
منہیات کی قسمیں اور ان میں ترجیحات
ہم نے مامورات کے بارے میں تفاوت و اختلاف کے حوالے سے جو بات کہی ہے اور مستحب سے لے کر واجب تک، اور فرضِ کفایہ سے لے کر فرضِ عین تک، اس کے جو درجات اور مختلف منزلیں مقرر کی ہیں، اور فرض عین میں بھی مختلف درجات کا تعین کیا ہے، تو وہی بات ہم منہیات کے حوالے سے بھی کہتے ہیں۔ منہیات بھی سارے کے سارے ایک ہی مرتبے میں نہیں ہیں۔ بلکہ اس میں بہت زیادہ تفاوت پایا جاتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ ممنوع جس میں کوئی شک نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار ہے اور اس کا ادنیٰ ترین درجہ مکروہِ تنزیہی کا ہے، جسے دوسرے الفاظ میں ’خلاف اَولیٰ‘ کہتے ہیں۔
کفر کے بھی اسی طرح ایک دوسرے سے کم یا زیادہ درجات ہیں۔
انکار و الحاد کا کفر
کفر کی ایک قسم یہ ہے کہ اس میں الحاد اور اللہ کے وجود سے انکار پایا جاتا ہو۔ اس کفر کے لحاظ سے جو شخص کافر ہو جاتا ہے وہ نہیں مانتا کہ اس کائنات کا کوئی رب ہے، نہ وہ یہ مانتا ہے کہ اس کے کچھ فرشتے ہیں اور نہ یہ مانتا ہے کہ اس نے لوگوں کی رہنمائی کے لیے کوئی کتاب نازل کی ہے، یا ان کو سیدھا راستہ دکھانے اور غلط راستے سے روکنے کے لیے کوئی نبی بھیجا ہے۔ نہ وہ یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ کوئی قیامت قائم ہونے والی ہے جس میں لوگوں سے ان کے اچھے اور بُرے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ یہ لوگ نہ الوہیت کا اقرار کرتے ہیں اور نہ نبوت و رسالت کو مانتے ہیں۔ نہ وہ اخروی جزا و سزا کا اعتراف کرتے ہیں۔ بلکہ ان کی حالت وہی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے اسلاف کے بارے میں بیان فرمائی ہے: اِنْ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَo (زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہر گز دوبارہ اٹھائے نہ جائیں گے۔۔الانعام: ۲۹)
یا جیسا کہ ان میں سے بعض لوگوں نے اپنی بات یوں بیان کی ہے کہ اور کچھ نہیں ہے بس ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور زمین نے نگل لیا۔
یہ ہر دور کے مادہ پرستوں کا کفر ہوتا ہے۔ موجودہ دَور میں اشتراکی فکر کی بنیاد اسی کفر پر ہے، جس کے قلعے ڈھے چکے ہیں۔ یہ وہ فکر تھی جس کے بنیادی دستورِ حکومت میں یہ بات لکھی ہوئی تھی کہ خدا کوئی چیز نہیں ہے، اور زندگی مادے کا نام ہے۔
ان لوگوں کے نزدیک دین خرافات اور الوہیت ایک افسانہ ہے۔ ان کے ہاں وہ بات بہت مشہور ہے جو کسی مادیت پرست فلسفی نے کہی ہے۔ وہ کہتا ہے: یہ بات درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے، بلکہ درست یہ ہے کہ انسان نے خالق کو پیدا کیا ہے۔
یہ صاف گمراہی ہے، جسے وحی کی منطق تو درکنار۔۔ جو اس کے ثبوت پر قطعی دلائل قائم کرتی ہے۔۔ عقلی و فطری منطق اور سائنس و کائنات کی منطق بھی نہیں مانتی۔ اللہ تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا: ’’جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا‘‘۔ (النساء: ۱۳۶)
یہ کفر کی قسموں میں سب سے بدترین قسم ہے۔
شرک کا کفر
اس کفر مطلق سے کم درجے کا کفر وہ ہے جسے کفرِ شرک کہہ سکتے ہیں، جیسا کہ دورِ جاہلیت کے عربوں نے کیا تھا۔ وہ اللہ کے وجود پر ایمان لاتے تھے، اور اس پر بھی یقین کرتے تھے کہ آسمان اور زمین اور انسان اس نے پیدا کیے ہیں، ان میں رزق اور زندگی اور موت کے حوالے سے اسی کی تدبیر چلتی ہے۔ مگر اس نوع کے اقرار کے باوجود۔۔ جسے توحید ربوبیت کا نام دیا جاتا ہے۔۔ وہ اس کے ساتھ اس چیز میں شرک کرتے تھے جسے توحید الٰہیہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں انہوں نے اللہ کے ساتھ آسمان اور زمین کے دوسرے معبودوں کو بھی شریک کر لیا تھا۔
اسی کے بارے میں قرآن گویا ہے: ’’اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ انہیں اسی زبردست علیم ہستی نے پیدا کیا ہے‘‘۔ (الزخرف:۹)
’’اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے‘‘۔ (العنکبوت: ۶۱)
’’ان سے پوچھو: کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جان دار کو اور جان دار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اس نظم عالی کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ، اللہ۔ کہو، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پرہیز کیوں نہیں کرتے؟‘‘ (یونس: ۳۱)
یہ لوگ اللہ پر اس لحاظ سے تو ایمان رکھتے ہیں کہ وہ ہمارا خالق، رازق اور مدّبر ہے مگر اس کے ساتھ اور معبودوں کی عبادت بھی کرتے ہیں، جو لکڑی، پتھر اور معدنیات سے بنے ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں‘‘۔ (الزمر: ۳)
’’یہ لوگ اللہ کے سوا ان کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع، اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘ (یونس: ۱۸)
یہ شرک اپنی مختلف صورتوں کے ساتھ پیروکاروں کے لحاظ سے سب سے بڑا شرک ہے۔ اس میں عرب کے بت پرستوں کا شرک بھی داخل ہے، فارس کے مجوسیوں کا شرک بھی، جو کہتے تھے کہ الٰہ دو ہیں: ایک خیر اور نور کا الٰہ اور دوسرا شر اور ظلمت کا الٰہ، اور اس میں ہندوئوں اور بودھ مذہب وغیرہ کا شرک بھی شامل ہے جن کی بُت پرستی اب تک بہت بڑی بڑی اقوام کے دماغ کو گھیرے ہوئے ہے اور ایشیا و افریقا میں کروڑوں لوگ اس کے پیروکاروں میں شامل ہیں۔
شرک خرافات کی آماجگاہ اور فضولیات کا مرکز ہے۔ یہ انسان کو پستی کے گہرے گڑھے میں پھینک دیتا ہے کیونکہ جو شخص ان میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ ان چیزوں کی عبادت شروع کر دیتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مسخر کیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس کی خدمت میں لگی رہتیں اور اس کی خادم بلکہ غلام بن کر اس کی اطاعت گزار ہوتیں اور اس کے آگے جھکتیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا، اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو ایسی جگہ لے جاکر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اُڑ جائیں گے‘‘۔ (الحج: ۳۱)
اہل کتاب کا کفر
اس کفر سے بھی کم درجے کا کفر اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کا ہے۔ ان کا کفر اس وجہ سے ہے کہ وہ رسالت محمدی علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کی تکذیب کرتے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اختتامی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ ان پر ایک دائمی کتاب نازل کی گئی جو ایک طرف تورات اور انجیل جیسی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے نازل ہوئی تھیں اور دوسری طرف ان تعلیمات کی تصحیح کر رہی ہے جو اُن میں بھی موجود تھیں مگر بعد میں تحریف کی گئی ہیں۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’پھر ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور ’الکتاب‘ میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے۔ لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو‘‘۔ (المائدہ:۴۸)
محمدﷺ ان کی طرف جو چیز لے کر آئے وہ یہ تھی کہ الوہیت کے بارے میں ان کے افکار کی تصحیح ہو۔ ان کی کتابوں اور ان کے عقائد کے ساتھ بہت سے شائبے لاحق ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے اس کی شفافیت میں فرق آگیا تھا۔ ان کے عقائد نے اسے پاک و صاف توحید سے دور کر دیا تھا، جس پر ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش کی تھی۔ تورات ساری اللہ واحد اور احد کے بارے میں تجسیم اور تشبیہ کے عقائد سے بھری ہوئی ہے، حتیٰ کہ وہ بھی انسانوں میں ایک مخلوق معلوم ہوتا ہے۔ وہ خوف بھی رکھتا ہے، حسد بھی کرتا ہے، اسے غیرت بھی آتی ہے، وہ انسانوں سے کشتی بھی کرتا ہے اور کبھی انسان اس پر غالب آکر اسے پچھاڑ بھی دیتے ہیں، جیسا کہ اسرائیل کے ساتھ اس کی کشتی ہوئی۔ یہ اور اس طرح کی اور بہت سی باتیں ہیں جو تورات کے پاروں اور اس کے ضمیموں میں موجود ہیں۔
اسی طرح تثلیث کا عقیدہ جو نصاریٰ کے عقائد میں شامل ہیں، رومی بت پرستی کا اثر ہے جو مسیحی مذہب پر ہوا ہے۔ رومی حکمران قسطنطین نے جب عیسائیت اپنائی تو عیسائیوں نے دنیا کمائی مگر دین کو کھو دیا۔ یہاں تک کہ ہمارے بعض علما نے کہا: روم کو فتح نہیں ملی بلکہ عیسائیت رومی ہو گئی۔
اس کے علاوہ یہود و نصاریٰ اگرچہ اسلام کا پیغام اور نبیﷺ کی نبوت جھٹلانے کی وجہ سے کافر کہلائے مگر کفر میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔ چونکہ وہ ایک آسمانی کتاب کی صفت کے ساتھ موصوف ہو کر الوہیت فی الجملہ اور آسمانی پیغامات اور آخرت کی جزا و سزا کو ماننے والے ہیں، اس وجہ سے وہ دوسروں کی نسبت مسلمانوں سے قریب تر ہیں۔ اس بنا پر قرآن نے ان کے ساتھ کھانے پینے اور ان کی عورتوں سے رشتہ جائز قرار دیا ہے: ’’اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں، خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی‘‘۔ (المائدہ: ۵)
اور یہی سورہ (مائدہ) ہے جو نصاریٰ کا کفر بھی بیان کر رہی ہے کیونکہ انہوں نے کہا تھا: اِنَّ اﷲَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ (اللہ مسیح بن مریم ہی ہے۔۔المائدہ: ۷۲)
اور اِنَّ اﷲَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ (اللہ تین میں کا ایک ہے۔۔ المائدہ:۷۳)
اس کے بعد کسی کے لیے یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ آج کے عیسائی وہ عیسائی نہیں ہیں جو نزولِ قرآن کے وقت تھے، عیسائیت اب شرک سے پاک ہو گئی ہے اور ۳۲۵ عیسوی میں مشہور نیقی کانفرنس کے انعقاد کے بعد اس کے عقائدی معاملات محدود ہو گئے ہیں۔
صحابہ کرام کو مکی دور ہی سے معلوم تھا کہ اہل کتاب اور خاص طور پر نصاریٰ ان کے قریب ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب روم کی بازنطینی حکومت، جو عیسائی مذہب پر تھی، ایرانیوں سے شکست کھا گئی، جو کہ مجوسی تھے، تو مسلمان اس سے رنجیدہ ہوگئے تھے۔ جب کہ دوسری طرف مکہ کے مشرکین ایرانیوں کی فتح سے خوش ہوئے تھے۔ ان میں سے ہر فریق کو معلوم تھا کہ ایرانیوں اور رومیوں میں سے کون کس کے قریب ہے اور کس سے دور ہے۔ اس موقع پر قرآن کی تاقیامت تلاوت کی جانے والی آیات نازل ہوئیں جن میں مسلمانوں کو خوشخبری سنائی گئی کہ روم عن قریب فارس پر غالب آئے گا۔ یہ آیات سورۂ روم کے آغاز میں اس طرح موجود ہیں: ’’ا،ل،م۔ رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے ہیں، اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور وہ دن وہ ہوگا جب کہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے‘‘۔ (الروم: ۱۔۵)
یہ واقعہ ہمارے سامنے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات میں موازنے اور ترجیح کا ایک اہم قاعدہ رکھتا ہے اور یہ جملہ اہل کتاب کو ملحدین اور بت پرستوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے قریب قرار دیتا ہے، جب تک ایسے مخصوص حالات نہ ہوں، جن کی وجہ سے اہل کتاب زیادہ عداوت اور حسد کے مستحق قرار دیے جائیں جیسا کہ موجودہ دَور میں سربوں اور یہودیوں کا معاملہ ہے۔
یہ بات یقینی ہے کہ کفار میں کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو امن سے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے ہماری طرف سے بھی امن سے رہنے کا حکم ہے۔ جبکہ ان میں کچھ عنادی اور برسر جنگ ہوتے ہیں تو ان سے ہمیں بھی لڑنے کا حکم ہے جیسا کہ وہ ہم سے لڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو صرف کافر ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ظالم بھی ہوتے ہیں اور کافر بھی، یا وہ جو کفر بھی کرتے ہیں اور اللہ کی راہ سے بھی روکتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا الگ الگ حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمہیں جس بات سے روکتا ہے وہ یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔ (الممتحنہ: ۸۔۹)
یہ بات بھی متعین ہے کہ ذمیوں کو شہری حقوق حاصل ہوتے ہیں، اس اعتبار سے کہ وہ دارالاسلام کے رہنے والے ہیں۔ ان کے مجموعی طور پر وہی حقوق ہیں جو ہمارے ہیں اور ان پر وہی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو ہم پر عائد ہوتی ہیں۔ اس سے وہ امور مستثنیٰ ہیں جو دین کے اختلاف کا تقاضا ہوتے ہیں۔ ان پر وہ پابندیاں عائد نہیں کی جائیں گی جو ان کی دینی شخصیت کو ختم کر دیں اور اسی طرح مسلمانوں سے بھی اس کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
مرتدین کا کفر
علمائے امت کے درمیان یہ بات طے ہے کہ کفر کی بدترین قسم اہل ارتداد کے کفر کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ آدمی کو اللہ نے ہدایت عطا فرمائی ہو اور وہ اس کے بعد دوبارہ کفر کی طرف لوٹ جائے۔
ایمان لانے کے بعد کافر ہونا اس سے زیادہ سخت ہے کہ آدمی ابتداً ہی کافر ہو۔ یہ وہ حرکت ہے کہ دشمنانِ اسلام اب بھی اس سے باز نہیں آئے۔ وہ ہرممکن ذریعہ استعمال کرکے مسلمانوں کو کافر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’وہ تو تم سے لڑے ہی جائیں گے، حتیٰ کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہارے دین سے تم کو پھیر لے جائیں‘‘۔ (البقرہ: ۲۱۷)
پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی سزا بھی بیان فرمائی ہے جو ان گمراہ کرنے والوں کی بات پر لبیک کہتے ہیں اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے اپنے دین کو خیرباد کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا، اس کے اعمال دنیا و آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے، ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے‘‘۔ (البقرہ: ۲۱۷)
اس حالت میں ارتداد اسلام امتِ مسلمہ کے ساتھ ایک عظیم خیانت ہے۔ کیونکہ اس میں ان کے ساتھ تعلق کی تبدیلی یا ان سے پہلوتہی یا ایک امت سے دوسری امت منتقل ہونے کی بات ہوتی ہے۔ اس کا معاملہ ایسے ہوتا ہے جیسے اس نے اپنا تعلق بدل کر اپنے ملک کے ساتھ خیانت کی ہو اور اپنی قوم کی جگہ کسی اور قوم میں جاداخل ہوا ہو۔ ایسا آدمی اپنے ملک و قوم کی جگہ کسی اور ملک و قوم کو اپنی محبت اور تعاون کا مستحق سمجھتا ہے۔
چنانچہ ارتداد محض عقلی طور پر نقطہ نظر کی تبدیلی نہیں ہوتی۔ یہ ایک جماعت سے اپنا تعلق توڑ کر ایک ایسی جماعت کے ساتھ جڑنا ہوتا ہے جو اس کے خلاف بلکہ اس کی دشمن ہو۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ارتداد کو ختم کرنے میں بڑی شدت سے کام لیا ہے، خصوصاً اس صورت میں جب کہ مرتد اپنے ارتداد کا اعلان کرے اور دوسروں کو بھی مرتد ہونے کی دعوت دے۔ کیونکہ یہ لوگ معاشرے کے لیے ایک عظیم خطرہ بن جاتے ہیں اور اس کی فکری بنیادوں پر تیشہ چلاتے ہیں۔ اسی وجہ سے بعض علمائے سلف اور تابعین نے ارتداد کی دعوت دینے والوں کو ان لوگوں میں شامل کیا ہے جو: ’’اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں‘‘۔ (المائدہ: ۳۳)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے یہ بات واضح کی ہے کہ کفر کی اشاعت کے لیے زمین میں فساد کی سعی کرنا اور ملت اسلام کے خلاف شبہات پھیلانا اس سے زیادہ سخت جرم ہے کہ آدمی لوگوں کا مال لینے اور ان کا خون بہانے کے لیے سعی کرے۔
اور یہ بالکل بجا ہے کیونکہ امت کے مفاد کو نقصان پہنچانا اور اس کے عقائد کو منہدم کرنا، اس کے اموال کے ضائع کرنے، اس کی عمارتیں ڈھانے اور افراد کے قتل سے زیادہ خطرناک ہے۔
اس وجہ سے قرآن اہل ایمان کو بہت زیادہ تاکید کرتا ہے کہ وہ ارتداد کو ختم کریں۔ اور یہ تاکید اس نسل کو کی گئی ہے جو جہادی نسل تھی، جو نہ باطل پر خاموش ہوتی تھی اور نہ حق کے راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگوں کو پیدا کر دے گا جو اللہ کے محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے‘‘۔(المائدہ: ۵۴)
قرآن پاک نے منافقین کو وعید سنائی ہے کہ اگر انہوں نے اپنے کفر کا اعلان کیا تو: ’’ان سے کہو! تم ہمارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے، اور ہم تمہارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے؟ اچھا تو اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں‘‘۔ (التوبۃ: ۵۲)
(۔۔۔ جاری ہے!)
☼☼☼
Leave a Reply