
گزشتہ چند سالوں کے دوران سیکولرازم کو اگرچہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں مشکل ترین امتحان سے گزرنا پڑا ہے مگر اس کا سب سے زیادہ کٹھن امتحان عالم اسلام کے اندر ہوا ہے۔ شاید اسی وجہ سے مغربی ذرائع ابلاغ، سیاستدان اور دانشوروں نے سیکولرازم کی اس پسپائی کو اسلام کی ناکامی، اسلامی رکاوٹ اور اس جیسے مختلف القاب سے تعبیر کیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالم اسلام کی سرزمین کے لیے سیکولرازم کی خوش کن بشارتوں کو قبول کرنا آسان نہیں ہے۔
مشرق وسط اور عالم اسلام کی صورتحال اور وہاں کی عوام سے متعلق گہری معلومات رکھنے والے مشہور برطانوی مستشرق ہملٹن جیپ جو عربی زبان کے ماہر اور اسلامی ثقافت و کلچر کے اسپیشلسٹ بھی سمجھے جاتے ہیں۔ گزشتہ صدی کی تیسری دہائی سے ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیںکہ مصر اور دیگر اسلامی ملکوں کے اندر مغرب زدگی کی لہر جس انداز سے شروع ہوئی ہے اور ان ملکوں کے معاشرہ کو مغربیت میں رنگنے کی جس انداز سے مہم چلائی جا رہی ہے اس سے خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ یہاں قدیم اسلامی ادارے اور اس کی عظیم میراث گم نہ ہو جائے اور اس کے بعد اسلامی ضمیر و معاشرت میں ایسا خلاء نہ پیدا ہو جائے جسے پر کرنا بس میں نہ رہے۔ گزشتہ صدی کی ابتداء میں ھملٹن جیپ کے ظاہر کردہ ان خطرات کے بر عکس آج کے بیشتر اسکالر جنہیں ماہرین اسلامیات یا ماہرین امور مشرق وسطیٰ بھی کہا جاتا ہے انھوں نے اپنے تاثرات اس کے بالکل بر خلاف پیش کیے ہیں انھوں نے اسلام پسند تحریکوں کے پھیلائو پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے جدت پسند اقدار اور سیکولرازم کے لیے خطرہ اور چیلنج قرار دیا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ آج قاھرہ، استنبول، دمشق، الجزار، اور اس کے علاوہ اس جیسے دیگر بڑے اسلامی شہروں کا جو کوئی دورہ کرتا ہے اسے بڑے پیمانے پر اسلام پسندی کا رجحان نظر آتا ہے جس نے اپنے اثرات زندگی کے کسی ایک شعبہ میں نہیں بلکہ تمام شعبوں میں چھوڑا ہے انھیں اسلام پسندی کا مظہر بازاروں میںبھی ملے گا اور سڑک کی بھیڑوں میں بھی، لیڈیز کپڑوں اور سامانوں کی دکانوں میں بھی ملے گا اور وسائل نقل و حمل اور اسٹیشنز پربھی یہاں لوگ بڑی حد تک مساجد اور مذہبی سرگرمیوں کی طرف متوجہ ہیں۔
ہر کسی کو اندازہ ہے کہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران پوری عرب و اسلامی سر زمین کے اندر جدت کا ری اور سیکولرازم کو پھیلانے کی بڑے پیمانے پر کوشش کی گئی یہ اور بات ہے کہ اس کے اثرات و نتائج ہر ملک کے اندر دوسرے سے مختلف رہے۔ کیونکہ ہر ملک کا معاشرتی ڈھانچہ الگ تھا اور ان میں قبول ورد کی صلاحیتیں بھی مختلف تھیں۔ مثال کے طور پر ترکی بنیادی طورپر سیکولرازم کا علمبردار ہے۔ جب کہ یہاں کے عوام اسلامی رحجان رکھنے والے ایران میں حکومت کی بنیاد سخت ترین اسلامی اصولوںپر ہے۔ اس لیے عام عرب یا عالم اسلام کے اندر پورے طور پر سیکولرازم کی بات کرنا مبالغہ آمیز ہوگا۔ ترکی نے بنیادی طور پر سیکولرازم کی راہ اختیار کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ترکی کی طرح کی صراحت کسی اور اسلامی ملک کے دستور میں نہیں کی گئی ہے اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ سیکولرازم کی تحریک بیشتر عرب و اسلامی ملکوں میں سکڑی ہوئی ہے بلکہ بعض ممالک جنہوں نے اپنی بنیاد اٹوٹ سیکولرازم نظر یہ پر رکھی تھی جیسے تیونس، شام اور ترکی آج انھیں زبردست دشواریوں کا سامنا اور اسلام تحریکوں کا مقابلہ ہے جن کی جڑیں معاشرہ کے اندر پیوست ہیں چنانچہ ترکی یا تیونس جیسے ملکوں میں مسلم خواتین کو حجاب سے روکنے کی کوشش اور قانونی اعتبار سے اس پر پابندی عائد ہونے کے باوجود خواتین کی ایک بڑی تعداد پر دہ نشین اور حجاب استعمال کر نے والی ہیں اور یہ قانون ان کے پردہ میں رکاوٹ نہیں بن پا رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سخت گیر سیکولر قانون اور معاشرتی حقائق کے درمیان بڑا تضاد ہے اور یہ معاشرہ نہ صرف دیندار ہے بلکہ اس کی اسلام پسندی میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے البتہ جب ہم سیکولر تحریکوں کو اس کے حاملین یعنی سیاسی و معاشرتی، طاقتوں کے زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ وہ کمزوریوں سے دو چار ہے اور یہ کمزوری عارضی نہیں بلکہ پائیدار ہے۔
ان دونوں سے ہٹ کر ایک تیسرا نظر یہ اسلام پسند سیکولر رجحان کا ہے جس کا مظاہرہ ان دنوں ترکی و ایران میں ہو رہا ہے اسکالروں اور اسلامی امور کے تجزیہ نگاروں کو اس کا جائزہ ان گوشوں سے لینا چاہیے۔
۱۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مخصوص کلچر اور محدود پیمانہ پر مخصوص طرز زندگی اپنانے کے لیے سرکاری مشنریوں کے ذریعہ اسلام پسندی کے جس عمل کو متعارف کرانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا تجربہ ایران میں ۱۹۷۹ کے انقلاب اسلامی کے بعد سے کیا جاتا رہا ہے اسے گونا گوں دشواریوں کا سامنا ہے کیونکہ اسلام پسندی کی ان کوششوں کی وجہ سے معاشرہ کے کچھ طبقہ میں جو مغربی تہذیب سے کے خوگر ہو چکے ہیں مایوسی پیدا ہوئی اور انھیں اس نظام سے اکتاہٹ پیدا ہونے لگی ہے اس صورتحال پر گہرائی سے غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایران جیسے ملک کے لیے جہاں بڑے پیمانے پر جدت کاری کا تجربہ ایک طویل عرصہ تک ہوتا رہا اور پوری دو صدیوں تک اسے سیکولر رنگ میں رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اسے یکسر تبدیل کرنا ممکن نہیں ایرانی تجربہ نے ثابت کیا ہے کہ نرم و نازک مغربی جدت پسندی اور گلوبلائزیشن کے اندر بڑی کشش ہے جس کے معاشرہ کے مختلف طبقات دلدادہ بنے ہوئے ہیں جس سے نہ انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ مزاحمت کی جا سکتی ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ جدت پسندی کو ہم اسلامی تحریک اور اسلام پسندی کے دائرہ میں لے آئیں مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ اسے بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اسلامی معاشرہ میں پھیلی ہوئی اسلام پسند تحریکیں اور اسلامی لہریں بھی جدت پسندی سے الگ نہیں ہو سکتیں۔
۲۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ترکی کے اندر سیکولر بنیادی نمونے کے خلاف ایک خاموش بغاوت سر اٹھائے ہوئی ہے ترکی عوام کی ایک بڑی تعداد سیکولر ملک کے حرم میں اسلامی مظاہر و اقدار کی طرف مائل ہے ترکی حکومت اوپر سے سخت سیکولر ازم کے راستہ پر عمل پیرا ہے اور یہاں کا انڈر گرائونڈ معاشرہ اسلام پسندی کی راہ پر گامزن ہے اسلامی جڑیں رکھنے والی جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی اسی رجحان کی وجہ سے بنی پھر اسی کے سہارے اس نے وزارت عظمی اور صدر مملکت کی کرسی تک رسائی حاصل کی ہے ترکی کے تجربہ سے حاصل ہونے والے سبق کا خلاصہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں کے معاشرہ کو اسلامی میراث اور عثمانی عہد و تاریخ سے ہزار کوششوں کے باوجود نہیں کاٹا جا سکا، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ وقتی طور پر اسلامی حقائق کو کنارے تو کیا جا سکتا ہے مگر اس سے یکسر چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ بھی یقینی بات ہے کہ عالم اسلام بیرونی اثرات اور ذرائع ابلاغ اور خارجی فوجی و اقتصادی دبائو کی اثر انگیزی سے دور نہیں رہ سکتا اس لیے ان ملکوں میں مغربیت کی تاثیر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا غور کرنے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان سر زمینوں میں اسلامی رجحان نے خود کو آزاد رکھا ہے اس لیے یہ کہنا بے جا بات ہو گی کہ سیکولرازم نے خود کو یہاں پیوست کر رکھاہے جسے اکھاڑا نہیں جا سکتا یا یہ کہنا کہ کے لیے مستقبل میں سیکولرازم ہی بہترین پسند ثابت نہ ہوگا۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ اسلام پسندی کا رجحان جدت پسند تحریکوں کے اثرات سے دور رہ سکتا ہے اور یہ بھی نہیںہو سکتا کہ وہ مکمل طور پر سیکولرازم کے روپ میں ڈھل جائے بلکہ وہ درمیان کی راہ پر ہی برقرار رہ سکتا ہے۔
اس خطہ کے اندر سب سے اہم بات جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے یہ ہے کہ جدت کاری و سیکولرازم کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے۔
انگریز محقق ارنسٹ کیکنر نے کافی پہلے کہا تھا کہ سیکولر تحریک نے دنیا کے بیشتر خطوںجغرافیائی فضائوں اور یہودی عیسائی حلقوںاور دیگر مذہبی صفوں پر خود کو مسلط کر لیا ہے البتہ صرف عالم اسلام اس کی بالادستی سے مستثنی ہے اور واقعہ بھی یہی ہے عرب و اسلامی علاقوں کی صورتحال کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والوں اور باریک بینی سے تجزیہ کرنے والوں کے لیے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ ان خطوں میں سیکولرازم پنپ رہا ہے یا وہ اپنی طرف وسیع معاشرتی حلقوںکو کھینچ رہا ہے عجیب سی بات ہے کہ مصر، الجزائر، شام عراق اور تونس جیسے ممالک جو زیادہ جدت پسند اور نہایت ماڈرن تصور کیے جاتے ہیں وہ سیکولرازم نظریات سے زیادہ دور نظر آتے ہیں اور جدید معاشرتی و تہذیبی حلقہ روایتی حلقوںکے بانسبت احیاء اسلام سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں اس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ جن مہذب جدید گروہوں کے روابط روایتی دیہات سے کمزور پڑ گئے ہیں وہ احیاء اسلام کی طرف زیادہ کھنچتے ہیں اور اسلامی ثقافت کو متوازن تہذیب و اقدار کے لیے زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔
انیسویں صدی عیسوی کے وسط سے جدید دور کی اسلامی تحریکوں کا اسلام کو فعال بنانے میں بڑا اہم رول رہاہے انہی تحریکوں نے ان اداروں کو متحرک و فعال بنایا ہے انہی اصلاحی تحریکوں نے اسلامی ثقافت کو عصر حاضر سے ہم آہنگ بنایا۔ اور اسلام وہ عصر حاضر کے درمیان پل تعمیر کیا اور اس مفروضہ کو غلط ثابت کیا کہ جدت کاری سیکولرازم کے ساتھ مربوط ہے۔
آج ہمیں واضح طورپر نظر آرہا ہے کہ جدت کاری کا عمل عالم اسلام میں مختلف انداز سے آگے بڑھ رہا ے مگر وہاں سیکولرازم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عالم عرب و عالم اسلام ہی کے اندر نہیں بلکہ بیشتر جگہوں سے سیکولرازم رخصت ہو رہا ہے اور اس کے بے لگام الحادی نظر یہ کو مسترد کیا جا رہا ہے اور سیکولرازم کے ردعمل میں اسلام پسندی کو قبول عام حاصل ہو رہا ہے اور جدت پسندی کو جو عصر حاضر کا تقاضا ہے گلے سے لگایا جا رہا ہے۔
(بحوالہ: ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply