
چین کے شہر ووہان سے جنم لینے والا کورونا وائرس اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے جمع کیے ہوئے اعداد و شمار کے مطابق ۱۶۲؍ممالک میں کورونا وائرس کے کیس سامنے آچکے ہیں۔ چین سمیت پوری دنیا میں کم و بیش سات ہزار ہلاکتیں واقع ہوچکی ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں چین میں ہوئی ہیں۔ دوسرے نمبر پر اٹلی ہے۔ اٹلی میں ۱۲۰۰؍سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس پر بجا طور پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ چین میں اس وائرس کی زد میں آنے والوں کی تعداد ۸۰ ہزار سے زائد ہے۔ اٹلی میں ۱۳؍ہزار کیس سامنے آئے۔ ایران میں ۹ ہزار سے زائد کیس رجسٹر کیے گئے۔ ایران میں ہلاکتوں کی تعداد ۷۰۰ سے زائد رہی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کی زد میں آنے والے ۹۰ فیصد افراد کا تعلق چار ممالک (چین، اٹلی، ایران اور جنوبی کوریا) سے ہے۔ دیگر ممالک میں کورونا وائرس کے مریضوں کی مجموعی تعداد ۱۷؍ہزار تک ہے۔
کورونا وائرس کو عالمی ادارۂ صحت نے عالمگیر وبا قرار دیا ہے۔ اس وبا نے عالمی معیشت کو شدید متاثر کیا ہے۔ چین سمیت کئی ممالک کی معیشت کو غیر معمولی دھچکا لگا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی اس وبا نے معیشتی مشکلات بڑھادی ہیں۔
کسی عالمگیر وبا کے ہاتھوں غیر معمولی ہلاکتوں کا یہ کوئی پہلا کیس نہیں ہے۔ ہاں، اثرات کے لحاظ سے یہ وبا بہت خطرناک اور پریشان کن ثابت ہوئی ہے۔ ۱۹۱۸ء اور ۱۹۲۰ء کے درمیان اسپینش فلو سے مغرب میں ۱۰؍کروڑ سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ ایڈز کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد چار کروڑ تک ہے۔ ۲۰۰۹ء میں سوائن فلو نے کم و بیش ۲ لاکھ ۸۴ ہزار افراد کی جان لی۔ ۲۰۱۴ء تا ۲۰۱۶ء مغربی افریقا میں ایبولا وائرس کے ہاتھوں کم و بیش ساڑھے گیارہ ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔
کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ہر ملک نے اپنے طور پر تیاریاں کی ہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک اس حوالے سے زیادہ تیاری کی حالت میں دکھائی دیے۔ ترقی یافتہ دنیا کسی بھی میڈیکل ایمرجنسی کے لیے تیاری کی حالت میں رہا کرتی ہے۔ امریکا، برطانیہ اور ہالینڈ میں کورونا وائرس سے نمٹنے کی تیاری اور صلاحیت ۷۵ تا ۸۳ فیصد تک تھی۔ چین میں یہ صلاحیت اور تیاری ۴۸ فیصد تک تھی۔ شمالی کوریا، صومالیہ اور اسی قبیل کے دیگر پس ماندہ ممالک نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے انتہائی معمولی تیاری دکھائی۔ اِن کے وسائل اس حوالے سے نہ ہونے کے برابر تھے۔
کورونا وائرس کے ہاتھوں عالمی معیشت کے غیر معمولی حد تک متاثر ہونے کا ایک بنیادی سبب یہ تھا کہ ۲۰۰۳ء میں جب ’’سارس‘‘ کی وبا پھیلی تھی تب عالمی معیشت میں چین کا حصہ ۴ فیصد تک تھا۔ اب یہ حصہ ۱۷؍فیصد تک ہے۔ ووہان میں اس کورونا وائرس کی وبا پھیلتے ہی دنیا نے چین سے کنارا کرنا شروع کردیا تھا۔ چین نے بھی غیر معمولی احتیاط سے کام لیا۔ ووہان کو مکمل طور پر بند کردیا گیا۔ چین سے دنیا بھر کو تجارتی مال کی ترسیل روک دی گئی۔ یہ معاملہ اربوں ڈالر کے نقصان یا ممکنہ نقصان کا تھا۔ چین نے معاملات کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ہر وہ قدم اٹھایا جو اٹھایا جانا چاہیے تھا۔ چینی قیادت بھی جانتی تھی کہ اس وبا کی روک تھام کے حوالے سے نیم دلی کا مظاہرہ کرنے کی صورت میں نقصان کا گراف بہت بلند بھی ہوسکتا ہے۔ ایران اور اٹلی میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے چین کو مزید الگ تھلگ کردیا۔ کم و بیش دو ہفتوں تک یہ کیفیت رہی کہ چین کے نام سے دنیا بدکتی رہی۔ چینی قیادت نے اس وبا کے معاشی اور معاشرتی اثرات سے نمٹنے کے حوالے سے جو کچھ کیا اُس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔
کورونا وائرس نے دنیا بھر میں ہر عمر کے لوگوں کو نشانہ بنایا ہے تاہم اس کی زد میں پچاس سال سے زائد عمر والے زیادہ آئے ہیں۔ چائنیز سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے ۱۱؍فروری تک کے اعداد و شمار کے مطابق بیشتر اموات ۵۰ سے ۸۰ سال تک کی عمر کے لوگوں میں ہوئیں۔ ہلاکتوں کی تعداد کے بڑھنے کا ایک بنیادی سبب یہ بھی تھا کہ نرم نوعیت کے واقعات پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے حوالے سے تساہل برتا گیا۔ جن لوگوں میں اس مرض کی ابتدائی علامات پائی گئیں اُن پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس عدم توجہ سے کیس بگڑ گئے اور ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھی اور اس مرض میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ اس حقیقت کو بھی بہت حد تک نظر انداز کیا گیا کہ غیر معمولی ذہنی دباؤ اور امراضِ قلب میں مبتلا افراد کو اس مرض نے غیر معمولی حد تک نشانہ بنایا۔ کینسر کے مریضوں کے لیے اس مرض نے مشکلات بڑھادیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس اُن ممالک میں تیزی سے پھیلا جہاں صفائی کا انتظام غیر معمولی نوعیت کا ہے اور اشیائے خور و نوش کے حوالے حفظانِ صحت کے اصولوں کا نمایاں حد تک خیال رکھا جاتا ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں میں یہ مرض تیزی سے اس لیے پھیلا کہ انتہائی صحت مند ماحول میں زندگی بسر کرنے والوں میں قوتِ مدافعت خاصی کم پائی گئی۔ جن معاشروں میں فضا بالکل صاف ہے اور صحتِ عامہ کا معیار خاصا بلند ہے اُن میں لوگ کسی بھی بیماری کا اور بالخصوص وبائی مرض کا آسانی سے مقابلہ نہیں کر پاتے۔ جب بھی کوئی مرض پھیلتا ہے تو اِن معاشروں کے لوگ بہت تیزی سے اُس کی زد میں آ جاتے ہیں۔
پاکستان جیسے معاشروں میں کورونا وائرس پر قابو پانے میں غیر معمولی کامیابی اس لیے بھی ملی کہ لوگوں میں کسی بھی وبائی مرض کے حوالے سے قوتِ مدافعت موجود ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جسم مجموعی طور پر اس قدر بیمار ہے کہ مزید کسی بیماری کو آسانی سے قبول نہیں کرسکتا! فضا پہلے ہی اِتنی آلودہ ہے کہ پھیپھڑے اِس آلودہ فضا میں سانس لینے کے عادی ہوچکے ہیں۔
کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے بیشتر اقدامات سے بدحواسی بھی نمایاں ہوئی ہے۔ امریکا اور یورپ نے غیر معمولی حد تک بدحواسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں یہ تصور کرلیا گیا کہ چین چونکہ بہت دور ہے اس لیے کورونا وائرس کے شدید منفی اثرات سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ جب اٹلی بری طرح زد میں آیا تب سب کے کان کھڑے ہوئے اور کچھ کرنے کی ٹھانی گئی۔ مغربی دنیا کو بھی کورونا وائرس نے اِس بُری طرح لپیٹ میں لیا ہے کہ معاملات کچھ کے کچھ ہوگئے ہیں۔ معیشتوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ صارفین کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا ہے۔ اسٹاک مارکیٹس میں کریش کی سی کیفیت پیدا ہوئی۔ امریکا اور یورپ کی معیشت بھی اس وبا کے ہاتھوں داؤ پر لگی ہے۔
یورپ کا معاملہ بہت عجیب رہا ہے۔ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ صحتِ عامہ کا غیر معمولی معیار اُس کے لیے زیادہ مسائل پیدا نہیں ہونے دے گا۔ علاج کی بہترین سہولتیں یورپ کی نمایاں خصوصیات میں سے ہیں۔ فلاحی ریاست کا تصور جن یورپی ممالک میں بہت نمایاں طور پر عمل پذیر ہے اُن میں لوگ صحت کے خاصے بلند معیار کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کورونا وائرس سے زیادہ خطرہ محسوس نہیں کیا گیا۔ مگر جب کورونا وائرس کی وبا یورپ میں بھی پھیلی تو حکومتوں کو ہوش آیا اور اُنہوں نے اس وائرس سے موثر دفاع کے لیے اقدامات شروع کیے۔
چین نے کورونا وائرس کے حوالے سے غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ ۱۸؍فروری تک چین میں کورونا وائرس کے ۵۸ ہزار کیس سامنے آئے تھے۔ علاج کی بہترین سہولتوں کا حصول یقینی بناکر چینی قیادت نے ۱۲؍مارچ تک کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد ۱۵؍ہزار تک محدود رکھنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ یورپ کا معاملہ البتہ خاصا مختلف ہے۔ یورپ میں خدمات کے شعبے کو پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے۔ چین سے سخت مسابقت کے باعث صنعتی پیداوار کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ایسے میں اعتماد کی بحالی بہت بڑا چیلنج ہے۔ کورونا وائرس کے نتیجے میں نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے یورپی معیشتوں کو غیر متوازن کر ڈالا ہے۔ صارفین کی سرگرمیاں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے مطلوب اشیاء اور اشیائے خور و نوش کی خریداری تک محدود رہی ہیں۔ دوسرے تمام شعبے شدید نوعیت کی گراوٹ محسوس کر رہے ہیں۔ صارفین کا اعتماد اِتنی بُری طرح مجروح ہوا ہے کہ اُس کی فوری بحالی کا امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ چند ماہ تک بہت سے بنیادی شعبوں کی مصنوعات کی طلب میں کمی ہی رہنے کا امکان ہے۔ کورونا وائرس نے عالمی معیشت کو متعدد شعبوں میں شدید گراوٹ سے دوچار کیا ہے۔
لاک ڈاؤن کے معاملے میں پہل اٹلی نے کی ہے۔ کم و بیش پورے اٹلی کو جزوی طور پر بند کردیا گیا۔ شمالی اٹلی کو تو خیر مکمل بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ چند دوسرے ممالک نے بھی جزوی لاک ڈاؤن کا تجربہ کیا ہے۔ بہت سی ایسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے جن کے نتیجے میں کسی جگہ لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہوں۔ لاک ڈاؤن کے شدید منفی اثرات سے یورپ جیسا ترقی یافتہ خطہ بھی ڈھنگ سے نہیں نمٹ سکتا تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسے معاشروں کا کیا ہوگا۔ پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں بُری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ مارچ کے دوران معاشی سرگرمیاں غیر معمولی حد تک محدود رہی ہیں۔ اپریل اور مئی میں اس حوالے سے صورتِ حال مزید خراب ہوگی۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ڈھائی تین ماہ پر محیط معیشتی خرابیاں کتنی مدت تک شدید منفی اثرات مرتب کرتی رہیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی معیشت کو سنبھلنے میں کم و بیش دو ڈھائی سال لگیں گے۔ پاکستان، بھارت، بنگلا دیش، میانمار اور دیگر پس ماندہ ممالک کے لیے کورونا وائرس کی پیدا کردہ صورتِ حال کا سامنا کرنا آسان نہ ہوگا۔ اس ایک وبا نے اربوں افراد کو شدید معاشی مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کے ماند پڑنے سے دنیا بھر میں اربوں افراد کے لیے معمول کی زندگی بسر کرنا ممکن نہیں رہا۔ پاکستان میں کروڑوں افراد کو ابھی سے شدید معاشی الجھن کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے بہت سے اقدامات سے معیشت پہلے ہی خاصی سُست روی کا شکار تھی۔
کورونا وائرس کے ہاتھوں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کا بیمار پڑ جانا اور کم و بیش آٹھ ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اترنا انتہائی پریشان کن ہے مگر اِس سے کہیں زیادہ پریشان کن ہے معیشتوں کا سست پڑ جانا۔ دنیا بھر میں تجارتی سامان کی ترسیل متاثر ہوئی ہے۔ لوگوں کا میل جول کم کرنے کے لیے صنعتی سرگرمیوں کو محدود کردیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں۔ یہ اقدام بھی معیشتی سرگرمیوں میں سُست روی پیدا کرنے کا باعث بنا ہے۔
کورونا وائرس نے دیکھتے ہی دیکھتے جس نوعیت کی بدحواسی کو جنم اور فروغ دیا ہے اُس سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہر معاملے میں نظریۂ سازش کی بات کرنے والوں نے کورونا وائرس کے حوالے سے بھی نظریۂ سازش کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ چین نے کوئی تجربہ کیا تھا مگر ’’بھنڈ‘‘ ہوگیا۔ کسی کا خیال ہے کہ امریکا نے چین کو محدود رکھنے کے لیے کچھ کیا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر امریکیوں کو بھی سوچنا پڑے گا کہ اب اس نوعیت کے کسی بڑے تجربے کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ سبھی آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی ملک خود کو اس سمندر میں جزیرہ قرار نہیں دے سکتا۔ اگر چین کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی تھی تو بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ یہ تجربہ زیادہ کامیاب نہیں رہا کیونکہ اس کے نتیجے میں پورے یورپ کی معیشت بھی داؤ پر لگ گئی ہے اور خود امریکا کو بھی بہت سے معاملات میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
کورونا وائرس نے ایک غیر معمولی موقع عطا کیا ہے۔ سب کو مل بیٹھ کر سوچنا ہے کہ ایک دوسرے کو کس طور برداشت کرنا ہے۔ کسی وبا کے پھیلنے پر باقی دنیا کو اچھوت سمجھنا درست نہیں۔ کوئی ملک یہ بھی نہ سمجھے کہ وہ بچ رہے گا اور باقی سب داؤ پر لگ جائیں گے۔
امریکا اور چین کے درمیان طاقت کے حوالے سے رسّا کشی ہو رہی ہے۔ یہ رسّا کشی کب تک چلے گی، پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا مگر ہاں، اِتنا تو پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اُسی وقت ختم ہوگا جب کوئی ایک بہت کمزور پڑے گا۔ امریکا نے یورپ پر اپنے دروازے بند کرکے یورپی اقوام کو کچھ نہ کچھ سوچنے پر تو مجبور کیا ہوگا۔ امریکا یا کسی اور طاقت کو اب یہ خیال ترک کرنا ہوگا کہ وہ پوری دنیا کی مالک ہے۔ تمام معاملات اِس بُری طرح جڑے ہوئے ہیں کہ کوئی ایک غلط قدم کسی بھی خطرناک صورتِ حال کو جنم دے سکتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ کسی ایک طاقت کا باقی طاقتوں کو دبوچنے کے لیے بے تاب ہوکر بدحواسی کی نذر ہو رہنا تیسری عالمی جنگ کا نقطۂ آغاز بھی ہوسکتا ہے۔
{}{}{}
Leave a Reply