یہاں ایک اور اہم نکتہ کی وضاحت ضروری ہے کہ بہت سے امور میں اولیت اور افضلیت زمان و مکان اور اشخاص و احوال کے لحاظ سے ہوتی ہے، اگرچہ ان کے درمیان میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بلکہ غالب یہی ہے کہ اس میں زمانی، ماحولیاتی اور شخصی فرق کے ساتھ فرق پیدا ہوتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں۔
افضل دنیوی عمل
ہمارے علما کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ زراعت، صنعت اور تجارت میں سے کون سا عمل افضل اور اللہ کے ہاں زیادہ ثواب کا ذریعہ ہے۔
اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر فن کی فضیلت میں مختلف احادیث آئی ہیں۔
زراعت کی فضیلت میں یہ حدیث ہے کہ: ’’کوئی مسلمان جب کوئی پودا لگاتا ہے یا کوئی فصل اُگاتا ہے اور پرندے، انسان یا جانور اس میں سے کھاتے ہیں تو یہ اس کے لیے صدقہ بن جاتے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)
صنعت کی فضیلت میں یہ حدیث ہے کہ: ’’کسی مسلمان نے کوئی کھانا نہیں کھایا ہوگا جو اس سے بہتر ہو کہ آدمی اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائے، اللہ کے نبی حضرت دائودؑ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے‘‘۔ (بخاری، احمد)
تجارت کی فضیلت میں یہ حدیث آئی ہے کہ ’’وہ تاجر جو اپنی تجارت میں سچ بولتا ہے، قیامت کے دن انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ اٹھایا جائے گا‘‘۔ (ترمذی)
یہ اور ایسی دوسری احادیث کی بنا پر بعض علما نے ان میں سے ایک عمل کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ لیکن محققین علما نے کہا ہے کہ ہم ان میں کسی کو بھی مطلقا فضیلت نہیں دے سکتے۔ بلکہ ان کی فضیلت اس بات پر منحصر ہوگی کہ معاشرے کو کس چیز کی زیادہ ضرورت ہے۔
جس مقام پر غلّے کم ہوں اور معاشرہ اس بات کا محتاج ہو کہ اس کو روزمرہ کی غذائی اجناس میسر آئیں جس کے بغیر زندہ رہنا دشوار ہو جائے، وہاں قوم کو بھوک سے بچانے اور غذائی ضروریات فراہم کرنے کی خاطر زراعت کا عمل، دوسروں سے افضل ہوگا۔ خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ زراعت میں بہت محنت و مشقت ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں اس مشقت پر صبر و استقامت کا رویہ افضل ترین عمل ہوگا۔
جس مقام پر غذائی اجناس زیادہ ہوں، زراعت کا دائرہ وسیع ہو اور لوگوں کو اس بات کی ضرورت ہو کہ مختلف قسم کی صنعتیں زیادہ ہوں، جس سے ایک طرف غیر مسلم ملکوں سے درآمدات سے چھٹکارا ملے، دوسری طرف بے روزگاروں کو روزگار فراہم ہو، تیسری طرف اگر ان صنعتوں کا تعلق جنگی ساز و سامان تیار کرنے سے ہو تو یہ امت کی حرمتوں اور ان کے حدود کی حفاظت کا ذریعہ بنے اور چوتھی طرف اس سے امت کے برآمدی صلاحیت میں اضافہ ہو، تو اس صورت میں صنعت کی فضیلت زیادہ ہوگی۔
جب زراعت اور صنعت دونوں زیادہ ہوں اور لوگ اس بات کے محتاج ہوں کہ کوئی ہو جو ان کی تیار کردہ مصنوعات کو دوسرے ملکوں میں منتقل کرے تو یہ صنعت کار اور صارف کے مابین ایک اچھا وسیلہ ہوگا۔ اسی طرح جب مارکیٹ پر ایسے تاجروں کا قبضہ ہو جو لالچی اور ذخیرہ اندوز ہوں، وہ لوگوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوں اور چیزوں کی قیمتوں کے ساتھ کھیلتے ہوں تو اس صورتحال میں تجارت افضل ہوگی۔ خصوصاً جب وہ ایسے لوگوں میں سے ہوں جنہیں تجارت یا خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے، نماز قائم کرنے سے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرسکتی۔
آج کے دور میں امت مسلمہ سب سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی کی محتاج ہے تاکہ امت، جدید دور میں اس انداز سے قدم رکھ سکے کہ وہ جدید سائنس کے اسلحے سے مسلح ہو۔ وہ نہ اس میدان سے غائب ہو اور نہ کسی سے پیچھے ہو۔ اس کے بغیر امت اس پیغام کو اجاگر نہیں کرسکتی جسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی اللہ تعالیٰ نے اس کی ذمہ داری لگائی ہے اور جس کے ذریعے اس پراپنی نعمت تمام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگر امت اسی طرح ضروریاتِ زمانہ اور جدید اسلحے میںدوسروں کی محتاج ہوگی تو اپنی دعوت دنیا تک نہیں پہنچا سکے گی۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے نصابات اور نظام تعلیم میں روز بروز ترقی ہو، تاکہ وہ اس مقصد کو حاصل کر سکے۔ یہی طریقہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنا عالمی مقام حاصل کر سکتی ہے، جس میں اس کی اپنی ایک ممتاز تہذیب و تمدن ہو، جس کی جڑیں گہری اور شاخیں گھنی ہوں۔ اسی طرح وہ مستقبل میں جھانک سکتی ہے اور اس کی طرف ان نظروں سے دیکھ سکتی ہے، جس کا اسلام اس سے تقاضا کر رہا ہے۔ اس کے ذریعے وہ اس عقیدے، اس نظام اور اس تہذیب سے لوگوں کو آگاہ کر سکتی ہے جس کی مسلمانوں کو تلاش ہے، بلکہ جس کے لیے پوری دنیا سرگرداں ہے۔
اس ٹیکنالوجی کا حصول اور اس میں دوسروں پر فوقیت حاصل کرنا اور ان علوم کا حصول جو ہمیں اس مقصد تک پہنچاتے ہیں، ایک فریضہ اور ایک ضرورت بن گیا ہے۔ ایسا فریضہ جو دین نے ہمارے اوپر لازم کیا ہے اور جسے وقت اور حالات نے حتمی قرار دیا ہے۔ یہ فریضہ آج امت کی ترجیحات میں سب سے مقدم ہے اور ہونا چاہیے۔
افضل عبادت
یہی بات اس حوالے سے بھی کہی جاسکتی ہے کہ فرد کے لیے افضل عبادت کون سی ہے۔ اس میں علما کے درمیان بہت اختلاف ہوا ہے۔ اس معاملہ میں ان کے اقوال بہت زیادہ اور ایک دوسرے سے بہت کچھ مختلف ہیں۔
میرے نزدیک اس میں راجح قول امام ابن قیم کا ہے کہ یہ افضلیت افراد، اوقات، جگہ اور حالات کے اعتبار سے ہے اور اسی اعتبار سے اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔
امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
اہل اسلام کے درمیان اس مسئلے میں چار طریقے ہیں کہ عبادات میں سب سے افضل، انفع اور سب سے مقدم کرنے کا مستحق کون سا کام ہے۔ اس بنا پر ان کی چار اصناف ہیں:
عابدین کی پہلی صنف:
ان کے نزدیک سب سے افضل اور انفع عبادت وہ ہے جو نفس پر زیادہ شاق اور مشکل ہو۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اس میں انسان کی ذاتی خواہش کا دخل نہیں ہوتا اور یہی عبادت گزاری کی حقیقت ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس طرح کسی عمل کا ثواب اتنا ہی زیادہ ہوگا جتنی اس میں مشقت ہوگی۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک حدیث سے استدلال کیا ہے مگر اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے۔ وہ یہ کہ ’’سب سے افضل عمل وہ ہے جو مشکل اور شاق ہو‘‘۔
یہ ان لوگوں کی صنف ہے جو ریاضت اور مجاہدہ کرکے اپنے نفس کو مارتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے نفس درست ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی فطرت میں سستی اور کاہلی ہوتی ہے۔ وہ بیٹھے رہنے کو پسند کرتا ہے۔ اس کی درستی اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ اسے تکلیف اور مشقت میں ڈال دیا جائے۔
دوسری صنف:
یہ لوگ کہتے ہیں کہ افضل عبادت یکسوئی، دنیا سے بے نیازی اور ممکن حد تک اس سے کم تعلق، اس کی فکر میں نہ لگنا اور ان ساری چیزوں سے لاتعلق ہوجانا جن کا دنیا سے تعلق ہو۔
پھر ان کی دو قسمیں ہیں:
ایک عوام، جنہوں نے سمجھا ہے کہ یہی اصل مقصد ہے۔ انہوں نے اپنی پوری توجہ اسی کی طرف کر دی ہے اور وہ اسی کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ اسی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ علم اور عبادت سے بھی اونچے درجے کا عمل ہے۔ انہوں نے دنیا سے بے نیازی کو ہر عبادت کا مقصد اور اصل سرا سمجھا ہے۔
دوسرے خواص، ان کا خیال یہ ہے کہ یہ چیز خود مقصود نہیں ہے بلکہ ایک اور چیز کی وجہ سے ضروری ہے۔ اس کا اصل مقصد دل کو اللہ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ عزائم کو اسی کے لیے اکٹھا کرنا اور دل کو اسی محبت کے لیے خالص کرنا ہے۔ اسی کی طرف انابت ہے، اسی پر توکل ہے۔ اس کی رضا کے لیے مصروفیت اِس کا مقصود ہے۔ ان کے خیال میں افضل ترین عبادت اللہ کی طرف جمعیتِ خاطر اور دل و زبان سے ہمیشہ اُس کا ذکر اور اُسی کے ساتھ مراقبے میں مشغول ہونا اور ہر اُس چیز کو چھوڑنا ہے جس سے دل جمعی میں فرق آئے یا توجہ منتشر ہو جائے۔
ان کی بھی آپس میں دو قسمیں ہیں: ایک عارفین اور اطاعت گزار، جن کے سامنے اگر شرعی امرونہی آجائے تو اسی کو اپنا لیتے ہیں خواہ اس سے توجہ خراب ہو جائے یا کچھ ہو جائے۔ دوسرے منحرفین، جو کہتے ہیں کہ عبادت کا مقصد اللہ کی طرف دل جمعی ہے۔ لہٰذا ایسا حکم جس سے توجہ میں خلل پیدا ہو اگر اللہ کی طرف سے ہو تب بھی اس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔ یہ لوگ بعض اوقات کہتے ہیں کہ ’’ذکر و اذکار کا مطالبہ اس شخص سے ہوتا ہے جو غافل ہو، اس شخص سے ذکر کا کیا مطالبہ کیا جائے جس کا سارا وقت ملاقات میں گزرتا ہے‘‘۔
پھر ان کی بھی دو قسمیں ہیں: بعض ایسے ہیں جو جمعیتِ خاطر کے لیے فرائض و واجبات تک کو ترک کر دیتے ہیں اور بعض وہ ہیں جو واجبات تو ادا کرتے ہیں، مگر سنتیں اور نوافل اور علم نافع کو جمعیتِ خاطر کے لیے ترک کر دیتے ہیں۔
اس قسم کے لوگوں میں سے کسی نے اپنے شیخ سے جو عارف تھا، پوچھا: اگر میں اپنے مراقبے میں ہوں اور اذان ہو، اس وقت اگر میں اٹھ کر نماز کے لیے چلوں تومیرا مراقبہ خراب ہو جاتا ہے اور اگر بیٹھا رہوں تو میری جمعیتِ خاطر باقی رہتی ہے۔ ان میں سے کون سا عمل میرے لیے افضل ہے؟ شیخ نے جواب دیا: جب مؤذن اذان دے اس وقت اگر تم عرش کے نیچے ہو تب بھی اٹھو اور اللہ کے داعی کی پکار پر لبیک کہو۔ نماز کے بعد پھر آکر اپنا کام جاری رکھو۔ کیونکہ اللہ کی طرف جمعیتِ خاطر روح اور قلب کا حق ہے اور اذان کا جواب دینا رب کا حق ہے، اور جس نے اپنی روح کے حق کو اللہ کے حق پر مقدم کیا وہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ والے گروہ میں شامل نہیں ہے۔
تیسری صنف:
یہ کہتے ہیں کہ افضل اور انفع عبادت وہ ہے جس کا دوسروں کو بھی فائدہ ہو۔ اسے وہ اس عمل سے افضل کہتے ہیںجس کا فائدہ محدود ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ فقرا کی خدمت، لوگوں کی بھلائی، ان کی ضروریات پورا کرنا اور مال و دولت اور اثر و رسوخ کے ذریعہ ان کی مدد میں مشغول رہنا افضل ہے۔ انہوں نے اسی کے لیے اپنے آپ کو فارغ کیا اور اسی کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کی دلیل نبیﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ ’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو‘‘۔ اسے ابویعلیٰ نے روایت کیا ہے۔ (طبرانی)
انہوں نے اس بات سے استدلال کیا ہے کہ عابد کی عبادت اس کے نفس تک محدود رہتی ہے۔ اور نفع پہنچانے والے کا عمل دوسروں کے لیے بھی مفید ہوتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان برابری کیسے ہو سکتی ہے؟
وہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چاند کی فضیلت دوسرے تاروں پر۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا تھا: ’’اگر تمہاری وجہ سے اﷲ ایک آدمی کو ہدایت دے، تو یہ تمہارے لیے اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تمہیں بڑی تعداد میں سرخ اونٹ مل جائیں۔ (بخاری)
یہ فضیلت اسی وجہ سے ہے کہ اس کا نفع محدود نہیں بلکہ متعدی ہے۔ اس کی دلیل وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کسی راستے کی طرف لوگوں کو بلایا اس کے لیے ان لوگوں کے برابر اجر ہوگا جو اس کی پیروی کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجر سے کوئی کمی ہو۔
وہ اس حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ ’’یقینا اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے… لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دینے والوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں‘‘۔ (امام ترمذی)
اور اس حدیث سے بھی کہ ’’عالم کے لیے زمین و آسمان کی تمام مخلوقات دعائیں کرتی ہیں یہاں تک کہ سمندر میں مچھلیاں اور بِلوں میں چیونٹیاں بھی‘‘۔ (ابوالدرداء)
وہ اس بات سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ انبیا علیہم السلام اسی لیے مبعوث کیے گئے تھے کہ وہ مخلوق کے ساتھ احسان کا سلوک کریں گے اور ان کو دنیا اور آخرت میں نفع پہنچائیں گے۔ وہ اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ وہ خلوت نشین ہو جائیں اور لوگوں سے کٹ کر رہبانیت اختیار کرلیں۔ اسی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ان تین افراد پر نکیر فرمائی جنہوں نے ارادہ کیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو عبادت کے لیے خالص کر لیں گے اور لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیں گے۔ ان کے خیال میں اللہ والے کاموں کے لیے توجہ کا منتشر کرنا، اس کے بندوں کو نفع پہنچانا اور ان کے ساتھ احسان کرنا اس سے بہتر ہے کہ ان سارے امور کو چھوڑ کر توجہ صرف اللہ کی طرف ہو۔
چوتھی صنف:
یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی رضا کے لیے عمل کرنا افضل ترین عبادت ہے۔ اور ہر وقت میں وہی کام افضل ہے جس کی اس وقت ضرورت ہو۔ چنانچہ جہاد کے وقت افضل ترین عبادت جہاد ہے، خواہ اس کی وجہ سے ذکر و اذکار، تہجد اور نفل روزے چھوڑنے ہی پڑ جائیں۔ بلکہ بعض اوقات تو اس کی وجہ سے فرض عبادات میں بھی کمی کی جاتی ہے۔
جب مہمان آجائے تو اس وقت افضل عمل یہ ہوتا ہے کہ اس کے حقوق ادا کیے جائیں اور اس کے لیے مستحب اذکار اور وظیفے چھوڑ دیے جائیں۔ یہی معاملہ شریکِ حیات اور اہل و عیال کے حقوق کے معاملے میں بھی ہے۔
رات کے پچھلے پہر افضل یہ ہوتا ہے کہ نماز پڑھیں، قرآن کی تلاوت کریں، دعا، ذکر اور استغفار کریں۔
جب طالب علم، علمی رہنمائی چاہتے ہوں، اس وقت انہیں تعلیم دینا اور اس کے لیے دوسرے کاموں کو چھوڑ دینا افضل عمل ہوتا ہے۔
جب اذان ہوتی ہے اس وقت افضل عمل یہ ہوتا ہے کہ اپنے اذکار وغیرہ چھوڑ کر مؤذن کی پکار پر لبیک کہیں۔
نمازوں کے اوقات میں افضل عمل یہ ہوتا ہے کہ ان کی تیاری میں خوب کوشش کریں، اسے اول وقت میں ادا کریں اور اس کے لیے مسجد جائیں۔
جب کسی محتاج کو جانی، مالی یا اخلاقی مدد کی ضرورت ہو اس وقت اس کی مدد کرنا، اس کی حاجت پوری کرنا اور اسے اپنے ذکر و اذکار اور خلوت نشینی پر ترجیح دینا افضل عمل ہوگا۔
جس وقت قرآن کی تلاوت ہو رہی ہو، اپنے دل اور ہمتوں کو سمیٹ کر اس کو غور سے سننا اور اس کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرنا افضل عمل ہوگا، یہاں تک کہ گویا اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ آپ سے مخاطب ہو رہا ہے۔ اس لیے آپ اپنے دل و جان کو اس کے فہم و تدبر کی طرف متوجہ کریں۔ اس کے احکام کو اپنے اوپر نافذ کرنے کا عزم کریں۔ جیسے کہ آپ کے پاس کسی بادشاہ کی طرف سے خط آجائے اور آپ اس کی طرف متوجہ ہو جائیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔
وقوفِ عرفہ کے وقت افضل عمل یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سامنے عاجزی کا اظہار کرے، دعائیں مانگے اور ذکر و اذکار میں مشغول رہے۔ اس موقع پر روزہ رکھنا درست نہیں، کیوں کہ وہ اس وقت کے افضل اعمال سے آدمی کو کمزور کر دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔
ذی الحجہ کے دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ عبادات انجام دینا افضل ہوتا ہے، خاص طور پر تکبیر، تہلیل اور تحمید کرنا۔ اس وقت یہ نفلی جہاد سے بھی افضل ہوتا ہے۔
رمضان کے آخری دس دنوں میں افضل عمل یہ ہے کہ آدمی مسجد میں معتکف ہو جائے اور خلوت نشینی اختیار کرلے۔ اس میں لوگوں سے میل جول اور ان کے ساتھ مشغولیت نہ رکھے۔ حتیٰ کہ اکثر علما کے نزدیک اس وقت یہ عمل اس سے بھی بہتر ہے کہ کسی کو علم سکھائے، یا ان کو قرآن پڑھائے۔
اگر تمہارا کوئی مسلمان بھائی بیمار پڑ جائے یا وفات پا جائے تو اس کی عیادت کرنا یا اس کے جنازے میں شریک ہونا اور اس کے ساتھ قبرستان تک جانا، اس سے افضل ہے کہ آدمی خلوت نشین رہے اور مراقبے میں مشغول ہو۔
حوادث کے نزول کے وقت اور لوگوں کی طرف سے آپ کو تکلیفیں دیے جانے کے وقت صبر کا فریضہ انجام دینا اور ان کے ساتھ مل کر رہنا، اس سے افضل ہے کہ آدمی ان سے کٹ کر عزلت نشین ہو جائے اور ان سے ملنا جلنا چھوڑ دے۔ جو مسلمان لوگوں کے درمیان رہتا ہے تاکہ ان کی اذیتوں پر صبر کرے، یہ اس سے افضل ہے کہ وہ ان سے ملنا جلنا چھوڑ دے اور وہ اسے اذیت دینے سے باز آجائیں۔
اسی طرح بھلائی میں لوگوں سے میل ملاپ افضل ہے اور یہ ان سے گوشہ نشین ہونے سے بہتر ہے۔ جبکہ برائی میں ان سے عزلت نشین ہونا اس سے بہتر ہے کہ ان کے درمیان رہ کر خود بھی ان کے ساتھ ان کی برائیوں میں شریک بن جائے۔ ہاں، اگر وہ جانتا ہے کہ ان کے ساتھ میل ملاپ رکھتا ہے تو انہیں برائی سے روک سکے گا یا ان کی برائی کو کم کر سکے گا تو اس صورت میں ان سے بھی الگ ہونے کے بجائے ان سے میل ملاپ رکھنا بہتر ہوگا۔
چنانچہ ہر وقت کا افضل یہ ہے کہ اس وقت کی اللہ کی رضا کو پیشِ نظر رکھا جائے اور وقت کے فریضے، اس کی ذمہ داری اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں مشغول ہوا جائے۔
یہ آخری قسم کے لوگ بھی عبادت گزار ہیں مگر قید سے آزاد۔ جبکہ اس سے پہلے جن اصناف کا ذکر کیا گیا ہے وہ عبادت گزار ہیں مگر کسی نہ کسی قید کے ساتھ مقید۔ ان میں سے کوئی شخص جب عبادت گزاروں کی اس نوع سے نکلتا ہے جس کے ساتھ اس کا تعلق تھا تو وہ سمجھتا ہے جیسے اس نے کوئی کوتاہی کی ہو یا عبادت ہی چھوڑ دی ہو۔ کیونکہ وہ ایک ہی جہت میں اللہ کی عبادت کرتا ہے۔
اس کے برعکس جو شخص مطلق عبادت گزار ہوتا ہے، اس کو کسی خاص طریقہ عبادت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہ اسے دوسروں پر ترجیح دیتا ہو۔ بلکہ اس کا مقصد اللہ کی رضا ہوتا ہے خواہ وہ جہاں بھی ہو۔ اس کی عبادت کا دارو مدار اللہ کی رضامندی پر ہوتا ہے۔ اس طرح کا آدمی عبادت کی منزلیں بدلتا رہتا ہے۔ اس کے سامنے جب عبادت کا کوئی درجہ بلند ہوتا دکھائی دیتا ہے تو یہ اس کی طرف چلنے لگتا ہے اور پھر اس میں اتنا مشغول رہتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی اور درجہ نمودار ہوتا ہے۔ اس کی رفتار اسی انداز سے جاری رہتی ہے یہاں تک کہ اس کا سفر تمام ہو جاتا ہے۔
اگر آپ علما کے پاس جائیں تو یہ وہاں موجود ہوگا اور اگر آپ عبادت گزاروں کے پاس جائیں تو یہ آپ کو ان کے ساتھ نظر آئے گا۔ اگر آپ مجاہدین سے ملیں تو اسے وہاں موجود پائیں گے اور اگر ذاکرین کی زیارت کریں تو اس سے وہاں بھی ملاقات ہوگی۔ اگر آپ کی ملاقات صدقہ و خیرات کرنے والوں سے ہو تو اس کام میں بھی اسے سب سے آگے پائیں گے اور اگر آپ کسی ایسی جماعت کے لوگوں کو دیکھیں جو اللہ کے ساتھ تعلق بڑھانے اور اس کے مراقبے میں مشغول ہوں تو یہ ان میں بھی موجود ہوگا۔
یہ عبدِ مطلق ہے جسے نہ کسی قسم کی لکیریں اپنے دائرے میں بند کر سکتی ہیں اور نہ وہ کسی قید میں مقید ہوتا ہے۔ اس کا عمل اپنے نفس کی مراد کے لیے اور ایسی عبادات کے لیے نہیں ہوتا جن میں اسے لذت اور راحت محسوس ہوتی ہے۔ یہی شخص ہے جو حقیقی معنوں میں اس عہد پر قائم ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)۔
پہننے کے لیے اسے جو بھی میسر آئے، کھانے کو جو بھی ملے، ہر حال میں اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے کام میں مشغول رہے۔ مجلس میں اسے کوئی بھی جگہ میسر آئے، خواہ مجلس کا آخری سرا ہی کیوں نہ ہو، اسے نہ کوئی اشارہ روک سکتا ہے اور نہ کوئی قید اسے اپنا بندہ بنا سکتی ہے، نہ کوئی لکیر ہی اس پر غلبہ حاصل کر سکتی ہے۔ وہ بالکل آزاد ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے حکم کے ساتھ گھومتا ہے، خواہ وہ اسے جہاں بھی گھمائے۔ وہ حکم دینے والے کے دین پر ہوتا ہے، خواہ اس کی باگیں جس طرف بھی مڑیں۔ اگر حکم دینے والا اس کو کسی مقام پر ٹھہرا لے تو وہ ٹھہر جاتا ہے۔
یہ ایسا آدمی ہوتا ہے کہ ہر حق پسند اس سے محبت کرتا ہے اور ہر باطل پرست اس سے وحشت محسوس کرتا ہے، جیسے بارش ہوتی ہے کہ جہاں بھی پڑے نفع دیتی ہے، یا کھجور کی طرح جس کے پتے نہیں گرتے اور یہ پوری کی پوری منفعت ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس کے کانٹے بھی۔ مگر یہی کانٹے اللہ کے احکام نہ ماننے والوں کے لیے سختی اور غضب ہوتے ہیں، جب وہ اللہ کی محارم کو توڑتے ہیں۔ ایسا آدمی اللہ کی خاطر، اللہ کے ذمہ اور اللہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ دوسری مخلوق کو چھوڑ کر اللہ کے ساتھ ہے اور اپنے نفس کو چھوڑ کر لوگوں کے ساتھ ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ جب اللہ کے ساتھ ہوتا ہے تو مخلوق سے تعلق کاٹ دیتا ہے اور ان سے لاتعلق ہو جاتا ہے۔ اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے تو اپنے آپ کو درمیان سے نکال دیتا ہے اور اس سے بیزار ہو جاتا ہے۔ آفریں ہے اس آدمی پر! یہ لوگوں میں کتنا عجیب و غریب ہے! اور یہ لوگوں سے کس قدر وحشت زدہ ہے! یہ اللہ کے ساتھ کتنی محبت رکھتا ہے اور کس قدر اس سے خوش ہے! یہ کتنا مطمئن اور پرسکون ہے!! اللہ ہی سے مدد کی دعا اور اسی پر توکل ہے۔
☼☼☼
Leave a Reply