
’’ایک بالادست طاقت کا کام بین الاقوامی تنازعات حل کرنا ہے، اُنہیں پیدا کرنا نہیں‘‘۔ کرسٹوفر لین، دی امیریکن کنزرویٹو، یکم مئی ۲۰۱۰ء۔
سامراجیت کے نشے سے سرشار لوگوں کو اس حقیقت سے زیادہ کوئی چیز پریشان نہیں کرتی کہ شاید اس کا خاتمہ ہوجائے۔ طاقت کے ساتھ یہ رومان وقت کے ساتھ ہی چلتا ہے اور پرانے پھل کی طرح ضائع ہوجاتا ہے۔ بالآخر، الجھے ہوئے تضادات ہی آخر میں نمایاں ہوتے ہیں۔ امریکی سلطنت کے دن گنے جاچکے ہیں، مگر وہی بات، کہ ایسا ہمیشہ سے تھا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے موسمِ بہار کے حالیہ اجلاسوں میں یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ امریکی معاشی طاقت کم ہورہی ہے، چاہے اس کی وجہ ریاست کی اپنی خرابیاں ہوں یا چین جیسی دیگر ابھرتی ہوئی طاقتیں۔ بھارتی حکومت کے مرکزی معاشی مشیر اَروِند ُسبرامنیئن کہتے ہیں، ’’لوگ ان امور پر بہت زیادہ کھل کر بات نہیں کرتے، لیکن میں کہوں گا کہ رواں موسمِ بہار کے اجلاسوں کا یہ واحد سب سے اہم معاملہ تھا‘‘۔
یہ کچھ لوگوں کے لیے حیرت انگیز ہوسکتا ہے کہ آرام دہ کرسی پہ بیٹھنے والی امریکی طاقت اور پاک دامنی کی دفاعی فوج زیادہ تر بین الاقوامی نظریات کے اُن دانشوروں پر مشتمل ہے جن میں سے بہت سے ’’دی ویکلی اسٹینڈرڈ‘‘ نامی غیر اہم جریدے میں لکھتے ہیں۔ اسی کی عکاسی کرتے ہوئے میکس بُوٹ نے اکتوبر ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں لکھا کہ گزشتہ ماہ کے حملے ’’ناکافی امریکی مداخلت و جذبے کا نتیجہ ہے، حل یہ ہے کہ اپنے مقاصد کے لیے زیادہ خرچ کیا جائے اور ان کے نفاذ کی خاطر دباؤ بڑھایا جائے‘‘۔
مسئلہ خود براک اوباما ہیں۔ یہ لوگ اوباما انتظامیہ کو پسپا ہوتی حکومت سمجھتے ہیں اور یہ افسانوی انداز میں لکھنے والے بریٹ اسٹیفنز کا مرغوب موضوع ہے۔ اُن کی کتاب “America in Retreat: The New Isolationism and the Coming World Disorder” قارئین کو سرگردانی کے لیے دو نکتے فراہم کرتی ہے: اول، ایسی ’’تنہائی‘‘ موجود ہے جس کے بارے میں بات ہونی چاہیے؛ اور دوم، انتشار ایک فطری مسئلہ ہوگا۔
پہلا معاملہ اٹھاتے ہیں، اسٹیفنز کے نزدیک اوباما کی پسپائی ان کے اس چناؤ سے ظاہر ہوتی ہے، جب ’’وہ اقتدار میں اس عزم کے ساتھ آئے کہ ’ملکی سطح پر قوم سازی‘ (وہ ایسا کہنا پسند کرتے ہیں) کی خاطر امریکا کی عالمی ذمہ داریوں میں کمی کریں گے‘‘۔ اگر صرف بڑھتی تنہائی کی دلیل کو ہی سچ مانا جائے تو بھی اسٹیفنز امریکی طاقت کے اُس وسیع، مہنگے اور خطرناک پھیلاؤ کو بآسانی نظر انداز کردیتے ہیں جس میں دور دراز علاقوں میں ڈرون حملے، جعلی حکومتوں کی پشت پناہی اور بحرالکاہل کے اطراف شراکت داری جیسے مذاکراتی اقدامات شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ صدر وارن ہارڈنگ نے ۱۹۲۱ء میں جمعیتِ اقوام (League of Nations) مخالف مؤقف اور جنگ کے بعد عسکری ڈھانچے کو کمزور کرکے ا مریکا کو تنہائی پسندی کے راستے پر گامزن کیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’نتائج کا درست اندازہ لگائے بغیر بھاری اخراجات کرنا جنگ کا ناگزیر ثمر ہے‘‘۔ جنگیں، ریاست کے لیے کمائی کا مؤثر ذریعہ بننے کے بجائے، زیاں سے بھرپور مہم جوئی ہیں۔ سلامتی کی خاطر بننے والے ان اتحادوں سے دور رہنا چاہیے جو اکثر گھٹن سے بھرپور اور بدنما معانقے ہوتے ہیں۔
دیگر اقوام سے امریکی لاتعلقی کی دیومالا یہیں سے بننا شروع ہوئی جو کہ واضح جغرافیائی سیاسی (geo-political) انخلا تھا۔ ایسا کوئی تجزیہ بین الاقوامی معاشی نظام میں سب سے بڑی سرمایہ دارانہ معیشت کی حیثیت سے مسلسل امریکی مداخلت اور مختلف بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ (جن میں کسی حد تک جمعیتِ اقوام بھی شامل ہے) اس کی وابستگی کو نظر انداز کرے گا۔ اس دَور کا واشنگٹن خونی جبڑے کا حامل نہیں تھا۔
لیکن اسٹیفنز، سلطنت کے فلسفے پر قائم تاریخ کے بالغ نظری سے محروم نظریے پر یقین رکھنے والے اپنے ساتھیوں کی طرح، کہیں سے بھی امریکی پسپائی کی کوئی وجہ نہیں دیکھتے۔ مثال کے طور پر مشرقِ وسطیٰ میں مہم جوئی کو ہی لیجیے۔ ’’جبکہ ہم اس ملک کو پُرامن بناچکے تھے تو عراق سے نکلنے کی کوئی تذویراتی یا سیاسی ضرورت بھی نہیں تھی‘‘۔
قیامِ امن کی اس طرح کی کوششیں اپنے تباہ کن پہلو سمیت عرصے تک جاری رہتی ہیں، لیکن جب ذکر ہو حقائق کا تو آرام دہ کرسی پہ بیٹھ کر عسکریت کی باتیں کرنے والوں کی آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں۔ قدامت پسند کالم نگار جارج وِل سوچتے رہ گئے کہ تعمیرِ ریاست کے عمل میں کون سا عنصر مفقود تھا اور ناممکنات کی بات کی جائے تو بہت سادہ نتیجے تک پہنچے۔ ’’عراق جمہوری کامیابی سے محض تین افراد کی دوری پر ہے۔ بدقسمتی سے وہ تین افراد جارج واشنگٹن، جیمز میڈیسن اور جان مارشل ہیں‘‘۔
پھر معاملہ انتشار کا آتا ہے، جو اس اصول کو ساتھ لاتا ہے کہ بین الاقوامی نظام میں استحکام کے لیے بالادست طاقتوں سے بات ہونی چاہیے، بھلے آپ چاہیں یا نہ چاہیں۔ استحکام ایک ایسی چیز ہے جو بالادست کو سمندر پار مستحکم کرنے سے ملتی ہے اور چھوٹی ریاستوں کو چاہیے کہ خود کو پُرکشش ظاہر کرتے ہوئے بڑوں کے ساتھ آرام دہ تعلق بنائیں۔ مجوزہ استحکام کے اس نظام کو بڑی طاقت کے ایما پر ارتکازِ وسائل کے پرانے مگر مؤثر انداز کی جگہ نیک نامی کا ایک معاملہ سمجھا گیا۔ اسٹیفن ایم والٹ کے مطابق، ’’بڑی طاقتوں کی کشمکش کم کرکے واشنگٹن کو علاقائی طاقتوں کے مابین توازن پیدا کرنے کا اختیار دینے سے ایک پُرسکون بین الاقوامی ماحول کے قیام میں مدد ملی ہے‘‘۔ یہ سکون کس سطح کا ہے، یہ بات البتہ طے ہونا باقی ہے۔
سلطنتیں اپنے ماضی کی طرف پلٹتی ہیں، غیر ٹھوس نتائج تک پہنچتی ہیں اور طبعی وجوہات کی بنا پر لامحالہ دم توڑ دیتی ہیں۔ پھر بھی اسٹیفنز محتاط انداز میں یہ کہتے ہیں کہ امریکا پسپائی ضرور اختیار کررہا ہے، مگر وہ ’’زوال کا شکار نہیں ہے‘‘۔ اس میں اور دوسروں کی رائے میں کھلا تضاد ہے، مثلاً ٹیکساس کی اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے جارج بش اسکول برائے حکومت و عوامی خدمت کے کرسٹوفر لین، جو امریکا کو ’’بالادست کا مجوزہ کردار ادا کرنے سے مسلسل قاصر‘‘ سمجھتے ہیں۔
کوئی بھی صورت ہو، بالادستی کے شعبے میں ایسی طاقت کسی خطاب کی مستحق نہیں جو استحکام کی نگرانی کے بجائے مزید افراتفری پیدا کرے۔ جب اوباما نے ۲۰۱۱ء میں امریکا کو ایک اور تنازع میں دھکیلا تو دیگر مواقع پر جنگ کی حمایت کرنے والے ڈیوڈ فرم کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ ’’تین جنگیں بہت ہیں، حتیٰ کہ امریکا کے لیے بھی‘‘۔ کرسٹوفر لین کے حتمی تجزیے کی رُو سے، ’’امریکی بالادستی کا عروج اب خاتمے کے قریب ہے، اور بین الاقوامی سیاست تبدیلی کے دور میں داخل ہورہی ہے، جو یک قطبی نہیں ہوگی مگر پوری طرح کثیر قطبی بھی نہیں ہوگی‘‘۔
آخرکار جب پردہ گرے گا تو امریکی سلطنت کی بات کرنے والا کوئی نہیں ہوگا، گو کہ گھڑی اپنی ہلکی موسیقی کے ساتھ ٹک ٹک کررہی ہوگی۔ اس کی طاقت کی نوعیت بدستور تبدیل ہوتی رہے گی، جس کے ساتھ دیگر طاقتیں نمودار ہورہی ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا عمل آہستہ روی سے ہوتا ہے یا سلطنتیں غیر معتبر طریقے سے عمر پوری کرتی ہیں۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“Fearing the loss of hegemony: The concept of US retreat”. (“globalresearch.ca” April 21, 2015)
Leave a Reply