
امریکی سفیر پر مسلح موٹر سائیکل سوار کا حملہ کرنا کوئی عام بات نہیں ہوتی، یہ واقعہ بنگلادیش میں واشنگٹن کی سفیر مارسیا برنیسنٹ کے ساتھ گزشتہ گرمیوں میں ہوا، مارسیا ۴؍اگست کو ڈھاکا میں رات کے کھانے کے بعد ایک پارٹی سے نکلیں تو موٹر سائیکل سواروں نے پیچھا کرکے ان کی گاڑی پر پتھراؤ کیا اور نقصان پہنچائے بغیر چلے گئے۔ حملے میں ملوث کسی فرد کا نام کبھی سامنے نہیں آسکا۔ اس واقعہ سے بنگلادیش میں بڑھتے ہوئے تشدد اور سیاسی لڑائی کا اندازہ ہوتا ہے، جو ملک کو تبدیل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ایک جمہوری اور ماڈرن مسلم ملک میں ایک جماعتی نظام نافذ ہوچکا ہے۔ واشنگٹن کے پالیسی ساز بنگلادیش پر کم ہی توجہ دیتے ہیں، اس کے باوجود حملے سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا کو بھی ملک کی گندی سیاست میں کھینچ لیاگیا ہے۔ امریکی سفیر پر حملے سے کچھ دن قبل ۲۹ جولائی کو دو نوجوانوں کی ٹریفک حادثے میں ہلاکت پر پورے ڈھاکا میں احتجاج کیاگیا، مظاہرین جن میں اکثریت طالبعلموں کی تھی حکومت سے سڑکیں محفوظ بنانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ مظاہرے تو پرامن تھے مگر مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا گیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق ڈھاکا کے مضافات میں حکومتی جماعت عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم کے ارکان نے مظاہرین پر حملہ کردیا، اس دوران کوریج کرنے والے صحافیوں پر بھی تشدد ہوا اور کیمرے چھین لیے گئے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے احتجاج روکنے کے لیے یونیورسٹی کیمپس میں گھس آئے۔ حکومت کے مظاہرین سے نمٹنے کے طریقہ کار کے بارے میں الجزیرہ کوانٹرویو دینے کے بعد سماجی کارکن شاہد عالم کو پولیس نے اٹھا لیا، مقامی میڈیا کے مطابق دوران حراست شاہد پر تشدد بھی کیا گیا۔ شاہد کو تین مہینے سے زیادہ قید رکھنے کے بعد بھی بنگلادیش کے اٹارنی جنرل ہائیکورٹ کا حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا چاہتے ہیں۔ بنگلادیش میں تنقید کرنے والوں سے جابر حکومت کا رویہ ایک افسوسناک معمول بن چکا ہے، اس کے لیے کئی مواقع پر ڈھاکا نے قانون کا سہارا بھی لیا ہے۔ گزشتہ ماہ پارلیمان نے ایک نیاقانون ’’ڈیجیٹل سیکورٹی ایکٹ‘‘ کے نام سے منظور کیا ہے۔ یہ قانون آن لائن اور سوشل میڈیا پر مواد کے حوالے سے ہے، اس قانون میں مبہم الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ ’’ناپسندیدہ اور جارحانہ مواد‘‘ پر پابندی ہوگی۔ اس کے علاوہ صحافیوں کا کالم پسند نہ آنے پر حکومت ان کے خلاف بغاوت اور ہتک عزت کا مقدمہ بھی دائر کرسکتی ہے۔ حکومت نے ریاست کے اعلیٰ عہدوں پر موجود افراد کے خلاف بھی کارروائی تیز کردی ہے۔
گزشتہ نومبر میں سپریم کورٹ نے ججوں کی برطرفی کے اختیار کے حوالے سے حکومتی آئینی ترمیم کو مسترد کردیا، جس کے بعد حکومت نے عدالت کے فیصلے پر شدید غصے کا اظہار کیا اورچیف جسٹس سورندر کمار سہنا کو بیرون ملک جانے پر مجبور کردیا۔ بعد میں حکومت نے دعویٰ کیا کہ وہ چیف جسٹس پر بدعنوانی کے الزام میں مقدمہ چلانا چاہتی تھی۔ بعدازاں بنگلادیش کے احتساب بیورو نے اعتراف کیا کہ چیف جسٹس کے خلاف بدعنوانی کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔ اب جسٹس سہنا امریکی حکومت سے پناہ طلب کررہے ہیں۔
بنگلادیش کی موجودہ جمہوریت انتہائی خوفناک ہے۔ ’’رپورٹر وِد آؤٹ بارڈر‘‘ کے مطابق آزادی صحافت میں بنگلادیش کا نمبر ۱۸۰؍ممالک میں ۱۴۴؍واں ہے۔ ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۷ء کے درمیان ’’اکنامک انٹیلی جنس یونٹ‘‘ کے جمہوری انڈکس میں ۱۶۷؍ممالک میں بنگلادیش ۸۵ سے ۹۲ نمبر کے درمیان رہا۔ سب سے بدترین تجزیہ مارچ ۲۰۱۸ء میں سامنے آیا، جب ’’برٹلس مین‘‘ رپورٹ میں بنگلادیش کو آمریت کی درجہ بندی میں شامل کرلیا گیا، کیونکہ وہ جمہوریت کے کم ترین معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہا تھا، جیسے شفاف الیکشن۔
۲۰۱۴ء کے انتخابات میں عوامی لیگ دوبارہ منتخب ہوئی تو کئی بیرونی مبصرین نے انتخابات کو ناقابل اعتبار قرار دیا۔ یہاں تک کہ انتخابات کی نگرانی کے لیے یورپی یونین نے تو اپنے مبصرین بھی بھیجنے سے انکار کردیا۔ حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ’’بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی‘‘ نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا، جس کی وجہ حکومت کی جانب سے الیکشن کرانے کے لیے نگراں حکومت قائم کرنے کے قانون کا خاتمہ کرناتھا۔ حزب اختلاف کے بائیکاٹ پر ۳۰۰ میں سے ۱۵۳؍نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوگئے، یعنی پارلیمان کی آدھی سے زیادہ نشستوں پر انتخابات ہی نہیں ہوئے۔ گزشتہ چار برسوں میں حکومت نے حزب اختلاف کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کے ارکان کو جیل بھیج دیاگیا ہے۔ حکومت اپنے کریک ڈاؤن کوجائز بنانے کے لیے اس کو انسداد دہشت گردی مہم کا نام دیتی ہے۔ حکومت کے مطابق جماعت اسلامی کے جماعت المجاہدین سے تعلقات ہیں، جو ایک دہشت گرد تنظیم ہے، جس نے حالیہ عرصے میں کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ حزب اختلاف بھی سیاسی تشدد کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ ۲۰۱۴ء میں انتخابات کے خلاف پرتشدد احتجاج کے دوران لندن میں بنگلادیشی سفارتخانے کو نقصان پہنچا، لیکن ان کا دہشت گر دوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ڈھاکا حکومت کے اقدامات نے رہنما حزب اختلاف خالدہ ضیاء اور وزیراعظم حسینہ واجد کے درمیان طویل تلخ تعلقات کو انتہائی زہریلا بنادیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی مفاہمت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بنگلادیش کے لیے اگلے چند ماہ بہت اہم ہیں۔ وہاں جنوری میں انتخاب ہونے ہیں، آزاد اور منصفانہ انتخابات جمہوریت کی جانب لمبے سفر کا آغاز ہوں گے، لیکن اگر اپوزیشن کو پورا موقع نہیں دیا گیا تو بنگلادیش ایک جماعتی ریاست بن کر رہ جائے گا۔ گزشتہ فروری میں رہنما حزب اختلاف خالدہ ضیاء کو بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیاگیا۔ بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی نے خالدہ ضیاء کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اس کوانتخابی دھاندلی قرار دیا۔ پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگر خالدہ ضیاء کو رہا نہیں کیا گیا تو الیکشن کا بائیکاٹ بھی کرسکتے ہیں۔ نیشنلسٹ پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو بھی شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ پارٹی کے مرکزی رہنما ’’مرزافخرالاسلام‘‘ نے اکتوبر میں ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ پارٹی کے خلاف ۳۰ دن میں ۴۱۰۰ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اس دوران وزیراعظم حسینہ واجد نے توقع کے مطابق اعلان کیا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے حالات سازگار ہیں۔ بنگلادیش کے چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھاکہ میں منصفانہ انتخابات کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ رواں برس کئی جگہوں پر بلدیاتی انتخابات ہوئے اور پولنگ کے دوران بے قاعدگیوں کی شکایات سامنے آئیں۔
امریکی پالیسی سازوں کے لیے بنگلادیش میں غیر جمہوری طاقتوں کا مضبوط ہونا خاص معاملہ نہیں۔ موجودہ دور میں مضبوط لیڈر اور آمرانہ رجحانات دنیا بھر میں پروان چڑھ رہے ہیں، جس میں خود امریکا بھی شامل ہے۔ امریکی سفیر پر حملے سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا بنگلادیش کی سیاست کے گرداب میں پھنس گیا ہے، یہ واشنگٹن کے لیے مکمل طور پر حیران کن نہیں تھا۔ حملے سے قبل امریکی سفارتخانے اور حکومت کے درمیان کشیدگی موجود تھی، امریکی سفیر نے حکومت پر کھلے عام تنقید کی تھی، جون میں نیشنل پریس کلب میں تقریر کے دوران امریکی سفیر نے بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن رہنما کو الیکشن لڑنے پر دھمکیاں دینے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیاتھا، جس کے جواب میں وزیراعظم حسینہ واجد کے بیٹے نے فیس بک پیغام میں امریکی سفیر کو بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کا ترجمان قرار دے دیا تھا۔ امریکی سفیر پر حملے کی مذمت کرنے کے ساتھ ہی حکومت نے امریکی سفارت خانے پر تنقید بھی کی۔ حملے کے ایک دن بعد وزیر اطلاعات حسن الحق نے امریکا پرداخلی معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا۔ یکم اگست کو وزیر قانون انیس الحق نے امریکی سفیر پر حکومت کو کمزور کرنے کی سازش کا الزام عائد کیا۔ حملے کے بعد امریکی سفارتخانے کے فیس بک پر جاری بیان میں پرامن احتجاج کے حق کی حمایت اور مظاہرین کے خلاف پرتشدد حکومتی کریک ڈاؤن پر تنقید کی گئی۔ اب بھی امریکی سفارت خانے کی جانب سے حکومتی پالیسی پر تحفظات کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ماہ امریکی سفیر کی جانب سے ’’ڈیجیٹل سیکورٹی ایکٹ‘‘ کے ذریعے آزادی اظہار رائے کو جرم بنادینے کے خدشے کااظہار کیا گیا۔
ڈھاکا میں مارسیا برنیسنٹ کی امریکی سفیر کی حیثیت سے مدت مکمل ہونے والی ہے۔ بنگلادیش کی سیاسی کشیدگی اب براہ راست واشنگٹن کو بھی متاثر کررہی ہے۔ ستمبر میں کئی دن تک بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کے عالمگیر نے واشنگٹن کا دورہ کرکے اہم شخصیات، پبلک ریلیشن فرم کے سامنے اپنی پارٹی کا مقدمہ پیش کیا۔ اس دوران ڈھاکاسے حکومت نے بنگلادیش پر نظر رکھنے والوں کو ای میل پیغام بھیجا، جس میں ڈھاکا حکومت کی کئی کامیابیوں، آزاد میڈیا اور حکومت کو حاصل وسیع عوامی حمایت کا ذکر کیا گیا۔ ان پیغامات میں حکومت پر تنقید کرنے پر سماجی کارکن شاہد عالم کی گرفتاری کا دفاع بھی کیا گیا اور دعویٰ کیا کہ’’اس نے جو کچھ کہا تھا، وہ خطرناک جھوٹ تھا‘‘۔ اسی دن مختلف پبلک ریلیشنز گروپس نے بنگلادیش پر نظر رکھنے والوں کو بڑے پیمانے پر ان بکس پیغامات بھیجے، جس میں حکومت کے دعوؤں کی تردید کی گئی۔ سب سے پہلے ڈھاکا حکومت کی نمائندگی کرنے والی ایک تنظیم نے دوپہر کے کھانے کے وقت حکومتی کامیابیوں کے حوالے سے پیغامات بھیجے۔ جس کے چند گھنٹے بعد بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک گروپ نے ’’بنگلادیش میں جمہوریت کیسے تاریک ہوئی‘‘ کے پیغامات بھیجے۔ لگتا ہے کہ واشنگٹن بنگلادیش کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری بیانیے کی جنگ کا میدان بن گیا ہے۔ اس تمام صورتحال میں ٹرمپ انتظامیہ کا اپنا نقطۂ نظر ہے۔
بنگلادیش میں سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ ریاست کے خلاف غصہ ہے اور انتہاپسند عناصر اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بنگلادیشی عسکریت پسندوں اور داعش کے مقامی حامیان کی جانب سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کی جاتی ہے، ان عناصر کے خلاف گزشتہ دو برس سے بڑے پیمانے پر ریاستی کریک ڈاؤن جاری ہے، جس سے عسکریت پسندوں کو نقصان پہنچا ہے۔ حکومت کے اپوزیشن کے خلاف جابرانہ اقدامات سے انتہاپسندی کی نئی لہر پیدا ہونے کاخطرہ ہے۔ انتخاب اگر غیر منصفانہ ہوئے تو حزب اختلاف کی جانب سے حکومت کی مخالفت اور بڑھ جائے گی، اپوزیشن میں ایسے عناصر بھی شامل ہیں جو پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہیں اور ان کے دہشت گردوں سے خفیہ تعلقات بھی ہیں۔ یہ صورتحال امریکا کے لیے انتہائی تشویش ناک ہونی چاہیے، کیونکہ امریکا طویل عرصے سے جنوبی ایشیا میں استحکام کو اپنا عظیم ترین مفاد سمجھتا ہے۔ واشنگٹن کی طرف سے بنگلادیش پر درست اقدامات کے لیے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے، جیسے الیکشن کی نگرانی کے لیے حکومت اورحزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل نگراں حکومت کا قیام اور الیکشن سے قبل پارلیمان کو تحلیل کرنا، لیکن امریکی سفارت خانے اور ڈھاکا حکومت کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے امریکی دباؤ کارگر ثابت نہیں ہوگا اور بنگلادیش میں انتہائی سیاسی کشیدگی کے ماحول میں حکومت سے اس طرح کے اقدامات کی امید کرنا بہت بڑی بے وقوفی ہوگی۔
اس وقت بنگلادیش میں جمہوریت درمیان میں جھول رہی ہے اور آئندہ انتخابات کے لیے ۳۰ دسمبر کی تاریخ دی گئی ہے، یہ انتخابات ایک خطرناک موڑ ثابت ہوں گے۔ چند ہفتے قبل ہماری عوامی لیگ اور بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کے نوجوان کارکنان کے گروپ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ہماری کئی باتوں سے اختلاف کیا، مگر حیران کن طور پر وہ ہماری ایک بات سے متفق تھے، ’’آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہی ملک کو بہتری کی طرف لے جاسکتے ہیں۔‘‘ اس حوالے سے چند ماہ قبل ایک سروے بھی کیا گیا تھا، جس سے پتا لگا کہ جمہوریت کے استحکام کے لیے حکومتی کارکردگی پر عوام کا عدم اعتماد بڑھتا جارہا ہے اور عوام کی بڑی تعداد انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ رائے عامہ کے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ بنگلادیشیوں کی بڑی تعداد سیاسی جماعتوں کے درمیان تعاون میں اضافہ چاہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں عوامی لیگ اور بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کے سابق اور بڑے رہنماؤں پر مشتمل نیا اتحاد ’’جاتیا اوکیان فرنٹ‘‘ کے نام سے تشکیل دیا گیا ہے، جس سے دو جماعتوں کی لڑائی میں پھنسے عوام کے لیے ایک تیسرے راستے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ عوامی لیگ کی جانب سے اوکیان فرنٹ سے آئندہ انتخابات پر دو بار مذاکرات کیے گئے مگر دونوں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ ہوسکتا ہے کہ بنگلادیشیوں میں قابل اعتبار انتخابات اور سیاسی ہم آہنگی کے ماحول کی شدید طلب موجود ہو، لیکن بدقسمتی سے ملک کے موجودہ حالات میں اس خواہش کا پورا ہونا انتہائی مشکل ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“The death of democracy in Bangladesh”. (“nationalinterest.org”. Nov.15, 2018)
Leave a Reply