
ایک زمانے تک افغانستان منشیات کی اسمگلنگ اور سوداگری کے لیے پورے خطے میں معروف تھا۔ یہاں کے غریب اور مفلوک الحال طبقے پڑوسی ملکوں میں پھیل گئے تھے۔ لگتا تھا کہ ان کی سرپرستی عالمی طور پر جرائم پیشہ لوگ اور ڈرگ مافیاوں کے ذریعے کی جارہی ہے۔ اَب تو یہ خدشات و احساسات کھل کر عالمی منظرنامہ میں حقیقت بن کر سامنے بھی آنے لگے ہیں۔
برصغیر کے ملکوں میں پھیلے ان مافیائوں نے زیادہ تر ہندوستان بالخصوص پاکستان پر پوری طرح اپنا پنجہ گاڑ رکھا ہے۔ پاکستان کے کئی ایسے صوبے ہیں جو اس گھنائونے پیشے میں اسیر معلوم ہوتے ہیں اور اس کی خاص وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جہاں جہاں بھی حد سے زیادہ غربت اور جہالت ہے وہاں وہاں مافیا اپنا گروپ‘ اپنا جال آسانی سے بچھا لیتے ہیں اور جو ایک بار اس جال میں پھنسا‘ پھر اس کے لیے راہِ فرار ممکن نہیں۔ یہ وہ پیشہ ہے جس میں لوگ راتوں رات لکھ پتی و کروڑ پتی بن جاتے ہیں۔
ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ منشیات کے سوداگروں کی جڑیں ان خطوں میں زیادہ گہری ہوتی ہیں جہاں سرکردہ لوگوں کے علاوہ حکمرانوں کی حد درجہ بے توجہی پائی جاتی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے اہم صوبہ بلوچستان میں نمایاں ہے۔
بلوچستان کے عوام میں جو بے چینی پیدا ہو رہی ہے اور علیحدگی پسندی کا جو نعرہ بلند ہو رہا ہے‘ اس سے پورا پاکستان لرز رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی نظر میں اگر حکومت پاکستان نے فوری طور پر توجہ نہیں دی تو عین ممکن ہے کہ پاکستان میں ایک اور ’’مشرقی پاکستان‘‘ معرضِ وجود میں آجائے۔
پرویز مشرف نے امریکا کے اشارے پر اسامہ کی تلاش میں جو فوجی آپریشن کیا‘ اس کی آگ بجھی نہیں تھی‘ بلوچستان میں تین فوجی چھائونیاں بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔ قبائلیوں نے مزاحمت کی۔ فوجیوں نے وہی سب کچھ کیا جو ان کا خاصہ ہے۔ اگر ناعاقبت اندیشوں نے بلوچستان پر یہی سلسلہ جاری رکھا تو حالات قابو سے بارہ ہو جائیں گے اور بلوچ لبریشن آرمی مورچہ سنبھال لے گی۔
پاکستان کے مشہور شہر کراچی کی قدیم آبادی لیاری کو بھی ڈرگ مافیائوں اور جرائم پیشہ افراد نے اپنی آماجگاہ بنا لیا ہے۔ غربت‘ جہالت کے سخت شکنجوں میں جکڑا یہ شہر ۱۶ لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے اور قناعت کا حیران کن استعارہ ہے۔ اسے اس معنی میں ’’سیاسی قلعہ‘‘ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں کے باشندے ہمیشہ جمہوریت‘ انصاف اور جائز حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں لیاری کے لوگوں نے اپنے جمہوری حقوق اور جمہوری تاریخ میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ ہی نہیں بلکہ یہیں سے بینظیر بھٹو اور دوسرے سیاستدانوں نے بھی جمہوریت کی تحریک کو جِلا بخشی ہے۔ اس کے باوجود‘ اس زرخیز زمین کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ شہر سب سے قدیم اور ساحلی بستی ہونے کے باوجود اس کے مکین آج دہشت گردی‘ گینگ وار‘ بے روزگاری اور سماجی مسائل سے بری طرح دوچار ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق گینگ وار کے باعث یہاں اب تک ۳۰۰ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ انتشار میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے اور یک جہتی‘ امن اور انسانی ہمدردی کی قدروں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ شہر برسہا برس تک غیرانسانی صورتحال سے دوچار رہے گا کیونکہ شہری سہولتوں کی فراہمی کبھی حکمراں طبقے کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی‘ البتہ وعدے اور دعوے ہر دور میں کیے جاتے رہے۔
اخبارات کے مطابق لیاری میں منشیات کے بعض اڈوں اور باروں کی تاریخ قیامِ پاکستان سے ہی شروع ہوتی ہے۔ حالانکہ پوست کی کاشت کو بڑھاوا اور اس کی تقسیم کا سلسلہ انگریزوں نے اپنے دور میں کیا تھا۔ مگر افسوس اسلام اور مسلمانوں کے نام پر بننے والے ملک کے حکمرانوں نے حصولِ اقتدار پر ہی اپنی توجہ و قوت صرف کی اور قوم کو ہلاکت سے بچانے کے اقدام نہیں کیے۔ چنانچہ لیاری آج تک منشیات کی بلا میں اسیر ہے۔ کراچی کے محلِ مقوع کے باعث منشیات کی عالمی تجارت کے لیے یہ ایک اہم روٹ کی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔
سمندری راستے سے منشیات کا کاروبار کرنے والوں کے لیے امریکا اور مشرقِ وسطیٰ تک رسائی آسان ہے‘ اس لیے لیاری کے ڈرگ مافیا کا دائرہ وسیع و مستحکم ہوتا گیا اور ان کی تنظیمی صلاحیت کے سہارے چھوٹے منشیات فروش آئے دن جنم لیتے رہے‘ جو غربت‘ پسماندگی‘ بیروزگاری اور ناخواندگی کی اسیر بستی میں منشیات کو ہی روزگار کے طور پر قبول کرنے پر مجبور ہیں۔
اس طرح منشیات فروشی‘ رفتہ رفتہ سیاسی قوت کے حامل عناصر‘ بیورو کریسی اور پولیس کی ملی بھگت سے آج گینگ وار کی منزل تک آپہنچی ہے اور عوام کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ درحقیقت گینگ وار کے پس پشت عالمی جرائم پیشوں و سیاسی قوتوں کے نجی مفادات کے علاوہ مقامی لوگوں کی سماجی و اقتصادی محرومیاں ہیں۔ یہاں کے باشندوں کو قصداً تعلیم و روزگار کی فراہمی کے شدید بحران میں مبتلا رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس صورت میں منشیات گروپ اپنے ذاتی مفادات کی جنگ میں ایک دوسرے کے مدمقابل رہتے ہیں اور آئے دن اس جنگ میں غریب گھروں کے چراغ گل ہوتے رہتے ہیں۔
لیاری سے منتخب ہونے والے رکن اسمبلی نبیل گبول کا کہنا ہے کہ حزبِ مخالف تو صرف اسمبلیوں میں آواز بلند کر سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری تین نسلوں نے لیاری میں منشیات فروشوں سے نبردآزمائی کی ہے‘ پولیس اگر مخلص ہو تو یہ لعنت ختم ہو سکتی ہے لیکن پولیس بذاتِ خود اس میں ملوث ہوتی ہے۔ یہاں پانچ پانچ لاکھ روپے دے کر تھانیداروں کی تقرری ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ منشیات فروشوں سے کمائی بھی کریں گے۔
اسی طرح لیاری سے منتخب ہونے والے ایک اور ممبر اسمبلی رفیق انجینئر کا کہنا ہے کہ ’’لیاری کی گینگ حکومت اور وزارتِ داخلہ کی ناکامی ہے۔ ہم نے اسمبلی میں آواز اٹھائی‘ پریس کانفرنسیں کیں‘ جلوس نکالے مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور سب کچھ گنوانے کے بعد حکومت کو ہوش آیا ہے تو انتظامی تبدیلیاں کرتے ہوئے صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے نئی ٹیم بھیجی گئی ہے‘ اس سے وقتی ہی سہی کچھ امن و عافیت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ کہنا مشکل تر ہے کہ یہ امن و عافیت کتنے دن تک قائم رہ سکے گی اور لیاری کی یہ بھیانک صورتحال کب تک بہتر ہو سکے گی‘‘۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ بالخصوص اخبارات پر اگر گہری نظر رکھی جائے تو تجزیے و نتائج پر غور کیا جائے تو لیاری اور بلوچستان کے صورتحال کم و بیش پورے پاکستان میں دکھائی دے گی۔ پاکستان کی نئی نسل ایک ایسے ماحول میں پل رہی ہے جہاں خوف و ہراس اور ہیبت ہے‘ جس کے نتیجے میں ایک خوفزدہ پاکستانی بچہ اپنے والد سے یہ کہنے پر مجبور ہے: ’’ابو مسجد مت جائیے گا‘‘۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘۔ ممبئی)
Leave a Reply