
قرآن پاک نے منافقین کو وعید سنائی ہے کہ اگر انہوں نے اپنے کفر کا اعلان کیا تو: ’’ان سے کہو! تم ہمارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہو، وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔ اور ہم تمہارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے؟ اچھا تو اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں‘‘۔ (التوبۃ: ۵۲)
ان کو مسلمانوں کے ہاتھ عذاب اُس وقت پہنچے گا، جب وہ اُس کفر کا اظہار کریں گے جو انہوں نے اپنے سینوں میں چھپایا ہے۔ مسلمان ان کے دلوں کو پھاڑ کر نہیں دیکھتے بلکہ ان کے ساتھ اس صورتحال کے مطابق معاملہ کرتے ہیں جو ان کی زبان اور اعضا سے ظاہر ہو چکا ہو۔
قتلِ مرتد کے بارے میں بہت سی احادیثِ صحیحہ وارد ہوئی ہیں اور متعدد صحابہ سے مروی ہیں۔ یہی جمہور کی رائے ہے۔ حضرت عمرؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ مرتد کو جیل میں ڈالنے اور اسے زندہ رہنے دینے کو بھی جائز کہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنی موت مر جائے یا اللہ کے سامنے لوٹ آئے۔ اس رائے کو امام نخعیؓ اور امام ثوریؓ نے اختیار کیا ہے۔
اگر ارتداد ایسا ہو کہ مرتد خاموش رہے اور اس کی طرف دوسروں کو دعوت نہ دے تو اس کے حوالے سے میں اسی رائے کو ترجیح دیتا ہوں۔ رہا وہ ارتداد جس میں مرتد اپنے ارتداد کا اعلان ہی نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو بھی اس کی طرف بلاتا ہے، اس کے بارے میں میرا خیال نہیں ہے کہ حضرت عمرؓ اور امام نخعیؒ یا امام ثوریؒ میں سے کوئی بھی اس بات پر راضی ہو کہ ایسے افکار کو پھیلانے کی کھلی اجازت ہو جو اسلامی عقائد کے لیے تباہ کن ہیں۔ اور یہ کہ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی جائے اور ان کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھائی جائے، باوجودیکہ ان کی پشت پر کوئی شریر قوت بھی موجود ہو جو انہیں تقویت دے رہی ہو۔
چنانچہ ضروری ہے کہ ہم ارتدادِ خفیف اور ارتدادِ غلیظ میں فرق کریں اور ’خاموشی سے‘ مرتد ہونے والے اور اس شخص کے درمیان فرق ملحوظ رکھیں جو اپنے ارتداد کی طرف ’دعوت دینے والا‘ ہو۔ ایسا شخص تو کھلم کھلا ان لوگوں میں سے ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کے مرتکب ہوتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ علما نے بدعت میں مخفف اور مغلظ کے درمیان فرق کیا ہے، اور اُس مبتدع کے جو اپنی بدعت کی طرف دعوت دے رہا ہو اور جو خاموشی سے اپنی بدعت پر عمل کرتا ہو، ان دونوں کے درمیان فرق کیا ہے۔
کفرِ نفاق
کفر کی غلیظ ترین اور اسلامی زندگی کے لیے سب سے خطرناک قسم منافقت ہے۔ اس کے پیروکار مسلمانوں کے درمیان رہتے ہیں کیونکہ وہ انہی میں شمار ہوتے ہیں، ان کے ساتھ نمازوں میں شریک ہوتے ہیں، انہی کی طرح زکوٰۃ دیتے ہیں، انہی کی طرح دوسری عبادات ادا کرتے ہیں۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود وہ باطنی طور پر ان کے دشمن ہوتے ہیں۔ وہ ان کے خلاف سازشیں کرتے، چالیں چلتے اور ان کے دشمنوں کے ساتھ دوستی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے ان کے حالات بیان کرنے کو بڑی اہمیت دی، ان کے پردوں کو چاک کیا اوران کے اوصاف اور اخلاق کو صاف صاف بیان کیا ہے۔ سورہ توبۃ کا ایک نام ’الفاضحہ‘ (شرمانے والی) بھی ہے، کیونکہ وہ ان کی قِسموں کا احاطہ کر رہی ہے اور ان کے اوصاف کو واضح کر رہی ہے۔ ان کے بارے میں ایک مستقل سورت بھی نازل ہوئی جو انہی کی مناسبت سے المنافقون سے موسوم ہوئی۔ اس کے علاوہ بھی قرآن پاک میں بہت سی آیات ہیں۔
اسی طرح سورۂ بقرہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے متقین کا ذکر صرف تین، چار آیات میں فرمایا اور کفار کے بارے میں دو آیتیں نازل فرمائیں۔ رہے منافقین تو ان کے ذکر نے تیرہ آیات لے لیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جہنم کا سب سے نچلا درجہ مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں جائیں گے اور تم کسی کو ان کا مددگار نہ پائو گے۔ البتہ جو اُن میں سے تائب ہو جائیں اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لیں اور اللہ کا دامن تھام لیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر دیں، تو ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں‘‘۔ (النساء: ۱۴۵۔۱۴۶)
ہمارے دور میں بہت سے منافقین پائے جاتے ہیں جو نہ وحی الٰہی کا اقرار کرتے ہیں اور نہ شریعت کو فکر و کردار اور تعلقات کے لیے اعلیٰ ترین ماخذ کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ دین، اس کے داعیوں اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کی صورت حال یہ ہے کہ وہ منافق ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان پر اسلام کا نام بھی موجود رہے اور انہیں مسلمانوں کے زُمرے میں بھی شمار کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ دورِ نبوت کے منافقین سے بدتر ہیں۔ کیونکہ ان کی حالت یہ ہوتی تھی کہ وہ نماز کے لیے سستی کے ساتھ اٹھتے تھے اور یہ اس کے لیے اٹھتے ہی نہیں ہیں، نہ چستی کے ساتھ اور نہ سستی کے ساتھ۔ وہ اللہ کو یاد کرتے تھے مگر تھوڑا، اور یہ اللہ کو یاد ہی نہیں کرتے، نہ تھوڑا اور نہ زیادہ۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے تھے اور دشمن کے خلاف بھی لڑتے تھے اور یہ اسلام کے دشمنوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہیں۔ وہ بظاہر مسلمانوں کے ساتھ مسجدوں میں ہوتے تھے اور یہ کافروں کے ساتھ ان کے لہو لعب میں مصروف ہوتے ہیں۔
اگر یہ لوگ اپنے کفر کا صراحت کے ساتھ اعلان کریں گے تو ان کا مؤقف متعین ہو جائے گا اور ہم ان کی طرف سے مطمئن ہو جائیں گے۔ مگر یہ ایسے بن گئے ہیں جیسا کہ فرمایا: ’’وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں۔ مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں‘‘۔ (البقرۃ: ۹)
اکبر اور اصغر میں فرق
اس مقام پر بہت ضروری ہے کہ ہم کفر و شرک اور منافقت میں اُن مراتب کا لحاظ کریں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ کوئی کفر اکبر ہوتا ہے اور کوئی اصغر۔ جب ان میں سے کسی کا مطلق ذکر ہوتا ہے تو مراد اکبر ہی ہوتی ہے۔
لیکن شریعت میں بعض اوقات یہ کلمات اطلاق کے ساتھ ذکر ہوتے ہیں اور ان سے مراد معاصی ہوتے ہیں، خاص طور پر کبائر۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس بات کا لحاظ رکھا جائے اور اس کے مواقع کو پہچان لیا جائے تاکہ ہمارے لیے معاملہ مشتبہ نہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم گناہ گاروں پر کفرِ اکبر کا الزام لگا دیں جو ملت سے خارج کرنے والا ہے، حالانکہ وہ مسلمان ہوں گے۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ان کو اپنا دشمن قرار دیں اور ان کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیں، حالانکہ ان کی طرف سے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کے باوجود ہمارے اور ان کے درمیان ابھی دین کا رشتہ برقرار ہو، اور معاملہ عربی ضرب المثل کی طرح ہو کہ أنْفُکَ مِنْکَ وَاِنْ کَانَ أَجْدَعَ! (ناک اگرچہ کٹی ہے، مگر ہے تیری ہی)۔
کفرِ اصغر اور کفرِ اکبر
یہ بات معلوم ہے کہ کفرِ اکبر یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے وجود کا یا اس کے رسولوں کا انکار کرے۔ جیسا کہ ہم نے اشتراکیوں کے کفر کے سلسلے میں ذکر کیا ہے۔ یا یہ کہ آدمی کسی نبی کی نبوت کا انکار کرے جیسا کہ یہود و نصاریٰ کا کفر ہے۔ یہ لوگ دنیوی احکام میں بھی رسالتِ محمدی کے کافر تصور کیے جاتے ہیں۔ رہی ان کی اخروی سزا تو وہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ کس قدر دشمنی رکھتے ہیں، حالانکہ ان کے سامنے حق واضح ہو چکا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جو شخص رسول کی مخالفت پر کمربستہ ہو اور اہلِ ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالیکہ اس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو، تو اس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے‘‘۔ (النساء: ۱۱۵)
وہ لوگ جن کے سامنے ہدایت واضح نہیں ہوئی، مثلاً ان کو دعوت پہنچی ہی نہیں یا انہیں دعوت پہنچی تو ہے، مگر درست طریقے سے نہیں پہنچی (کہ اس کی وجہ سے وہ تحقیق اور غور و فکر پر مجبور ہوں) ایسے افراد معذور ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے) ایک پیغام بر نہ بھیج دیں‘‘۔ (بنی اسرائیل:۱۵)
میرا خیال ہے کہ مسلمان بڑی حد تک اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ زمین پر بسنے والی قومیں گمراہ کیوں ہیں اور وہ اسلام کے حقائق سے بے خبر کیوں رہیں؟ وہ اسلام دشمنوں کے اباطیل و خرافات کے ساتھ کیوں چمٹی رہیں؟ ان پر لازم ہے کہ اپنے پیغام کو دنیا تک پہنچانے میں اپنی پوری قوت صَرف کریں اور سچے دل سے اس راستے میں کام کریں۔ انہیں چاہیے کہ ہر قوم کو اپنی دعوت انہی کی زبان میں پہنچائیں تاکہ اسے ان کے سامنے حقیقی معنوں میں بیان کر سکیں اور ثابت کر سکیں کہ پیغامِ محمدی حقیقی طور پر ایک عالمی پیغام ہے۔
رہا کفرِ اصغر تو وہ تمام معاصی ہیں، خواہ دین میں ان کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو۔ مثلاً تارکِ صلوٰۃ جو سستی کے وجہ سے نماز کو ترک کرتا ہے، نہ کہ انکار یا استہزا کی وجہ سے۔ ایسا آدمی جمہور علمائے امت کے نزدیک گناہ گار یا فاسق ہے، کافر نہیں ہے۔ بعض احادیث میں اس پر جو لفظ کفر کا اطلاق کیا گیا ہے تو اس سے مراد کفر کی چھوٹی اقسام ہیں نہ کہ یہی کفرِ اکبر۔
مثلاً حدیث ہے کہ ’’ہمارے او ران کے درمیان نماز کا عہد ہے، جس نے نماز چھوڑی وہ کافر ہو گیا‘‘۔ (احمد، ترمذی و نسائی)
’’آدمی اور اس کے کفر کے درمیان صرف ترکِ نماز کا فرق ہے‘‘۔ (مسلم، ابودائود، ترمذی، ابن ماجہ)
امام ابن حزمؒ اپنی ظاہریت کے باوجود ترکِ نماز کو کافر نہیں کہتے۔ امام احمدؒ سے اس کے کفر کا جو قول مروی ہے، اس کا حکم کسی پر اس وقت لگایا جائے گا جب حکمراں یا قاضی نے اسے نماز کی دعوت دی ہو اور اس سے توبہ کا مطالبہ کیا ہو اور اس نے توبہ کرنے سے انکار کر دیا ہو۔
امام ابن قدامہؒ نے بھی اسی بات کو راجح کہا ہے کہ تارکِ نماز کافر نہیں ہے، جب تک کہ وہ اس کا انکار نہ کرے یا اس کا استخفاف نہ کرے۔ اگرچہ ان کے نزدیک اسے ترکِ نماز پر قتل کیا جائے گا مگر اس وجہ سے نہیں کہ وہ کافر ہو گیا ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ حد کا مستحق ہے اور اس کی سزا یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائے۔ یہی ایک روایت امام احمد کی بھی ہے۔ ابوعبداللہ بن بطہ نے اسی کو اختیار کیا ہے اور انہوں نے اس سے انکار کیا ہے کہ امام احمد تارک نماز کو کافر کہتے ہیں۔ اس نے کہا ہے کہ اصل مذہب یہ ہے اور اس مسئلے میں ہمارے مذہب میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ابن قدامہ ؒ کہتے ہیں کہ یہ اکثر فقہا کا مذہب ہے، جیسے امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ وغیرہ۔ انہوں نے ان متفق علیہ احادیث سے استدلال کیا ہے جن میں یہ ذکر آیا ہے کہ اُس شخص پر آگ حرام ہے جس نے صدقِ دل سے لاالٰہ الا اللہ کہا ہو، اور جس نے یہ کہا وہ آگ سے نکلے گا، اور جس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر ایمان ہوگا وہ بھی جہنم سے نکلے گا۔ انہوں نے آثار صحابہ اور اجماع سے بھی استدلال کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہمیں معلوم نہیں کہ کسی دور میں بھی ایک تارکِ نماز کی وفات پر اسے غسل نہ دیا گیا ہو اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائی گئی ہو اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا گیا ہو اور اس کے وارثوں کو اس کی میراث سے محروم کیا گیا ہو یا خود تارکِ نماز کو اس کے وارثوں کی میراث سے محروم کیا گیا ہو یا زوجین میں سے کسی کو اس وجہ سے دوسرے سے الگ کیا گیا ہو کہ وہ تارکِ نماز ہے، حالانکہ تارکین نمازہر دور میں بہت سے ہوتے ہیں۔ اگر وہ کافر ہوتا تو اس کے بارے میں یہ سارے احکام ثابت ہوتے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمانوں کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف معلوم نہیں ہے کہ تارکِ نماز پر اس کی قضا واجب ہے۔ اگر وہ مرتد ہوتا تو اس پر نہ نماز کی قضا لازم ہوتی اور نہ روزوں کی۔ رہی مذکورہ احادیث یعنی جن کا ظاہر اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ تارکِ نماز کافر ہو جاتا ہے تو وہ ڈرانے، بتانے، سمجھانے کے لیے فرمائی گئی ہیں۔ یہ اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہے۔ جیسا کہ حدیث ہے کہ ’’مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
’’جس نے اپنے مسلمان بھائی سے کہا: اے کافر، تو ان میں سے ایک تو اس میں مبتلا ہو گیا‘‘۔ (متفق علیہ)
اس طرح کی احادیث وعید میں شدت پیدا کرنے کے لیے آتی ہیں۔ ہمارے نزدیک یہی صحیح ترین قول ہے، واللہ اعلم۔
امام ابن قیمؒ کا قول
امام ابن قیمؒ اپنی کتاب مدارج السالکیں میں کہتے ہیں:
کفر کی دو قسمیں ہیں: کفرِ اکبر اور کفرِ اصغر۔ کفرِ اکبر خلود فی النار کا موجب ہے اور کفرِ اصغر خلود فی النار کا نہیں بلکہ استحقاق وعید کا موجب ہے۔ جیسا کہ نبیﷺ کا قول ہے: ’’میری امت میں دو افعال ہیں جو میری امت کے لیے کفر ہیں، ایک نسب میں الزام لگانا اور دوسری نیاحت (یعنی میت پر جاہلیت کے انداز میں رونا)‘‘۔ (احمد، مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے: ’’جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس گیا اور اس کی بات پر یقین کیا وہ اس تعلیم سے کافر ہوگیا جو نبیﷺ پر نازل ہوئی ہے‘‘۔ (احمد، حاکم)
اسی طرح فرمایا: ’’میرے بعد کافر نہ بنو کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے رہو‘‘۔ (متفق علیہ)
یہی تاویل حضرت ابن عباسؓ اور اکثر صحابہ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی فرمائی ہے کہ ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی کافر ہیں‘‘۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ کفر نہیں ہے جو ملت سے خارج کرنے والا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب وہ یہ کام کرے گا تو وہ اس کے لیے کفر کے مترادف ہوگا۔ لیکن یہ اُس شخص جیسا نہیں ہوگا جس نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے۔ یہی قول طائوس کا بھی ہے۔
حضرت عطا کہتے ہیں: یہ کُفُرٌ دُوْنَ کُفْرٍ، ظُلْمٌ دُوْنَ ظُلْمٍ اور فِسقٌ دُوْنَ فِسْقٍ والی بات ہے۔ (یعنی ان میں سے ہر ایک کے مختلف درجات ہیں جن میں سے ایک ادنیٰ درجہ یہ ہے)
بعض نے اس آیت کی یہ تاویل کی ہے کہ، یہ اُس صورت میں ہے جب وہ ماانزل اللہ پر فیصلہ نہ کرنے کے ساتھ اس سے انکار بھی کرے۔ یہ عکرمہؓ کا قول ہے۔ مگر یہ ایک مرجوح تاویل ہے۔ اس لیے کہ اگر ایک آدمی اس سے ویسے انکار کرے وہ بھی کافر ہے، خواہ اس پر فیصلہ کرے یا نہ کرے۔
بعض نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ اس صورت پر محمول ہے جب وہ سارے ما انزل اللہ پر فیصلہ کرنا چھوڑ دے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس میں توحید اور اسلام کے بارے میں فیصلہ بھی مراد ہے۔ یہ عبدالعزیز الکنانیؒ کی تاویل ہے، مگر یہ تاویل بھی بعید ہے۔ کیونکہ وعید ماانزل اللہ کے مطابق فیصلہ کرنے سے انکار پر آئی ہے اور وہ اس میں ’جمیع‘ اور ’بعض‘ ماانزل اللہ دونوں شامل ہیں۔
بعض نے اسے نص کے خلاف فیصلہ کرنے پر محمول کیا ہے، جبکہ وہ قصداً عمداً نص کی مخالفت کرے، نہ کہ جہالت یا اجتہادی غلطی کی وجہ سے۔ یہ تاویل امام بغوی نے عموماً علما سے نقل کی ہے۔
کسی نے اسے اہل کتاب پر محمول کیا ہے۔ یہ قتادہ اور ضحاک وغیرہ کا قول ہے۔ یہ تو زیادہ بعید ہے۔ کیونکہ یہ نص کے ظاہری الفاظ کے خلاف ہے۔ چنانچہ اس رائے کو اختیار نہیں کیا جاسکتا۔
بعض نے اس کو کفر قرار دیا ہے جو ملت سے نکالنے والا ہے۔ مگر درست یہی ہے کہ ماانزل اللہ کے سوا کسی چیز پر فیصلہ کرنے میں دو کفر پائے جاتے ہیں: ایک اصغر اور ایک اکبر۔ ان کا تعین فیصلہ کرنے والے کی حالت دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس نے یہ عقیدہ رکھا کہ اس پر پیش آمدہ مسئلے میں ماانزل اللہ پر فیصلہ کرنا واجب ہے مگر نافرمانی کرتے ہوئے اس سے منہ موڑتا ہے اور ساتھ ہی اعتراف کرتا ہے کہ اپنی اس حرکت کی وجہ سے وہ سزا کا مستحق ہے تو یہ کفر اصغر ہے۔ اور اگر اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اس پر ماانزل اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا واجب ہی نہیں ہے، اسے یقین ہو کہ اللہ کا فیصلہ یہی ہے۔ مگر وہ سمجھے کہ اس کے باوجود میں اس کا پابند نہیں ہوں، تو یہ کفر اکبر ہے۔ لیکن اگر وہ بے خبر ہے یا اجتہادی غلطی سے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو یہ خطاکار ہے اور اس کا حکم خطاکاروں کا حکم ہے۔
الغرض، گناہ جتنے بھی ہیں وہ کفرِ اصغر کی انواع میں سے ہیں۔ یہ شکر کے خلاف ہیں جو بھلائی پر عمل کا دوسرا نام ہے۔ پس جو آدمی سعی کرتا ہے وہ یا شکر ہوگی یا کفر، یا پھر ایک تیسری چیز ہوگی جو نہ اِس میں ہے اور نہ اُس میں۔ واللہ اعلم۔
☼☼☼
Leave a Reply