حال ہی میں بہت سے ایسے جائزے سامنے آئے ہیں جن میں امریکی زوال و عروج سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ان جائزوں میں عموماً دو طرح کے نظریات ملتے ہیں بعض لوگ ہر واقعہ میں امریکی زوال کو تلاش کر لیتے ہیں جب کہ کچھ لوگ امریکا کی طرف ہر حیرت انگیز واقعہ کو منسوب کر کے اس کی طاقت و قوت کو ما فوق الفطرت ثابت کرنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ وہ کسی حال میں یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ امریکا کبھی زوال سے بھی دو چار ہو سکتاہے۔
شاید یہ بات لائق توجہ ہو کہ کسی بھی طاقت یا ملک کے عروج و زوال پر بحث کرنے کے لیے تین سطح پر اس ملک کا ناقدانہ وغیر جانبدارانہ جائزہ لینا ضروری ہو تا ہے
معاشی، عسکری، معاشرتی
اس مثلث کا صحیح جائزہ اور تجزیہ ہی ہمیں کسی ملک کے صحیح خط وخال کو بتا سکتا ہے اور طاقت و قوت کے میزان میں اس کی حیثیت کو اجاگر کر سکتا ہے اور یہ اشارہ دے سکتا ہے کہ وہ ملک شباب و جوانی کی دہلیز پر ہے یا بڑھاپے کے دروازہ پر دستک دے رہا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس مثلث کے پہلے رکن پر روشنی ڈالنے اور اس کے اسباب کی بھی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے۔
بعض رپورٹوں کے مطابق امریکا مجموعی اعتبار سے کل ۶۵ ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے جب کہ آزاد ذرائع کے مطابق امریکا اس وقت ۸۰۰ ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے، ۲۰ ویں صدی کے ۸۰ کی دہائی میں وفاقی قرضوں میں حیرت انگیز اضافہ نوٹ کیا گیا تھا،ماہرین اقتصادیات نے اس کی وجہ سالانہ وفاقی بجٹ میں مسلسل انحطاط و خسارہ قرار دیی تھی، ۱۹۹۲ ء میں جب بل کلنٹن مسند اقتدار پر متمکن ہوئے، اس وقت امریکی معیشت ۲۹۰ ارب ڈالر خسارہ کا شکار تھی لیکن بل کلنٹن کی حکمت علی اور پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۰۰۰ ء میں جو بجٹ پیش کیا گیا اس میں انہوں نے نہ صرف یہ کہ خسارہ کو دور کیا بلکہ ۲۳۶ ارب ڈالر کا نفع بھی پیش کیا جو ایک ریکارڈ شمار کیا گیا تھا، بل کلنٹن جب رخصت ہوئے تو ۶ ٹریلین ڈالر اضافی چھوڑ گئے تھے۔
۲۰۰۱ء میں وفاقی قرض میں پھر سے اضافہ شروع ہو گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ نئے وفاقی مالی سال کا بجٹ پھر سے خسارہ کا شکار ہو گیا تھا۔ بش جونیئر نے یہ کارنامہ انجام دیا کہ بجٹ میں اضافہ کے بجائے ۲۰۰۴ ء میں ۴۱۲ ارب ڈالر کا خسارہ پیش کیا۔ وائٹ ہائوس میں بجٹ کے ڈائریکٹر گوئل کابلان نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ۲۰۰۶ تک اس خسارہ میں ۴۰۰ ارب ڈالر کے اضافہ کا مزید امکان ہے، اس خسارہ کا اگر امریکی قومی پیدا وار سے موازنہ کیا جائے تو تقریباً ۳۱ فیصد بنتا ہے۔
۲۰۰۵ ء کے مالی سال (واضح رہے کہ امریکا میں مالی سال یکم اکتوبر تا ۳۰ ستمبر ہو تاہے ) میں امریکی وفاقی قرض کا تخمینہ امریکی وزارت خزانہ کے مطابق ۹ء۷ ٹریلین ڈالر کا ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء سے لے کر ستمبر ۲۰۰۵ کے دوران وفاقی قرض میں ۳ء۲ ٹریلین ڈالر کا ضافہ ہو ا۔ اس مختصر سی مدت میں جس حیرت انگیز طور پر امریکی قرض میں اضافہ ہوا ہے اگر اس کا موازنہ امریکی تایخ کے کل قرضوں سے کیا جائے تو اس کا تناسب تقریباً ۲۹ فیصد ہوگا۔
مالی سال ۲۰۰۶ میں جب امریکی قرض کا تخمینہ لگایا گیا تو U.S. National Debt Clock کی رپورٹ کے مطابق یہ قرض ۸ ٹریلین ۱۹۸ ارب امریکی ڈالر تھا، پیچھے ہم لکھ چکے ہیں کہ امریکی بجٹ کے ڈائریکٹر گوئل کابلان نے بالکل یہی تجزیہ پیش کیا تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس قرض میں تیزی سے اضافہ ۳۰ ستمبر ۲۰۰۵ کے بعد سے ہوا ہے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اسی دور میں عالم اسلام کے خلاف جنگی مہمات میں شدت آئی تھی۔ ماہرین کے مطابق اس مدت میں روزانہ ۱۸ء۲ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ قرض کی اس خطیر رقم کو اگر امریکی باشندوں میں تقسیم کیا جائے جن کی تعداد ۱۸۶، ۳۶۷، ۲۹۸ ملین ہے تو تقریباً ہر شہری کے حصہ میں ۴۷۵ء۲۷ امریکی ڈالر آئے گا۔
جب ہم ان وفاقی قرضوں کا امریکا کی مجموعی پیداوار سے موزانہ کرتے ہیںوہ ہمیں پتا چلتا ہے کہ ۲۰۰۴ء میں امریکی پیداوا کے مقابلہ میں قرض کا تناسب ۵ء۶۲ فی صد ہے ماہر اقتصادیات مائل ہو ڈیجیز کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۳ء کے مالی سال میں وفاقی قرض پر جو Interset (سود) ۱۹۸۸ ء میں ۲۱۴ ارب ڈالر تھا وہی سود ۲۰۰۳ء میں بڑھ کر ۳۱۸ ارب ڈالر ہو گیا۔ اس طرح اگر گزشتہ ۱۴ سال کے کل Interset کو جوڑا جائے تو ۵ ٹریلین ڈالر بنے گا اور یہ رقم ۲۰۰۳ء میں امریکی قرض کا ۷۱ فیصد حصہ ہے ماہرین اقتصادیات مانتے ہیں کہ Interset کی یہ خطیر رقم کسی وفاقی حکومت کو دو سال تک بغیر کسی داخلی آمدنی کے چلانے کے لیے کافی ہو سکتی ہے یا تین سال تک بغیر کسی خارجی امداد کے صوبائی حکومت چلائی کا سکتی ہے یا دس سال تک امن عامہ کو یقینی اور بیس سال تک حفظان صحت کے تقاضے اس سے پورے کیے جا سکتے ہیں۔
امریکا کو قرض دینے والوں کی فہرست میں پہلا نا م جاپان کا ہے جس نے ۴ بلین ڈالر کے قرضے فراہم کیے ہیں دوسرا نام چین اور تیسرا کوریا کا ہے۔ فرانس نے اپریل ۲۰۰۵ء تک ۲ء۱ ٹریلین ڈالر اور چین نے ۵ء۲۲۳ ارب ڈالر کا قرض دیا ہے۔
امریکی تجارت
تجارت کسی ملک کی پیداواری صلاحیت کی علامت ہوتی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ مارکیٹ میں اثر انداز ہونے کی اس میں کتنی صلاحیت ہے اسی سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کون سا ملک قرض دینے کی پوزیشن میں ہے یا لینے کی پوزیشن میں۔
یوں تو ۱۹۷۱ء ہی سے تجارت کے میدان میں امریکا شکست و ریخت سے دو چار ہے لیکن US Dep of Commerce کے تجزیہ کے مطابق ۲۰۰۵ میںامریکی تجارت تقریباً ۶۱۶ء۷۲۳ ارب ڈالر کے خسارہ سے دو چار ہوئی، یہ ایک ریکارڈ ہے، اور ۲۰۰۴ء کے مقابلہ میں ۲۵ فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
مصنوعات میں امریکا کو جو خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے وہ ۲۰۰۵ ء میں ۶۲۴ء۷۸۱ ارب ڈالر ہے حالانکہ اس بحران سے نکلنے کے لیے بش جونئیر نے ڈالر کی قیمت گھٹا دی تھی لیکن اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا حیرت کی بات یہ ہے کہ مئی ۲۰۰۴ء سے مئی ۲۰۰۵ تک برآمدات میں ۷۱۰ ارب ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑا جب کہ اسی مدت میں جاپان اور جرمنی نے بالترتیب ۱۲۵ اور ۱۹۹ ارب ڈالر کا منافع کمایا۔
امریکا نے اس قتصادی بحران سے نکلنے کی ایک حکمت عملی یہ اپنائی کہ اس نے ڈالر کی قیمت گھٹا دی۔ ۲۰۰۲ء میں یورو کے مقابلہ میں ۳۵ فیصد اور دوسری کرنسیوں کے مقابلہ میں ۱۷ فیصد قیمت کر دی گئی تاکہ ایکسپورٹ میں کسی طرح اضافہ ہوا اور اندرونی اقتصادی ڈھانچہ کو کسی طرح بچایا جا سکے۔ سرمایہ کارامریکی ڈالر سے سرمایہ کاری کرنے لگیں اور پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت پر کنٹرول حاصل کیا جائے لیکن افسوس کہ اس میں سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔
بعد میں امریکی حکام کو اس خطرہ کا احساس ہوا کہ کرنسی کی قیمت گھٹانے سے اس کے غیرمعمولی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ اس سے کبھی کبھی ملک کا اقتصادی ڈھانچہ چوپٹ ہو کر رہ جاتا اور کرنسی اپنی حیثیت کھو دیتی ہے امریکی کرنسی کے لیے یہ اس لیے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ اس کا ایک مظبوط حریف یورو مارکیٹ میں اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ ۶۰ کی دہائی اور ۷۰ کے اوائل میں یہ کیفیت نہیں تھی۔ اس وقت پور ا یورپ امریکی ڈالر کا محافظ تھا اس لیے کہ ان کا سارا کاروبار اسی کرنسی سے منسلک تھا، لیکن اب یہ صورتحال نہیں ہے۔ اگر امریکی کرنسی اپنا وزن کھوتی ہے تو اس کو کوئی سہارا دینے کے لیے تیار نہیں ہوگا، خصوصاً اس لیے بھی کہ عالمی جائزہ یہ ثابت کر رہا ہے کہ نصف سے زیادہ مرکزی بینک احتیاطاً اپنا کاروبار ڈالر سے یورو میں منتقل کر چکے ہیں۔
امریکی معیشت کے زوال کا بنیادی سبب عالم اسلام کے خلاف جنگی مہمات
اس جائزہ سے یہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ امریکی معیشت میں غیر معمولی انحطاط پچھلے پانچ سے چھ سالوں کے درمیان آیا یہی وہ مدت ہے جس میں امریکا نے عالم اسلام کے خلاف ہر انسانیت سوز کا روائی کو روا رکھا ہے اس لیے یہ اندازہ لگانا بالکل درست ہو گا کہ یہ معاشی انحطاط عالم اسلام پر جاری امریکی جارحیت کے ہمہ گیر خمیازوں کا ایک جز ہے۔ اس کی تصدیق امریکی ادارے بھی کر رہے ہیں چنانچہ رپورٹ کے مطابق امریکا میں معاشی سرگرمیاں فوجی مہم جوئیوں میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہیں یہ مہم جوئیاں امریکی معیشت کو قرضوں کی معیشت میں بدل رہی ہیں امریکا اپنی فوجی مہمات کو کامیاب بنانے اور ان کو حسب منشا انجام تک پہنچانے کے لیے جن محاذوں پر اپنا سرمایہ لگا رہا ہے اس کا اندازہ ذیل کے جائزوں سے لگایا جا سکتاہے۔
افغانوں کو سیکو لر بنانے پر ۲۰۵ ملین ڈالر کے اخراجات
امریکا نے تعلیم و تربیت کے نام پر افغان نوجوانوں کو سیکولر بنانے کے لیے ۲۰۵ ملین ڈالر مختص کر دیے ہیں نجی و سرکاری ادارے چلانے کے لیے نوجوانون کی تربیت پر ۱۲۵ ملین ڈالر خرچ کیے جائیں گے جب کہ آئندہ ۵ سال کے عرصہ میں امریکا و ایشیائی بینک افغانستان میں جدید سیکولر نظام تعلیم کی ترویج کے لیے یونیورسٹیوں کے قیام کے لیے ۸۰ ملین ڈالر خرچ کریں گے۔
جہادی رہنمائوں کے قتل کے لیے ۸ ارب ڈالر مختص
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ۲۰ ممالک میں امریکی سفارت خانوں کے کور میں اسپیشل آپریشن فورسز کے فوجی بھیجے گئے ہیں اس نئے گروپ کا بجٹ ۸ ارب ڈالر ہے موجودہ ۲۰ ممالک کے علاوہ اپنے آپریشن پھیلانے کے لیے ۱۳ ہزار مزید فوجی بھرتی کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت اس کے ۷ہزار سپاہی غیر ملکوں میں موجود ہیں یہ لوگ مشتبہ افراد کی نگرانی اور ان کی معلومات جمع کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لفظ Man Hunting استعمال کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی کا سراغ لگا کر اسے اغوا یا قتل کیا جائے وزارت دفاع کے براہ راست کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے اگر وزارت دفاع یا آرمی بیرون ملک کسی مشتبہ شخص یا گروپ کے خلاف کاروائی کرنا چاہے تو اسے سی آئی اے یا وزارت خارجہ کے پاس نہیں جانا ہوگا کیونکہ اس میں نہ صرف وقت لگتا ہے بلکہ راز افشا ہونے کا بھی خطرہ ہو تا ہے موجودہ پلان میں یہ آرڈر براہ راست اس ملک میں موجود سفارت خانے کے کور میں ان خصوصی ایجنٹوں کو دیا جا سکے گا جو امریکی سفیر کی اجازت کے بغیر کام کریں گے۔
عراق کی جنگ اور امریکی بجٹ
امریکا میں ۲۰۰۷ء کا بجٹ پیش کیا گیا جو کل ۶ء۴۴۷ ارب ڈالر تھا کانگریس نے اس میں ۷۰ ارب ڈالر صرف عراق میںجنگ کے لیے خاص کیا ہے۔
امریکا عراق اور افغانستان کی جنگ پر اب تک ۸۱۱ ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے امریکا کے فوجی اخراجات ویت نام میں اس کی جنگ کے اخراجات سے بھی تجاوز کر چکے ہیں امریکا اس برس عراق کی جنگ پر ۸ء۱۰۱ ارب ڈالر کے اخراجات کر رہا ہے جو گزشتہ برس کے مقابلے میں ۱۷ ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ گزشتہ برس امریکا نے عراق کی جنگ پر ۸۷ ارب ڈالر خرچ کیے تھے ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکا کی عراق جنگ پر اب تک ۲۳۰ ملین ڈالر لاگت آچکی ہے اور اگر عراق سے انخلا شروع ہو بھی جاتاہے تو یہ جنگ امریکا کو ویت نام کی جنگ سے بھی زیادہ مہنگی پڑے گی سی این این کے مطابق کانگریشنل ریسرچ سروس کے تجزیہ نگاروں نے تخمینہ لگایا کہ امریکا کی عراق میں موجود گی سے یہ لاگت بڑھ بھی سکتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ۲۰۰ ملین ڈالر روزانہ خرچ ہو رہے ہیں۔
امریکی کانگریش کے ایک ریسرچ سینٹر نے تحقیق پیش کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ابھی تک امریکا ۷ء۵ ارب ڈالر سے زیادہ صرف کر چکا ہے اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ۲۰۰۶ء میں عراق جنگ پر جو اخراجات آئے ہیں وہ ۸ ارب ڈالر ماہانہ ہے جب کہ ۲۰۰۵ تک یہ خرچ ۴ء۶ ارب ڈالر تھا۔
کیا ۲۰۲۵ء تک یورپ فقیروں کا ملک ہو جائے گا؟
یورپی یونین کے وزراء دفاع نے ایک تجزیہ پیش کیا ہے کہ اگر یورپی ممالک اسی رفتار سے دہشت گردی اور فوجی مہمات میں قومی و ملکی سرمایہ کو بر باد کرتے رہے تو ۲۰۲۵ء تک یورپ فقیروں کے ملک میں تبدیل ہو جائے گا یہ رپورٹ اگرچہ بظاہر مبالغہ پر مبنی معلوم ہوتی ہے لیکن اگر تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ عالم اسلام کے معاشی استحکام اور جن ممالک پر امریکا کی اجارہ داری ہے اس کے معاشی وسائل کا اس بیدردی سے استعمال نہ کرے جیسا کہ وہ کر رہا ہے تو یقینا پورا یورپ فقیر ہوجائے۔
ان معلومات کی ترکیب کے وقت میرے ذہن کے دریچے پر بار بار یہ آیت دستک دے رہی تھی:
ترجمہ: ’’سو یہ لوگ تو خرچ کرتے ہی رہیں گے لیکن وہی (اموال) ان کے حق میں حسرت بن جائیں گے پھر یہ لوگ مغلوب ہو جائیں گے‘‘۔
عالم انسانیت پر جنگ کے مہیب اثرات
جب دو ملکوں کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو مشاہدین کی نگاہ دونوں فریقوں کی وقتی کامیابی اور ناکامی پر مرکوز رہتی ہے۔ لیکن اس سے عالم انسانیت پر کیسے کیسے مہیب اثرات مرتب ہوتے ہیں اس پر کس کی نگاہ جاتی ہے ؟
اسرائیل لبنان جنگ ختم ہوگئی لیکن خود اسرئیل کی معیشت اس جنگ سے کس قدر متاثر ہوئی اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف لڑئی پر ۱۵ ارب ۷۰ کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں یہ اس کے دفاعی بجٹ کا ۵۰ فی صد اور مکمل بجٹ کے ۱۰ فی صد کے برابر ہے۔ اس سے اسرائیل کو سبق لینا چاہے تھا لیکن حالیہ رپورٹ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے۔۷ جنوری ۲۰۰۷ ء میں اسرائیلی حکومت نے اپنے جنگی بجٹ میں اضافہ کیا اب یہ جنگی بجٹ ۳ء۱۱ ارب ڈالر کا ہو گیا ہے۔ ۲۰۰۷ء کے مالی سال میں اسرائیل نے پارلیمنٹ میں جو بجٹ پیش کیا ہے وہ ۲۹۵ ارب ڈالر ہے حکومت نے ملک کے مجموعی بجٹ سے ۲۰۶ ارب ڈالر یعنی ۵ء۳ فی صد کٹوتی کر کے جنگی اخراجات کے لیے مختص کر دیا ہے
گویا اسرائیلی عوام کے منہ سے لقمہ چھین کر توپوں ٹینکوں اور میزائیلوں کی منہ بھرائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جب اپنے آپ کو سپر پاور سمجھنے والے ممالک ایسی حرکتیں کرتے ہیں تو پھر چھوٹے چھوٹے ممالک ان درندوں سے اپنے ملک کو بچانے کے لیے جو جنگ کی تیاری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اس میں وہ اپنی رعایا کو بھوکے پیاسے رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
گارجین کی رپورٹ کے مطابق اس سال عالمی سطح پر ہتھیاروں کی خرید و فروخت اور ایکسپورٹ وایمپورٹ میں ۱۰۰۰ ارب ڈالر سے زیادہ صرف کیا گیا، اس تجارت میں امریکا، برطانیہ، روس اور جرمنی سرفہرست ہیں۔لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ رفاہی اور امدادی فنڈز میں جو سرمایہ فراہم ہوا ہے وہ ۷۰ ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی یہ رپورٹ کس قدر لرزہ خیز اور روح فرسا ہے کہ ناکافی غذا کے باعث ہر سال دنیا میں ۵۶ لاکھ بچے مر جاتے ہیں۔ یونیسیف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے مطابق دنیا میں پانچ سال کی عمر کے ہر چار بچوں میں سے ایک وزن کی کمی کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ایسے بچوں کی تعداد ۱۴ کروڑ ۶۰ لاکھ ہے۔ جنوبی ایشیا میں ۴۶ فی صد بچوں کا وزن صحت کے عالمی معیار پر پورا نہیں اترتا جب کہ کم وزن والے پچاس فی صد بچے بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش میں پائے جاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سے ۶۷ فی صد کو مناسب خوراک میسر نہیں اور ان بچوں کی تعداد ۱۴۶ ملین بتائی گئی ہے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ جو طاقتیں پوری دنیا کو ہیروشیما اور ناگاساکی کا نمونہ بنا دینا چاہتے ہوں ان کو ان رپورٹوں کی کیا پروا ہو سکتی ہے؟
(بشکریہ: ’’تعمیرِ حیات‘‘ لکھنؤ۔ شمارہ: ۲۵ فروری ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply