
مصر میں اِخوان المسلمون کا ایوانِ اقتدار سے نکالا جانا قبطی عیسائیوں کو اپنے مستقبل کے حوالے سے خاصا خوش آئند دکھائی دیا ہے۔ فیلڈ مارشل عبدالفتاح السیسی کا صدر کے منصب کے لیے امیدوار بننا عام قبطی عیسائیوں اور ان کے پیشواؤں کے لیے سکون کا ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ مگر خیر ایسا نہیں ہے کہ وہ بالکل پرسکون ہوکر بیٹھ جائیں۔ ملک کے کئی حصوں میں اب بھی شدت پسند مسلم خاصے متحرک ہیں۔ ان کی سرگرمیوں سے قبطی عیسائیوں کو خوف محسوس ہوتا ہے۔
قبطی کلیسا کے سربراہ پوپ ٹیواڈروز دوئم کو مصر کی سیاست کے حوالے سے یہ رائے دیتے وقت کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی کہ جنرل السیسی کا صدارتی امیدوار بننا قبطی عیسائیوں کے لیے طمانیت کا سبب ہے۔ ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے پوپ ٹیواڈروز دوئم نے کہا کہ جنرل السیسی کا صدارتی امیدوار بننا قومی فریضہ تھا۔ مصر میں بہت سے لوگ انہیں نجات دہندہ کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ عرب دنیا میں عوامی سطح پر بیداری کی لہر کے حوالے سے پوپ ٹیواڈروز نے کہا کہ عوامی بیداری کی لہر نے پورے خطے کو شدید انحطاط سے دوچار کیا اور شر پسند قوتوں کو ہماری قومی شناخت تاراج کرنے کا موقع ملا۔
ایک اور مثبت علامت یہ ہے کہ پوپ نے مصر میں نو ماہ کے دوران جاری رہنے والی سیاسی سرگرمیوں پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ جون میں جنرل عبدالفتاح السیسی نے اخوان کی حکومت کا تختہ الٹ کر جب معاملات اپنے ہاتھ میں لیے، تب سے اب تک قومی امور درستی کی راہ پر گامزن ہیں۔ نئے آئین کی تشکیل کے علاوہ نئے صدارتی انتخاب کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے۔ ان کے خیال میں بیشتر مصریوں کے لیے ۳۰ جون کا دن فاشزم کے خلاف ایک نئی ابتدا کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ مصر میں مسلمانوں اور عیسائیوں نے یکساں طور پر اِخوان المسلمون کے اقتدار کے خاتمے کو ایک اچھی علامت کے طور پر دیکھا ہے اور اس بات سے سب مطمئن ہیں کہ اب ملک استحکام کی راہ پر گامزن ہوگا۔ پوپ کا دعویٰ ہے کہ مصر میں فوجی حکومت کی آمد کا سبھی نے خیر مقدم کیا ہے جن میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی بھی شامل ہیں۔
پوپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ مغرب نے مصر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو غلط رنگ میں اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اِخوان المسلمون کے دور میں مذہبی اقلیتوں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ عبادت گاہوں کے لیے بھی مسائل پیدا ہوئے۔ اس کا مغربی میڈیا نے نوٹس نہیں لیا اور حقائق بیان کرنے سے گریز کیا گیا۔ اِخوان کی حکومت کے خاتمے کو مغربی میڈیا نے فوجی بغاوت سے تعبیر کیا مگر ہم اس مؤقف کے خلاف ہیں۔ قبطی کلیسا کے سربراہ نے کہا کہ جن غیر ملکی وفود نے مصر میں حکومت کی تبدیلی کے بعد ہم سے ملاقات کی، انہیں ہم نے باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ مصر میں کچھ زیادہ خرابی پیدا نہیں ہوئی اور اخوان کی حکومت کا ختم ہوجانا مذہبی اقلیتوں کے لیے انتہائی طمانیت کا باعث ہے۔
مصر کے قبطی عیسائی چاہتے ہیں کہ جو کچھ وہ محسوس کر رہے ہیں، اسے دنیا تک پہنچایا جائے۔ اس معاملے میں روسیوں تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کوپٹک آرتھوڈوکس کیتھیڈرل کے سیکرٹری جنرل اور اسکندریہ میں قائم گرجوں کے ترجمان بشپ رائس مورکوز کا کہنا ہے کہ پوپ ٹیواڈروز دوئم بہت جلد روس کا دورہ کریں گے تاکہ روسی قیادت کو مصر کے حالات سے آگاہ کرسکیں۔ کسی مصری پوپ کا یہ آٹھ برس میں روس کا پہلا دورہ ہوگا۔
جنوبی مصر میں قبطی عیسائیوں کے اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے قبطی کلیسا کے ذمہ داران بہت پریشان ہیں۔ منیا کی گورنریٹ میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں پانچ ڈاکٹروں سمیت دس قبطی عیسائیوں کو اغوا کرلیا گیا۔ اعلیٰ حکام اس معاملے کو اچھالنے سے گریز کرتے ہیں۔ قبطی عیسائیوں میں اس حوالے سے تشویش بڑھتی جارہی ہے۔ بعض لوگ اغوا کی ان وارداتوں کو اِخوان المسلمون کے اقتدار سے الگ کیے جانے سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ مسلمان اپنے اندرونی اختلافات کے لیے ایک بار پھر قبطی عیسائیوں کو تختۂ مشق بنا رہے ہیں۔ گبہت مستقبل السعید (دی اپر ایجپٹ فیوچر فرنٹ) بہت جلد اغوا کی ان وارداتوں کے خلاف شدید احتجاج کا پروگرام بنا رہی ہے۔ چند ہفتوں کے دوران اس حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ مالاوی میں چار سالہ قبطی عیسائی بچے پیٹر ناگی فراغ کے اغوا نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء سے اب تک منیا کے علاقے میں سو سے زائد قبطی عیسائی اغوا کیے جاچکے ہیں۔
منیا اور ابو قورقوز کے قبطی عیسائی کلیسا کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ چند ہفتوں کے دوران اغوا کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ منیا اور قورقوز کے بشپ انبا ماکاریس کا کہنا ہے کہ بہت سے قبطی عیسائیوں کو اغوا کرنے کے بعد تاوان کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جو لوگ تاوان کی رقم ادا نہیں کرتے، وہ اپنے پیاروں کی موت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اغوا کی ان وارداتوں کے حوالے سے شدید تشویش کے باوجود قبطی عیسائیوں کے پیشوا احتجاج کو معاملات درست کرنے کا بہترین ذریعہ نہیں مانتے۔ وسطی قاہرہ کے گرجوں کے بشپ انبا رافیل کا کہنا ہے کہ اس وقت قبطی عیسائیوں کو مظاہروں سے دور رہنا چاہیے۔ انبا رافیل کا مشورہ یہ ہے کہ قبطی عیسائیوں کو اپنے ہی مسائل اجاگر کرنے پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے۔ ان کے نزدیک بنیادی مسئلہ یہ نہیں کہ عیسائیوں کو عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، بلکہ یہ ہے کہ ملک میں اب بھی جنونیت موجود ہے، انتہا پسندی نے پوری طرح دم نہیں توڑا۔ ان کے نزدیک مصر کو صرف قوانین اور قواعد و ضوابط کی نہیں، تحمل اور رواداری کے کلچر کی بھی ضرورت ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس وقت اِخوان سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسے اقتدار میں آنے کا موقع ملا اور اس نے اپنا اصل رنگ دکھا دیا۔
ایجپشن کونسل آف چرچز کے سیکرٹری جنرل بشپ بشاوی ہیلمی کا کہنا ہے کہ ملک درست سمت میں بڑھ رہا ہے اور بنیادی مسائل حل کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ مستقبل یقینی طور پر حال سے زیادہ تابناک ہوگا۔ پولیس اور فوج مل کر انتہا پسند اور دہشت گرد گروپ ختم کر دیں گی۔ ہیلمی کو اس بات کا رنج ہے کہ حسنی مبارک دور میں فرقہ وارانہ بنیاد پر جتنے حملے ہوتے تھے، ان سے کہیں زیادہ اب ہو رہے ہیں۔ ہیلمی کا کہنا ہے کہ ظالموں اور مظلوموں کو مذاکرات کی میز پر لانے اور مصالحت کی راہ پر گامزن کرنے کا طریقہ اب نہیں چل سکتا۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے کوئی رعایت نہ کی جائے یعنی سخت کارروائی کی جائے۔ قبطی جج بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ شوبرہ الخیمہ کرمنل کورٹ کے چیف جج عامر رمزی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے متعلق جرائم کے لیے علیحدہ عدالتوں کا قیام خوش آئند ہے۔
(“The Copts’ choice”… Weekly “Al-Ahram” Cairo. March 27, 2014)
Leave a Reply