انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب انسان شعور سنبھال رہا تھا تو اس نے اپنی ضروریات اور ماحول کے مطابق چیزیں ایجاد کیں ، بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ ایجادات بھی نئی سے نئی سامنے آتی رہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ہراہم ایجاد اپنے ساتھ ایک نئی تبدیلی لے کر آتی ہے ۔ جب انسان نے پتھر سے لوہے کا استعمال سیکھا ، جانور کو سواری کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تو اس سے اس کی زندگی میں ایک نئی اٹھان پیدا ہوئی ۔ جب اس نے خود رو چیزوں کے علاوہ خود چیزیں اگانا شروع کیں تو ایک اور تبدیلی آئی ۔ اسی طرح جب انسان پہلے سے زیادہ تیز رفتار ہوگیا، یہ پہیے کی ایجاد کا کرشمہ تھا۔ایک مرتبہ پھر ریڈیو اور ٹیلی فون کی ایجادات سے انسانی معاشرے میں بڑی واضح اور سریع رفتار تبدیلی آئی ۔اس سے انسان کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ، ایک ملک سے دوسرے ملک میں رابطے آسان ہوگئے۔ فاصلے سمٹنا شروع ہوگئے اوریوں انسان علاقائی دائرے سے نکل کر عالمی دائرے میں داخل ہوگیا۔ ایجادات کے ساتھ بدلتی ثقافت میں اگر کوئی چیز تبدیل نہیں ہوئی تو وہ انسان کی جمال پسند طبیعت اور علم دوست فطرت ہے ۔
کچھ ظاہری تبدیلی کے بعض عناصر ایسے ہوتے ہیں جو انسان کے رہن سہن ، لہجوں اور اس کے لباس پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ انسان کی بہت ساری تخلیقات اس کی فطرت کی وجہ سے مشترک ہیں لیکن بعض ایسی چیزیں تخلیق ہوئیں جنھوں نے پوری انسانیت کو آپس میں جوڑ دیا۔ان کے باعث ایسی ثقافت پروان چڑھی جس سے انسان ایک دوسرے کے اور زیادہ قریب ہوگیا ۔ انٹرنیٹ اس کی ایک واضح مثال ہے ۔ موبائل فون کی ایجاد سے بھی ہماری زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
یہ ساری ایجادات جہاں ایک طرف ہماری زندگی کی ضروریات کی غمازی کرتی ہیں، وہاں ہمیں انسان کے لیے ان کے ہولناک اورتباہ کن اثرات بھی سامنے رکھنے چاہئیں۔ یہاں ایک اہم سوال چیزوں کے استعمال کا پیدا ہوتا ہے یعنی اس امر کا جائزہ لیا جانا کہ کسی چیز کا استعمال اس کے وجود کو منفی یا مثبت بناتا ہے۔مثال کے طورپرایک چیز دوائی کے لیے استعمال ہوتی تھی، وہ نشے کے لیے استعمال ہونا شروع ہوئی تو اس کے اثرات منفی ہوگئے اور وہ انسان کے لیے ہولناک ہوتی چلی گئی۔ اسی طرح ایک چیز انسان نے اپنے دفاع کے لیے بنائی تو وہ جارحیت کے لیے استعمال ہونا شروع ہوگئی۔ بڑے پیمانے پر انسان کی تباہی کے سامان تیار ہوگئے، ایٹم بم بنا لیے گئے۔ اس کے نتیجے میں طاقتور قوموں نے عالمی سطح پر خوف پیدا کرکے دوسرے ملکوں کے وسائل ہتھیانا شروع کردیے۔
بیک وقت معاشرے میں ایسی ایجادات بھی ہورہی ہوتی ہیں جن کے مثبت اورمنفی اثرات مرتب ہورہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طورپر چہرے کے داغ دھبے دورکرنے کے لیے ایک دوائی ایجاد ہوتی ہے تو دوسری طرف طرح طرح کی کریمیں اورپائوڈر مارکیٹ میں آجاتے ہیں۔ کہیں لپ اسٹک بیچی جارہی ہے تو کہیں انسانی جذبات و احساسات کو بھڑکانے کا سامان موجود ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ بعض ایجادات سے بڑی گھمبیر مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔ اب ایک آدمی اپنے موبائل سے دوسرے کے موبائل پرجب چاہتا ہے فون کرتا ہے۔ اسے احساس نہیں کہ دوسرا شخص آرام کررہا ہے، یا کہیں اورمصروف ہے۔ پھر اس پر شکایات کہ آپ نے میرا فون اٹینڈ نہیں کیا۔ آج دیکھاجائے تو انسانی زندگی مختلف ایجادات کے باعث بے شمار مسائل کا شکار ہوگئی ہے۔ ہم جس تیز رفتاری کے ساتھ نت نئی ایجادات اورجدیدیت کے دورمیں داخل ہورہے ہیں، ہمارے ہاں اس درجے کا شعور نہیں ہے۔ ہمیں ایک گہری سازش کے تحت ’’کنزیومر سوسائٹی‘‘ میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ ہم ہرچیز بیچ رہے ہیں، ہر چیز خرید رہے ہیں۔ ہمیں ذرا رک کر ان کے اثرات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ فقط ایجادات کے ظواہر کو نہ دیکھیں، ان کے پیچھے کار فرما مقاصد کو بھی سمجھیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جہاں ہمارے نظام تعلیم میں ’’سائنٹیفک ڈیویلپمنٹ‘‘ کے حوالے سے شعور موجود ہونا چاہیے وہاں ہمیں نظام تعلیم بنانے والے، قوم کے لیے سوچنے والے دماغ بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیںفلسفی پیدا کرنے ہیں، ہمیں آج ماہرین عمرانیات کی ضرورت ہے، ہمیں مختلف چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تھنک ٹینک بنانے پڑیں گے۔
ہمارے ہاں پیداواری عمل نہیں ہورہا۔ ہم اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو خرید وفروخت کے لیے بروئے کار لارہے ہیں اوران کو ایسی ہی تعلیم دے رہے ہیں جس سے وہ اچھی مارکیٹنگ کرنے والے اور اچھا سودا بیچنے والے قابل لوگ بن جائیں۔ اس قسم کی صورت حال کو مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس کا حل کیا ہے؟ اس کا حل ایک اجتماعی قومی شعور ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ قائد پاکستان محمد علی جناح بنیادی طور پرایک سوشل سائنٹسٹ تھے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس ملک کا تصور پیش کرنے والے لوگ، علامہ اقبال، سر سید احمد خاں اور مولانا الطاف حسین حالی، جنھوں نے ایک نسل اور ایک قوم تیار کی جن کی کوششوں سے لاکھوں لوگوںکی ذہن سازی ہوئی یہ سب سوشل سائنٹسٹ تھے۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دینی حوالے سے ہمارے انبیاو مصلحین اپنے اپنے مقام پر ماہرین عمرانیات تھے، انسان شناس تھے۔ انسان کی عقل کے خزینے کو باہرنکالنے والے تھے۔ حضرت علیؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ انبیاء اس لیے آئے کہ انسانوں کی عقلوں کے دفینے اور فطرت کے خزانے باہرنکالیں۔ اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں سماجی انقلاب کے بانی، انسانی شعور کو ارتقابخشنے والے انبیاء ہی تھے۔ آج ہماری جامعات میں یہ شعبے زوال پذیر ہیں نتیجتاً ہم کنزیومر سوسائٹی بن کررہ گئے ہیں۔
نت نئی ایجادات سے ہماری نوجوان نسل کے ثقافتی شعور پر اثرات کا جائزہ لیاجائے تو بہت سے مثبت پہلو سامنے آتے ہیں۔ مثلاً انٹرنیٹ کے ذریعے ہمارا نوجوان آسٹریلیا میں بات کررہا ہے، امریکا میں چیٹ کررہا ہے۔ ان ایجادات اورسہولیات نے دراصل ہمیں عالمی شہری بنا دیا ہے۔ یہ سہولتیں ہمیں سرحدوں سے بے نیاز کردیتی ہیں ۔یہ مادی ترقی آخر کار انسان کو قوموں اورسرحدوں کے محدود تصور سے نکال کر ایک آدمیت کی طرف لے جانے کا سبب بن رہی ہے۔ جہاں تک اس کے منفی پہلوئوں کا تعلق ہے وہ بھی بہت خطرناک ہیں اگر ہم انھیں سامنے رکھیں گے تو منفی اتراث سے بچ جائیں گے، ورنہ ہمیں اسی عذاب سے گزرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے جس عذاب سے آج مغرب گزررہا ہے، ہماری نوجوان نسل کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جن قوموں نے انسان کے روحانی اورکائنات کے روحانی پہلوئوں کو نظرانداز کیا ان کی اخلاقیات تباہ ہوگئیں۔ وہ اپنی مادی ضروریات کی تکمیل کے لیے دوسری قوموں کے استحصال کے راستے پر چل پڑیں۔ مغرب کے تاجرانہ ضمیر نے دوسری قوموں کو ’’خریداروں کا سماج‘‘ بنانے کاراستہ اختیار کر لیا ہے۔ اس کا آخر کار نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔اس کا نتیجہ خودمغرب کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا۔
مغرب کی اندھادھند تقلید کے بجائے ایجادات کوقبول کرنے اور انھیں استعمال کرنے سے پہلے اپنے قومی اور انسانی اہداف کا تعین ضروری ہے۔ انہی اہداف کی روشنی میں ایجادات کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ نت نئی ایجادات کے بے ہدف اوربے ہنگم استعمال سے جو ثقافت جنم لے رہی ہے اسے آزاد قوم کی ترقی پسندانہ اوراعلیٰ مقاصد کی حامل جامع انسانی ثقافت قرار نہیں دیا جاسکتا۔
{}{}{}
Leave a Reply