
دنیا کے کسی بھی خطے میں معاشی نمو عظیم کساد بازاری سے پہلے والی شرح پر نہیں لوٹ سکی ہے۔ بعد از جنگ زمانے میں معیشت کی بحالی کمزور ترین سطح پر کیوں رہی، اس کی وضاحت کے لیے ماہرِ معاشیات نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ ان نظریات میں بہت زیادہ مقروضیت، بڑھتی ہوئی عدم مساوات، اصل قرض بحران کی وجہ سے اضافی احتیاط وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ ہر نظریے کے اپنے مضبوط دلائل ہیں لیکن عمومی طور پر ماہرین نے ایک اہم ترین عامل کو نظر انداز کیا ہے، اور وہ ہے لیبر فورس کی بڑھوتری میں عالمی سست روی۔
دنیا کی ممکنہ شرح نمو کو ناپنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ لیبر فورس کی بڑھوتری کی شرح اور شرح پیداوار کو جمع کر دیا جائے۔ ۱۹۶۰ء سے ان دونوں میں اضافے کی وجہ سے ممکنہ معاشی نمو بڑھتی رہی۔ مگر گزشتہ دہائی میں دونوں میں ہی اضافہ رُک گیا۔ لیکن ان دونوں عوامل میں ایک فرق یہ ہے کہ شرحِ پیداوار میں کمی کے حوالے سے ایک بحث پائی جاتی ہے۔ پیداوار کو ناپنے کے طریقے پیسے کی بچت اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے (جس میں حد سے زیادہ تیز رفتار انٹرنیٹ سے لے کر مصنوعی ذہانت تک شامل ہے) پیدا ہونے والے وقت کو ناپنے میں ناکام ہیں۔ مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لیبر فورس کا حجم پوری دنیا میں کم ہوا ہے، جو دراصل کام کرنے کی عمر کے افراد (یعنی ۱۵ سے ۶۴ سال) میں اضافے سے منسلک ہوتا ہے۔
۱۹۶۰ء سے ۲۰۰۵ء کے درمیان تک عالمی لیبر فورس میں ہر سال ۸ء۱؍فیصد کی اوسط شرح سے اضافہ ہوتا رہا۔ لیکن ۲۰۰۵ء کے بعد سے یہ شرح ۱ء۱؍فیصد پر آگئی ہے اور آنے والی دہائیوں میں یہ مزید کم ہوگی۔ کیونکہ دنیا کے زیادہ تر خطوں میں شرحِ پیدائش کم ہوتی جارہی ہے۔ مگر نائیجیریا اور فلپائن کے علاوہ کچھ اور ممالک میں لیبر فورس اب بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ البتہ امریکا میں اس کی نمو بہت ہی سست ہے، گزشتہ دہائی میں سالانہ صرف ۵ء۰ فیصد۔ جبکہ ۱۹۶۰ء سے ۲۰۰۵ء تک یہ شرح ۷ء۱؍فیصد تھی۔ شرحِ پیدائش دوسرے ممالک میں بھی کم ہو رہی ہے، جیسے چین اور جرمنی۔
دنیا کی معیشت پر اس کے ممکنہ اثرات واضح ہیں۔ شرح آبادی میں ایک فیصد کمی، معیشت کی شرح نمو کو کم و بیش اعشاریہ ایک فیصد کم کر دے گی۔ مالی بحران سے پہلے ہی کام کے قابل آبادی کی شرح نمو میں شدید کمی واضح تھی۔ اور یہی رجحان دراصل معیشت کی مایوس کُن بحالی کا سبب ہے۔ حکومتیں شرحِ پیدائش کو بڑھانے کے لیے ترغیبات دے سکتی ہیں اور مزید جوانوں کو افرادی قوت کا حصہ بننے پر آمادہ کر سکتی ہیں۔ لیکن یہ اقدامات دوسرے عوامل کے اثرات کو ختم نہیں کرسکتے۔ چنانچہ بالآخر دنیا کو سست رفتار ترقی اور پہلے سے کم اقتصادی امکانات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
شرح آبادی میں ٹھہراؤ
اقوامِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق دنیا کی آبادی ۳ء۷؍ارب سے بڑھ کر ۲۰۵۰ء تک ۷ء۹؍ارب ہو جائے گی۔ خوف دلانے والے ہر قسم کے ماہرین نے اس پیش گوئی پر تبصرہ کیا ہے۔ نَومال طوسیوں (Neo-Malthusians) کو خوف ہے کہ زرعی پیداوار اتنے سارے لوگوں کو غذا فراہم کرنے میں ناکام رہے گی۔ نَولوڈائتوں (Neo-Luddites) کا خیال ہے کہ روبوٹی دور کا آغاز بڑھتی ہوئی آبادی کی اکثریت کو روزگار فراہم نہیں کرسکے گا اور مغرب میں مہاجرین مخالف قوتیں مہاجرین کی اونچی ہوتی لہر پر خوف زدہ ہیں، جیسے برطانوی کابینہ کے ایک وزیر کہتے ہیں کہ ’’بیتاب مہاجرین اِدھر اُدھر لوٹ مار کرتے پھر رہے ہیں‘‘۔
لیکن یہ تمام خوف بے بنیاد ہے۔ ۲۰۵۰ء تک دنیا کی آبادی میں ۴ء۲؍ارب لوگوں کا اضافہ اگرچہ سننے میں بہت زیادہ لگتا ہے، درحقیقت یہ عَدد آبادی کی شرح میں ڈرامائی سست روی کا عکاس ہے۔ آبادی کی شرح میں اس کمی کا بنیادی سبب کام کے قابل آبادی کی کم ہوتی تعداد ہے۔ آبادی میں سست رفتار اضافہ غذا کی فراہمی کی ضرورت کو کم کرتا ہے، بالکل اُسی طرح جیسے آبادی میں بوڑھے لوگوں کا اضافہ اس ضرورت کو کم کرتا ہے۔ کیونکہ بوڑھے لوگوں کو جوانوں کے مقابلے میں ایک تہائی کم حراریات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ آبادیاتی زوال معیشت کے لیے بہت مہلک ہے۔ درحقیقت زیادہ تَر ممالک کو اِس وقت جو خطرہ درپیش ہے، وہ آبادی میں اضافے کا نہیں بلکہ نوجوان کارکنوں کی شدید قلت کا ہے۔
بعد از جنگ زمانے کے بیشتر حصے میں عالمی آبادی تقریباً دو فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ عالمی معیشت بھی قریباً دو فیصد سالانہ کی بنیادی شرح کے حساب سے بڑھ سکتی تھی اور جب فی مزدور پیداوار بھی بڑھ رہی تھی تو اس میں اشاریہ دو فیصد کا مزید اضافہ ممکن تھا۔ البتہ ۱۹۹۰ء کے قریب آبادی کے اضافے میں ایک دم کمی آئی۔ اس کے بعد سے اضافے کی شرح آدھی ہو کر صرف ایک فیصد کے قریب رہ گئی ہے۔ ایک فیصد اور دو فیصد کے درمیان فرق بظاہر کم معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر آبادی میں اضافے کی شرح ۱۹۹۰ء سے اب تک دو فیصد پر برقرار رہی ہوتی تو آج دنیا میں ۴ء۱؍ارب لوگ مزید ہوتے۔ اور سُکڑتی ہوئی افرادی قوت معاشی نمو کے لیے اتنا بڑا خطرہ نہ ہوتی۔
یہ آبادیاتی تبدیلی شرحِ اموات اور شرحِ پیدائش میں گزشتہ نصف صدی میں آہستگی کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کا موخر نتیجہ ہے۔ ایک طرف طبی ذرائع اور غذا میں بہتری نے انسان کی اوسط عمر بڑھا دی ہے، جو ۱۹۶۰ء میں ۵۰ سال تھی جبکہ آج ۶۹ سال ہے۔ اور اس میں ابھی مزید ترقی ہونا ہے۔ عالمی آبادی میں اس وقت جو اضافہ ہو رہا ہے، دراصل وہ ۵۰ سال کی عمرسے اوپر کے لوگوں میں اضافے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اور آبادی کا سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والا حصہ ۸۰ سال سے اوپر کے لوگوں کا ہے۔
دوسری طرف بچوں کی پیدائش میں عالمی طور پر یک لخت شدید کمی ہوئی ہے۔ ۱۹۶۰ء سے اب تک فی عورت بچوں کی پیدائش کی اوسط ۹ء۴ سے گِر کر ۵ء۲ ہو گئی ہے۔ شرحِ پیدائش میں اس کمی کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی خوشحالی اور عورتوں کی تعلیمی سطح میں اضافہ ہے۔ کئی عورتوں نے مستقبل سنوارنے اور کم بچے یا بچے نہ ہی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن بنیادی طور پر شرحِ پیدائش میں اس کمی کی وجہ ۷۰ کی دہائی میں ترقی پذیر دنیا میں اپنائی جانے والی جارحانہ برتھ کنٹرول پالیسیاں ہیں۔ چین نے ۱۹۷۰ء کے آخر میں ایک بچے کی پالیسی اپنائی۔ اس کی شرحِ پیدائش ۱۹۷۸ء میں ۶ء۳ فیصد سے گِر کر آج ۵ء۱؍ہوگئی۔ بھارت کی شرحِ پیدائش، جہاں حکومت نے ۱۹۷۰ء کے آخر میں جبری نس بندی کی مہم تک چلانے سے گریز نہ کیا، ۱۹۶۰ء میں ۹ء۵ تھی جبکہ ۲۰۱۵ء میں یہ صرف ۵ء۲ رہ گئی ہے۔ آج زیادہ تَر ممالک ۱ء۲ کی ری پلیسمنٹ شرحِ پیدائش پر کھڑے ہیں (یعنی دو بچے فی خاندان جس کی وجہ سے آبادی ایک سطح پر جامد ہوگئی ہے۔ مترجم) اس سطح کے بعد آبادی سکڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ اور دنیا کے ۸۳ ممالک جہاں تقریباً دنیا کی نصف آبادی رہتی ہے، جن میں برازیل، چین، جرمنی، ایران، جاپان، روس اور امریکا شامل ہیں، شرحِ پیدائش اس ری پلیسمنٹ شرح سے پہلے ہی کم ہو چکی ہے۔
لوگوں کی طاقت
بچوں کو کام کے قابل افرادی قوت میں شامل ہونے میں ۱۵ سے ۲۵ سال لگتے ہیں۔ چنانچہ گرتی ہوئی شرحِ پیدائش کے معاشی اثرات ظاہر ہونے کی ابھی صرف ابتدا ہے۔ بہتر طور پر یہ جاننے کے لیے کہ مختلف آبادیات مستقبل میں کس طرح قومی معیشتوں کو محدود کردیں گی۔ میں نے ۱۹۰۶ء سے اب تک ایسی ۵۶ مثالوں کا مطالعہ کیا، جن میں کوئی ملک چھ فیصد یا اس سے زیادہ کی معاشی ترقی ایک دہائی تک برقرار رکھنے میں کامیاب ہوا۔ ان معاشی بومز کے دوران کام کے قابل آبادی اوسطاً ۷ء۲ کی شرح سے بڑھی۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ کارکنوں کی تعداد میں کثیر اضافے کو معیشت کی معجزانہ ترقی کی بڑی وجہ گردانا جاسکتا ہے۔ یہ تعلق درجنوں مثالوں میں واضح ہے، چاہے وہ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائیوں کا برازیل ہو یا ۱۹۶۰ء سے لے کر ۱۹۹۰ء تک کی دہائیوں کا ملائیشیا۔
کام کے قابل آبادی کو کس شرح سے بڑھنا چاہیے کہ وہ معاشی بوم کے امکان کو بڑھا سکے۔ غور کرنے کے بعد دو فیصد سالانہ کا اضافہ ایک اچھے اضافے کے طور پر سامنے آیا۔ ان ۵۶ مثالوں میں سے تین چوتھائی مثالوں میں کام کے قابل آبادی معاشی بوم کے دوران اس اوسط سے زیادہ رفتار سے بڑھی۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی ملک میں ایک دہائی پر محیط معاشی بوم نہیں آسکتا، اگر اس کے کام کی قابل آبادی میں دو فیصد سالانہ سے کم کا اضافہ ہورہا ہو۔ لیکن اب بیشتر دنیا میں یہ اضافہ دو فیصد سے کم ہی ہے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی تک اُبھرتی ہوئی ۲۰ میں سے ۱۷؍بڑی معیشتوں کی کام کے قابل آبادی میں اضافے کی شرح دو فیصد سے زیادہ تھی۔ اس کے برعکس موجودہ دَہائی میں صرف دو ممالک ایسے ہیں جہاں یہ شرح دو فیصد سے زیادہ ہے، ایک نائیجیریا اور دوسرا سعودی عرب۔
حاصل بحث یہ ہے کہ اگر دنیا کی زیادہ تر آبادیوں میں کام کے قابل افراد میں اضافے کی شرح کم ہوگی، تو یک لخت معاشی بڑھوتری کے معجزے بھی کم ہوں گے۔
یہ بات اگرچہ درست ہے کہ معیشت میں ایک دم بڑھوتری ہمیشہ آبادی میں ایک دم اضافے کی مرہونِ منت نہیں ہوتی۔ ان ۵۶ میں سے ایک چوتھائی ممالک شرحِ آبادی میں ۲ فیصد اضافے کی حد کو چھوئے بغیر بھی تیز رفتار معاشی نمو کو لمبے ادوار تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ ان میں سے کئی ممالک نسبتاً پہلے سے ہی خوشحال تھے۔ مثلاً ۱۹۹۰ء کی دہائی کے چِلی اور آئرلینڈ۔ ان ممالک میں اصلاحات اور نئی سرمایہ کاری نے پیداوار بڑھا کر آبادی میں سست رفتار اضافے سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کر دیا تھا۔ ان میں بعض دوسرے ممالک تعمیرِ نو کے عرصے کے دوران معاشی سکون کی واپسی کا مشاہدہ کر رہے تھے، جیسے ۱۹۶۰ء کی دہائی کے جاپان، پرتگال اور اسپین۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کی دہائی میں روس کی بھی یہی کیفیت تھی، مگر اسے تیل کی زیادہ قیمتوں کا اضافی فائدہ بھی حاصل تھا۔ آج کوئی بھی ملک اس طرح کی معاشی بڑھوتری کی توقع نہیں کرسکتا، خاص طور پر جبکہ اشیا کی قیمتیں گر رہی ہیں اور سیاسی بے چینی بڑھ رہی ہے۔
ایک معاشی بوم کے امکانات شرح آبادی میں تیز رفتار اضافے کی عدم موجودگی میں بہت ہی کم ہیں۔ ترقی پذیر دنیا میں بھی آبادی میں اضافے کی رفتار سست یا تبدیل ہو رہی ہے۔ آئندہ پانچ سالوں میں کام کے قابل آبادی کی شرح تمام اہم اُبھرتی ہوئی معیشتوں میں ۲ فیصد کی حد سے نیچے چلی جائے گی۔ برازیل، بھارت، انڈونیشیا اور میکسیکو میں اس شرح کے ۵ء۱؍فیصد یا اور بھی نیچے چلے جانے کا امکان ہے۔ چین، پولینڈ، روس اور تھائی لینڈ میں بھی کام کے قابل آبادی سکڑ جائے گی۔
خاص طور چین میں آنے والا انحطاط سب سے زیادہ پریشان کُن ہے۔ کیونکہ بہت عرصے سے یہ ملک عالمی معاشی نمو کے انجن کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔ ۲۰۱۵ء میں اس کی کام کے قابل آبادی کی شرح نمو صفر سے بھی نیچے چلی گئی، اور ایسا گزشتہ نصف صدی میں پہلی بار ہوا۔ اسی دوران چین میں صحتِ عامہ کی صورتحال بہتر ہونے سے آبادی میں بوڑھے لوگوں میں اضافے کی شرح امریکا اور فرانس جیسے صنعتی ممالک سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بوڑھوں کی یہ بڑھتی ہوئی تعداد اُن بہت سے مسائل میں سے ایک ہے، جن کی وجہ سے مشکل ہے کہ چین اپنی معاشی توسیع کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ انہی مسائل میں بے مثال بھاری قرضوں کا مسئلہ بھی ہے۔
درحقیقت کام کے قابل آبادی میں مسلسل کمی کے شکار ممالک کے لیے مضبوط معاشی نمو کا حصول ناممکن ہو گیا ہے۔ ۱۹۶۰ء کے دور تک ایک دہائی طویل ۶۹۸ دورانیے ایسے ہیں جن میں کسی ملک کی آبادی میں اضافے کی شرح اور جی ڈی پی کی شرح کا ڈیٹا موجود ہے۔ ۶۹۸ میں سے ۳۸ مثالیں ایسی ہیں جہاں کام کے قابل آبادی میں کمی آئی۔ ایسے ممالک میں جی ڈی پی میں اضافے کی شرح محض ۵ء۱؍فیصد تھی۔ ان ممالک میں سے صرف تین ملک چھ فیصد یا اس سے زیادہ کی جی ڈی پی شرح کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ اور یہ تینوں چھوٹے ممالک تھے جو سیاسی بحران سے بحالی کی طرف لوٹ رہے تھے۔ یعنی ۱۹۶۰ء کی دہائی کا پرتگال، ۲۰۰۰ء اور ۲۰۱۰ء کے درمیان کا بیلا روس اور جارجیا۔
یہ مایوس کُن ریکارڈ بتاتا ہے کہ چین کی معیشت آئندہ سالوں میں یقیناً چھ فیصد کی شرح سے نہیں بڑھے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ چین کے سرکاری اعداد و شمار شرحِ نمو کو اب بھی ۷ فیصد کے قریب دکھاتے ہیں لیکن آزاد تخمینوں کے مطابق یہ چھ فیصد سے نیچے آچکی ہے۔ دیگر جگہوں کی معیشتوں کے لیے اس کے مضمرات سنگین ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں عالمی معاشی نمو کا ایک تہائی چین کی بدولت تھا، جو امریکا کے مقابلے میں دوگنی شراکت ہے۔
خوش قسمتی سے چند دیگر گنجان آباد ممالک میں کام کے قابل آبادی اب بھی دو فیصد سالانہ کے قریب یا اس سے زیادہ شرح سے بڑھ رہی ہے۔ ان ممالک میں بنگلا دیش، کینیا، نائیجیریا اور فلپائن شامل ہیں۔ آبادیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگلی ایک دہائی میں یہ آبادیاں تیزی کے ساتھ بڑھتی رہیں گی۔ لیکن ان ممالک کے کرنے کا بھی ایک کام ہے۔ انہیں اس غلط فہمی کا شکار ہونے سے بچنا ہوگا کہ آبادی میں اضافہ خودکار طریقے سے معاشی بڑھوتری میں بدل جائے گا۔
سچ یہ ہے کہ بیشتر اوقات ایسا نہیں ہوتا۔ ان ۶۹۸ مثالوں میں سے جن کا میں نے جائزہ لیا، ۶۰ فیصد میں کام کے قابل آبادی کی شرح نمو دو فیصد سے زیادہ تھی۔ لیکن ان میں سے صرف ایک چوتھائی آبادیاں چھ فیصد یا اس سے زیادہ کی اوسط شرحِ نمو حاصل کر پائیں۔ لہٰذا آج نائیجیریا بھی یہ توقع نہیں کرسکتا کہ اس کی بڑھتی ہوئی کام کے قابل آبادی (جس کے بارے میں امکان ہے کہ ۲۰۱۵ء سے ۲۰۲۰ء تک ۳ فیصد کی شرح سے بڑھے گی) خود بخود بڑی معیشت میں تبدیل ہو جائے گی۔ قیادت کو چاہیے کہ وہ ایسے حالات پیدا کریں، جن کے نتیجے میں سرمایہ کاری ہو اور نوکریاں پیدا ہوں۔
یہ دیکھنے کے لیے کہ آبادی کے بڑے حصے سے فائدہ نہ اٹھانے سے کیا ہوتا ہے، عرب دنیا کا جائزہ لینا چاہیے۔ عرب دنیا کی کام کے قابل آبادی ۱۹۸۵ء سے ۲۰۰۵ء تک کے درمیان ۳ فیصد سالانہ کی اوسط شرح سے بڑھی۔ یہ شرح باقی دنیا کے مقابلے میں تقریباً دوگنی تھی۔ لیکن یہ خطہ کبھی بھی ایک معاشی بوم کا مظاہرہ نہیں کرسکا۔ موجودہ دہائی کے آغاز میں بہت سے عرب ممالک کو سنگین حد تک نوجوانوں کی بیروزگاری کے مسئلے کا سامنا رہا۔ بیروزگاری کی شرح مصر، عراق، سعودی عرب اور تیونس میں (جہاں عرب بہار کا غلغلہ سب سے آخر میں بلند ہوا) تیس فیصد تک تھی۔
ایسا صرف ترقی پذیر دنیا میں نہیں ہوتا کہ معاشی کارکنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر انحصار کرتی ہو۔ حالیہ دہائیوں میں امریکا کو ترقی یافتہ معیشتوں میں سب سے زیادہ متحرک ہونے کی شہرت حاصل ہوئی۔ امریکا کی معیشت یورپ سے کہیں زیادہ جدت پسند اور جاپان سے کہیں کم اصولوں میں جکڑی ہوئی تھی۔ لیکن اس کی حالیہ کامیابی کا اصل سبب اور بھی سادہ تھا، یعنی افرادی قوت میں نوجوانوں کی آمد میں اضافہ۔ ۳۰ سال تک امریکا میں کام کے قابل آبادی اپنے بڑے صنعتی حریفوں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھی ہے۔ یہ فرانس اور برطانیہ کے مقابلے میں دوگنا، جرمنی کے مقابلے میں پانچ گنا اور جاپان کے مقابلے میں دس گنا کی رفتار سے بڑھی ہے۔ چنانچہ امریکا کی تیز رفتار معاشی ترقی پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
ترقی پذیر دنیا کی طرح ترقی یافتہ دنیا میں بھی آبادی میں اضافے کے تخمینے مایوس کُن ہیں۔ سرکردہ ترقی یافتہ معیشتوں کے آئندہ پانچ سالوں پر نظر ڈالیں تو فرانس میں کام کے قابل آبادی منجمد نظر آتی ہے، اسپین میں یہ کچھ سکڑتی دکھائی دیتی ہے، اور جرمنی، اٹلی اور جاپان میں ۴ء۰ کی رفتار سے کم ہوتی نظر آتی ہے۔ امریکا کے بارے میں تخمینہ نسبتاً کم مایوس کُن ہے۔ جہاں کام کے قابل آبادی کی شرح نمو ۲ء۰ فیصد رہنے کا امکان ہے۔ کم و بیش یہی صورتِ حال برطانیہ کی بھی ہے۔ ترقی یافتہ معیشتوں میں سب سے بہتر صورتحال چھوٹے ممالک، آسٹریلیا اور سنگاپور کی ہے، جہاں کام کے قابل آبادی اب بھی قریباً ایک فیصد کی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ لیکن یہ ممالک اتنے چھوٹے ہیں کہ دوسری امیر قوموں میں کمزور نمو کے نقصان کو پورا نہیں کرسکتے۔
مسئلے سے نمٹنے کی حکمتِ عملیاں
حکومتیں پہلے ہی شرحِ آبادی میں کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کا آغاز کر چکی ہیں۔ جن میں سب سے پہلا ہدف گرتی ہوئی شرح پیدائش سے نمٹنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں آبادی کو قابو میں رکھنے کی فعال پالیسیاں ۱۹۹۰ء کی نصف دہائی سے ۶۰ فیصد پر ہیں۔ جبکہ ۷۰ اور ۸۰ کی دہائیوں میں ان میں بے انتہا اضافہ ہوا تھا۔ اور اب تو بہت سے بڑے ترقی پذیر ممالک اپنی روش کو قطعی تبدیل کرچکے ہیں۔ جیسے چین نے گزشتہ سال اپنی ایک بچے کی پالیسی ختم کر دی ہے۔ اسی اثنا میں شرحِ پیدائش کو بڑھانے کے لیے بچوں کی پیدائش پر بونس دینے اور اسی جیسی دیگر پالیسیاں اختیار کرنے والے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اضافہ ہو چکا ہے، جو ۱۹۹۶ء میں ۳۰ فیصد جبکہ آج ۷۰ فیصد ہیں۔ وہ ممالک جہاں شرحِ پیدائش ۱ء۲ کی ری پلیسمنٹ حد سے نیچے جارہا ہے، وہاں کی حکومتیں خواتین کو دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر راغب کرنے کے لیے زچگی امداد دے رہے ہیں۔ بعض ممالک جیسے چلی اور فرانس میں یہ امداد تیسرے، چوتھے اور پانچویں بچے میں وافر ہوتی جاتی ہے۔ لیکن بہت سے ممالک جنہوں نے ان پروگرامات کی ابتدا کی تھی، مثلاً ۱۹۸۸ء میں کینیڈا اور پچھلی دہائی میں آسٹریلیا نے ان پروگرامات کو زیادہ فائدہ مند نہ پاکر بند کر دیا۔
دوسری حکمتِ عملی یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ بالغوں کو افرادی قوت میں شامل کیا جائے، جن میں بزرگ، غیر ملکی اور خواتین بھی شامل ہوں۔ ۲۰۰۷ء میں جرمنی نے ریٹائرمنٹ عمر ۶۵ سے بڑھا کر ۶۷ کر دی۔ اس کے بعد بہت سے یورپی ممالک نے اس کی تقلید کی اور بعض نے تو ریٹائرمنٹ عمروں کو متوقع اوسط عمر کے ساتھ منسلک کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسی حکمتِ عملی کے تحت، ۲۰۱۵ء میں امریکا اور یورپ میں مہاجرین مخالف تحریکیں اُٹھنے سے پہلے، زیادہ سے زیادہ غیر ملکی کارکنوں کو راغب کرنے کی دوڑ چل رہی تھی۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق ۲۰۱۰ء تک صرف ۱۰؍ممالک نے مہاجرین کے ذریعے اپنی آبادیوں کو وسیع کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ ۲۰۱۳ء تک ان ممالک کی تعداد ۲۲ ہوگئی۔
اس کے علاوہ افرادی قوت میں خواتین کی شرح کو بڑھانے کے لیے بھی مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں، جو گزشتہ دہائی میں ۵۵ فیصد پر آنے سے پہلے ۱۹۹۰ء کے بعد سے ۵۷ فیصد پر مستحکم تھی۔ تنظیم برائے معاشی تعاون و ترقی کے مطابق اگر اس کے رُکن ممالک اپنی افرادی قوت میں صنفی فرق کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو آئندہ ۱۵؍سالوں میں ان کا جی ڈی پی ۱۲؍فیصد تک بڑھے گا۔ تنظیم کے مطابق زیادہ فائدہ ان ممالک کو ہوگا جہاں روایتی طور پر خواتین کی شرح افرادی قوت میں کم رہی ہے، جیسے اٹلی، جاپان اور جنوبی کوریا۔ جاپان شاید پہلے ہی اس پیغام کو سمجھ چکا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں وزیراعظم بننے کے بعد شینزو ایبے نے ملک کی بوڑھی ہوتی آبادی کے مسئلے کو حل کرنے میں خواتین کے کردار کو تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے ‘Womenomics’ کی پالیسی بنائی ہے جس کا مقصد کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ خواتین کو ملازمت دینے پر راغب کرنا ہے۔ معیشت کو بحال کرنے کے لیے یہ ان کی مرکزی منصوبہ بندی ہے۔
لیکن ان حکمتِ عملیوں میں سے کوئی بھی افرادی قوت میں اتنے بالغ افراد کو نہیں لاسکتی، جو کام کے قابل آبادی میں کمی کا ازالہ کرسکے۔ مثال کے طور پر بڑے پیمانے پر مہاجرین کو راغب کرنا ناقابلِ عمل ثابت ہوا ہے۔ ۲۰۱۵ء میں جرمنی کا ۱۰؍لاکھ مہاجرین کو قبول کرنے کی ایک وجہ یہی تھی کہ اس کی قیادت بوڑھی ہوتی آبادی میں جوان خون شامل کرنے کی معاشی ضرورت سے آگاہ تھی۔ لیکن اس متنازع پالیسی کے تخلیق کاروں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ملک مستقل بنیادوں پراتنے بہت سے نئے آنے والوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ (کام کے قابل آبادی میں ممکنہ کمی کو ۲۰۳۰ء تک پورا کرنے کے لیے جرمنی کو ہر سال تقریباً ۱۵؍لاکھ مہاجرین کو قبول کرنا پڑے گا۔) علاوہ ازیں مہاجر مزدوروں، خاص طور پر ہنر مند مزدوروں، کو راغب کرنے کا مقابلہ ممالک کے درمیان ایک بے نتیجہ کھیل ہے اور عالمی معیشت کے لیے یہ کوئی قابلِ قبول حل نہیں۔ حکومتیں کم ہوتی آبادی کے اثر کو چھپا سکتی ہیں، لیکن اسے کم نہیں کر سکتیں۔
نوجوانوں کی کم تعداد پر مشتمل دنیا میں معاشی ترقی کا آنا مشکل ہوگا۔ لیکن کم از کم خوف پھیلانے والوں کی توقعات بھی پوری نہیں ہوں گی۔ مہاجرین کا ڈراؤنا تاثر ختم ہوجائے گا اور مال طوسیوں کا یہ ڈراؤنا خواب بھی پورا نہیں ہوگا کہ انسانیت خود کو ضروری خوراک بہم پہنچانے میں ناکام ہوجائے گی۔ اسی طرح لوڈائیتوں کی یہ تنبیہات کہ روبوٹس انسانی ملازمتیں چھین لیں گے، بے بنیاد ثابت ہوں گی۔ خودکار مشینوں کا انقلاب ابھی ابتدائی عمر میں ہے، لیکن ممکن ہے کہ روبوٹس کا نزول اسی وقت ہو جب آبادی میں کمی کا فوری مسئلہ درپیش ہو۔ جیسے جیسے کام کے قابل انسان کم ہوتے جائیں گے، ویسے ویسے اسمارٹ مشینیں وہ کام کرنا شروع کر دیں گی، جو کبھی انسان کرتے تھے۔ لیکن اس سے قطع نظر یہ جاننا مشکل ہے کہ دنیا کی معیشت بڑی تعداد میں نئے کارکن کیسے تلاش کر پائے گی، تاکہ مستقبل میں بھی اسی رفتار سے بڑھ سکے، جس رفتار سے حالیہ ماضی میں بڑھی ہے۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“The demographics of stagnation”. (“Foreign Affairs”. March-April 2016)
Leave a Reply