انیسویں صدی کے وسط میں کارل مارکس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یورپی سامراجی طاقتیں اگرچہ بدعنوان اور جنگجو تھیں تاہم لاشعوری طور پر بھارت اور چین کو جدیدیت کے دور میں دھکیلنے کے لیے تاریخ کا آلہ ثابت ہوئیں۔ مارکس کے ’’ایشیائی طریقۂ پیداوار‘‘ کو بیک وارڈ بتایا جس کی شناخت نجی ملکیت کی عدم موجودگی سے عبارت تھی اور جس کی وجہ سے حکومت کی ایک بے لچک اور مرکوز شکل تھی اور اسی نے تبدیلی اور ماڈرنائزیشن کو روکے رکھا تھا۔ اس طرح کے خیالات نے ہی ایڈورڈ سعید کو مجبور کیا کہ وہ بطور متشرق مارکس کی مذمت کریں ‘جس نے بھارت اور چین کو انسانی ترقی کی اُسی داستان کا حصہ بنادیا جسے یورپیوں نے یورپیوں کے لیے اختراع کیا تھا۔ لیکن مارکس نے ایشیاء کے بارے میں ایسا کچھ نہیں کہا جو ہمیشہ بااثر رہا اور مغرب میں اس تازہ فکر ہمیشہ کی طرح بااثرمشہور رہتا ہے جس کا یہ دعویٰ ہے کہ فری مارکیٹ سرمایہ داری نے انجام کار بھارت اور چین کو اس کی طویل ایشیائی نیند سے جگایا۔ اگر بھارت اور چین کا ابھرنا ڈرامائی معلوم ہوتا ہے تو اس وجہ سے کہ زیادہ دن نہیں ہوئے کہ بھارت مغربی تصور میں ایک غریب ‘ پسماندہ اور ہمیشہ آمادۂ تشدد ملک کے طور پر رہا ہے۔ اپنی کثیر محتاج آبادی اور سخت گیر کمیونسٹ حکومت کے ساتھ چین ہمیشہ گہری تاریکی میں ڈوبتا معلوم ہوا۔ اب یک بیک ہم سے یہ کہا گیا کہ بھارت اور چین اقتصادی عفریت ہیں جو عالمی ترقی کو آگے بڑھا رہے ہیں یورپ کے طرز جدیدیت پر متفق ہوتے ۔ فرانسس فوکومایہ نے سرد جنگ کے بعد کے نظریۂ عالمگیریت کا خاکہ۱۹۹۲ء میں اپنی کتاب (End of History) ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ میں پیش کیا تھا ۔ یعنی یہ کہ مغربی لبرل ڈیموکریسی جو نجی ملکیت فری مارکیٹ اور مستقل انتخاب کے اصول پر مبنی ہوگی تاریخی پیش رفت کا نقطۂ عروج ہوگی۔ ہرسال Davos کے لیے مخصوص ہونا اور پوری دنیا میں تاجر طبقے کے نشست خانوں میں گردش کرنا‘ یہ نظریاتی قسم کا نقطۂ نظر مغربی دُنیا کے سیاسی ‘ تجارتی نیز میڈیا کے اشراف کے عقائد اور پالیسی تشکیل دینے میںاپنا روز افزوں کردار ادا کررہا ہے۔ فری مارکیٹ سرمایہ داری اور جمہوریت جیسے مغربی محاسن کے فرو غ کے ذریعہ دنیا کی توجیہہ اور تبدیلی کی کوشش‘ قدرے تاخیرسے‘ اب مسائل کا شکار معلوم ہوتی ہے۔ بے لگام سرمایہ داری کے ساتھ ناکام تجربوں نے بالترتیب روس اور لاطینی امریکا میں مطلق العنان دائیں بازو وبائیں بازو کی حکومتوں کو برسراقتدار لانے میں مدد دی۔ بنیاد پرست اسلام کا حالیہ ظہور اور عراق میں جنگ نے اُس کی تصویر کو تصور کو مزید گہنا دیا ہے جو فاتح مغربی اقدار کو گلے لگانے کے لیے بے چین تھی۔ اس کے باوجود مشرق کے دو عظیم ترین ممالک کااچانک ابھار ااس خیال کی مزید تائید کرتا ہے جس کا اظہار بہت ہی واضح انداز میں امریکی کالم نگار تھومس فرائڈمین (Thames Friedman) نے کیا ہے‘ یہ کہ آزاد منڈی کی حامل سرمایہ داری او رجمہوریت کو عالمگیر بنانے سے دُنیا کی زیادہ تر آبادی مادی ترقی‘ سیاسی استحکام اور معاشرتی تحفظ کے نقطۂ عروج پر پہنچ سکتی ہے جہاں کہ اس وقت مغربی معاشرے واضح طور سے پہنچے ہوئے ہیں۔ مغربی کی اس خوش قسمتی میں شریک ہونے کے لیے بے چین اس فراخدلانہ سچے جذبے کا تصور بہت ہی دلربا ہے۔ لیکن آج چین مغربی کارپوریشنوں کو ایک پرکشش مارکیٹ کی طرف دعوت دے رہا ہے جو ایک ارب گاہکوں سے آراستہ ہے اور بظاہر سستی مزدوری کا بھی ایک نہ ختم ہونے والا سرچشمہ اپنے آپ کو ثابت کررہا ہے جیسا کہ بھارت نے ثابت کیا ہے۔ بھارتی اور چینی اشراف اپنے مغربی ہم منصبوں کے مقابلے میں کسی طرح کم ہمت کے ساتھ استشراقِ جدید کا سبق مستعار نہیں لے رہے ہیں جیسا کہ یہ حضرات بھارت اور چین کی حالیہ اقتصادی ترقی کو آزاد منڈیوں سے منسوب کرتے ہیں جسے ان دونوں نے ۸۰ اور ۹۰ کی دہائی میں گلے لگایا تھا۔ لیکن ان کے دعوئوں پر ایک سرسری نظر بھی اس حقیقت کو کھول دے گی کہ یہ ایک پیچیدہ سیاسی و اقتصادی حقیقت کی محض نقالی ہی کرسکتے ہیں۔ بھارت نے اپنی متاثر کن کامیابیاں ۱۹۵۱ء سے ۱۹۸۰ء تک کی مدت میں شمار کروائی ہیں یعنی دو صدیوں سے زائد عرصے کے منظم استحصال سے نکلنے کے بعد سے جس کے دوران عملاً اس ملک کو غیر صنعتی کیا گیا۔ ۱۹۸۰ء تک اس ملک کی اقتصادی ترقی کی اوسط شرح ۵ء۳ فیصد تھی اور اس وقت تک بیشتر ممالک کی تقریباً یہی شرح نمو تھی ۔ اس عرصے میں تضحیک کا بہت زیادہ نشانہ بننے والی بھارت کی شوشلسٹ اقتصادیات نے بھی بھارت کی صنعتی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں مدد کی۔ چین کے متعلق بھی مشہور لٹریچر مثلاً Jung Chang حال ہی میں تحریر کردہ مُائو کی سوانح حیات‘ بتاتے ہیں کہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ اگرچہ چین۱۹۴۹ء میں کمیونسٹ انقلاب کے فوراً بعد سے کچھ زیادہ نہیں کرسکا تھا کیونکہ یہ یکے بعد دیگر آلام میں گرفتار ہوتا رہا۔ چین کی قومی آمدنی ایک منظم معیشت کے زیر سایہ ۱۹۵۲ء اور ۱۹۴۸ء کے مابین پانچ گنا پروان چڑھی۔ اگرچہ تنخواہیںکم تھیں لیکن فلاحی نظام جو Iron Rice Bowl (آہنی چاول کے قاب) کے نام سے مشہور تھا کے تحت زندگی بھر روزگار کی ضمانت ملتی تھی نیز پنشن اور طبی سہولیات کی بھی انہیں ضمانت حاصل ہوتی تھی جس کی وجہ سے انفرادی تحفظ کا بہت اعلیٰ معیار چین میں قائم ہوا۔ ۸۰ کی دہائی میں اقتصادی اصلاحات نے ساحلی شہروں میں برآمداتی صنعتوں کے فروغ پر توجہ مرکوز کی۔ اس صورتحال نے چین کو بدحال مزدوروں کے ایک بڑے مرکز میں تبدیل کردیا جس کی بناء پر یہ ملک مغرب کو سستے مالوں کی فراہمی جاری رکھ سکا۔ اس طرح چین کی سالانہ اوسط شرح نمو دس فیصد ہوگئی۔ اس کا کریڈٹ ممکن ہے اُس خفیہ ہاتھ کو جاتا ہو جو آزاد منڈی کے پیچھے ہے لیکن ’’ایشین ٹائیگر‘‘ معیشتوں میں چینی ریاست نے بہت ہی احتیاط کے ساتھ داخلی صنعتوں او ربیرونی تجارتی و سرمایہ کاری کو مضبوط کیا ہے۔ اس کے علاوہ پبلک سروسز پر اپنا کنٹرول بھی باقی رکھا ہے۔ بہرحال اقتصادی اصلاحات جو شہری علاقوں میں دولت پیدا کرنے میں مددگار ہوتی ہیںنے آہنی قاب کو پاش پاش کردیا ہے اور سنگین قسم کے افراطِ زر کو جنم دیا ہے۔ آزاد منڈی کے حاملین کے مطالبے پر اختیارات کا صوبائی حکومتوں تک منتقل کیا جانا بے لگام بدعنوانی کو جنم دینے کا سبب بنا ہے۔ تیانا مین اسکوائر جیسے مظاہروں کو بہت سارے لوگ جو چین سے باہررہتے ہیں مغربی طرز کی آزادی اور جمہوریت کے مطالبات کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ ان کا انعقاد فلاحی ریاست کے سبوتاژ کیے جانے پر عوامی غم و غصے کا مظہر ہے۔ مثلاً افراط زر ۱۹۸۹ء کے اوائل میں ۲۵ فیصد تک پہنچ چکا تھا جبکہ یہ مائو کے دور کے بڑے حصے میں ۲ فیصد سے بھی کم تھا۔ چین اس وقت سب سے زیادہ غیر مساوی ملک ہے حتی کہ امریکا سے بھی زیادہ۔ بھارت میں بھی ہر قیمت پر اقتصادی ترقی حاصل کرنے کی کوشش نے نو دولتیوں کے گروہِ اشرف کو جنم دیاہے۔ لیکن یہ صورتحال تشویشناک حد تک سماجی و اقتصادی امتیازات کا بھی سبب بنی ہے۔ صحت عامہ اور ابتدائی تعلیم میں دی جانے والی سہولیات میں کمی آئی ہے۔ اقتصادی ترقی جو شہری مراکز تک محدود ہیں وہ بڑے علاقے میں بیروزگاری کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بھارت کی ایک تہائی آبادی انتہائی غربت اور محرومی کی زندگی گزار رہی ہے۔ جنگجو اشتراکی تحریکیں غریب ترین علاقوں اور گھنی آبادیوں میں ابھر چکی ہیں اس کے باوجود بھارت اور چین کو جدید بنانے کا پروگرام مغربی اشراف کے لیے اپنی وجودی و نظریاتی تصدیق کے ذرائع ہیں جوہر اس چیز کو نظرانداز کرنے پر آمادہ ہیں جو ان کے عقیدے کی شقوں کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں یعنی آزاد منڈیوں اور جمہوریت کو‘ یا پھر ایک دشوار پیچیدگی کی جانب راستہ دیکھاتے ہیں مستشرقینِ نو جب چین اور بھارت کے حوالے سے ایک نیا تصور قائم کرتے ہیں توان کی تاریخ کے بہت اہم پہلوئوں کو نظرانداز کردیتے ہیں یا دبا دیتے ہیں۔ یہ جدید ترقی کے اذیت ناک اور اکثر المناک تجربے کے ادراک سے بھی عاجز رہے ہیں ۔ مغربی میڈیا میںجن تباہیوں کا کبھی کبھی مشاہدہ ہوتا ہے مثلاً کشمیر میںجاری تشدد جس نے گزشتہ ۱۵ سالوں میں ۸۰ ہزار لوگوںکی جانیں لے لی ہیں یا ماحولیات کی بربادی اور چین کی دیہی آبادی سے ۲۰ کروڑ لوگوں کی بیج کنی‘ ترقی کی اس منطق کے حوالے سے جس کا یورپ کی تاریخ میں اظہار ہوتا رہا ہے‘ توجیہ کی جاسکتی ہے۔ لیکن مغرب نے خود اس تبدیلی کا درد محسوس کرنا شروع کردیا ہے اس لیے کہ چین کی توانائی کی پیاس نے تیل کی قیمتوں کو بڑھا دیا ہے۔ اس کی سستی برآمدات نے اٹلی اور جرمنی کی معیشتوں کی وقعت گھٹا دی ہے جو کسی زمانے میں بہت مضبوط تھیں۔علاوہ ازیں اس نے امریکا کے سفید پوش ورکروں کو بھی روزگار سے محروم کردیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ یورپ کی استحکام اور فراوانی کی اپنی موجودہ سطح تک رسائی بھی محض تکلف دہ سے زیادہ ہے۔ اس میں استعماری فتوحات بہتیری چھوٹی جنگیں اور دو عظیم جنگیں جو انگنت لوگوں کے قتل اور اپنے مقام سے بچھر جانے پر منتج ہوئیں بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ بھارت اور چین ایسے صارف مڈل کلاس کے ساتھ ایک ایسی دنیا میں ترقی کرتے معلوم ہوتے ہیں جہاں توانائی کے نہ ختم ہونے والے ذرائع ہیں۔یہ تصور کرنا آسان ہے کہ یہ صدی اقتصادی محاذ آرائیوں اور فوجی جنگوں سے ہلکان رہے گی جس نے گزشتہ صدی کو بھی جنگ و تشدد سے دوچار کیے رکھا۔ بہرحال کسی بھی صورت میں وہ امید جو کبھی نہ ختم ہونے والی اقتصادی ترقی کی دوڑ کو ہوا دیتی ہے یعنی یہ کہ ایک دن بھارت اور چین میں بھی لوگ یورپ اور امریکا جیسے طرزہائے زندگی سے ہم کنا ر ہوں گے ایک فضول اور خطرناک واہمہ ہے۔ اس کی وجہ سے عالمی ماحولیات قدرے پہلے تباہی سے دوچار ہوچکی ہے۔ اب یہ صورتحال کروڑوں محرومین کے درمیان مذہب و اخلاق سے بے نیاز غم و غصے اور مایوسی کے ذخیرہ گاہوں کو جنم دینے پر آمادہ ہے۔بھارت اورچین میں بہت سارے دانشوران اور کارکنان کا سامنا ہر روز اس جدیدیت کے چیلنج سے ہوتا ہے اوروہ جانتے ہیں کہ اگر وہ ناکام ہوئے تو تباہی ان کے انتظار میں ہے۔ دریں اثناء ہم لوگ جو مغرب میں رہتے ہیں مستشرقین جدید کے فریب کاریوں کا پردہ اچھی طرح چاک کرسکتے ہیں جو طاقتور ترین اور دورس اثرات کے حامل ہیں استشراق کی ان فریب کاریوں خے مقابلے میں جنہیں ابتک مغرب کی خودخیالیوں اور مفادات نے تشکیل دیئے تھے اس صدی میں امن کا انحصار چین اور بھارت پر ہے اس طرح کہ وہ جدید ہونے کے لیے ایسے راستے کا انتخاب کریں جو زیادہ تباہ کن نہ ہو۔
مصنف کی نئی کتاب Temptatons of the West: to be Moslern in India, pakistan and Beyound ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ۔ ۱۱ جون ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply