
سرمایہ دارانہ نظام اب بھی دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔ معمولی استثنیٰ کے ساتھ پوری دنیا معاشی پیداوار کو ایک ہی طریقے سے منظم کیے ہوئے ہے۔ مزدوری کے لیے رضاکار ہوتے ہیں، بیشتر سرمایہ نجی ہاتھوں میں ہے اور پیداوار کو غیر مرکزی طریقے سے مربوط کیا جاتا ہے اور منافع اس کی حوصلہ افزائی کی وجہ بنتا ہے۔
اور اس کامیاب منظر نامے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماضی میں سرمایہ داری موجود تو رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پیداوار کا ایک مربوط نظام سرمایہ داری کے مقابلے کے لیے موجود رہا ہے۔ چاہے وہ چھٹی صدی میں میسوپوٹیمیاکا دور ہو، قرون وسطیٰ کا، رومن سلطنت کا یا پھر جدید دور کاآغاز، سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل ہمیشہ کوئی نہ کوئی پیداواری نظام موجود رہا ہے۔ ماضی میں چھوٹے پیمانے پر کھیتی باڑی، شکار، جاگیرداروں کی خدمت اور غلاموں کی خرید و فروخت جیسے متبادل موجود تھے۔ حتیٰ کہ سو سال پہلے تک، جب بڑے پیمانے کی پیداواری صنعتوں کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا میں اپنے قدم جمائے، اس وقت تک دیگر پیداواری نظام موجود تھے۔ پھر ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کے نتیجے میں کمیونزم سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں آیا، اور کمیونزم نے دنیا کے اتنے ممالک میں اپنی اجارہ داری قائم کر لی کہ جن کی مشترکہ آبادی دنیا کی ایک تہائی آبادی کے برابر تھی۔ تاہم اب پھر سرمایہ دارانہ نظام واحد پیداواری نظام کے طور پر موجود ہے۔
مغربی تجزیہ نگاروں کی جانب سے یہ بات بہت زیادہ کہی جا رہی ہے کہ ’’سرمایہ دارانہ نظام اپنی عمر پوری کر چکا ہے‘‘ جیسا کہ کوئی معاشی نظام تباہی کے دہانے پر ہو۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’سرمایہ دارانہ نظام کو سوشلزم کے احیا سے خطرہ لاحق ہے‘‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے اور رہے گا اور اس کا کوئی حریف نہیں۔ دنیا بھر کے معاشروں نے اس مسابقت کے ماحول کو نہ صرف قبول کر لیا ہے بلکہ وہ اس نظام میں اپنے آپ کو باندھ بھی چکے ہیں، اس نظام کے بغیر غربت میں اضافہ ہو جاتا ہے، آمدن میں کمی اور تکنیکی ترقی سست روی کا شکار ہو جاتی ہے۔ جنگ تو دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے اندر ہے، اس نظام کے دو ماڈل ہیں جن کے مابین لڑائی جاری ہے۔
اکثر انسانی تاریخ میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ جب کوئی مذہب یا نظام اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے تو اس کے ماننے والے فرقوں میں تقسیم ہونے لگتے ہیں۔ عیسائیت جب بحیرہ روم کے آس پاس اور مشرق وسطیٰ کے خطے میں پھیل گئی تو اس میں زبردست نظریاتی تنازعات جنم لینے لگے اور ان نظریات کی وجہ سے یہ مذہب مشرقی اور مغربی ’’چرچ‘‘ میں تقسیم ہو گیا اور اسی طرح کی صورتحال کا سامنا اسلام کو بھی کرنا پڑا، جب اسلام دنیا بھر میں پھیل گیا تو یہاں بھی شیعہ سنی تقسیم نے جنم لیا۔ بیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے حریف کمیونزم کو اپنے عروج کے وقت کچھ اسی طرح کی تقسیم کا سامنا کرنا پڑا، یعنی کہ وہ بھی سوویت اور Maoist کے گروہوں میں تقسیم ہو گیا۔ اب سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ بھی یہی معاملہ درپیش ہے۔ اس نظام میں بھی دو ’’ماڈل‘‘ اپنی موجودگی کو ثابت کر رہے ہیں۔ یہ دونو ں ماڈل سیاسی،معاشی اور معاشرتی پہلوؤں میں مختلف ہیں۔
مغربی یورپ اور شمالی امریکا کی ریاستوں اور متعدد ممالک جیسا کہ بھارت، انڈونیشیا اور جاپان میں سرمایہ دارانہ نظام کی ایسی شکل غالب ہے جسے “liberal meritocratic” کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اس نظام میں بیشتر پیداوار نجی ہاتھوں میں ہے، قابلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ مواقع سب کے لیے یکساں ہوں، مثلاً مفت بنیادی تعلیم اور پہلے سے لاگو ٹیکسوں کا نظام۔ چند ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کا ایسا سیاسی ماڈل political capitalism موجود ہے، جس میں سربراہی اور طاقت کا محور ریاست ہے۔ ایشیا میں یہ نظام رکھنے والے ممالک میں چین، میانمار، سنگاپور شامل ہیں، یورپ سے آذربائیجان، روس اور افریقا کے الجیریا، ایتھوپیا اور روانڈا شامل ہیں۔ یہ نظام معاشی نمو کی رفتار تو یقینا تیز کر تا ہے لیکن لوگوں کے شہری و سیاسی حقوق کو سلب کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظا م کے یہ دو ماڈل، جن کی سربراہی بالترتیب امریکا اور چین کے ہاتھ میں ہے، یہ ایک دوسرے سے مسابقت رکھتے ہیں، اس کی وجہ ان دونوں ماڈل کا آپس میں جڑا ہونا ہے۔ ایشیا، مغربی یورپ اور شمالی امریکا جو کہ دنیا کی ۷۰ فیصد آبادی پر مشتمل ہیں اور دنیا کی ۸۰ فیصد اقتصادی پیداوار بھی یہیں سے ہوتی ہے، ان خطوں کے لوگ تجارت، سرمایہ داری، نقل و حرکت، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور خیالات کے تبادلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے مستقل رابطے میں رہتے ہیں۔ اس ٹکراؤ اور رابطوں نے مغرب اور ایشیا کے کچھ حصوں میں مسابقت کی فضا پیدا کردی ہے اور دونوں خطوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے دو مختلف ماڈلز کی وجہ سے یہ مسابقت شدت اختیار کر چکی ہے اور یہ مسابقت،جو کہ سرمایہ دارانہ نظام اور کسی متبادل نظام کے درمیان مقابلہ نہیں، عالمی معیشت کا مستقبل ترتیب دے گی۔
۱۹۷۸ء میں چین کی مجموعی پیداوار کا ۱۰۰ فیصد سرکاری شعبے کے ہاتھ میں تھا۔جوکہ اب کم ہو کر ۲۰ فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے۔روایتی طور پر سرمایہ دارانہ یورپ کی طرح جدید چین میں بھی زیادہ تر پیداوار نجی ہاتھوں میں ہے۔ ریاست کمپنیوں پر پیداوار اور قیمتوں کے بارے میں اپنے فیصلے عائد نہیں کرتی اور زیادہ تر ملازمین اب بھی مزدوری پر ہی کام کرتے ہیں، یعنی کہ مستقل نہیں ہیں۔ اس طرح سرمایہ دارانہ نظام چین میں اسی طرح رائج ہے جیسا کہ یورپ میں۔
سرمایہ داری کا اب کوئی حریف نہیں،لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے یہ دونوں ماڈل معاشرے میں سیاسی اور معاشی طاقت کے حصول کے بہت ہی مختلف طریقے پیش کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا سیاسی ماڈل سیاسی اشرافیہ کو خود مختاری دیتا ہے اور اس کے بدلے میں عام آدمی کو تیز رفتارمعاشی ترقی ملتی ہے۔چین کی معاشی ترقی نے مغرب کے اس دعوے کی نفی کی ہے کہ سرمایہ داری اور آزاد جمہوریت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
آزاد خیال سرمایہ دارانہ نظام کی کچھ خصوصیات ہیں،جن میں سب سے اہم جمہوریت اور قانون کی بالا دستی ہے۔یہ خصوصیت خود سے ایک خوبی ہے، یہ دونوں خصوصیات معاشرتی فعالیت اور جدت پسندی کو فروغ دے کر معاشی ترقی کی رفتار تیز کرتی ہیں۔ پھر بھی اس نظام کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ خود ساختہ طاقتور اشرافیہ اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات اس لبرل سرمایہ داری کی طویل مدتی استحکام کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
تاہم چین اور دیگر ممالک جہاں سیاسی طرز کا سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے،انھیں اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے مستقل اقتصادی ترقی کو یقینی بنانا ہو گا،اور یہ وہ شرط ہے جسے پورا کرنا وقت کے ساتھ ساتھ مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ اور ان ریاستوں کو بد عنوانی میں کمی لانا ہو گی،جو کہ نظام کے اند ر رچ بس چکی ہے،اور تفریق کو بڑھا رہی ہے۔ان کے ماڈل کی قابلیت کا امتحان اس میں ہے کہ وہ کس طرح ترقی کرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے کوقابو کرتے ہیں جو کہ ریاست کی بیوروکریسی کی حد سے زیادہ طاقت کے خلاف ہوتا ہے۔
جیسے ہی دنیا کے دیگر حصوں میں ممالک،خاص طور پر ایشیائی ممالک،اپنی معیشت کو تبدیل کریں گے یا اسے ترقی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کریں گے تو سرمایہ دارانہ نظام کے ان دونوں ماڈلز کے درمیان کشیدگی یا اختلاف سب کی توجہ کا مرکز بنے گا۔ چین اور امریکا کی رقابت کو اکثر سیاسی و جغرافیائی معنوں میں دیکھا جا تا ہے،جب کہ در اصل یہ بنیادی طور پر دو “tectonic plates” کے درمیان ٹکراؤ کا معاملہ ہے جو کہ اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ سرمایہ دارانہ نظام اس صدی میں کیسی شکل اختیار کر تا ہے۔
لبرل کیپٹل ازم:
سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی غلبہ ان دو تبدیلیوں میں سے ایک ہے، جس سے یہ دنیا گزر رہی ہے۔اور دوسری تبدیلی مغرب اور ایشیا میں معاشی طاقت کے توازن کا قائم ہونا ہے۔
صنعتی انقلاب کے بعد پہلی دفعہ ایسا موقع آیا ہے کہ ایشیائی لوگوں کی آمدن اور مغربی یورپ اور شمالی امریکا کی آمدن کے درمیان فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔ ۱۹۷۰ء میں عالمی معاشی پیداوار کا ۵۶ فیصد مغرب پیدا کر رہا تھا جبکہ ایشیا، جس میں جاپان بھی شامل ہے، کی پیداوار صرف ۱۹؍فیصد تھی۔ آج صرف تین نسلوں کے بعد یہ شرح ۳۷ فیصد اور ۴۳ فیصد میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس تبدیلی میں بڑا ہاتھ چین اور بھارت جیسے ممالک کا ہے، جنھوں نے غیر معمولی رفتار سے معاشی ترقی کی ہے۔
مغرب میں سرمایہ داری نے اطلاعاتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کی ایجادات سے بیسویں صدی کے اواخر میں عالمگیریت کی ایک نئی لہر کو جنم دیا اور یہی وقت تھا جب ایشیا ’’گلوبل نارتھ‘‘ سے اپنے فرق کو تیزی سے کم کر رہا تھا۔ دولت جو کہ آغاز میں مغربی معیشتوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھی، لیکن پھر عالمگیریت نے ایشیائی ممالک کے تباہ حال انفراسٹرکچر کو بدل کے رکھ دیا اور ان ممالک نے غیر معمولی ترقی کی۔ نوے کی دہائی کے مقابلے میں عالمی سطح پر آمدن میں موجود عدم مساوات میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے اور جیسے جیسے ایشیائی ممالک کی آمدن میں اضافہ ہو گا اس فرق میں مزید کمی واقع ہو گی۔
اگرچہ ممالک کے درمیان عدم مساوات میں کمی آئی ہے، لیکن داخلی طور پر ممالک میں آمدن کے فرق میں اضافہ ہوا ہے،خاص طور پر مغربی ممالک داخلی طور پر اس فرق سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ممالک کے اندر یہ عدم مساوات دراصل عالمگیریت کا نتیجہ ہے، جس نے مغربی ممالک کی معیشتوں کو زیادہ متاثر کیا ہے۔اس عالمگیریت کی وجہ سے تجارتی یونین کمزور ہوگئیں،پیداواری ملازمتیں تیزی سے کم ہوئیں اور مزدوری میں اس نسبت سے اضافہ نہ ہو سکا۔
گزشتہ چالیس برسوں میں “Liberal Meritocratic” سرمایہ داری وجود میں آئی ہے۔اس کو سمجھنے کے لیے سرمایہ داری کے دو مختلف ادوار کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ’’کلاسیکل کپیٹلزم‘‘ جو کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے آغاز میں حاوی تھا اور ’’جمہوری سرمایہ دارانہ نظام‘‘ جس نے دوسری جنگ عظیم سے لے کر ۸۰ کی دہائی تک مغربی یورپ اور شمالی امریکا میں فلاحی ریاست کے نظام کو متعارف کروایا۔
انیسویں صدی کے مقابلے میں جب کلاسیکل کیپٹلزم کا مطلب تھا کہ سوسائٹی میں امیر لوگوں کا ہونا،جب کہ موجودہ نظام میں صرف زیادہ امیر لوگوں کا ہونا ضروری نہیں بلکہ زیادہ مزدوروں کا ہونایعنی کام کرنے والے افراد کا زیادہ ہونا بھی ضروری ہے۔تا کہ دولت نہ صرف سرمایہ کاری سے آئے، بلکہ کام کرنے والے لوگ بھی زیادہ سے زیادہ دولت پیدا کر سکیں۔ اس طرح شادیاں کرتے ہوئے بھی یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ ایک ہی جیسی تعلیمی قابلیت کے فرد سے شادی ہو یا پھر وہ بھی اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہو۔’’کلاسیکل کیپٹلزم‘‘کے نظام میں اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ وہ تھے جو کہ سرمایہ کار تھے۔لیکن آج کل اعلیٰ طبقے میں بھاری بھرکم تنخواہ لینے والے منیجر،ویب ڈیزائنر،ڈاکٹر،بینکاراور دیگر پروفیشنل لوگ بھی شمار ہوتے ہیں۔یہ لوگ نہ صرف بھاری تنخواہیں لینے کے لیے کام کرتے ہیں بلکہ ان کے پاس بہت سے دیگر وسائل بھی ہیں جن سے وہ دولت کماتے ہیں۔
کلاسیکل کیپٹلزم کے ماڈل کا مرکز صنعتی مزدور تھے اور اس ماڈل میں مزدور یونین بہت طاقتور تھیں، اسی طرح سوشل ڈیمو کریٹک سرمایہ داری میں بھی آمدن کی تقسیم منصفانہ تھی لوگوں کی آمدنیوں میں مستقل اضافہ ہو رہا تھا۔لوگ صحت کی سہولتوں سے فوائد سمیٹ رہے تھے،تعلیم تک سب کی رسائی تھی اور معاشی حالت بہتری کی طرف جا رہی تھی۔
تاہم عالمگیریت اور “Liberal meritocratic capitalism” کی وجہ سے حالات میں نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ ایک طرف تو مزدور یونین کمزور ہوگئیں اور دوسری طرف صنعتوں کے اندر کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ بیسویں صدی کے اختتام سے ’’کیپٹل انکم‘‘کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے،یعنی مجموعی ملکی پیداوار میں بڑی کمپنیوں کے منافع اور پہلے سے دولت مند افراد کے منافعوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ یہ چلن امریکا میں سب سے زیادہ ہے،تاہم دیگر ممالک میں بھی ایساہو رہا ہے، چاہے وہ ترقی پذیر ہو ں یا ترقی یافتہ۔مجموعی آمدنی میں سرمائے کا بڑھتا ہوا تناسب یہ ظاہر کرتا ہے کہ سرمایہ اور سرمائے دار،مزدوروں سے زیادہ اہم ہوتے جا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی معاشی اور سیاسی طاقت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ معاشرے میں عدم مساوات بڑھ رہا ہے،کیوں کہ وہی لوگ امیر ہو رہے ہیں جو اپنی آمدن کا بڑا حصہ سرمائے سے حاصل کر رہے ہیں۔
مغرب کی بے چینی
اگرچہ لبرل سرمایہ داری کے نظام نے نسبتاً متنوع اشرافیہ تشکیل دی ہے، لیکن اس نظام کے نتیجے میں عدم مساوات بڑھی ہے،جسے میرٹ کے پردے کے پیچھے چھپا دیا گیا ہے۔ آج کل کے امرا، جو کہ اپنے پیش روؤں سے زیادہ خوش نما دکھائی دیتے ہیں،یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ جو ہم نے حاصل کیا ہے اپنے کام اور محنت کی بنیاد پر حاصل کیا ہے، اس دوران وہ اس نظام سے حاصل شدہ فوائد اور معاشرتی اطوار کا ذکر نہیں کرتے، جن کی وجہ سے economic mobility مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی گئی۔ گزشتہ چالیس برسوں میں ایک ’’نیم مستقل‘‘ اشرافیہ نے بھرپور ترقی کی ہے، جو کہ اپنے آپ کو بقیہ معاشرے سے الگ رکھتی ہے۔امریکا میں دس فیصد امیر ترین لوگ نوے فیصد مالی اثاثوں کے مالک ہیں۔ حکمران طبقہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے،اور اس کے بیشتر ارکان کام کرتے ہیں اوران کی آمدن باقی لوگوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتی ہے۔اور وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ اشرافیہ کہلانے کا استحقاق رکھتے ہیں۔
یہ اشرافیہ اپنی اولاداور اپنا سیاسی کنٹرول قائم کرنے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ لگاتے ہیں۔اپنے بچوں کی تعلیم پر سرمایہ کاری کر کے اشرافیہ اپنے بچوں کو اس قابل بناتی ہے کہ مستقبل میں ان کے بچے بھی اسی طبقہ کا حصہ رہیں اور اس کام میں تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسی طرح سیاسی معاملات، تھنک ٹینک، جامعات وغیرہ میں سرمایہ کاری کرکے وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ قوانینِ وراثت اور دیگر قوانین کے حوالے سے جو بھی قانون سازی ہو وہ ان کی مرضی کی ہو تاکہ ان کا سرمایہ اور مالی وسائل باآسانی ان کی اولادوں کو منتقل ہو سکیں۔ اس طرح دونوں شعبوں میں سرمایہ کاری سے حکمراں طبقے کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔
ایک طاقتور اعلیٰ طبقے کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کے وہ سیاسی اثرورسوخ نہ رکھتا ہو۔ماضی میں ایسا قدرتی طور پر ہو جاتا تھا،کیوں کہ سیاست میں آنے والے بیشتر لوگ امیر خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس وجہ سے سیاست دانوں کے مفادات اور خیالات امرا جیسے ہی ہوتے تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ اب مختلف پس منظر اور معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ سیاست میں آجاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے اور امرا کے مفادات کا یکساں ہونا مشکل ہوگیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما، بل کلنٹن اور برطانوی وزرائے اعظم مارگریٹ تھیچر اور جان میجر متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن انھوں نے ایک فیصد اشرافیہ کے مفادات کی بھرپور حمایت کی۔
جدید دور کی جمہوریت میں امرا اپنی سیاسی شراکت داری، تھنک ٹینک اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کی مالی مدد اور ان کی ملکیت کو ایسی معاشی پالیسیاں بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں جن سے ان کو فائدہ ہو۔جیسا کہ زیادہ آمدن پر کم ٹیکس،کارپوریٹ سیکٹر کے لیے کم سے کم ریگولیشن کی پابندیاں وغیرہ۔ اس طرح کی معاشی پالیسیاں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ امرا طبقے کے لوگ متاثر نہ ہوں اور ان کی پوزیشن برقرار رہے۔اگر یہ طبقہ سیاست میں سرمایہ کاری نہ بھی کرے تو بھی ان کی پوزیشن مستحکم ہی رہتی ہے،کیوں کہ وہ انتخابی عمل میں اپنا سرمایہ لگا دیتے ہیں اور خود سول سوسائٹی کے اداروں کی تشکیل کرتے ہیں، یعنی کہ اشرافیہ اپنی پوزیشن کا ہر قسم کا استعمال کر سکتی ہے لیکن بس ان کی پوزیشن تک کوئی اور نہیں پہنچ سکتا۔
liberal meritocratic capitalist نظام میں اشرافیہ تو مزید محفوظ ہو گئی لیکن معاشرے کے دیگر افراد میں اس نظام کے خلاف غصہ بڑھنے لگا۔ مغرب میں عالمگیریت کے بارے میں جو بے چینی پائی جاتی ہے اس کی بڑی وجہ مخصوص اشرافیہ اور عوام کے درمیان بڑھتا ہوا فرق ہے۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ عالمگیریت سے انھیں کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا،بلکہ عالمی تجارت اور امیگریشن سے ان کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔اب یہ بات غلط ہے یا صحیح لیکن عوام کی سوچ یہی ہے۔حیرت انگیز طور پر یہ صورتحال ۷۰ کی دہائی میں تیسری دنیا کے ممالک (برازیل، ترکی، نائیجیریا) میں پیدا ہونے والے انتشار سے ملتی جلتی ہے۔جب ان کی بورژوا کلاس تو عالمی معاشی نظام سے فائدہ اٹھا رہی تھی لیکن ان کے ممالک اس دوڑ میں کافی پیچھے کھڑے رہ گئے تھے۔یہ مسئلہ جو کہ پہلے صرف ترقی پذیر ممالک کے ساتھ پیش آتا تھا اب ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ ’’عالمی شمال‘‘کو بھی درپیش ہے۔
چین:سیاسی سرمایہ دارانہ نظام
ایشیا میں عالمگیریت کی ساکھ یورپ جیسی نہیں ہے۔ ایک سروے کے مطابق ویتنام کے ۹۱ فیصد لوگ عالمگیریت کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ چین اور ویتنام ہی وہ کمیونسٹ ممالک ہیں جہاں سرمایہ دارانہ نظام میں تبدیلی کی بنیاد ڈالی گئی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی ۱۹۴۹ء میں قومی انقلاب (غیر ملکی قبضے کے خلاف) اور معاشرتی انقلاب (جاگیردارانہ نظام کے خلاف) کے بعد اقتدار میں آئی، جس کی وجہ سے انھوں نے ایسے تمام نظریات اور روایات جو معاشی ترقی کی رفتار کم کرنے اور مصنوعی ذات پات کے نظام کو تشکیل دینے میں مدد دیتے تھے، ان سب کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے برعکس بھارت کی جدوجہد آزادی جس میں انتہا پسندی نسبتاً کم تھی، وہ ذات پات کے سسٹم کو ختم کرنے میں ناکام رہی۔ طویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت دیکھا جائے تو بیک وقت دو انقلابات نے سرمایہ د ارانہ نظام کے ایک مخصوص طبقے کی بنیاد ڈالی اور اس طبقے نے معیشت کو آگے بڑھایا۔ ویتنام اور چین میں کمیونسٹ انقلاب نے بالکل وہی کام کیا جو انیسویں صدی میں یورپ کے اندر بورژوا کلاس کی تشکیل اور ان کی اٹھان کی وجہ بنا تھا۔
چین میں طاقتور ریاست کی نگرانی میں جاگیردارانہ نظام بہت تیزی سے سرمایہ دارنہ نظام کی طرف پلٹا۔ اس کے برعکس یورپ میں جاگیردارانہ نظام آہستہ آہستہ ختم ہوا اور یہاں ریاست کا سرمایہ دارانہ نظام کی طرف پلٹنے میں کوئی خاص کردار نہیں تھا۔ اس تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں، اگر چین، ویتنام اور خطے کے دیگر ممالک میں آمرانہ عکس نظر آتا ہے۔
سیاسی سرمایہ دارنہ نظام کی تین بنیادی خصوصیات ہیں۔ پہلی یہ کہ ریاست ’’ٹیکنو کریٹک بیوروکریسی‘‘ کے ذریعے چلائی جاتی ہے اور معاشی ترقی کو اس نظام کے صحیح ہونے کا جواز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔دوسری، اگرچہ ریاست کے قانون ہوتے ہیں، لیکن لاگو ان کو اپنی مرضی سے کیا جاتا ہے، زیادہ تر قوانین اعلیٰ طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔وہ جب چاہیں ان قوانین کی پاسداری نہ کریں اور چاہیں تو اپنے مخالفین کو سزا دلوانے کے لیے ان قوانین کو پوری شدت کے ساتھ لاگو کروائیں۔
قانون کی حکمرانی کے حوالے سے اس طرح کی صورت حال نے سیاسی سرمایہ دارانہ نظام کی تیسری خصوصیت کی تعریف کی، ریاست کی ضروری خود مختاری۔ اگر کسی ریاست کو فیصلہ کن انداز اختیار کرنا ہو تو یہ ضروری ہے کہ اس کی راہ میں قانونی رکاوٹیں حائل نہ ہوں۔ ٹیکنوکریٹک بیوروکریسی اور قوانین کی حکمرانی کے عمل میں نرمی کی وجہ سے کرپشن کا راستہ کھلتا ہے اور کرپشن اس ’’سیاسی سرمایہ داری‘‘ کا لازمی جز ہے اور اس کو اب مسئلہ بھی نہیں سمجھا جاتا۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے ایشیا میں موجود ان خصوصیات کی حامل، بظاہر کمیونسٹ نظر آنے والی ریاستوں نے بے پناہ معاشی ترقی کی۔ ۱۹۹۰ء سے ۲۰۱۷ء تک ۲۷ برس کے عرصے میں امریکا کی شرح نمو صرف دو فیصد رہی، جب کہ چین کی ۸ فیصد اور ویتنام کی ۶ فیصد رہی۔
تاہم اس تیز ترین ترقی کا منفی پہلو یہ ہے کہ چینی معاشرے میں عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔ شہروں اور دیہی علاقوں میں، ہنرمند طبقے اور غیر ہنر مند طبقے میں، مرد اور خواتین کے درمیان،نجی طبقے اور سرکاری شعبے کے درمیان تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ مغربی معیشت کی طرح چین میں بھی نجی افراد کی دولت کا تناسب بڑھ رہا ہے۔
چین میں نئی سرمایہ دارانہ اشرافیہ وجود میں آچکی ہے۔ ۱۹۸۸ء میں صنعتوں میں کام کرنے والے ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد، سرکاری عہدیدار زیادہ آمدن رکھنے والوں میں غالب تھے۔ لیکن ۲۰۱۳ء کے اعدادوشمار کے مطابق زیادہ آمدنی والے لوگوں میں کاروباری افراد اور پروفیشنلز کا تناسب بہت بڑھ چکا ہے۔
چین میں ابھرنے والے اس اعلیٰ طبقے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس طبقے کے آبا و اجداد بالکل نچلے طبقے سے ترقی کر کے یہاں پہنچے ہیں، یعنی موجودہ اشرافیہ کے دادا یا اس سے پہلے کی نسل میں بیشتر لوگ کسان تھے یا صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور۔ لیکن تھوڑے عرصے بعد یہ اعلیٰ طبقہ بھی مغرب کی طرح کا ہو جائے گا۔کیوں کہ آنے والی نسل کا تعلق اپنے آبا و اجداد سے ٹوٹ چکا ہو گا اور اشرافیہ میں شامل ہونے کے لیے اعلیٰ تعلیم،بھاری سرمائے، خاندانی پس منظراور سیاسی اثرورسوخ کا ہونا ضروری ہو گا۔
مغرب کے برعکس یہاں کا سرمایہ دارانہ طبقہ کافی مختلف ہے اور یہاں قوانین اس طرح کے ہیں کہ اداروں کی ملکیت اور حکومتی ملکیت میں بہت کم فرق نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے چین میں حکومت نے اشرافیہ کے طبقہ کو مکمل کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔
گزشتہ ایک صدی سے چین میں بہت سی ریاستیں قائم رہی ہیں، جن کو مرکزی سطح پر کنٹرول کیا جاتا رہا ہے اور ان ریاستوں میں کسی بھی موقع پر تاجروں کو اقتدار کا مرکز، یا مرکزی کھلاڑی بننے نہیں دیا گیا۔ فرانسیسی اسکالر Jacques Gernet کا کہنا ہے کہ ’’تیرہویں صدی کی Song Dynasty میں دولت مند افراد یکساں مفادات کی وجہ سے کبھی بھی ایک منظم گروہ بننے میں کامیاب نہ ہو سکے،جب بھی انھوں نے ایسی کوشش کی، ریاست ان کی راہ میں حائل ہوگئی۔ اگرچہ تاجر انفرادی طور پر تو خوشحال ہوتے چلے گئے (جیسا کہ آج کل چین کی اشرافیہ ہو رہی ہے)، تاہم وہ اپنے سیاسی اور معاشی ایجنڈے کی زبردستی تکمیل کے لیے ایک مربوط گروہ بننے میں ناکام رہے‘‘۔ یہ صورتِ حال اٹلی اور یورپ کے دیگر تاجروں سے یکسر مختلف تھی۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ سیاسی اثرورسوخ کے بنا سرمایہ دارانہ طبقے کا اس طرح خوشحال ہوتے رہنے کا یہ ماڈل چین اور دیگر سرمایہ دار ممالک میں برقرار رہے گا۔ (۔۔۔ جاری ہے!)
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“The Clash of Capitalisms”.(“Foreign Affairs”. January/February 2020)
Leave a Reply