاکستانی ریڈ کریسنٹ درکار عملہ فراہم نہ کر پائی، اس لیے فی الحال اس حوالگی کو ایک سال کے لیے موخر کر دیا گیا ہے۔پاکستانی ڈاکٹر زیادہ تنخواہ کا مطالبہ کرتے ہیں جب کہ ریڈکریسنٹ کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں ہیں،اس لیے اس سال پاکستانی سوسائٹی صرف ایک ڈاکٹر بھرتی کر سکی، جو کہ چینی عملے کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
گوادر کا یہ طبی مرکز صر ف گوادر کے مقامی لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ گوادر کی بندرگاہ پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں کے چینی اور مقامی ملازمین کی بھی ضرورت ہے۔بندرگاہ کا عملہ نہیں چاہتا کہ ہم یہاں سے جائیں۔
اس منصوبے کا دوسرا طبی مرکز بلوچستان کے ہی ایک حصے میں گزشتہ برس بننا تھا، لیکن کراچی میں حملے کے بعد ہمیں چینی قونصل خانے کی طرف سے یہ احکامات موصول ہوئے کہ بلوچستا ن کے کسی بھی حصے کا دورہ فی الحال نہ کیا جائے اور اسی وجہ سے سائٹ کا دورہ ابھی تک تعطل کا شکار ہے۔لیکن ہم منصوبے کے تحت اگلا مرکز یہاں کوئٹہ میں تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ نئے منصوبے پر چینی عملہ کام نہ کرے بلکہ مقامی لوگوں کی تربیت کر کے ان سے یہ کام لیا جائے۔
ہمیں اندازہ ہے کہ ہر مرکز کو گوادر طرز کی سکیورٹی دینا ممکن نہیں،وہ تو ویسے بھی ایک الگ جگہ پر تھا،یہ مرکز تو کوئٹہ شہر میں ہو گا۔ کوئٹہ شہر دہشت گردی کی وارداتوں کا مرکز رہا ہے۔ گزشتہ برس بھی یہاں چینی ملازمین کو لے جانے والی ایک بس پر خودکش حملہ کیا گیا۔ Liu کا کہنا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ امن و امان کی صورتحال میں مزید بہتری آئے گی اور منصوبے کے مطابق کوئٹہ میں ایک بڑاطبی مرکز قائم ہو گا۔ فی الحال تو نسبتاً پرامن شہر گلگت بلتستان میں اسی سال ’’ریسکیو کوریڈور‘‘ کا ایک تیسرا مرکز فعال ہو جائے گا۔
Liu کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۷ء کی منصوبہ بندی کے مطابق ہمیں امید تھی کہ ہم کاشغر میں ایک کمانڈ سینٹر بنائیں گے، جہاں سے ایمرجنسی کی صورت میں ہیلی کاپٹر اور ایمرجنسی ٹیمیں بھیجی جا سکیں گی۔
اختتامیہ:
تمام چیلنجوں کے باوجود اس منصوبے کی اپنی ایک اہمیت ہے اور یہ سول ڈپلومیسی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔سی آر سی ایف اس مشن کو پورا کرنے کے لیے تمام کوششیں کر رہی ہے۔گوادر میں کام کرنے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے ملازمین ان طبی مراکز کی وجہ سے ذہنی طور پر پرسکون رہتے ہیں کہ انھیں علاج کی سہولیات میسر ہیں۔
بیجنگ حکومت عموماً خیراتی اداروں کوبیرون ملک استعمال نہیں کرتی،سوائے اس کہ کے کوئی طویل مدتی منصوبہ ہو اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہو۔اس کے برعکس چین کی سرکاری میڈیکل ٹیمیں افریقا میں کام کررہی ہیں،لیکن گوادر جنوبی ایشیا میں وہ واحد جگہ ہے جہاں چینی میڈیکل ٹیمیں کام کر رہی ہیں اور جن کا تعلق بھی کسی این جی او سے ہے۔
Liu کا کہنا ہے کہ سی آر سی ایف ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘سے متعلقہ ممالک میں اپنے ترقیاتی کاموں کوپھیلائے گی، لیکن ہماری کوشش ہے کہ ہر جگہ چینی عملے کو بھیجنے کے بجائے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر مختلف منصوبوں پر کام کیا جائے ۔جن میں کمیونٹی ڈویلپمنٹ، بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی اور اسپتالوں کے لیے آلات کی فراہمی شامل ہے، تاکہ مقامی لوگ اپنے طور پر ان منصوبوں کو آگے بڑھا سکیں۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“The Chinese medical clinic in Pakistan on the belt and road security front line”.
(“scmp.com”. August 7, 2019)
Leave a Reply