آزادی جسے بشریت کی بنیادی ترین اَقدار میں شمار کیا جاتا ہے اور تمام مکاتبِ فکر و فلسفہ نے اسے سراہا ہے‘ ایک ایسا مفہوم ہے جس کو اگرچہ کہا تو بدیہی جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہر مکتبِ فکر و فلسفہ نے اپنے اپنے مفروضات کے مطابق اس کی تعریف اور تفسیر کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے موضوع پر علما اور دانشوروں کے درمیان کافی حد تک اختلاف نظر دکھائی دیتا ہے۔ ہمارا موضوع اسلام میں آزادی اور اس کی حدود ہے اور یہ واضح کرنا ہے کہ اسلام نے آزادی کا کیا تصور پیش کیا ہے؟ کیا اسلام مطلق آزادی کا قائل ہے یا نہیں؟ بلکہ اسلام نے آزادی کی جو حدود و قیود معین کی ہیں وہ کون سی ہیں؟ مگر اس موضوع پر بحث کرنے سے پہلے خود آزادی کے مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے‘ اس لیے کہ آج اگر دنیا کے مختلف مکاتب فکر اور مذاہب کے درمیان آزادی کے حوالے سے اختلاف نظر پایا جاتا ہے تو اس کی ایک اہم وجہ خود آزادی کے مفہوم کا واضح نہ ہونا ہے۔ دین اسلام جو کہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور جس نے ہر مقام پر انسانیت کی راہنمائی کی ہے اور بشریت کو درپیش مسائل کا خوب صورت حل پیش کیا ہے‘ آزادی کے حوالے سے بھی ایک خاص نقطۂ نظر رکھتا ہے۔
اس مقالے میں ہم آزادی کے حوالے سے اسلام کے نقطۂ نظر کو قرآن اور ائمہ کے حوالے سے بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ جہاں مفہوم آزادی پر بحث ضروری ہے‘ وہاں یہ فرق بتانا بھی لازم ہے کہ مغرب میں آزادی کا کیا تصور ہے اور اس حوالے سے اسلام اور مغربی تفکر میں بنیادی فرق کیا ہے؟ تو آئیے سب سے پہلے آزادی کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آزادی کا مفہوم
آزادی جس کو عربی میں حریت (Freedom) کہا جاتا ہے‘ ایک ایسا کلمہ ہے جس کے مختلف معانی بیان ہوئے ہیں اور کوئی ایک جامع معنی بیان کرنا مشکل ہے۔ چونکہ آزادی کا لغوی معنی بہت ساری چیزوں کو واضح نہیں کرتا‘ اسی لیے مختلف علوم میں اس کے الگ الگ معانی بیان کیے گئے ہیں۔
آزادی کی۔۔۔ فلسفہ‘ اخلاق‘ سیاست‘ حقوق اور جامعہ شناسی۔۔۔ ہر ایک میں الگ تفسیر و تشریح کی گئی ہے۔ لہٰذا پہلے ان علوم میں آزادی کے بیان کردہ مفاہیم کا ذکر کرتے ہیں۔ فلسفہ و کلام میں جب کہا جاتا ہے کہ انسان آزاد ہے تو اس سے مراد انسان کا مختار ہونا لیا جاتا ہے‘ یعنی انسان مجبور نہیں ہے۔ اس تعریف کے بارے میں ایران کے معروف اسکالر آیت اﷲ مصباح یزدی فرماتے ہیں کہ یہ تعریف افراطی ہے کیونکہ اس تعریف کے مطابق تمام چیزیں انسان کے اختیار میں ہیں کہ انسان جب چاہے اور جو کام کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ جان پول کا مشہور جملہ اسی نظریے کی ترجمانی کرتا ہے جو اس نے ویتنام کی جنگ میں کہا تھا ’’اگر میں ارادہ کروں تو ویتنام کی جنگ ختم ہو جائے گی‘‘۔ یہ جملہ جہاں انسان کی قوت ارادہ کو ظاہر کرتا ہے‘ وہاں یہ بھی بتاتا ہے کہ انسان کس قدر آزاد ہے۔
صدر اسلام میں بھی اسی سے متشابہ یہ بحث رہی ہے کہ آیا انسان ذاتاً و تکویناً آزاد ہے یعنی کسی بھی کام کے کرنے‘ سوچنے اور کسی چیز کے انتخاب کرنے کی قدرت رکھتا ہے یا نہیں۔ یا وہ ایمان و عقیدہ‘ اور ماحول اور میراث جیسے عوامل کے تابع ہے اور یہ عوامل جس عقیدے کا تقاضا کریں‘ وہ ویسا عقیدہ اپنا لیتا ہے۔
علم اخلاق میں آزادی پر ایک اور انداز سے بحث کی جاتی ہے کہ کیا کوئی طاقت اخلاقاً انسان کو کسی کام پر مجبور کر سکتی ہے یا نہیں؟ اور کیا اچھے اور برے کام کے انتخاب میں انسان آزاد ہے؟ مثال کے طور آیا اخلاقاً انسان کے لیے سچائی کو حسن اور جھوٹ کو قبیح جاننا ضروری ہے یا نہیں اور علم اخلاق میں اس کی کوئی بنیاد ہے کہ نہیں؟
اخلاقی آزادی کی ایک اور تفسیر شیعہ علمائے اخلاق نے بیان کی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کی تمام فضیلتوں کی بنیاد حریت اور آزادی ہے یعنی انسان جب فضیلتوں کو حاصل کرتا ہے اور کمالات کو پاتا ہے تو حقیقت میں شہوت اور شیطانی قوتوں سے آزادی حاصل کر لیتا ہے اور ان ہی منفی صفات یعنی رذائل سے رہائی سے مولودہ عزت‘ کرامت‘ عفت‘ پاک دامنی اور ایثار و فداکاری جیسے اخلاقی فضائل کو آزادی کا نام دیا جاتا ہے اور حضرت امام حسینؓ نے کربلا میں اس وقت جب لشکر اعدا میں سی کسی نے یہ کہا کہ خیام حسینی کی طرف دشمن بڑھ رہا ہے‘ فرمایا کہ اگر تمہارا کوئی دین نہیں تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد مرد تو بنو۔
فخرالدین رازی اپنی کتاب ’’مباحث مشرقیہ‘‘ میں حریت کو اخلاق کی اساس و بنیاد بیان کرتے ہیں۔ یہ اخلاقی آزادی بھی ہمارا موضوع بحث نہیں کیونکہ عصر حاضر میں جب بھی آزادی کی بات کی جاتی ہے تو اس سے نہ اخلاقی آزادی اور نہ فلسفی آزادی کوئی بھی مراد نہیں ہوتی۔ ایک اور قسم کی آزادی حقوق کی آزادی ہے۔ حقوق میں جب آزادی کی بحث کی جاتی ہے تو حقیقت میں اس سے مراد یہ سوال اٹھانا ہوتا ہے کہ انسان اپنے حقوق کے لحاظ سے کتنا آزاد ہے؟
یہاں یہ نکتہ بھی واضح کرتے چلیں کہ اخلاقی آزادی اور حقوقی آزادی میں فرق ہے۔ حقوقی آزادی کا دائرہ کار انسان کا انفرادی عمل نہیں ہے۔ اگر کوئی شکم پرست ہے تو حقوقی آزادی سے اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن اخلاق اس کی اجازت نہیں دیتا جب کہ اخلاقی آزادی میں انفرادی اعمال بھی شامل ہیں۔ حقوقی آزادی کا دائرہ کار اجتماعی امور اور اجتماعی تعلقات ہیں یعنی اجتماعی رابطوں کے لیے کچھ قوانین وضع کیے جائیں اور حکومت ان قوانین کا نفاذ کرے۔ حقوق میں بحث کی جاتی ہے کہ کیا انسان حق مالکیت رکھتا ہے یا نہیں؟ کیا وہ کسی سیاسی گروہ یا پارٹی کے انتخاب کا حق رکھتا ہے اور اسی طرح سیاسی امور میں مداخلت کے لیے آزاد ہے اور اپنی نجی زندگی میں کیا اسے اختیار حاصل ہے کہ جو چاہے کرے؟ یا پھر آزادیٔ بیان و عقیدہ کی بات کی جاتی ہے اور یا آزادی قلم و صحافت پر بحث ہوتی ہے۔
پس آج کل کے معاشرے میں جس آزادی کی بات کی جاتی ہے‘ وہ حقوق کی آزادی ہے۔ یعنی کس حد تک انسان اپنے عمل میں آزاد ہے تاکہ اسے اس عمل پر سزا نہ دی جائے۔ ممکن ہے ایک فعل اخلاقی لحاظ سے برا ہو لیکن قانونی طور پر انسان کو انجام دینے کا مجاز ہو مثلاً ہم جنس بازی اخلاقاً شدت سے ممنوع ہے لیکن قانوناً بھی ممنوع ہے یا نہیں؟ پس آزادی سے مراد حکومت کے مقابلے میں آزاد ہونا ہے یعنی اصول یہ ہے کہ ہر آدمی آزاد ہے۔ جیسے اس کا دل چاہے کرے کوئی رکاوٹ کا حق نہیں رکھتا۔ مثلاً اگر کسی کا دل چاہتا ہے کہ وہ ننگا بازار میں آئے تو کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہونا چاہیے کہ تم نے لباس کیوں نہیں پہنا۔ آج مغربی ممالک میں جس آزادی کی بات کی جاتی ہے‘ اس سے مراد اس قسم کی آزادی ہے۔ اسلام کے بعض قوانین پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ انسان کی آزادی کو محدود کرے۔
اس بحث کی روشنی میں کسی حد تک آزادی کا مفہوم واضح ہو گیا ہے کہ آزادی سے مراد آزادی تکوینی اور فلسفی نہیں ہے اور اسی طرح اخلاقی آزادی بھی مراد نہیں ہے بلکہ زیادہ تر مورد بحث سیاسی اور حقوق کی آزادی ہے اور اسی آزادی سے دین کے انتخاب اور دین کے بدلنے کی آزادی کی بات کی جاتی ہے۔
قرآن کی نظر میں مفہوم آزادی
قرآن میں آزادی کے حوالے سے اکثر علما نے جس آیت کو سب سے زیادہ موضوع بحث قرار دیا ہے وہ ہے لا اکراہ فی الدین (البقرۃ:۲۵۶) ہے۔ آزادی کے مفہوم سے سوء استفادہ کرنے والے لوگ اسی آیت کو اپنے لیے سند بناتے ہیں اور جب کسی کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا جاتا ہے تو وہ اسی آیت کا سہارا لے کر اپنے آپ کو تحفظ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ مفسر قرآن حضرت علامہ طباطبائی اسی آیت کے ضمن میں اپنی کتاب ’’المیزان‘‘ میں فرماتے ہیں: الا کراہ ھو الاجبار والحمل علی فعل بغیر وحی فرمایا ایمان اور اعتقاد امور قلبی میں سے ہے اور جبر امور قلبیہ میں حکم نہیں لگا سکتا۔ جبر فقط اعمال ظاہری اور بدنی افعال و حرکات میں مؤثر ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ بعد والی آیت قد تبین الرشد من الغی‘ لا اکراہ کی علت ہے یعنی کیونکہ ہدایت اور گمراہی واضح ہو چکی ہے لہٰذا اکراہ کی ضرورت نہیں‘ یعنی اسلام کے حقائق اتنے روشن اور واضح ہیں کہ کسی کو مجبور کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام صرف تلوار اور خون پر قائم نہیں۔ لہٰذا یہ جو کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کا دین ہے‘ یہ غلط ہے اور جہاد کا معنی بھی ہرگز یہ نہیں ہے بلکہ پہلے مرحلے میں اسلام کی تعلیمات اتنی منطقی اور عقلی ہیں کہ نوبت تلوار تک آتی ہی نہیں یا کم آتی ہے۔ آقائے محسن قرائتی اپنی کتاب ’’تفسیر نور‘‘ (ج۱) میں اسی آیت کے ذیل میں یوں گویا ہیں:
’’قلبی ایمان جبر سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ برہان اور اخلاق اور موعظہ سے دلوں میں نفوذ کرتا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر فرد جو چاہے کرے اور جس برائی کا چاہے مرتکب ہوتا رہے اور کہے کہ میں آزاد ہوں اور کوئی مجھے اس کام سے روکنے کا حق نہیں رکھتا۔ اسلام کے قوانین تعزیرات‘ حدود‘ دیت اور قصاص‘ نہی عن المنکر اور جہاد وغیرہ اس بات کی دلیل ہیں کہ کسی کو حق نہیں ہے کہ معاشرے کے لیے اذیت کا باعث بنے بلکہ کچھ حدود و قیود ہیں۔ لہٰذا ہر گز اسلام کے قبول کرنے میں اسلام زبردستی کا قائل نہیں ہے‘ وہ اسلام جو کافروں کو کھلے عام یہ دعوت دیتا ہے کہ قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صدقین اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو برہان اور دلیل لائو تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام کے قبول کرنے میں جبر سے کام لے۔ یعنی جو دین منطق و برہان اور محکم دلائل رکھتا ہے اس کو مجبور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پس اس آیت سے مراد یہ ہے کہ عقائد میں زبردستی نہیں کی جاسکتی‘ افکار و عقائد میں زور و طاقت مؤثر نہیں ہے۔
صاحبِ کتاب ’’دین و آزادی‘‘ اسی آیت کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت کے معنی میں دو احتمال بیان کیے جاسکتے ہیں: (۱)دین میں جبر نہیں ہے چونکہ دین قلبی امور میں سے ہے اور اعتقاد و جبر جمع نہیں ہو سکتے۔ کسی کو دین کے قبول کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ اس دوسرے فرض کے مطابق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ابتدا سے ہی کسی کو دین پر لایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ کسی وقت اور کسی حال میں بھی دین میں جبر نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ قیامت تک دین کے مسئلے میں ایک فرد‘ دوسرے فرد کو کسی کام پر مجبور نہیں کر سکتا تو پھر جہاد کا جو حکم آیا ہے‘ اس کی کیا توجیہ کی جائے گی۔ قرآن نے فرمایا وقاتلواھم یعذبھم بایدیکم ’’ان سے لڑو تاکہ اﷲ تمہارے ہاتھوں سے انہیں عذاب دے اور انہیں رسوا کرے‘‘۔ کیا یہ حکم دین کا جز ہے یا نہیں؟ کیونکہ جس قرآن نے لا اکراہ فی الدین کہا ہے اسی نے ’قاتلواھم‘ بھی فرمایا ہے اور اسی قرآن نے ایک اور آیت میں یہ بھی فرمایا ہے وقاتلواھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین کلہ ﷲ ’’اور تم لوگ کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا اﷲ کے لیے خاص ہو جائے‘‘۔ پس معلوم ہوا ’لا اکراہ فی الدین‘ کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ دین میں ہر قسم کی آزادی ہے جیسا کہ بعض حضرات اس آیت کا معنی کرتے ہیں کیونکہ تمام قرآن شاہد ہے کہ مقام عمل میں بعض افراد کو کام کرنے پر مجبور کیا جانا چاہیے‘ جیسے چور کے بارے میں فرمایا کہ السارق والسارقہ فاقطعوا ایدیھما ’’اور چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو‘‘۔ پس ان بزرگ علماء کی بحث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے جہاں بعض امور میں آزادی دی ہے‘ وہاں دوسرے امور میں مجبور بھی کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام نے ہر ایک کو ہر قسم کی آزادی دے رکھی ہو۔
حقوق بشر اور آزادی
حقوق بشر میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ آیا انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے علاوہ بشر کے لیے کچھ ایسے فطری قوانین بھی موجود ہیں جو ہر قسم کے قانون سے بالاتر ہوں کہ کوئی حکومت ان قوانین سے چشم پوشی نہیں کر سکتی۔ آج کل حقوق بشر کے اعلامیہ میں ان حقوق کی بات کی جاتی ہے۔
بعض افراد کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ دین کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ بشر کی قانونی اور سیاسی آزادی کو محدود کرے بلکہ اسلام صرف نماز پڑھنے اور انفرادی عبادات کے لیے قانون وضع کر سکتا ہے اور حکومت دینی عنوان کے ساتھ لوگوں کے اس قانونی اور سیاسی حق کو سلب کر سکتی ہے اور نہ مختلف جرائم میں ملوث افراد کے ہاتھ کاٹے جاسکتے ہیں اور نہ ان کو جیل بھیجا جاسکتا ہے۔ آج کل مغرب میں آزادی کا یہی معنی مورد بحث ہے لیکن اسلام یہ کہتا ہے کہ ان تمام امور میں اسلام دخالت کا حق رکھتا ہے اور یہ حقیقت میں کسی کی آزادی کو سلب کرنا نہیں بلکہ ان کو غلامی سے نجات دلانا ہے۔ پس مغرب کے ان افکار کے مقابلے میں اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اسلام ان تمام امور کے لیے حق دخالت محفوظ رکھتا ہے۔ پس حقوق بشر کا صحیح معنی یہ ہے کہ انسان ہر مقام پر آزاد ہے اور یہ آیت انسان کے اسی حق حیات کو بیان کرتی ہے۔ من قتل نفساً بغیر نفس او فساد فی الارض۔۔۔ الخ (المائدۃ:۳۲) ’’جس کسی نے ایک کو قتل کیا جب کہ یہ قتل خون کے بدلے میں یا زمین میں فساد پھیلانے کے جرم میں نہ ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا‘‘۔ یعنی دو چیزیں انسان کے اس حق حیات کو سلب کر سکتی ہیں: زمین میں فساد اور دوسرا قتل۔ پس حکم قصاص جو اسلام نے قاتل کے لیے لازم قرار دیا ہے‘ وہ حقیقت میں نہ صرف حق حیات سے تعارض نہیں رکھتا بلکہ اس کے حق حیات کا محافظ ہے۔ پس واضح ہو گیا کہ دین اور قانون مصالح کی بنیاد پر آزادی کو محدود کر سکتا ہے‘ البتہ رہا یہ مسئلہ کہ کون سی مصلحت کی خاطر آزادی کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہمارے اور دوسرے مکاتبِ فکر کے درمیان مورد اختلاف ہے۔ ہم مسلمان مصالح معنوی کی خاطر آزادی کو محدود کرنے کے قائل ہیں جبکہ مغرب اور دشمنان اسلام صرف مصلحت مادی کو محدودیت کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ حضرت آقائے مصباح یزدی اسی مطلب کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمام دنیا میں پینے والے پانی کو زہر آلود کرنا جرم ہے اور جو یہ جرم کرے وہ سزا کا مستحق ہے کیونکہ لوگوں کی صحت کے لیے نقصان دہ کام کیا ہے اور اسی طرح اگر مارکیٹ میں کوئی ایسی چیز موجود ہو جو صحت کے لحاظ سے مضر ہو تو سب یہی کہیں گے اس کو نہ خریدا جائے‘ نقصان دہ ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایک ایسی چیز کو رواج دینا جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو‘ جرم جانا جاتا ہے اور قابلِ سزا ہے۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ ایک مادی مصلحت کی خاطر تو آزادی کو محدود کیا جاسکتا ہے لیکن کوئی ایسی حرکت اور جرم جو معاشرے کی روحانی اور معنوی مصلحت کے لیے ضرر رساں ہو اس کی خاطر آزادی کو کیوں محدود نہیں کیا جاسکتا؟
پس اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کے تمام قوانین حقوقِ بشر کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور کوئی قانونِ اسلام اگر کہیں انسانی آزادی کو محدود کرتا ہے تو وہ ایک عظیم انسانی مصلحت اور مقصد کی خاطر تاکہ اس انسان کو ابدی سعادت فراہم کر سکے۔ البتہ آج کی دنیا میں وہ مغرب جہاں ہمیشہ حقوقِ بشر کا نعرہ لگا کر مسلمانوں پر حملے کیے جاتے ہیں‘ سب سے زیادہ حقوقِ بشر کی پامالی وہیں ہوتی ہے۔
آزادی اور مختلف نظریات
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ دنیا کے کس مکتب اور آئیڈیالوجی میں مطلق آزادی کو قبول نہیں کیا گیا۔ کوئی بھی عقلِ سالم اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ہر فرد معاشرے میں آزاد ہے‘ اس کا جو دل چاہے کر سکتا ہے۔ پس تمام انسان اس اصول کو کم از کم قبول کرتے ہیں کہ اجتماعی زندگی میں افراد کے لیے محدودیت موجود ہے‘ بحث اور اختلاف ان حدود کے تعین کے حوالے سے ہے کہ یہ محدودیت کس حد تک ہے۔ اس حوالے سے آقائے مصباح کے نزدیک تین مشہور نظریات پائے جاتے ہیں:
۱۔ افراد کے لیے آزادی قانون کی حد تک ہے یعنی انسان وہاں تک آزاد ہے جہاں تک قانون اس کو اجازت دیتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے رکھنے والوں سے سوال یہ ہے کہ تم نے خود مقنن کے لیے یہ قانون کیوں بنایا ہے کہ وہ ہر قسم کا قانون نہیں بنا سکتا؟ پس اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون بنانے والا بھی محدود ہے۔ وہ ہر قسم کا قانون نہیں بنا سکتا۔ پس حقیقت میں تم بھی محدودیت کے قائل ہو۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمارا قانون اسلام ہے اور اسلام میں یہ محدودیت موجود ہے۔ لہٰذا کسی کو اسلام کے ان قوانین پر اعتراض کا حق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ کے بقول آزادی کی حد قانون ہے اور ہمارا قانون اسلام ہے۔
۲۔ آزادی اس حد تک کہ دوسروں کے حقوق پامال نہ ہوں۔ یہ نقطۂ نظر اگرچہ پہلے والے نظریے سے قدرے بہتر ہے مگر یہ نظریہ بھی ناقص ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان ایسے حقوق رکھتا ہو جن کا ذکر قانون میں نہ آیا ہو تو اس کو قبول کرنا چاہیے۔ پس اس نظریے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے لیے کچھ مشخص حقوق ہونے چاہئیں تاکہ پتا چلے کہ اس کام سے کسی کا حق سلب تو نہیں ہو رہا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ حقوق کون معین کرے گا اور اس کا معیار کیا ہے؟ پس یہ نقطۂ نظر بھی کامل نہیں کیونکہ حقوقِ بشر میں کوئی معیار معین نہیں ہے جس کے نتیجے میں کہا جاسکے کہ یہ حق ہے اور یہ حق نہیں۔ مثال کے طور پر عورت اور مرد کی میراث میں برابری مغرب والے کہتے ہیں کہ برابری والے قانون کے مطابق یہ میراث برابر ہونی چاہیے مگر اسلام یہ کہتا ہے کہ عورت کا حق ہی اتنا ہے کیونکہ اس کا نان نفقہ اس کے شوہر کی ذمہ داری ہے۔ پس یہ سوال اپنی جگہ پر باقی ہے کہ ان حقوق کو کون مشخص کرے گا اور اس کا معیار کیا ہو گا؟
۳۔ آزادی کی حد یہ ہے کہ دوسروں سے سلبِ آزادی نہ ہو۔ اس نظریے کو عام طور پر دین کے مخالف لوگ بیان کرتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر میں کیا نقص ہے‘ اس کو ایک مثال کے ذریعے واضح کرتے ہیں۔ اگر کوئی فرد سڑک پر آکر خود کو آگ لگا دے یا خودکشی کرے تو اس نظریے کی روشنی میں اس کو یہ آزادی حاصل ہونی چاہیے کیونکہ اس سے دوسروں کی کوئی آزادی سلب نہیں ہوتی۔ اس کی اپنی جان تھی۔ پس یہ عمل قانوناً جائز ہونا چاہیے اور اگر کوئی فرد اس خودکشی کرنے والے کو روکتا ہے تو کیونکہ اس نے ایک انسان کی آزادی کو سلب کیا ہے تو اس کو سزا ملنی چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا عقل اس بات کو قبول کرتی ہے؟
پس آزادی کے حوالے سے بیان کیے جانے والے تینوں نظریات ناقص ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جس معاشرے میں عریانی اور فحاشی پھیلا کر جوانوں کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے‘ کیا یہ بھی سلب آزادی ہے یا نہیں؟ اگر ایک خاتون نیم عریاں لباس اور میک اَپ کر کے جوانوں کے سامنے اپنی نمائش کرتی ہے‘ بالخصوص ان جوانوں کے سامنے جو شادی کی قدرت نہیں رکھتے‘ کیا اس سے ان کے جذبات مجروح نہیں ہوتے؟ یہ فعل دوسروں سے آزادی کو سلب کرنا کہلائے گا یا نہیں؟ یقینا یہ دوسروں کی آزادی کو سلب کرنا ہے اور ان برے اعمال سے معاشرے میں ایسے منفی اثرات پیدا ہوتے ہیں جو انسان کے لیے فساد یعنی اس کے الٰہی سفر میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ لہٰذا اسلام نے ان کو محدود کیا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں خطاب ہوا ولا تبر جن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ ’’اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو‘‘۔
آزادی اور حجاب
اسلام کے حجاب والے حکم پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ حکم خواتین کی آزادی سے منافات رکھتا ہے اور خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہے اور ایک لحاظ سے مقامِ انسانیت کی توہین ہے کیونکہ انسان کا شرف و مقام اس کے حقوق میں سے ہے اور حجاب کو لازم قرار دینا ایک قسم کا ظلم ہے اور خواتین کی آزادی کو سلب کرنا ہے۔ عالمِ اسلام کے عظیم مفکر شہید بزرگوار شہید مطہری اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ عورت کو گھر کی چار دیواری کے اندر بند کرنا اور ہے اور حجاب اور چیز ہے۔ ان دونوں میں فرق ہے‘ اسلام نے عورت کو گھر میں قید رکھنے کی بات نہیں کی بلکہ اس پر پردے کی ذمہ داری عائد کی ہے یعنی عورت جب کسی نامحرم کے سامنے آئے تو اس کے لباس کی ایک خاص کیفیت ہونی چاہیے اور یہ نہ عورت کی آزادی کو سلب کرنا ہے اور نہ دوسروں کے حقوق کی پامالی ہے۔ بلکہ صالح معاشرے کی تشکیل اور اجتماعی مصلحتوں کی خاطر عورت اور مرد‘ دونوں کی کچھ ذمہ داری بنتی ہے۔ لہٰذا حجاب عورت کے لیے نہ صرف محدودیت نہیں ہے بلکہ اس کے احترام و کرامت میں اضافے کا باعث ہے۔ اسلام نہ عورت کے گھر سے باہر آنے کا مخالف ہے‘ نہ مارکیٹ میں شاپنگ کا مخالف ہے‘ بلکہ صر ف یہ تقاضا کرتا ہے کہ عورت جب گھر سے باہر نکلے تو اس انداز اور اس لباس میں نہ آئے جو دوسروں کے جذبات کو ابھارنے کا باعث بنے اور اس کا چلنا اور حرکات ایسی نہ ہوں جس سے معاشرے پر منفی اثرات پڑیں۔
اسلام میں غلامی کا تصور
مغرب کی طرف سے اسلامی قوانین پر جہاں اور بہت سارے اعتراضات کیے جاتے ہیں‘ وہاں ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر اسلام آزادی کو ایک قدر (Value) جانتا ہے تو پھر غلامی کا تصور جو اسلام کے اندر پایا جاتا ہے‘ وہ کیوں ہے؟ کیا یہ انسان کے مقام و شرف کے خلاف نہیں ہے؟ اس کا جواب واضح ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں صرف ایک مقام پر غلام بنانا جائز ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کافر حربی سے جنگ ہو جائے تو کچھ مخصوص شرائط کے تحت اس کو غلام بنایا جاسکتا ہے۔ اب ان قیدیوں کے متعلق چند کام فرض کیے جاسکتے ہیں:
۱۔ ان کو آزاد کر دیا جائے۔ یہ عاقلانہ کام نہیں ہے کہ مغلوب دشمن کو دوبارہ موقع ملے اور وہ پھر سے تیاری کر کے حملہ کرے۔
۲۔ ان کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے۔
۳۔ ان قیدیوں کو تمام مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے تاکہ مسلمان ان کی تربیت کریں اور نتیجتاً یہ آہستہ آہستہ اسلام قبول کر لیں۔ پس یہ تیسرا فرض معقول دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا یہ مقامِ انسانی کی توہین نہیں ہے۔ پس یہ غلامی حقیقت میں کفار کے لیے بہت بڑی خدمت ہے۔ اس کے علاوہ استعمار و استکبار و استبداد کی غلامی کی اسلام نفی کرتا ہے اور اسلام کا پیغام ایسی غلامی سے نجات دلانا ہے۔
نتیجہ
اسلام انسان کی آزادی کو انسانی قدر سے تعبیر کرتا ہے اور اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی آزادی کی حفاظت کرے لیکن آزادی اسلامی قانون کے سائے تلے اور اسلامی حدود کے اندر ہونی چاہیے۔ امام خمینیؒ نے اسی آزادی کو قانونی آزادی کا نام دیا ہے اور قانونی آزادی سے مراد بھی اسلامی قوانین کے تحت آزادی ہے اور یہ آزادی حقیقت میں انسان کے فطرتی تقاصوں کے مطابق ہے اور یہ آزادی انسان کی ترقی میں نہ صرف رکاوٹ نہیں بلکہ اس کے الٰہی سفر میں معاون اور مددگار بھی ہے۔
(بشکریہ: سہ ماہی ’’پیغام آشنا‘‘ اسلام آباد۔ جولائی تا ستمبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply