
سلی کون ویلی کے تاجروں سے لے کر روپرٹ مرڈوک تک کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد بھارتی وزیراعظم اب برطانیہ کا دورہ کررہے ہیں۔ جس شخص کو ہم شوق سے گلے لگانے جارہے ہیں، اس کے پیچھے آخر ایسا کیا چھپا ہے کہ اس نے بڑھتی ہوئی قتل و غارت اور مذہبی جنونیت کی پشت پناہی کی اور اپنے ملک کے لکھاریوں اور فنکاروں کو بغاوت پر آمادہ کردیا؟
۲۰۰۵ء میں جب نریندر مودی مالدار بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو پولیس نے سفاکیت کے ساتھ شیخ سہراب الدین نامی ایک مجرم کو مار ڈالا۔ ۲۰۰۷ء میں حکمراں ہندو قوم پرست بی جے پی کی انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے لوگوں کو یقین دلایا کہ ’’سہراب الدین کو وہ مل گیا جس کا وہ حقدار تھا‘‘۔ انہوں نے پوچھا کہ ایسے شخص کے ساتھ بھلا اور کیا کیا جاتا جو غیر قانونی اسلحہ رکھتا ہو؟ جوشیلا مجمع چیخ پڑا: ’’ماری نکھو، ماری نکھو!‘‘ (مار ڈالو، مار ڈالو!)
اسی مجمع کی پکار گزشتہ ماہ دہلی کے قریب ایک قصبے میں پھر بلند ہوئی جہاں جنونیوں نے ایک مسلم کسان کو گائے کا گوشت رکھنے کے جھوٹے شبے میں مار ڈلا۔ اب جبکہ مودی ایک سال سے زائد بھارت کا وزیراعظم رہنے کے بعد برطانیہ کا دورہ کررہے ہیں تو ناول نگار مُوکُل کیساوان کے لفظوں میں ہندو جنونی ’’مکمل شکار کے موڈ میں چیختے چلاتے آگے بڑھ رہے ہیں‘‘۔ حالیہ ہفتوں میں سیکولر دانشوروں، ’’مغرب زدہ‘‘ خواتین، مسلم اور عیسائی ناموں کی حامل عوامی شخصیات اور گرین پیس جیسی غیرسرکاری تنظیموں کو نشانہ بنانے والے ہندو فسادیوں کے خلاف نکلنے والے کارکن اور دانشور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ ہلاکتیں کئی ماہ سے جاری تشدد اور ہندو جنونیوں کی تنگ نظری کے بعد ہوئی ہیں۔ بالی ووڈ کے سب سے بڑے اسٹار شاہ رخ خان سے لے کر مرکزی بینک کے معزز سربراہ رگھورام راجن سمیت متعدد عوامی شخصیات اس فرقہ وارانہ نفرت کے خلاف بول چکی ہیں۔ ۴۰ سے زائد معتبر ترین لکھاری ساہتیہ اکیڈمی نامی بھارتی ادبی اکیڈمی کو ایوارڈ واپس کرچکے ہیں۔ فنکاروں، دانشوروں، فلم سازوں اور سائنس دانوں سمیت بہت سی شخصیات اس احتجاج میں شامل ہوچکی ہیں جو ہندو جنونیوں کے ہاتھوں گوشت کھانے کے شبہ میں چار افراد کی ہلاکت کے بعد عروج پر ہے۔
مودی نے وزارتِ عظمیٰ کے لیے مہم چلاتے ہوئے گائے کے گوشت پر جذبات بھڑکا دیے تھے اور بہار کے حالیہ انتخابات سے قبل انہوں نے اور ان کی جماعت نے اقلیتوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے ان شعلوں کو اور ہوا دی۔ بھارت کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک کے وزیراعلیٰ نے گزشتہ ماہ اعلان کیا کہ مسلمان ہندوستان میں صرف اُسی صورت میں رہ سکتے ہیں کہ جب وہ گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دیں۔ ہندو قوم پرستوں کی سرپرست جماعت آر ایس ایس کے رسالے نے قدیم تحریروں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ گائے ذبح کرنے والے ’’گناہ گاروں‘‘ کو مارنا جائز ہے۔ وزیر ثقافت مہیش شرما نے احتجاجی لکھاریوں کے لیے کہا کہ ’’اگر وہ کہتے ہیں کہ ہمیں لکھنے کی آزادی نہیں تو پہلے وہ لکھنا چھوڑ دیں۔ پھر ہم دیکھ لیں گے‘‘۔ مودی نے اس معاملے پر خود اپنے خیالات اس وقت ظاہرکیے جب انہوں نے احتجاجی لکھاریوں کے خلاف دہلی میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ تصاویر اتروائیں حالانکہ وہاں ’’دھوکے باز لکھاریوں کو جوتے مارو!‘‘ اور ’’لکھاری طوائفیں یورپ کی لونڈیاں ہیں‘‘ جیسے نعرے گونج رہے تھے۔
گزشتہ مئی میں مودی کے انتخاب کے وقت میں نے ’’گارجین‘‘ میں لکھا تھا کہ بھارت آزادی کے بعد اپنے سب سے زیادہ منحوس دور میں داخل ہورہا ہے۔ جن لوگوں نے مودی کے اقوال و اعمال اور ان کے تسلسل کا جائزہ لیا ہے اور جو یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہندوتوا کا نظریہ بھارت میں پہلے سے کمزور جمہوری اداروں اور یگانگت کی روایات کو سخت نقصان پہنچائے گا، وہ بھی اب اِسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔ مودی یورپی فاشسٹ پارٹیوں کی طرز پر تشکیل پانے والی آر ایس ایس نامی نیم فوجی تنظیم کے سرگرم رکن ہیں، جس کے ارکان بھارتی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے اکثر مرتکب پائے جاتے ہیں۔ مودی کے زیرِ اقتدار گجرات میں ۲۰۰۲ء میں ایک منظم قتلِ عام کے دوران ایک ہزار سے زائد مسلمان مارے گئے اور دسیوں ہزار بے گھر ہوئے (اسی وجہ سے امریکا اور برطانیہ نے مودی کے داخلے پر پابندی بھی لگادی تھی)۔ اس قتلِ عام اور زیادتیوں کے واقعات میں مودی براہِ راست ملوث تھے یا نہیں، یہ ضرور واضح ہے کہ ان کا ’’منصوبہ پہلے سے بنایا گیا تھا‘‘ جیسا کہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی متعدد ابتدائی رپورٹس میں لکھا ’’اور منصوبہ بندی میں پولیس اور ریاستی حکام کا بھرپور عمل دخل بھی تھا‘‘۔ جن گنے چنے لوگوں کو سزا ہوئی، ان میں مودی کی ساتھی وزیر مایا کودنانی، اور بابو بجرنگی نامی ایک جنونی شامل ہے جس نے ایک صحافی کے سامنے بڑے فخریہ انداز میں اقرار کیا کہ اس نے اپنی تلوار سے ایک حاملہ عورت کا شکم چیرا تھا اور یہ کہ مودی نے فسادات کے بعد نہ صرف اسے پناہ دی بلکہ اس کی ضمانت کی خاطر تین جج بھی تبدیل کیے (مودی نے ان الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے)۔
گو کہ کودنانی اور بجرنگی کو درجنوں سال کی قید ہوچکی ہے مگر وہ مودی کے ہندوستان میں بار بار ضمانت پر رہا ہو کر آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں۔ بھارت کے سرکردہ تفتیشی ادارے سی بی آئی نے مودی کے قریبی ساتھی اور بی جے پی کے موجودہ صدر امیت شاہ کو سہراب الدین کو (ساتھیوں سمیت) قتل کرنے کے احکامات دینے کا ذمہ دار ٹھہرایا مگر گزشتہ سال یہ کہہ کر ان کے خلاف کیس واپس لے لیا کہ ثبوت کافی نہیں ہیں۔ دوسری جانب مودی کی سخت ناقد انسانی حقوق کی کارکن تیستا سیتالوَد کو بار بار سپریم کورٹ نے مداخلت کرکے گرفتاری سے بچایا ہے۔
مئی ۲۰۱۴ء میں اقتدار سنبھالتے ہی مودی نے شیخی خوری اور بے ڈھنگے پن کا مظاہرہ کیا، جب وہ حلف اٹھانے کے لیے گجرات سے ایک نجی طیارے میں پہنچے جس پر ان کے قریبی کاروباری ساتھی کا نام لکھا ہوا تھا۔ رواں سال جنوری میں انہوں نے براک اوباما کو گلے لگانے کے لیے ۱۵۰۰۰؍ہزار ڈالر کا سوٹ پہنا جس پر دھاریوں میں خود ان کا نام لکھا ہوا تھا۔ سلی کون ویلی میں ہزاروں دیہاتوں کو انٹرنیٹ سے منسلک کرنے کے ڈیجیٹل انڈیا پروگرام کے افتتاح کے وقت بین الاقوامی شخصیت بننے کے لیے بے قرار مودی نے اپنی تصویر اتروانے کی خاطر مارک زکر برگ کو پکڑ کر ایک طرف کردیا (جس کی ویڈیو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ہے)۔ خود ان کی تعریفوں کے پل باندھنے والی ایک شخصیت کو اب شکوہ ہے کہ وزیراعظم ایک ایسی نئی نویلی دلہن بن گئے ہیں، جو ہر وقت اپنے طاقتور اور دولت مند سسرالیوں کو لبھانے کے لیے بنتی سنورتی رہتی ہے۔
نتیجتاً خود ان کے نظر انداز کیے گئے خاندان میں بہت سے افراد اب ان کے خلاف ہوگئے ہیں۔ اتوار کے روز بھارت کی سب سے بڑی اور غریب ترین ریاستوں میں سے ایک یعنی بہار میں ان کی پارٹی کی جانب سے چلائی گئی انتہائی مہنگی انتخابی مہم کا نتیجہ انتہائی ذلت آمیز شکست کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ مگر مودی کی نمائشی آرائش نے مغرب میں بہت سوں کو مدہوش کر رکھا ہے۔ رُوپرٹ مرڈوک نے ایک حالیہ ملاقات کے بعد ٹویٹ میں انہیں بھارت کا ’’آزادی کے بعد بہترین پالیسیاں اپنانے والا بہترین رہنما‘‘ قرار دیا۔ ستمبر میں ان کے سلی کون ویلی کے دورے کے موقع پر شیرل سینڈ برگ نے اپنا فیس بک اسٹیٹس ان کے اعزاز میں تبدیل کردیا۔ ان کے آزاد خیال میزبان یہ نہیں جانتے یا اسے اہمیت نہیں دیتے کہ جب مودی ڈیجیٹل انڈیا کی تشہیر کے لیے کیلی فورنیا پہنچ رہے تھے تو ان کی جی حضوری کرنے والے کارندے کشمیر میں انٹرنیٹ بند کرا رہے تھے، یا یہ کہ اس سال کے اوائل میں ان کی حکومت نے اس خوفناک قانون کی حمایت کی جس کے تحت بھارتی پولیس نے فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنا نکتۂ نظر لکھنے والوں کو بے دریغ گرفتار کیا۔ نہ ہی بے ایریا میں بیٹھ کر پیسہ بنانے والے عقل کے اندھوں نے اس طرف توجہ دی کہ مودی نے ڈیجیٹل انڈیا خود ایک نجی پارٹی کے ساتھ مل کراپنے جنونی ساتھیوں کے لیے لانچ کیا ہے جو ’’کاروان میگزین‘‘ کے الفاظ میں ’’آن لائن دہشت گردی، نفرت انگیزی اور عورت سے نفرت کے لیے بدنام ہیں‘‘۔ بڑے بڑے سودوں پر نظر رکھنے اور پیسے سے پیسہ بنانے والی اس دنیا کے نزدیک شاید واحد قابلِ توجہ چیز معاشی ترقی ہے، چاہے وہ کسی ایک چھوٹے سے گروہ کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔
بھارت کی اس جان بوجھ کر نظر انداز کی گئی شان و شوکت کے بارے میں، جو اَب ناگزیر ہوچکی ہے، مودی کی تقریریں دنیا بھر میں بھارتیوں کو بڑے بڑے کھیل کے میدانوں میں لاکر جمع کردیتی ہیں۔ اس ہفتے ویمبلے اسٹیڈیم میں بھی ’’مودی، مودی‘‘ پکارتے کچھ اور سمجھدار مرد اور عورتیں خود کو تاریخ کے سامنے شرمندہ کریں گے۔ بظاہر کبھی شرمندہ نہ ہونے والی ٹوری حکومت نے شی جن پنگ کے سامنے جھکنے کے لیے اپنے اندر نئی قوت پیدا کرلی تھی اور اب کوئی شبہ نہیں کہ مودی کے سامنے بھی ہندوانہ انداز میں ’’سشتنگا پرنام‘‘ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گی۔
اکیسویں صدی میں بھارت کی قیادت کرنے کے لیے مودی ہمیشہ سے ہی ایک ناموزوں انتخاب تھے۔ ان کے ابتدائی ایام میں ان سے مل کر ممتاز سماجی ماہر نفسیات اشیش نندی نے مودی کو ’’محدود جذباتی زندگی کا حامل، سخت گیر مذہبی‘‘، ’’تشدد کے خواب دیکھنے والا‘‘ اور ’’آمرانہ شخص‘‘ بتاتے ہوئے “Classic, clinical case” قرار دیا تھا۔ ۲۰۰۲ء کے منظم قتلِ عام کے بعد سِسکتے لاکھوں مسلمانوں کے کیمپوں کو ’’بچے پیدا کرنے کے مراکز‘‘ کوئی ایسا ہی شخص قرار دے سکتا تھا۔ اس قتلِ عام میں ملوث ہونے سے متعلق جب ان سے بار بار سوالات کیے گئے تو انہوں نے اصرار کیا کہ ان کی غلطی صرف یہ ہے کہ انہوں نے میڈیا سے بنا کر نہیں رکھی۔ ایک دہائی سے زائد عرصے تک جب ان سے اس غیرمعمولی بے حسی سے متعلق سوالات کیے گئے تو بالآخر انہوں نے کہا کہ انہیں ان اموات پر اتنا ہی افسوس ہے جتنا کسی ’’کتے کے بچے کے گاڑی تلے آجانے‘‘ پر ہوتا ہے۔
مودی اپنے بہت سے یورپی اور ایشیائی پیشروؤں کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کی وقتاً فوقتاً سامنے آنے والی ناگزیر ناکامیوں کی علامت تھے۔ انہوں نے غیر مستحکم اور ناہموار ترقی سے عوام کی ناراضی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے خوف زدہ اور پژمردہ لوگوں کے سامنے اقلیتوں کو شیطانی روپ میں پیش کیا، اور آزاد خیال، جمہوری مزاج اور معاشرے سے کٹے ہوئے لوگوں کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے ترقی کے وعدوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی تقویت کے لیے قربان کردیا۔ امنگوں سے بھرپور مگر مواقع سے محروم نوجوانوں کے سامنے مودی نے خود سماجی انقلاب برپا کرنے والا، بڑے سیاسی خاندانوں کو چیلنج کرنے والا چائے بیچنے والے کا بیٹا اور معاشی ترقی کی علامت بناکر پیش کیا۔ انہوں نے بے حس اور بے خبر حکمراں طبقے کے زیر اثر رہنے والے پرانے سیاسی و سماجی نظام کو بدل دینے کا وعدہ کیا۔ وہ خود ایماندار اور پاکباز ثابت کرنے میں اس لیے بھی کامیاب رہے کیونکہ ۲۰۱۴ء تک سیاست دان، تاجر اور میڈیا سب بدعنوانی کے اسکینڈلوں کی لپیٹ میں تھے۔
اس اعلیٰ ترین عہدے کے لیے مودی کے ابتدائی حمایتی بھارت کے امیر ترین لوگ تھے جنہیں سستی زمین اور ٹیکس میں رعایت کا لالچ تھا۔ اسٹیل اور کار بنانے کے شعبوں میں مانے ہوئے رتن ٹاٹا وہ پہلے بڑے صنعتکار تھے جنہوں نے مسلمانوں کے منظم قتل عام کے دوران مودی کو گلے لگایا۔ جھگیوں کے شہر ممبئی میں ۲۷ منزلہ گھر کے مالک معروف تاجر مکیش امبانی نے بھی فوراً ہی ان کے ’’اعلیٰ بصیرت‘‘ کی تعریف کی۔ ان کے بھائی نے مودی کو ’’بادشاہوں میں ایک بادشاہ‘‘ قرار دیا۔ بڑے صنعتکاروں، تاجروں اور ملک کے بڑے تجارتی گروپس کے مالکان کی مودی کے بارے میں دیوانگی کو رپورٹ کرتے ہوئے ’’اکانومسٹ‘‘ بھی اس نمائشی خوشامد کے جھانسے میں آئے بغیر نہ رہ سکا۔ ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا مگر مودی کے بھارت میں امبانی خاندان برلسکونی کی طرز پر خبروں اور تفریح کے میڈیا پر چھاتا جارہا ہے۔
میڈیا مینجمنٹ اب مودی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہی ہے کیونکہ ٹی وی چینلوں اور اخبارات ان کے وفادار حمایتیوں کی ملکیت ہیں، جو انہیں مسلسل بھارت کا نجات دہندہ قرار دیتے رہتے ہیں۔ مودی نے ان دانشوروں، لکھاریوں اور صحافیوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا جو سابقہ دور حکومت میں نظر انداز کیے گئے تھے۔ یہ سب غصے میں بھرے وہ لوگ تھے، جو آزاد خیال تحریکوں کی مخالف سمت میں خاموشی سے رواں رہتے تھے اور مواقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ نطشے کے الفاظ میں ’’مواقع سے محروم یہ لوگ دوسروں کو الزام دیتے ہوئے، انتقام کی آگ سینوں میں سلگائے ہوئے تھے‘‘ اور مودی کے آتے ہی اداروں کے سربراہ بن کر فضا کو اپنے انتہا پسندانہ اعمال و افکار سے آلودہ کررہے تھے۔
بھارت سے باہر مقیم وہ لوگ جنہیں گورے عزت نہیں دیتے تھے، وہ بھی اپنی مجروح انا کی تسکین کے لیے نریندر مودی کی جانب سے چھوڑے گئے ’’آنے والی بھارتی صدی‘‘ کے غبارے پکڑنے لگے۔ سماجی میڈیا پر کھلے بندوں مودی کے پٹھو کہلانے والوں نے خوب پر پرزے نکالے۔ چھوٹے قصبوں میں رہ کر مسلمان اور ہندو میں محبت کی مخالفت کرنے والوں سے لے کر خود کو انگریز کی محبت میں مبتلا بتانے والے تنگ نظر سواپن داس گپتا تک ہر کوئی اس میں شامل تھا۔ مگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ عالمی سطح پر نامور گروہ بھی مودی کے لیے سرگرم رہے۔وسطی ایشیائی آمروں اور ان کے کارندوں کے لیے عوامی روابط بنانے والی APCO کمپنی سے لے کر کرائے کے ان سپاہیوں تک سب سرگرم رہے جو سماجی میڈیا پر شور مچاتے ہیں یا آن لائن مضامین کے نیچے تبصرے کرتے ہیں۔
ٹونی بلیئر کے سابق مشیر نے انگریزی بولنے والوں کے لیے عقیدت میں ڈوبی سوانح لکھی۔ لیبر پارٹی کے رہنما میگھند ڈیسائی نے ’’پھرتی‘‘ اور ’’تیز رفتار ترقی‘‘ کی دیومالائی کہانیاں بُنتے ہوئے بڑی کمپنیوں کو سہولتیں دینے کا مودی کا تشخص خوب اجاگر کیا۔ نوبل انعام یافتہ اینگس ڈیٹن کے ’’غربت کی نفی‘‘ کے تصور کا پرچار کرنے والے ماہرین معاشیات جگدیش بھاگوتی اور اروند پاناگریا نے ’’اکنامسٹ‘‘ کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ گجرات میں مسلمانوں کا منظم قتلِ عام دراصل ’’فسادات‘‘ تھے۔ جب مودی کے وزیراعظم بننے کے امکانات روشن ہوئے تو امریکی تھنک ٹینکس میں بیٹھ کر بڑ ہانکنے والے دانشوروں نے اخباروں میں مودی کو ایک ایسا رہنما قرار دینا شروع کیا جو جدید بھارت کو آگے لے جاتے ہوئے امریکا اور اسرائیل کے حق میں خارجہ پالیسی کو مستحکم کرے گا۔ اس مصنوعی اتفاق رائے کا حصہ بنتے ہوئے بہت سے اخباری نمائندے اور ان کے بھارتی پشت پناہ ہوش و خرد سے بیگانے ہوچکے تھے۔
پس مودی بغیر کسی رکاوٹ کے ذلت سے عزت کی منزل تک پہنچ گئے، ایک ایسی دنیا میں جہاں دولت، طاقت اور مرتبے کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے، جہاں بالزیک کے الفاظ میں ’’انسانوں کو یا تو بے وقوف یا بے ایمان سمجھا جاتا ہے‘‘۔ مودی ہر ماہ روزگار کے لیے نکلنے والے دس لاکھ بھارتیوں کو نوکریاں دینے کا وعدہ سچ کرنے سے شاید بہت دور ہیں۔ وہ ابھی بھی تصوراتی دنیا میں سفر کرتے ہیں جہاں ہر وقت ’’اسمارٹ شہروں‘‘ اور ’’بلٹ ٹرینوں‘‘ اور اس ڈیجیٹل بھارت کا ذکر ہوتا رہتا ہے، جس میں ہر دور افتادہ دیہات آن لائن ہوگا۔ مگر بھارت کو تیزی سے ترقی کرتی معیشت سمجھ کر چین کے مقابلے میں لانے والی عالمی اشرافیہ غربت کے ساتھ ساتھ منظم قتل عام کی بھی نفی کردیتی ہے۔ نیویارک میں مقیم ایک سرمایہ دار کی بھارت میں احتجاج کرتے لکھاریوں کے بارے میں ٹویٹ مروجہ اخلاقیات کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے: ’’نئے بھارت کے معمار وہ ہیں جو دولت پیدا کرتے ہیں۔ یہ اتنے بے وقعت ہیں کہ ان لکھاریوں کو تو کوئی چوہے کی مینگنی کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتا‘‘۔
دولت پیدا کرنے والوں، پاکبازی کی خلعتیں عطا کرنے والوں اور سہارا دے کر منصب تک پہنچانے والوں کے جھرمٹ میں جس طرح مودی اوپر آئے ہیں، وہ ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ روز بروز بڑھتی ہوئی قتل و غارت گری میں ہم جیسے بے وقوفوں اور بے ایمانوں کا آخر کیا کام ہے؟ مودی کا یہ معاشی فلسفہ اب ہر جگہ عام ہے اور ہر جگہ لالچ، دھوکے بازی اور انسانی جان اور عزت کی توہین کے سائے میں پرورش پارہا ہے۔ بھارتی مفکر جی این ڈیوائی کے الفاظ میں یہ ’’مابعد انسانیت‘‘ زندگی کی علامات ہیں۔
بھارت میں دولت کی پوجا، متشدد قوم پرستی، دانشوری کی مخالفت، اور کمزور کے خلاف خوف اور نفرت مودی سے پہلے بھی موجود رہے ہیں۔ بس یہ سب پہلے اتنا کھل کر سامنے نہیں آیا تھا کیونکہ بھارتی اشرافیہ نے اسے ایڈمنڈ برکی کے الفاظ میں ’’خوشنما لبادہ‘‘ اوڑھا رکھا تھا، جسے بھارت میں گاندھی اور نہرو کا ’’تصورِ بھارت‘‘ کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ہندو برتری کو ہوا دینے اور ۱۹۸۴ء میں ۳۰۰۰ سے زائد سکھوں کا قتل عام کرنے والی کانگریس اب خود کو سیکولر کہہ سکتی ہے۔ اور اس کی حکومت کی سرپرستی میں رہنے والے لبرل دانشوروں کی خاموشی بھی جائز ہوجاتی ہے، جب بھارتی فوج کشمیریوں کو اسی ’’تصورِ بھارت‘‘ کے نام پر اجتماعی قبروں میں دفناتی ہے، زنا بالجبر کرتی ہے، اور مشتبہ عسکریت پسندوں کے مخصوص اعضا میں کرنٹ سے بھرے تار ڈالتی ہے۔ اگر بھارتی لکھاریوں میں سے کوئی آواز بلند کربھی دیتا تھا تو اس پر ادب میں سیاست کی ملاوٹ کا الزام لگ جاتا تھا۔ ٹی وی میزبان اور کالم نگار بھی اسی تصورِ بھارت کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کے خلاف حب الوطنی پر مبنی نفرت پھیلانے میں پیش پیش رہے۔ پرانی حکومت کے ’’سیکولر‘‘ قوم پرست جب گلے پھاڑ کر ہندو برتری کے نعرے لگانے والوں کو برا کہتے ہیں تو دراصل وہ اپنی ہی جائز اولاد کو عاق کررہے ہوتے ہیں۔
صرف یہ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ ہندو برتری کے قائل انتہا پسندوں کا مکروہ چہرہ شاید اشرافیہ کے عقائد و نظریات کو جھنجھوڑ ڈالے اور وہ جھوٹ میں پلنے والی نوجوان نسل کو سیاست زدہ کرنا بند کردیں۔ یہ سچ ہے کہ مودی اور ان کے پٹھو کسی شرم، حیا یا لحاظ کے بغیر طاقت کی سفاکیت کا مظاہرہ کررہے ہیں اور کسی خوشنما لبادے کو چوہے کی مینگنی کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔ پھر بھی تصورِ بھارت پر ان کے حملے سنگلاخ چٹانوں میں دراڑیں پیدا کررہے ہیں، جن میں شاید کسی طرح انسانیت پر مبنی سیاست و ثقافت کا گزر ہوسکے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر متبادل ما بعد انسانیت بھارت ہے، جہاں حالیہ ہفتوں میں نظر آگیا ہے کہ کس طرح قاتل گروہ اپنے سرغنہ کی اس پکار پر لبیک کہہ رہے ہیں کہ: ’’اسے ماردو! اسے ماردو!‘‘
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“Narendra Modi: The divisive manipulator who charmed the world”.
(“The Guardian”. November 9, 2015)
Yusuf Muftuoglu
Leave a Reply