
افغانستان سے امریکی انخلا کے پروگرام کا گندا راز یہ ہے کہ امریکی فوجیوں کے نکل جانے کے بعد بھی لاکھوں امریکی شہری میدان میں ہوں گے۔
’’ویسٹ پوائنٹ‘‘ میں امریکی صدر براک اوباما کی حالیہ تقریر کا مرکزی نکتہ ایک سخت تر بیان پر مبنی تھا۔ امریکی قیادت افغانستان سے مکمل انخلا کے باوجود وہاں ۹۸۰۰ فوجیوں کو تعینات رکھے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ختم ہونے کے بعد بھی کچھ مدت جاری ہی رہے گی۔ ۹۸۰۰ فوجیوں کا تذکرہ ہر جگہ، ہر معاملے میں اس قدر کیا گیا ہے کہ لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں کہ امریکا کے لاکھوں شہری سفارت کار، کنٹریکٹرز، تکنیکی ماہرین، سول افسران اور انٹیلی جنس کے عملے کی شکل میں افغانستان کے مختلف علاقوں میں تعینات رہیں گے۔ فوجیوں کا ذکر تو تعداد کے حوالے کے ساتھ ہو رہا ہے مگر اُن امریکی شہریوں کی بات نہیں کی جارہی جو افغانستان میں تعینات رہیں گے۔
امریکی قیادت جو کچھ افغانستان میں کرنا چاہتی ہے اس کے لیے بڑے پیمانے پر وہاں فوجیوں اور شہریوں کو تعینات رکھنا لازم ہے، مگر چند امور کی وضاحت لازم ہے۔ مثلاً یہ کہ امریکی قیادت آخر افغانستان میں کرنا کیا چاہتی ہے، جو مشن سوچ رکھے ہیں، ان کی تکمیل کے لیے کتنے لوگ کتنی میعاد کے لیے درکار ہوں گے، اس دوران امریکی فوجی اور سویلینز کس حد تک خطرات کی زَد پر ہوں گے اور امریکی فوجیوں، سویلینز اور کنٹریکٹرز کے لیے خطرات کی نوعیت کیا ہوگی؟ اور اس سے بھی بڑھ کر ایک تلخ سوال یہ ہے کہ اس اضافی بوجھ کو افغانستان اور عالمی برادری سے ہمارے اتحادی کس حد تک برداشت کریں گے۔ امریکی حکومت ان سوالوں کے جو بھی جواب دے، اُن سے قطعِ نظر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ فوجیوں سے تین یا چار گنا تعداد میں سویلینز کا افغانستان میں تعینات کیا جانا کس فارمولے یا اصول کے تحت ہوگا۔
’’روز گارڈن‘‘ اور اس کے بعد ’’ویسٹ پوائنٹ‘‘ ملٹری اکیڈمی میں امریکی صدر براک اوباما نے جو تقریر کی، اس میں انہوں نے ۲۰۱۴ء کے بعد بھی افغانستان میں امریکی فوجیوں اور سویلینز کو تعینات رکھنے کی دو بنیادی وجوہ بتائیں۔ ایک تو یہ کہ افغانستان کی فوج کی تربیت جاری رکھنی ہے اور دوسرے یہ کہ وہاں القاعدہ کی باقیات کو ختم کرنے سے متعلق سرگرمیوں میں معاونت کرنا ہے۔ ابھی بہت کچھ واضح نہیں ہے۔ مثلاً یہ کہ افغانستان میں تعمیر و ترقی کے نام پر یو ایس ایڈ اور دیگر اداروں کی معرفت مزید کتنے ارب ڈالر افغانستان کو دیے جائیں گے اور دوسرے یہ کہ امریکا اس حوالے سے نجی شعبے اور بین الاقوامی اداروں کی کس حد تک مدد کرسکے گا۔
افغانستان میں امریکی موجودگی محکمہ خارجہ کے ۳۰۰ سویلین افسران کی حد تک بڑھ گئی، جو بغداد میں امریکی سفارت خانے کے عملے کی تعداد کے لحاظ سے کم ہے مگر پھر بھی محکمہ خارجہ کے نقطۂ نظر سے زیادہ ہے۔ یہ تمام سفارت کار یوایس ایڈ، محکمہ انصاف، محکمہ زراعت اور دیگر سویلین اداروں کے تعینات کیے ہوئے لوگوں کے شانہ بشانہ کام کرتے ہیں۔ انہی کے ساتھ سویلین کنٹریکٹر، جزوقتی ملازمین اور غیر سرکاری تنظیموں کے ملازمین بھی ہوتے ہیں۔ سی آئی اے اور دیگر خفیہ اداروں کے سیکڑوں ملازمین بھی افغانستان میں دیگر امریکیوں کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب لوگ افغانستان میں اس لیے بھی ناگزیر طور پر درکار ہوں گے کیونکہ تمام ذمہ داریاں فوجی ہیڈ کوارٹرز سے امریکی سفارت خانے کو منتقل ہونا ہیں۔ اگر امریکا ۲۰۱۴ء کے بعد بھی افغان ڈیویلپمنٹ پروگرام جاری رکھتا ہے تو دیہی علاقوں میں بھی امریکی حکومت اور اداروں کے ہزاروں ملازمین کو تعینات کرنا پڑے گا۔ افغانستان کے طول و عرض میں مختلف منصوبوں پر اربوں ڈالر صرف ہوتے ہیں اور اب تک اس خطیر فنڈنگ کا خاصا بڑا حصہ کرپشن اور بد انتظامی کی نذر ہو جاتا ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان میں امریکی مشن کون جاری رکھے گا اور وہ کس حد تک خطرات برداشت کرسکیں گے۔ امریکی سفیر جیمز کننگم نے حال ہی میں کہا ہے کہ افغانستان کے طول و عرض میں جس نوعیت کے خطرات موجود ہیں، ان کے پیش نظر ۲۰۱۴ء میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد سویلین ملازمین کا کام کرنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔ کننگم کی بات میں دَم ہے۔ جب فرنٹ لائن پر فوجی موجود ہی نہیں ہوں گے، کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں فوجیوں کو طلب ہی نہیں کیا جاسکے گا اور زخمیوں کو نزدیک ترین امریکی فوجی یا سویلین اسپتال منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر اور دیگر سروسز میسر نہیں ہوں گی تو کام جاری رکھنا کس طور ممکن ہوگا۔
امریکی افسران نے فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں کام کرتے رہنے کی خاطر بھی وہاں سفارتی اور ترقیاتی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے دو مختلف پروگرام پیش کیے ہیں۔ ۲۰۱۰ء میں عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد وہاں سویلین امریکیوں کی حفاظت اور نقل و حرکت کے موقع پر بھی سیکورٹی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ افغانستان میں تعینات امریکی سفارت کار اور دیگر سویلین افسران کچھ ایسا ہی انتظام چاہتے ہیں۔ اگر افغانستان میں تعینات امریکی افسران اور دیگر اہلکار مختلف کاموں کے لیے شہری یا دیہی علاقوں میں نقل و حرکت کریں گے تو انہیں سیکورٹی کے لیے لازمی طور پر ہزاروں سویلین کنٹریکٹرز کی ضرورت پڑے گی۔ ان کنٹریکٹرز کا اپنا حفاظتی نظام، سپلائی لائن اور سپورٹ وہیکلز بھی ہونے چاہئیں۔
امریکی محکمہ دفاع کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت افغانستان میں کم و بیش ۶۱۴۵۲ کنٹریکٹرز امریکی مشنز کی مدد کے لیے تعینات ہیں۔ ان میں ۲۰۸۶۵ سویلین ہیں۔ یاد رہے کہ جب افغانستان میں جنگ نقطۂ عروج پر تھی تب محکمہ دفاع کی معاونت کے لیے کم و بیش ۱۱۳۴۹۱ کنٹریکٹر تعینات تھے۔ اس وقت افغانستان میں تعینات ہر امریکی فوجی یا فوجی اہلکار کی مدد کے لیے ۲ کنٹریکٹر تعینات ہیں۔ فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں تعینات رہنے والے سویلین افسران کو زیادہ کنٹریکٹرز کی خدمات درکار ہوں گی کیونکہ محکمہ خارجہ اور دیگر سویلین ایجنسیوں کا فوجیوں جیسا بھرپور لاجسٹک سسٹم ہے، نہ سیکورٹی سیٹ اپ۔ ان کا مواصلاتی نظام بھی فوج کا سا مضبوط نہیں۔ ایک تا دو ہزار نفوس پر مشتمل سفارتی مشن کو اس سے پانچ گنا تعداد میں امدادی کنٹریکٹر درکار ہوں گے۔ اور اگر سفارتی عملے کو ملک کے طول و عرض میں زیادہ نقل و حرکت کرنی پڑے تو کنٹریکٹر کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس وقت عراق میں امریکی سفارتی مشن کی مدد کے لیے پانچ ہزار سے زائد کنٹریکٹر موجود ہیں۔
محکمۂ دفاع اور محکمۂ خارجہ کے لیے سفارتی مشن کی حفاظت کے لیے کنٹریکٹرز سے اچھا آپشن نہیں، مگر ایک مشکل تو یہ ہے کہ اخراجات بہت زیادہ ہیں اور دوسری مشکل یہ ہے کہ کنٹریکٹرز سے چند مسائل بھی نتھی ہیں۔ عراق میں یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ بعض مقامات پر نقل و حرکت کے دوران کنٹریکٹرز کی سرگرمیاں مشکلات پیدا کرسکتی ہیں اور دوسرے یہ کہ افغانستان جیسے ملک میں یہ معاملہ زیادہ پیچیدہ ہوسکتا ہے کہ طالبان نہ صرف یہ کہ لڑنے کے معاملے میں سخت جان ہیں بلکہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس بھی ہیں۔ افغانستان میں بلا روک ٹوک کام کرنا امریکی کنٹریکٹرز کے لیے اس لیے بھی مشکل ہوگا کہ افغان حکومت نے واضح کردیا ہے کہ اس کی سرزمین پر جو بھی پرائیویٹ گارڈ آئے گا، اسے ملک کے قانون کے مطابق کام کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے افغان پبلک پروٹیکشن فورس کی ہدایات پر عمل ناگزیر ہوگا۔ امریکی کنٹریکٹرز کو افغانستان کے طول و عرض میں، چند معاہدوں اور سمجھوتوں کے تحت خصوصی اختیارات حاصل ہیں اور افغان قوانین میں بھی ان کے لیے لچک پائی جاتی ہے مگر اب جو وسیع البنیاد معاہدہ تیار کیا جارہا ہے، اس کی رُو سے امریکی کنٹریکٹرز کو خاصے محدود اختیارات کے ساتھ کام کرنا پڑے گا۔
ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ امریکی منصوبوں کے لیے مقامی افراد سے بڑے پیمانے پر مدد لی جائے۔ افغانستان کے لوگوں کو تعینات کرنے کی صورت میں امریکی افسران اور ملازمین کے لیے خطرات ضرور گھٹیں گے، تاہم اس کے نتیجے میں بہت سے امریکی منصوبوں کی نگرانی مقامی افراد کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ اور یہ بھی بعید از امکان نہیں کہ مقامی افراد کی مدد سے طالبان بھی امریکی منصوبوں میں داخل ہوجائیں۔ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد طالبان کے اثرات میں اضافہ ناگزیر ہے۔ وہ بہت سے معاملات میں امریکی منصوبوں کے نگرانوں کو ڈرا دھمکاکر مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر امریکی حکومت نے افغانستان میں اپنے تمام منصوبوں کی نگرانی سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیا یا فنڈنگ روک لی، تو کیا اتحادی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر رضامند ہوں گے؟ افغانستان میں بہت سے ترقیاتی منصوبے جاری ہیں جن کے لیے اربوں ڈالر کی فنڈنگ درکار ہے۔ اب تک اس بات کا اشارہ کسی بھی اتحادی نے نہیں دیا کہ وہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد وہاں امریکی منصوبوں کی تکمیل میں معاونت کرے گا یا اس حوالے سے کوئی اور اہم کردار ادا کرے گا۔ اب تک کوئی بھی اتحادی ملک امریکا کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں فوجیوں کی تربیت، دہشت گردی کے خلاف کارروائی، تعمیر نو اور ترقی کے معاملات میں دلچسپی لیتا دکھائی نہیں دیا۔ صورت حال اب تک واضح نہیں، ممکنہ خطرات بہت زیادہ ہیں۔ افغان حکومت کے بیشتر معاملات میں شفافیت کا فقدان ہے۔ ایسے میں کوئی بھی اتحادی آگے بڑھتا دکھائی نہیں دیتا۔ افغانستان کے صدر نے بھی امریکی مشن کے خاتمے کا اعلان کیا ہے مگر ابھی بہت سے سوالوں کے جواب نہیں مل سکے ہیں۔ افغانستان میں امریکی سفارتی مشن کا حجم اب تک طے نہیں ہوسکا ہے۔
“The dirty secret about Obama’s Afghan plan”. (“Foreign Policy”. May 28, 2014)
Leave a Reply