مایوسی کا علاج

موجودہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام جن لوگوں کا بنایا ہوا ہے وہی پارلیمانی جمہوری انتخابی نظام کے بھی خالق ہیں۔ یہ جو لوک سبھا کے انتخابات میں پولنگ (یعنی ووٹ ڈالنے) کی جانب سے پورے ملک میں ایک طرح کی عمومی بیزاری نظر آتی ہے اس کا سبب وہی مایوسی ہے جو عالمی اقتصادی بحران کے نتائج کی پیداکردہ ہے یعنی یہ خیال کہ کچھ بھی اپنے اختیار میں نہیں ہے، ہو گا وہی جو کٹھ پتلی کی ڈور کھینچنے والے چاہیں گے۔ حالات میں تبدیلی کی جانب سے یہی عوامی بیزاری اور مایوسی ان کو مطلوب بھی ہے جو دنیا کا اقتصادی و سیاسی نظام چلا رہے ہیں۔ گزشتہ پندرہ سولہ مہینوں کے درمیان مندی یا کساد بازاری (Recession) کی اصطلاح پوری دنیا میں مشہور ہو چکی ہے۔ آخر یہ ہے کیا؟ اور اس کا موجودہ انتخابی بیزاری یا ووٹروں کی مایوسی سے کیا تعلق ہے؟ لیکن اس سے پہلے ہم آپ کو یہ بتا دیں کہ محض کساد بازاری کی وجہ سے عالم پیر کی موت کی پیشن گوئی کرنا درست نہیں۔ ہمارا یہ خیال شاید درست نہیں کہ یہ مندی سرمایہ دارانہ نظام کی موت کی علامت ہے کیونکہ یہ مندی کی صورتحال اسی ’’عالم پیر‘‘ یعنی سامراجی سرمایہ دارانہ نظام ہی کی پیدا کردہ ہے۔ جن لوگوں نے ۱۹۳۰ء کے گریٹ ڈپریشن کا اسکرپٹ لکھا ان ہی کے بنائے ہوئے سامراجی اسکول کے پروردہ لوگوں نے ۲۰۰۸ء کی مندی کا منظر نامہ بھی تحریر کیا ہے۔ لہٰذا جس طرح سامراج نے ۱۹۳۰ء کے گریٹ ڈپریشن کا فائدہ اٹھا کر نئی توانائی حاصل کی تھی اسی طرح ۲۰۰۸ء کی عالمی منڈی بھی سامراجی سرمایہ داری نظام کو نئی طاقت فراہم کر رہی ہے۔ ۱۹۳۰ء اور ۲۰۰۹ء میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے پر بلا سودی نظام کا نام آ رہا ہے جو اسلامی اقتصادی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ بے شک بلا سودی اسلامی معاشی نظام ہی دنیا کے موجودہ معاشی مسائل کا حل ہے، لیکن یہ بات تو صرف ہم کہہ رہے ہیں اور بہت تھوڑے سے غیر متعصب غیرمسلم ماہرین بھی بلا سودی نظام کی باتیں کر رہے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ سامراجی سرمایہ داری نظام تو موجودہ بدحالی کو اپنی بقا کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت ’گروپ ۲۰‘ اور اس کی دو حالیہ میٹنگیں ہیں جن میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سامراج کے بنائے ہوئے برٹین ووڈ اداروں (ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف) کی جگہ ’نئے سامراجی اداروں‘ کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں۔ گروپ ۲۰ کی کسی میٹنگ میں یہ نہیں کہا گیا کہ نئے اداروں کی بنیاد بلاسودی اسلامی اقتصادی نظام پر رکھی جائیں گی اور بقول میخائل گورباچوف گروپ ۲۰ سے ایک طرف تو مصر، نائیجریا اور ایران جیسے افریقہ اور مغربی ایشیا کے اہم ملکوں کو باہر رکھا گیا ہے اور دوسری طرف خود گروپ ۲۰ کو اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کے متوازی یا اس سے بلند درجہ دیے جانے کے اشارے دیے جا رہے ہیں۔ اب آیئے کساد بازاری کی تعریف پر، یہ اس اقتصادی صورتحال کا نام ہے جب صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں کمی آ جائے، پیداوار گھٹ جائے اور چھٹنی کی وجہ سے بیروزگاری میں اچانک اضافہ ہونے لگے۔ دراصل یہ بے روزگاری ہے جس کا اثر براہ راست عوام پر پڑتا ہے، لیکن اگر بینک، انشورنس کمپنیاں، کار، فیکٹریاں وغیرہ یکے بعد دیگرے دیوالیہ ہونے لگتے ہیں تو اس کا بنیادی ذمہ دار تو ان کے مالکان ہوتے ہیں جن کا اولین مقصد زیادہ سے زیادہ ’سود‘ کمانا ہوتا ہے اور اس صورتحال میں کٹھ پتلیوں کی ڈور تھامنے والے سرمایہ داروں کا کچھ نہیں بگڑتا وہی تو فی الواقع حقیقی فائدے میں ہوتے ہیں اور اپنے ’خزانے‘ میں سے ’بیل آئوٹ پلان‘ کی خیرات بانٹ کر ان روایتی اندھوں کا کردار ادا کرتے ہیں جو ریوڑیاں بھی اپنوں ہی کو بانٹتے ہیں۔ لہٰذا اس وقت سمجھنے کی باتیں دو ہیں۔ دنیا میں رائج اقتصادی اور سیاسی نظام جن کے بنائے ہوئے ہیں انہی کے کنٹرول میں بھی ہیں اور دنیا میں ہر سطح پر ’’مایوسی‘‘ پھیلانا ہی ان کا نصب العین ہے اور اس کے لیے وہ معاشی اور سیاسی نظاموں کے ساتھ معاشرتی نظام کو بھی جی بھر کے استعمال کرتے ہیں۔ وہ مایوسی اسی لیے پھیلاتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جانا کفر ہے اور جہاں کفر ہے وہاں اسلام نہیں ہوتا اور جہاں اسلام ہی نہ ہو گا وہاں بلاسودی نظام کیسے آئے گا؟

(اداریہ ’’اردو ٹائمز‘‘ ممبئی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*