جس وقت یہ مضمون آپ کی نظر سے گزرے گا‘ اُس وقت تک آپ عراق میں انتخابات کی کیفیت سے واقف ہو چکے ہوں گے۔ تشدد کی کیفیت خواہ کیسی ہی رہی ہو‘ عراق اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے یہ انتخابات ایک اہم پیش رفت ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ عراق میں حقیقی جمہوریت کے امکانات روز بروز معدوم ہوتے جارہے ہیں‘ قطع نظر اس سے کہ ووٹنگ کی شرح کچھ بھی ہو۔ اِلّا یہ کہ بہت بڑی کوئی تبدیلی واقع نہ ہو‘ عراق ایک دوسرا تیل کی دولت سے مالا مال بدعنوان اور جزوی جمہوریت کا حامل ملک ثابت ہو گا جس طرح روس اور نائیجیریا ہیں۔ اپریل ۲۰۰۳ء میں جبکہ بغداد کا سقوط ہوا تھا‘ میں نے ایک کتاب شائع کی تھی‘ جس میں لبرل ڈیموکریسی کے بارے میں بیان کیا گیا تھا۔ اس میں مَیں نے نشاندہی کی تھی کہ دنیا میں بہت سارے انتخابات ایسے ہوئے ہیں‘ بالخصوص روس میں نمایاں طور سے جہاں حکومت قائم کیے جانے کے بعد اقتدار کا غلط استعمال ہوا اور بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا گیا۔ میں ایسی حکومتوں کو غیرلبرل جمہوریتوں کے نام سے پکارتا ہوں۔ اُس ماہ کے نیوز ویک میں مَیں نے تین نکات پیش کیے‘ جس پر عمل کر کے عراق اس طرح کے انجام سے بچ سکتا ہے۔ اِس وقت عراق میں ہماری تینوں تجویزوں کے ساتھ برا سلوک ہو رہا ہے۔ پہلی ضرورت یہ تھی کہ لسانی اور مذہبی محاذ آرائی سے گریز کیا جاتا۔ تقریباً ہر ایک منقسم معاشرہ میں گروہوں کے مابین مفاہمت کی بھرپور کوشش ہونی چاہیے تاکہ نئے نظام میں سبھوں کو شامل کیا جاسکے۔ جمہوریت کا ایک ماہر دانشور Larry Diamond کا کہنا ہے کہ ’’کسی جمہوری عمل کے موثر اور قابلِ عمل ہونے کے لیے پہلی پیشگی شرط یہ ہے کہ تمام اہم لسانی‘ علاقائی اور مذہبی گروہوں کے مابین اتفاقِ رائے پایا جائے۔ عراق میں یہ صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس شیعہ‘ سنی اور کُرد ایک دوسرے سے روزبروز محتاط ہوتے جارہے ہیں اور خالص فرقہ ورانہ خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ یہ گروہ بندی بھی بسااوقات برادریوں میں مذہبی شور و غل کا موجب بنتی ہے اور جس سے ایک کمتر سیکولر اور کمتر لبرل قسم کی سیاست کو فروغ ملتا ہے۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ ایسی معیشت اور حکومت کا قیام عمل میں لایا جاتا جس کا انحصار محض تیل پر نہ ہو۔ جب کسی حکومت کی بے محنت دولت تک رسائی آسان ہو تو اسے حقیقی معیشت کے قیام کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ درحقیقت ایسی حکومت عوام کی محتاج نہیں ہوتی کیونکہ معیشت کے لیے اسے اپنے عوام سے ٹیکس لینے کی ضرورت نہیں۔ اس کے نتیجے میں شاہی دربار معرضِ وجود میں آتا ہے جو کہ اپنے معاشرہ سے بیگانہ اور دور رہتا ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ عراقی تیل کی دولت کو ٹھیک طریقے سے استعمال کیا جائے گا۔ اِسے عام حکومتی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کے بجائے ترقیاتی فنڈز قائم کرنے کے لیے مصرف میں لایا جائے گا۔ عبوری بیرونی حکومت نے اس عمل کی بہت دانشمندانہ انداز میں حوصلہ افزائی کی ہے‘ اگرچہ اس کے آڈیٹروں نے جس انداز سے اس پر نگاہ ڈالی ہے‘ اُس پر ’’روشن‘‘ سے کم تر لفظ کا اطلاق ہو گا۔ جب سے عراق کی عبوری حکومت کو اقتدار منتقل کیا گیا ہے‘ عراقی تیل کی دولت کا استعمال شفاف نہیں رہا ہے۔ یعنی اس کے متعلق اطلاعات بہت کم فراہم کی گئیں۔ اسلام الخفاجی جنہوں نے تھوڑے عرصے تک سی پی اے کے لیے کام کیا اور اب Iraq Revenue Watch for the Open Society Institute کے نگراں ہیں‘ کا کہنا ہے کہ ’’اب اس میں شک نہیں رہ گیا ہے کہ عراقی تیل کی دولت عام ریونیو کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ مزید یہ کہ عراقی حکومت کے پاس آسان رقم (Easy money) کے دو ذرائع ہیں یعنی اگر تیل کی دولت کافی نہیں ہوتی ہے تو پھر انکل سام کا سہارا موجود ہے۔ امریکا اپنی دولت انتہائی غیرمعقول طریقے سے عراق میں بہا رہا ہے‘‘۔ یہ وہ شکایت ہے جو پردۂ سماعت سے بار بار ٹکراتی ہے۔ امریکا عراق میں اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے اور اس کے عوض واقعتا بہتری کی شکل میں اسے بہت کم ہی کوئی چیز سوائے لوگوں کی نظر میں نیک نامی کے حاصل ہو رہی ہے۔ الخفاجی کا کہنا ہے کہ رقوم کا بیشتر حصہ سیاسی سرپرستی کی وجہ سے خرچ کیا جارہا ہے نہ کہ حقیقی معیشت خلق کرنے کے لیے۔ اس کا بیشتر حصہ امریکیوں پر خرچ کیا جارہا ہے خواہ یہ کتنا ہی مہنگا پڑ رہا ہو۔ باقی حصہ منظورِ نظر عراقیوں پر خرچ ہو رہا ہے۔ ہم نے اس کا مطالبہ کیا ہے اور میں یہ پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کسی ایک بھی عراقی ٹھیکیدار نے بِڈنگ کے ذریعہ ٹھیکہ حاصل نہیں کیا ہے جو کہ کھلا اور شفاف ہو۔ قانون کی حکمرانی حتمی اور اہم شرط ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی چیز حاصل نہیں ہو سکتی۔ پال بریمر نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ نئے عراق کے لیے تحفظاتی ادارے قائم کر دیے۔ پبلک انٹگریٹی کمیشن‘ الیکشن کمیشن‘ ہیومن رائٹس کمیشن اور حکومتی بیورو کریسی کے ہر شعبہ میں انسپکٹر جنرل کی تقرری۔ ان میں سے کچھ تو باقی رہ گئے‘ کچھ ختم ہو گئے‘ کچھ بدعنوانی کی نظر ہو گئے اور کچھ کی اہمیت ختم ہو گئی۔ عدالتیں بہتر شکل میں ہیں لیکن اس کا بھی وہی افسوسناک انجام ہو سکتا ہے جو لبرل ڈیمو کریسی کے دوسرے اجزائے ترکیبی کا ہوا۔ عراقی پولیس کو عام طور سے ٹارچر اور اختیار کے غلط استعمال کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس ابتری کی بڑی وجہ یقینا سلامتی کی صورتِ حال ہے۔ امریکا نے واقعتا عراق میں ایک جمہوری نظام کے قیام کے عمل کو روک دیا ہے اور وہ صرف مزاحمت سے برسرِ پیکار ہے تاکہ وہ استحکام اور قانونی جواز حاصل کر سکے۔ ایسا کرتے ہوئے اگر گروہی کشیدگی‘ بدعنوانی اور احباب پرستی بڑھ جاتی ہے تو بلا سے۔ جدید قدامت پرست مصنف Lawrence Kaplan جو جنگ کا پُرجوش حامی تھا اور اس نے William Kristol کے ساتھ مل کر ایک کتاب “The war over Iraq: Saddam’s Tyranny and America’s Mission” تصنیف کی ہے‘ ابھی حال ہی میں عراق سے واپس آیا ہے اور نئے جمہوریہ پر اس نے ایک انتہائی مایوس کن مضمون لکھا ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ ایک لبرل عراق کے لیے چھیڑی گئی جنگ لبرل عراق کے خواب کو تباہ کر رہی ہے‘‘۔ عراق اب بھی ایک ایسا ملک ہے جو صدام حسین کے عراق سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ممالک کی بہ نسبت یہاں ایک قدرے کھلا اور واقعتا تکثیری (Plural) معاشرہ ہے۔ روس اور نائیجیریا وحشت ناک حکومتیں نہیں ہیں لیکن یہ وہ نہیں ہیں جس کی توقع لوگ کر رہے تھے۔ شاید اس طرح کے بعض منفی رجحانات کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ شاید شیعہ اکثریت اپنے اختیار کا استعمال دانشمندی سے کرے گی۔ لیکن عراقی جمہوریت اب اکثریت کے رحم و کرم پر ہے جن کے متعلق ہمارا گمان ہے کہ وہ اپنے بہتر فرشتوں کی بات پر کان دھریں گے۔ یہ کامیابی کی علامت نہیں ہے جیسا کہ James Madson نے ایک بار لکھا تھا کہ ’’اگر آدمی فرشتے ہوتے تو کسی حکومت کی سرے سے ضرورت ہی نہ ہوتی‘‘۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۷ فروری ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply