
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو سفارت کاری سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ سابق صدر محمود احمدی نژاد نے امریکا کے خلاف جانے کی پالیسی اپنائی تھی۔ وہ اپنی تقریروں میں بھی امریکا کے خلاف سخت لہجہ اپناتے تھے جس کے نتیجے میں ایرانیوں کی اکثریت ان کی طرف متوجہ رہتی تھی۔ مگر یہ تو گزرے ہوئے زمانے کی بات ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکا کے خلاف جانے کی پالیسی سے گریز کیا ہے۔ وہ اپنی تقریروں میں امریکا سے دوستی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ نائن الیون کے سانحے کو انہوں نے ایک مجرمانہ فعل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا سے زیادہ سے زیادہ بات چیت ہونی چاہیے تاکہ تمام اختلافات دور ہوں اور دوستی کی فضا پروان چڑھے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام کا تنازع بھی طے ہو جائے تاکہ دو طرفہ کشیدگی کی راہ مسدود ہوجائے۔ ایران کے وزیر خارجہ جاوید ظریف نے حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ سے ایک یورپی دارالحکومت کے ہوٹل میں ملاقات کی۔ اس ملاقات کا بنیادی مقصد جوہری تنازع کو کسی نہ کسی طور قابل قبول انداز سے حل کرنا تھا۔
علی خامنہ ای کو امریکا سے مذاکرات پسند نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جوہری تنازع پر بات چیت کا کچھ بھی نتیجہ برآمد نہ ہوگا۔ وہ امریکا سے مذاکرات کے لیے اب تک گرین سگنل دینے کو تیار نہیں۔ علی خامنہ ای مغربی میڈیا سے کم کم بات کرتے ہیں۔ وہ بیرونی دوروں پر بھی نہیں جاتے۔ جب جاوید ظریف نے امریکی ہم منصب سے ملاقات کی تو علی خامنہ ای نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ یہ ملاقات کارگر ثابت نہ ہوگی اور بحران برقرار رہے گا۔
خامنہ ای کے دیگر حالیہ ٹوئیٹس میں امریکا کو دہشت گردی کے حامی، معاندت پسند اور امن کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ علی خامنہ ای کہتے ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ جھوٹے ہیں اور شام و عراق میں سرگرم انتہا پسند تنظیم ’’داعش‘‘ کی امریکی مخالفت محض دھوکا ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمائے جائیں۔ واضح رہے کہ ایران بھی ’’داعش‘‘ کا مخالف ہے۔
ایران اور امریکا کے درمیان جوہری پروگرام کے مسئلے پر گزشتہ ماہ کے مذاکرات اب تک کسی بریک تھرو کے نزدیک نہیں پہنچے۔ اس کا سبب یقینی طور پر یہ ہے کہ علی خامنہ ای ان مذاکرات کے حامی نہیں۔ ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے نام پر جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کی حتمی منظوری کے لیے علی خامنہ ای سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ انہیں رپورٹ پیش کرنا ہوتی ہے۔ اوباما انتظامیہ میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق پالیسی کے مشیر گیری سیمور کہتے ہیں کہ علی خامنہ ای اب تک امریکا کی نیت پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں اور یہی دونوں ممالک کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے۔ سیمور مزید کہتے ہیں کہ اگر صدر حسن روحانی اپنے طور پر فیصلے کرنے کے مجاز ہوتے تو ہم ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر کب کے ڈیل کرچکے ہوتے۔
ایران میں بنیادی مسئلہ اصلاح پسندوں اور قدامت پسندوں کے درمیان کشمکش کا ہے۔ ایران کی قیادت چاہتی ہے کہ جدت کو اپنایا جائے، نئے دور کے تقاضوں کے مطابق پالیسیوں میں تبدیلیاں کی جائیں، مغربی دنیا سے روابط بڑھائے جائیں۔ دوسری طرف ایران کے سپریم لیڈر اب تک قدامت پسندی کی راہ پر گامزن ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بہت کچھ تعطل کی نذر ہوکر رہ گیا ہے۔ علی خامنہ ای خود کو آیت اللہ خمینی کے برپا کیے ہوئے انقلاب کے امین کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ جدید دور کے تقاضوں کو بھی قبول نہیں کرتے اور مغرب سے بہتر روابط کے حق میں بھی نہیں۔ وہ امریکا کو ایک ایسی عالمی قوت کے طور پر دیکھتے ہیں جس نے عظیم سلطنتِ فارس کے وارث ایران کو دبوچ کر رکھا ہے اور اس کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کئی کوششیں کی ہیں۔
امریکی صدر اوباما نے ۲۰۰۹ء میں صدر کا منصب سنبھالتے ہی ایران کے سپریم لیڈر کو خفیہ پیغام بھیجا تھا۔ تب تک دونوں ممالک کے درمیان آخری براہ راست رابطے کو پانچ سال گزر چکے تھے۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ایک تجزیہ کار کینتھ پولاک کہتے ہیں کہ علی خامنہ ای کے حوالے سے امریکی انٹیلی جنس کمزور ہے۔ یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ علی خامنہ ای کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ ایران پر دو کتابوں کے مصنف پولاک مزید کہتے ہیں کہ علی خامنہ ای کی شخصیت ہی امریکا اور ایران کے درمیان حائل ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وہ اس پورے معاملے میں بلیک ہول کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے آپریشن ڈریڈ ناٹ کے نام سے نگرانی کا ایک خصوصی پروگرام علی خامنہ ای کو ذہن نشین رکھتے ہوئے شروع کیا مگر وہ کچھ خاص جاننے میں کامیاب نہ ہوسکی۔
امریکیوں کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ علی خامنہ ای نے امریکی صدر کے خفیہ پیغام کا جواب تحریری طور پر دیا مگر ان کا لہجہ سخت تھا جس میں امریکا کی ایران پالیسی کے حوالے سے گلے شکوے نمایاں تھے۔ اس جواب کو پاکر اوباما انتظامیہ نے علی خامنہ ای کو ایک اور خط لکھا مگر اس خط کا جواب نہ مل سکا۔
اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی براہ راست رابطے کے بغیر چار سال گزر گئے۔ جون ۲۰۱۳ء میں حسن روحانی کے صدر منتخب ہونے تک ایران اور امریکا کے درمیان شدید کھنچاؤ رہا۔ بین الاقوامی پابندیوں نے ایران کی مشکلات میں اضافہ کردیا تھا۔ معیشت تھم چکی تھی اور افراط زر میں اضافے کی رفتار ۴۵ فیصد سالانہ تک جا پہنچی تھی۔ حسن روحانی کے لیے ناگزیر سا ہوگیا تھا کہ ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کو کسی نہ کسی طور ختم کیا جائے۔ ایرانی صدر نے امریکا سے بات چیت کے لیے جاوید ظریف کو اپنا اعلیٰ ترین ایلچی مقرر کیا۔ جاوید ظریف مغرب میں تعلیم پائے ہوئے ہیں۔ امریکا کے کئی نامور صحافیوں کو وہ اپنے دوستوں میں شمار کرتے ہیں۔
اِدھر امریکی صدر براک اوباما کو ورغلانے اور تشویش میں مبتلا کرنے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔ براک اوباما سے کہا گیا کہ وہ مذاکرات کی ایرانی خواہش کے دھوکے میں نہ آئیں۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اوباما سے کہا کہ حسن روحانی بھیڑ کے بھیس میں بھیڑیا ہیں اور یہ کہ ایران میں اصل قوت خامنہ ای کے ہاتھ میں ہے جو امریکا سے کسی بھی طور تعلقات بہتر نہیں بنانا چاہتے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا بھی یہی کہنا تھا کہ ایران میں حساس ترین معاملات میں فیصلے کرنے کا اختیار صرف علی خامنہ ای کے پاس ہے۔
امریکیوں کو ایرانیوں کے ہاتھوں کئی بار زک اٹھانا پڑی ہے۔ ایرانی قیادت نے امریکی قیادت کو بارہا دھوکا دیا ہے۔ رونالڈ ریگن، جارج ہربرٹ بش اور بل کلنٹن تک سبھی کو کسی نہ کسی مرحلے پر ایران کے ہاتھوں دھوکا کھانا پڑا ہے۔ ایک بار جارج ہربرٹ بش نے ایک شخص کو ایرانی صدر سمجھ کر نصف گھنٹے تک فون پر بات کی۔ ایک بار بل کلنٹن نے ایرانی ہم منصب محمد خاتمی سے نصف گھنٹے تک بات کی تو علی خامنہ ای نے غیر متوقع انداز سے مداخلت اور صدر خاتمی کی سرزنش کی۔
ہر معاملے کو شک کی نظر سے دیکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ ایران اپنا امیج درست کرنے کے لیے دھوکا دے رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران پر سخت پابندیاں عائد ہیں جن کے باعث معیشت کی حالت پتلی ہوچکی ہے۔ ایسے میں صدر روحانی چاہتے ہیں کہ ایران کے بارے میں مغربی دنیا کی رائے تبدیل ہو اور پابندیاں نرم یا ختم کی جائیں۔ امریکا نے ایران کی طرف سے اٹھائے جانے والے پہلے قدم کا مثبت جواب دیا۔ اوباما انتظامیہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ ایران ایک نئی ابتدا چاہتا ہے اور اب مغربی دنیا سے اس کے تعلقات کا نیا دور شروع ہوگا۔
علی خامنہ ای ۱۹۳۹ء میں مشہد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے مشہد اور قم میں تعلیم حاصل کی اور ایران کے پہلے سپریم لیڈر خمینی سے بہت کچھ سیکھا۔ علی خامنہ ای ہی نے امریکا کو بڑے شیطان کا نام دیا اور اُس کے خلاف ایرانیوں میں شدید نفرت پیدا کی۔ ۱۹۷۹ء میں ایران میں شاہ رضا پہلوی کے خلاف انقلاب کے برپا ہونے سے پہلے انہیں بادشاہت کے خلاف آواز اٹھانے پر چھ بار جیل بھیجا گیا۔ شاہ کے دور میں مخالفین پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ شاہ کو امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے ۱۹۵۳ء میں وزیراعظم مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سونپا تھا۔ اس اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے امریکا کی تربیت یافتہ خفیہ پولیس تعینات کی گئی جس نے مخالفین کو سبق سکھانے کے معاملے میں ایذا رسانی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ علی خامنہ ای بتاتے ہیں کہ ایک بار تفتیش کے دوران ایک پولیس افسر نے اُن کی داڑھی پر شراب ڈالی اور اُسے ماچس کی تیلی دکھا دی۔
علی خامنہ ای نے جو کچھ ذاتی حیثیت میں بھگتا یا برداشت کیا، اُس نے ان میں امریکا کے لیے نفرت اور شک کے بیج بوئے۔ وہ امریکا کی پالیسیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ جو کچھ امریکا نے ایران سے کیا ہے، اُسی کے نتیجے میں ایران کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ وہ اب بھی امریکا کی نیت پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ شاہ کے دور میں امریکی خفیہ اداروں کا ایران میں جو عمل دخل تھا، اُس کی روشنی میں علی خامنہ ای کہتے ہیں کہ امریکا کبھی ایران کے لیے بہتر دوست ثابت نہیں ہوسکتا۔ جسے وہ بدترین ڈکٹیٹر سمجھتے تھے، اُسے انہوں نے امریکیوں سے مدد پاتے دیکھا۔ شاہ کی جیلوں میں مخالفین کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ شاہ کی تمام پالیسیوں کو امریکا کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔
علی خامنہ ای نے اپنی تقاریر میں امریکا کی فریب کاری کو بے نقاب کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ وہ کہتے رہے ہیں کہ امریکا کی مسکراہٹ سے دھوکا نہ کھایا جائے کیونکہ اُس کے ہاتھ میں خنجر ہے جو وہ پیٹھ میں گھونپ دے گا۔ وہ جب کبھی امریکی پالیسیوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں، اُن کا لہجہ انتہائی سخت اور غیر لچک دار ہوتا ہے۔
علی خامنہ ای کی شخصیت اور خیالات کو سمجھنا بھی ایک مسئلہ ہے۔ وہ بہت کم گو اور کم آمیز ہیں۔ لوگوں سے ان کا تعلق خاصا رسمی سا ہے۔ سپریم لیڈر ہونے کے ناطے اُن کی شخصیت کے گرد احترام کا ایک ہیولا سا ہے جس سے گزرنا انتہائی دشوار ہے۔ سرکاری اخبار ’’کیہان‘‘ کے ایڈیٹر اور علی خامنہ ای کے ساتھ متعدد دورے کرنے والے شریعت مداری کہتے ہیں کہ سپریم لیڈر کو سمجھنا انتہائی دشوار ہے۔ کوئی بھی یہ نہیں بتا سکتا کہ کسی بھی موضوع پر اُن کے ذہن میں کیا چل رہا ہے، وہ کیا سوچ رہے ہیں اور اُن کے ممکنہ اقدامات کیا ہوں گے۔ وہ بالکل الگ مزاج کے ہیں۔ پارلیمان کے رکن کاظم جلالی کہتے ہیں کہ سپریم لیڈر انتہائی سادگی سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی سرکاری رہائش کی تصاویر برائے نام ملتی ہیں۔ ان کی اہلیہ کی تصاویر بھی شائع نہیں ہوتیں۔ وہ اپنے دفاتر میں انتہائی سادگی سے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
آیت اللہ خمینی نے خامنہ ای کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا مگر مشکل یہ تھی کہ وہ مرجع نہ تھے۔ سپریم لیڈر کے منصب کا اہل بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کی گئی۔ کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے فیلو کریم سجاد پور کہتے ہیں کہ اگر خمینی نہ ہوتے، انقلاب برپا نہ ہوا ہوتا تو علی خامنہ ای آج ایران میں ایک عام عالم کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۹ء تک علی خامنہ ای نے ایران کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس دوران وہ عراق سے جنگ کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے سرگرم رہے۔
کینتھ پولاک کہتے ہیں کہ علمی اعتبار سے کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ علی خامنہ ای کی شخصیت میں وہ طلسم بھی نہیں جو خمینی کا خاصہ تھا۔ وہ اگرچہ تلخ لہجے میں تقریر کرتے ہیں اور امریکا کے خلاف کھل کر بولتے ہیں مگر ان کے لہجے میں جان نہیں ہوتی۔ وہ ایک بہت بڑے منصب پر بہت کمزور شخص ہیں۔
کریم سجاد پور کہتے ہیں کہ علی خامنہ ای نے اپنی خامیوں کو پاسداران انقلاب سے روابط بہتر بنا کر دور کرنے کی کوشش کی۔ وہ علمی اعتبار سے کمزور تھے تو پاسدارانِ انقلاب سے رابطے بڑھائے تاکہ کوئی مشکل پیدا نہ ہو۔ علمی شخصیت سے بڑھ کر وہ فوجی آمر ہیں۔
علی خامنہ ای پر قاتلانہ حملے بھی ہوچکے ہیں۔ ۱۹۸۱ء میں ایک مارکس نواز گروپ نے پریس کانفرنس کے دوران ایک ٹیپ ریکارڈر کے نزدیک بم نصب کیا۔ بم دھماکے سے اُن کے ایک ہاتھ پر شدید زخم آئے۔ آج بھی اُنہیں ہاتھ اٹھانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ مصافحہ کرتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر فریقِ ثانی کا ہاتھ پکڑتے ہیں۔ ارتعاش صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔
خمینی کے مقابلے میں علی خامنہ ای زیادہ کھلے قلب و ذہن کے ہیں۔ وہ فکشن اور شاعری کے بھی دلدادہ رہے ہیں۔ انہوں نے مغرب کے عظیم ادبی فن پاروں کا مطالعہ کیا ہے اور ان کی کھل کر تعریف بھی کی ہے۔ بالزیک، ٹالسٹائی اور وکٹر ہیوگو ان کے پسندیدہ مصنفین میں سے ہیں۔ ادب نوازی کے معاملے میں خمینی بہت پیچھے تھے۔ اُن کی ساری توجہ سیاست اور ریاستی امور پر مرکوز رہی۔
علی خامنہ ای نے فرانسیسی ادب پر بھی توجہ دی ہے۔ وہ بہت پڑھتے ہیں اور اِس بات کو بیان بھی کرتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اسلامی قوانین کو بھول چکے ہیں۔ تہران میں جب لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک گروپ نے ایک فرانسیسی گانے پر سرعام رقص کیا اور اس کی وڈیو یوٹیوب پر اَپ لوڈ کی گئی تو علی خامنہ ای کے حکم پر اُس رقص کے تمام شرکا کو گرفتار کر کے کوڑوں اور قید کی سزا سنا دی گئی۔ بعد میں ایک عدالت نے اِن سزاؤں کو منسوخ کر دیا۔ علی خامنہ ای ادب عالیہ کے دلدادہ ہیں مگر اسلامی قوانین سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ چند برس قبل ایک تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ مرد و زن کا اختلاط مغرب کا ہتھیار ہے۔ وہ ہمارے ہاں بدکاری اور بے حیائی پھیلانا چاہتا ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر باضابطہ جنگ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
علی خامنہ ای نے سخت سینسر شپ بھی عائد کر رکھی ہے۔ معاشرے میں ہر معاملے پر کھلی بحث کی گنجائش نہیں۔ بہت سے ایرانی اب بھی ٹوئٹر تک رسائی نہیں رکھتے۔ اس راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں اور یہ بات اس لیے عجیب ہے کہ خود علی خامنہ ای باقاعدگی سے ٹوئیٹ کرتے ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر جدت کے خلاف ہیں مگر یہ جنگ وہ ہارتے جارہے ہیں۔ بیشتر ایرانی نوجوان ان کے خیالات سے متفق نہیں اور اخلاقی معیارات کے معاملے میں اُن سے واضح اختلاف رکھتے ہیں۔ خواتین اب لباس کے معاملے میں ریاست کی عائد کردہ سختیوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لاکھوں ایرانیوں کے پاس اسمارٹ فونز ہیں۔ وہ مغربی موسیقی سنتے ہیں، امریکی فلمیں دیکھتے ہیں۔ مغربی شہروں کی طرح ایران میں بھی اب مخلوط پارٹیاں ہوتی ہیں۔ بیشتر ایرانیوں کو ۱۹۷۹ء کے انقلاب کا عملی تجربہ نہیں کیونکہ وہ اُس کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت ایران میں دو تہائی آبادی ایسی ہے جو شاہ کے زوال کے بعد اِس دنیا میں آئی تھی۔ اسرائیل کے بعد پورے خطے میں ایران ایسا ملک ہے جہاں امریکیوں کا پرتپاک خیر مقدم کیا جاتا ہے۔
علی خامنہ ای اب بھی امریکا مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں مگر ایرانیوں کی اکثریت اس نعرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ۲۰۰۹ء میں جب محمود احمدی نژاد نے صدارتی انتخاب جیتا تو کئی ایرانی شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے جن میں انتخابی دھاندلی کی مذمت کے ساتھ ساتھ امریکا مردہ باد کے نعرے کو بھی مسترد کردیا گیا۔ ایرانیوں کا خیال ہے کہ اب امریکا سے معاندانہ رویہ رکھنے کا وقت گزر چکا ہے اور دوستی کا لمحہ سامنے ہے۔
علی خامنہ ای نے گرین موومنٹ کے نام سے ہونے والے اس احتجاج کو امریکی سامراج اور یہودیوں کی سازش قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور یورپ مل کر ایران کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ جمہوری اصلاحات کا غلغلہ بھی بلند کرتے ہیں۔ گرین موومنٹ کو سختی سے کچل دیا گیا۔ اس معاملے میں سخت گیر سکیورٹی فورسز نے اہم کردار ادا کیا اور علی خامنہ ای کے بیٹے مجتبیٰ نے کریک ڈاؤن کی نگرانی کی۔ امریکا نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ اوباما انتظامیہ نے کہا کہ علی خامنہ ای خفیف سا بھی اشارا نہیں دینا چاہتے کہ وہ کمزور پڑچکے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ اگر مخالفین کو ان کے کمزور پڑنے کا اندازہ ہوگیا تو وہ اُن کا تختہ الٹنے کے لیے کچھ بھی کر گزریں گے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ علی خامنہ ای نے اپنی مشکلات سے کوئی سبق سیکھا ہی نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیاں معیشت کو غیر معمولی حد تک متاثر کرچکی ہیں۔ انہوں نے ۲۰۱۳ء میں اصلاح پسند اور اعتدال کی راہ پر گامزن رہنے والے حسن روحانی کو اس لیے قبول کیا کہ ملک مزید سخت گیر رویّے اور اُس کے نتیجے میں نازل ہونے والی پابندیوں کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ تیل اور بینکاری کا شعبہ بہت بُری حالت میں تھا۔ ایرانیوں کو فوری طور پر ریلیف کی ضرورت تھی۔ ایران کو جوہری پروگرام کے حوالے سے کسی آبرو مندانہ ڈیل کی ضرورت تھی تاکہ بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو، معیشت بحالی کی راہ پر گامزن ہو اور لوگوں کو بہتر زندگی بسر کرنے کے مواقع زیادہ آسانی سے میسر ہوں۔ ایران میں بے روزگاری بھی بڑھ چکی تھی۔ مہنگائی نے لوگوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ افراطِ زر کی شرح میں اضافے کی رفتار ۴۵ فیصد سالانہ تک جا پہنچی تھی۔ یہ تمام مشکلات معیشت کے ساتھ ساتھ معاشرت اور سیاست کے لیے بھی دشواریاں پیدا کر رہی تھیں۔
علی خامنہ ای اب بھی بہت سے معاملات میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ حسن روحانی اور جاوید ظریف کے کاندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ علی خامنہ ای کو سمجھائیں کہ ایران کو لاحق سب سے بڑا خطرہ امریکا نہیں بلکہ اقتصادی پابندیاں ہیں جن کے باعث معیشت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے اور لوگ پریشان ہیں۔ ساتھ ہی اُنہیں اس بات پر بھی قائل کرنا ہوگا کہ مغرب سے دوستی کیے بغیر ایران کی مشکلات ختم نہیں ہوسکتیں۔ علی خامنہ ای ایران کے جوہری پروگرام پر امریکا اور یورپ سے کسی ڈیل کو ایران کے لیے توہین سمجھتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ سے متعلق امور پر امریکی ایوان صدر کے سابق مشیر ڈینس راس کہتے ہیں کہ خامنہ ای کو محسوس کرنا ہوگا کہ جوہری پروگرام پر ڈیل ایران کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تک علی خامنہ ای کا ذہن اس حوالے سے تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ وہ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ایران اگر جوہری ہتھیاروں کا حامل ہوگا تو اُس کے وجود کو لاحق خطرات ختم ہوجائیں گے اور یہ کہ اگر ایران نے جوہری ہتھیار تیار یا حاصل نہ کیے تو امریکا کی طرف سے مکمل تباہی کا خطرہ برقرار رہے گا۔ وہ اس معاملے میں شمالی کوریا کو مثال کا درجہ دیتے ہیں۔ علی خامنہ ای نے جولائی میں ایک تقریر کے دوران دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اب ایران کو مغرب کی طے کردہ حدود سے آگے جاکر یورینیم کی افزودگی پر توجہ دینی چاہیے۔ اِس کا واضح مطلب یہ تھا کہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی طرف بڑھ جانا چاہیے۔ امریکا اور یورپ میں اِس تقریر پر شدید ردعمل دکھائی دیا۔ بیشتر مبصرین نے کہا کہ اب ایران سے جوہری پروگرام پر مغرب کی کسی ڈیل کی گنجائش تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔
عراق اور شام میں تیزی سے پھیلتی ہوئی انتہا پسند تنظیم ’’داعش‘‘ کے خلاف بین الاقوامی کارروائی کی بات ہوئی تو یہ امکان ظاہر کیا جانے لگا کہ ایران بھی امریکا اور یورپ کا ساتھ دے گا مگر علی خامنہ ای اس کے لیے تیار نہ ہوئے۔ ان کا خیال ہے کہ ’’داعش‘‘ کے خلاف کارروائی کے نام پر امریکا ایک بار پھر خطے میں قدم جمانا چاہتا ہے اور یہ کہ اس کارروائی کا بنیادی مقصد شام میں بشارالاسد کی ایرانی حمایت یافتہ حکومت کو ختم کرنا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر امریکا کے شراکت دار بننے کے لیے کسی صورت تیار نہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تمام امکانات نے دم توڑ دیا ہے۔ جوہری پروگرام پر مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ امریکیوں کا اندازہ ہے کہ علی خامنہ ای طویل کھیل کھیلنے کے عادی ہیں۔ اس معاملے میں امریکیوں کو تھوڑا صبر اور کرنا پڑے گا۔ ’’شیطان بزرگ‘‘ کو لتاڑنا علی خامنہ ای کی عادت اور ضرورت ہے۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ڈیل تو کرنی ہی ہے مگر وہ یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ اُنہیں امریکا اور یورپ کے آگے جُھکنا پڑ رہا ہے۔
امریکا اور ایران کے درمیان اس وقت معاملات ایسے موڑ پر ہیں جہاں سے کوئی بھی راہ نکل سکتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں ممالک پھر ایک دوسرے کے خلاف شدید مخاصمت پر تُل جائیں۔
“The Deal Breaker”. (“Time”. October 13,2014)
Leave a Reply