
فلسطین خصوصاً مغربی کنا رے میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے نے اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان رابطے کو بڑھا دیا ہے۔ وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے دن رات کوششیں کی جارہی ہیں، اسرائیل کی براہ راست مداخلت پر فلسطین اتھارٹی نے اسرائیلی فوج سے آبادیوں میں موجود رکاوٹیں ہٹانے کی درخواست کی ہے تاکہ فلسطین کے شہروں، علاقوں اور پناہ گزینوں کے کیمپ کو کورونا وائرس سے بچایا جاسکے۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ مسلسل فون کالز کا انکشاف کیا ہے، سول اور سیکورٹی سطح پر دونوں اطراف سے رابطے ہورہے ہیں، اسرائیل اس حوالے سے خوفزدہ ہے کہ فلسطین میں جنگ زدہ ماحول کی وجہ سے پہلے ہی صحت اور معیشت کے شعبے تباہی کے دہانے پر ہیں۔ اسرائیل سیکورٹی ایجنسیز کووڈ ۱۹ کی وجہ سے مغربی کنارے کے حالات اور اس کے اسرائیل پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ کر رہی ہیں، بہت ممکن ہے کہ کووڈ۱۹ کی یہ وبا بین الاقوامی سطح پرطاقت کے توازن کو بدل دے یا پھر اس پر دیر پا اثرات چھوڑے۔
اسرائیلی آرمی چیف آف اسٹاف اویو کوچوی نے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مل کر ایک خصوصی ٹیم بنائی ہے، جو وبا سے پیدا ہونے والے نتائج پر بحث کرے گی، ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل تامر ہیمن اس ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں، افسران کے ذریعے حاصل کردہ سیکورٹی ڈیٹا کی جانچ کی جائے گی۔ مغربی کنارے میں وبا کو روکنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کی کوششوں کو اسرائیل نے سراہا ہے، جب کہ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیلی نیشنل سیکورٹی کونسل کی جانب سے بڑا امدادی پیکج بھی وصول کیا ہے۔ اسرائیلی نیشنل کونسل اور مغربی کنا رے کی سول انتظامیہ مسلسل رابطے میں ہے۔
فلسطینی وزیراعظم نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسرائیلی امداد کو وبا کے پھیلنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیلی امداد اس وبا سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے، ان کے اس بیان کو اسرائیل نے نظر انداز کیا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فلسطینی عوام کو ان کے اصل ایشوز سے ہٹانے کی حکمت عملی ہے، تاہم وسائل کی شدید قلت کے باوجود غزہ بہترین طریقے سے اس وبا کا مقابلہ کررہا ہے۔
اسرائیلی سیکورٹی ایجنسیز ہم منصب فلسطینی رہنماؤں سے اچھے تعلقات بنانے اور اعتماد قائم کرنے کے لیے کووڈ ۱۹ کو استعمال کررہی ہیں۔ صورتحال کچھ ایسی ہے کہ اگرحالات کو صحیح طریقے سے قابو میں نہیں کیا گیا اور عالمی وبا کے بعد فلسطینیوں کو اپنے روزگار کے لیے اسرائیلی علاقوں کی طرف جانے یا غیر قانونی طور پر چین کے مزدوروں کی جگہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی تو پہلے سے موجود اعتماد بھی ختم ہوجائے گا۔ فلسطینیوں کے ساتھ سیکورٹی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی ضرورت ہے۔
اسرائیل کو یہ یقین ہے کہ اگر وائرس قابو سے باہر ہو اتو مقبوضہ فلسطین کو بھی متاثر کرے گا، فلسطینی ریاست خصوصاً مغربی کنارہ اپنے محل و وقوع کی وجہ سے متاثر ہوسکتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ وائرس پہلے فلسطین کو متاثر کرے لیکن وہاں ذرائع ابلاغ موجود نہیں ہیں، میڈیا کی ساری توجہ اس وقت اسرائیل پر لگی ہوئی ہے۔
اسرائیل یہ بات بھی جانتا ہے کہ اگر فلسطین میں کووڈ ۱۹ قابو سے باہر ہوا تو اسرائیل میں اس کے خوفناک نتائج ہوں گے۔ وائرس دیواروں سرحدوں اور رکاوٹوں کا احترام نہیں کرتا، اگر فلسطین اتھارٹی وبا پر قابو نہ کر پائی تو اس کے اسرائیل پر بڑے بُرے اثرات پڑیں گے۔ بہت ممکن ہے کہ وبا کی تباہ کاریاں فلسطینی عسکریت پسندوں کی مزاحمت کو بڑھا دیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوج اور سیکورٹی کے ادارے باریک بینی سے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے اسرائیل بروقت مداخلت کرسکے، اس کے لیے اسرائیل نے مغربی کنارے پر ہنگامہ خیز صورتحال سے نمٹنے کے لیے فیلڈ اسپتال بھی تیار رکھے ہوئے ہیں اور عالمی برادری کو بھی وبا پر قابو پانے کے لیے مقبوضہ علاقے میں جانے کی اجازت ہے۔ میجر جنرل کامل ابو رکون کے مطابق یہ سارے کام فلسطینی اتھارٹی کے تعاون سے اسرائیلی انتظامیہ سرانجام دے رہی ہے۔
یہ بہت اہم ہے کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمتی حملوں میں خاصی کمی آئی ہے، اسرائیل میں کووڈ ۱۹ کی وبا سے بچنے کے لیے کرفیو اور آئسولیشن سے مدد لی جارہی ہے۔ اسرائیلی فوج یہ سمجھتی ہے کہ اس وبا کے دوران اگرسیکورٹی آپریشن کیا گیا اور فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا تو کورونا کا پھیلاؤ تیزی سے بڑھے گا، خصوصاً وہ علاقے جہاں فلسطینیوں کا کنٹرول زیادہ ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے وبا کے بعد مغربی کنارے سے ایک اور تحریک انتفاضہ نکلے یا یہ کہ اسرائیل فلسطینی معیشت کو سنبھالنے کے لیے مدد کرے، اسرائیل کا موقف واضح ہے کہ وہ اسی صورت فلسطینی اتھارٹی کی مدد کرے گا، جب فلسطینی اتھارٹی تیسری عوامی بغاوت کو کچلنے میں مدد فراہم کرے گی۔
فلسطینی اتھارٹی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کرسکتی اور اسرائیل اس بات سے پریشان ہے اگر فلسطینی سیکورٹی اہلکاروں کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں تومقبوضہ علاقے میں اسرا ئیل کو سیکورٹی کے انتظامات خود سنبھالنے پڑیں گے۔
کووڈ ۱۹ اس وقت اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے لیے مشترکہ دشمن ہے، میڈیکل ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ فلسطین میں وبا کا پھیلاؤ کم ہے اور اصل خوف اسی بات کا ہے کہ اسرائیل کے ذریعے فلسطین کے مقبوضہ رہائشی علاقوں میں وائرس نہ پھیل جائے۔
ان سب کے باوجود وبا میں بہت ممکن ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے تعلقات بہتر ہوجائیں، بے شک یہ ایک تاریخی موقع ہے جسے تعلقات بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کووڈ ۱۹؍اعلیٰ سطح پر زیر بحث ہے، بہت ممکن ہے کہ وبا اسرائیل اور فلسطین کے لیے مثبت مذاکرات کے لیے معاون ثابت ہو۔
اسرائیل کو لوگوں کی نوکری پر بحفاظت واپسی اور مغربی کنارے پر انتظامات کو محفوظ بنانا ہوگا، ورنہ ایک لاکھ بیس ہزار افراد کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوں گے، جس کے نتائج اسرائیل کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ یہ عالمی وبا فلسطینیوں کے رہن سہن کے طریقوں کو ان کی طرز رہائش کو تبدیل کردے گی لازمی طور پر اس کے اثرات سیکورٹی کے نظام پر بھی پڑیں گے اسرائیل کے پالیسی سازاس معاملے کو سمجھ رہے ہیں اسی وجہ سے وہ فلسطین میں مکمل لاک ڈاؤن نہیں کر رہے ہیں تاکہ مغربی کنارے میں معیشت بحال رہ سکے۔
کووڈ ۱۹ کی وجہ سے اسرائیل اس وقت بدترین بحران سے گزر رہا ہے، پوری ایک صدی تک شاید دنیا اس کے اثرات سے نہ نکل پائے، لیکن یہی بحران مستقبل میں بہتر تعلقات کا باعث بن سکتا ہے جس کی توقع محض چند ہفتوں پہلے نہیں کی جاسکتی تھی۔
اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی دونوں کے لیے یہی بہتر ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ریاستی حدود کے معاملات کو بیٹھ کے طے کر لیا جائے اگر یہ ہوجاتا ہے تو عالمی وبا سخت ترین دشمنوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں حیرت انگیز کردار ادا کرے گی ۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“The coronavirus crisis has revived relations between the PA and Israel”. (“middleeastmonitor.com”. April 24, 2020)
Leave a Reply