
اس مقالے میں مصنف نے مختصر جملوں اور سادہ زبان میں اسلام کے تصوّرِ انسان پر مقالہ نگاری کے عام انداز سے ہٹ کر بحث کی ہے اور اس مشکل موضوع کو عام مسلمانوں کے لیے سہل بنا دیا ہے اور داعی حضرات کے لیے مختصر وقت میں ضروری معلومات بہم پہنچا دی ہیں۔ امید ہے کہ قارئین اس کوشش کو پسند فرمائیں گے۔ (ادارہ)
مساوات:
اسلام کی نظر میں سارے انسان برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سب ایک آدم علیہ السلام اور ایک حوا ؑکی اولاد ہیں اور اس رشتے سے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ سب ایک خدا کے بندے ہیں اور وہی سب کا پرودگار ہے۔ خدا کی رحمتیں سب کے لیے عام ہیں اور اس کی ہدایت بھی سارے انسانوں کے لیے یکساں ہے۔
انسان جوڑے کی شکل میں پیدا ہوا ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان اسلام کے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ دونوں نوعیں ایک ہی جنس ہیں اور ایک ہی جان سے پیدا کی گئی ہیں۔ اس لیے آپس میں ہم مرتبہ ہیں۔ مرد ہو یا عورت، دونوں یکساں طور سے اپنے عمل کا بدلہ پانے کے حق دار ہیں اور جس طرح عورت پر مرد کے حقوق ہیں اسی طرح مرد پر عورت کے بھی حقوق ہیں۔
انسانوں کے درمیان نسل و نسب کی بناء پر کوئی امتیاز روا نہیں، ان کے درمیان قبیلوں اور خاندانوں کی بنیاد پر بھی کوئی اونچ نیچ نہیں، قبیلے اور گروہ صرف شناخت کے لیے ہیں، فخر و مباہات کے لیے نہیں۔
انسان عظیم ہے:
عیسائیت اور کچھ دیگر مذاہب انسان کو ازلی و پیدائشی گناہگار مانتے ہیں مگر اسلام ایسا تسلیم نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک انسان فطرتاً خیر پسند ہے۔ نیکی اور بدی کا شعور اسے ودیعت کیا گیا ہے۔ اس کا جسم ارضی ہے اور اس کی روح خداوندی ہے۔
انسان کائنات کی سب سے اشرف مخلوق ہے۔ انسان کو حواس اور شعور کی طاقتیں عطا کی گئی ہیں۔ اسے بہترین صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے جن کے ذریعے وہ اس زمین پر حکمرانی کر سکتا ہے۔ کائنات کو اس کے لیے مسخر کر دیا گیا ہے۔ سورج، چاند، تارے، بادل، ہوائیں، سمندر، جانور ٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗاور درخت سب اس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔
کائنات کی دوسری موجودات کی طرح انسان مجبور محض نہیں ہے بلکہ اسے ارادے کی آزادی دی گئی ہے۔ اسے اختیار مرحمت کیا گیا ہے وہ اپنے اختیار اور اپنے ارادے سے اپنے فیصلے کرتا ہے۔
انسان کی جان و مال، اس کی عزت اور اس کی آبرو محترم ہے۔ انسان کی نجی زندگی بھی محترم ہے۔ دنیا کے تمام جانداروں سے وہ جدا اور ممتاز ہے۔ اس لیے اس کے کچھ خصوصی بنیادی حقوق ہیں۔ انسان کی روح فنا نہیں ہوتی اور اس کی زندگی کے تغیّرات اس کی موت کے بعد بھی جاری رہتے ہیں۔
انسان کی کمزوریاں کیا ہیں؟
ہر انسان کو ایک روز موت آنی ہے۔ابدی زندگی کسی کے لیے نہیں ہے۔ خوشحالی میں اکڑ جانا اور مصیبت میں خدا کو یاد کرنا اس کی فطرت ہے۔ وہ تفرقہ پسند ہے وہ اکثر غلط چیز کو حق سمجھ لیتا ہے اور اس کے لیے دلائل کے انبار لگا دیتا ہے۔
وہ مال و دولت اور مادی وسائل کا لالچی ہے۔ عورتیں، اولاد، سونے، چاندی کے ذخیرے، مویشی اور کھیتیاں، بس دنیاوی زندگی کی اسی رونق پر وہ جان دیتا ہے۔
انسان تھڑڈلا ہے۔ دوسرے کی مدد کے بجائے نمائش اور پروپیگنڈا اسے زیادہ پسند ہے۔
انسان عجلت پسند ہے اور ہر چیز کا نتیجہ جلد از جلد دیکھ لینا چاہتا ہے۔ مال و دولت میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی ہوس اسے قبر میں پہنچا دیتی ہے۔ وہ ذرا فارغ البال ہو جائے تو خاکساری کی جگہ سرکشی کا رویہ اپنا لیتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مضبوط ایمان اور بلند کردار سے محروم ہو کر انسان ہمیشہ گھاٹے ہی میں رہا ہے۔
دنیا میں انسان کی صحیح حیثیت:
انسان اس زمین پر خدا کا خلیفہ ہے۔ وہ اس زمین پر خدا کے احکامات کے شعوری نفاذ کے لیے بھیجا گیا ہے۔ خدا کی عبادت ہی اس کا مقصد وحید ہے۔
کائنات کی ذمہ داری اس کے حوالے کر کے اسے وہ امانت سونپی گئی ہے جس کا اہل کائنات میں کسی کو بھی نہیں سمجھا گیا ہے۔
خدا نے اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لیے اسے علم حقائق کائنات دیا ہے۔ اس لیے انسان کو اپنے علم کے خلاف کوئی عقیدہ یا عمل اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
انسان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ انسان کی کمزوریوں کا استحصال کر کے انسان کو اس کے مقصد وجود سے غافل کر دینا چاہتا ہے۔ شیطان خواہشات نفس کے ذریعے انسان کا شکار کر لیتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے اس دشمن سے وہ ہمیشہ چوکنّا رہے اور نفس شریر کی ترغیبات میں بہک کر راہ راست سے نہ پھسل جائے ورنہ وہ عذاب دوزخ کا مستحق ہو جائے گا۔
انسان کے لیے صحیح راہِ عمل:
شیطان کی انسان دشمنی کی وجہ سے انسان ایک مستقل آزمائش میں مبتلا ہے۔ اس کے سامنے خیرو شر کی دونوں راہیں کھلی ہیں۔ شیطان انسان کو شر کی جانب راغب کرتا ہے۔ انسان کی خیر پسندی اسے خیر کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ شیطان کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ گناہ کو پرکشش بنا کر انسان کو بہکا سکے تو شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے خدا نے انسان کو ایک اخلاقی حس عطا کی ہے جس کی بناء پر انسان خود جانتا ہے کہ وہ سیدھی راہ پر ہے یا غلط راہ پر۔
اللہ نے انسان کو ایک ضمیر عطا کیا ہے جو اسے نیکی کی رغبت دلاتا اور برائی سے نفرت دلاتا ہے۔ اس کے ساتھ انسان کے لیے خدا نے رسول بھیجے ہیں جو انسان کو سیدھی راہ بتاتے ہیں۔ خدا کی کتابیں نازل ہوتی ہیں جو انسان کو شیطان کا مقابلہ کرنے کا اہل بناتی ہیں۔ خود انسان کی ذات میں اور اس کی ذات سے باہر کائنات میں ایسی متعدد نشانیاں موجود ہیں جو خدا کے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔ خدا کی عبادت کا تقاضا اس کی فطرت میں ڈال دیا گیا ہے۔
خیر و شر کی اس کشمکش میں ہر انسان کے اعمال کا مکمل ریکارڈ تیار ہو رہا ہے۔ جو قیامت کے روز اس کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ اسی ریکارڈ کے مطابق انسان کے لیے جزا یا سزا کا فیصلہ ہو گا۔
ہر انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور کوئی دوسرا اس کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ نہ ہی خود عمل کیے بغیر انسان کوئی نتیجہ یا کوئی انعام حاصل کر سکتا ہے، اس کے مستقبل کا انحصار اس کی اپنی سعی و کوشش اور امتحان میں اس کے کامیاب ہو جانے پر ہے۔
انسان اپنے اعمال کے لیے اپنے خدا کے آگے جواب دہ ہے۔ اور خدا کی رضا مندی، نیز دائمی کامیابی حاصل کرنے کے لیے اسے شیطان سے رخ موڑ کر خدا کی طرف پلٹ آنا چاہیے اور اسی کی بتائی ہوئی راہ پر چلنا چاہیے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’آئین‘‘ مارچ ۲۰۰۳ء)
Leave a Reply