
نومبر کے آغاز میں بھارتی حکومت نے ملک میں زیر گردش رقم کا ۸۶ فیصد حصہ ناقابل استعمال قرار دے دیا،یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا۔ اس کے اثرات متاثر کن ہیں۔ کاروباری حضرات اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے میں ناکام رہے۔ بینک کے باہر شہریوں کی لمبی لمبی قطا ریں لگ گئیں تاکہ نئے نوٹ حاصل کیے جاسکیں، مگر نئے نوٹ کا اتنی جلدی چھپنا ممکن نہیں تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ سال کے آخر تک حل ہوجائے گا۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ اس کے نتائج اور اثرات دوررس ہوں گے۔ بھارت کا تقریباً ہر فرد ہی اس موضوع پر بات کر رہا ہے ،لیکن بھارتی پارلیمان نے اس پر بحث کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔
کسی بھی جمہوری ملک کی پارلیمان میں اس طرح کے مسائل اور معاملات سے نبرد آزما ہونے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کی جاتی ہیں ،تاکہ ان کا حل تلاش کیا جاسکے۔مضبوط معیشت کے حامل کسی بھی ملک میں اگر اچانک کوئی افتاد آن پڑے تو بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
مگر دنیا کہ ایک بڑے جمہوری ملک میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ نومبر کے مہینے میں بھارت کی دو ایوانی پارلیمان نے طویل سیشن کیا اور اراکین پارلیمان نے بڑے پر جوش انداز میں نوٹوں کو ناقابل استعمال قرار دینے کی مخالفت کی۔ جبکہ طریقِ کار اور ضابطوں کے مطابق کوئی مناسب مباحثہ نہ ہوسکا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے نہ ہی۵۴۵؍ارکان پر مشتمل لوک سبھا میں اپنی پالیسی واضح کی اور نہ ہی ۲۴۵ نشستوں پر مشتمل راجیہ سبھا میں آکر سوالات کے جوابات دینے کی زحمت کی۔
پارلیمان کے اس مشترکہ سیشن میں حقیقت میں صرف دو معمولی بلوں پر بحث کی گئی اور انہیں منظور کیا گیا۔ ممبران پارلیمان نے اپنا زیادہ وقت شور مچانے اور کرنسی کے حوالے سے کیے گئے فیصلے کی مخالفت میں نکالا۔ جس کی وجہ سے دونوں ایوانوں کے اسپیکرز کو بار بار کارروائی معطل کرنی پڑی۔ نریندر مودی اور راہول گاندھی (قائد حزب اختلاف، نائب صدر کانگریس پارٹی) نے ایک دوسرے کے خلاف گفتگو کی۔ دونوں ایک دوسرے کو بولنے کاموقع نہیں دے رہے تھے اور ان کی جماعتیں بھی بس ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہی تھیں۔ معاملات کو مزیدبگاڑنے کے لیے دونوں جماعتیں اس مسئلے کو سڑکوں پر لے گئیں اور ایک دوسرے کے خلاف انکشافات کرکے بدعنوانی کے الزامات عائد کرتی رہیں۔
بد قسمتی سے پارلیمان نے اس معاملے پر غور نہیں کیا، جو کہ غیر معمولی نہیں ہے۔اس سے پہلے بھی مہینوں پر مشتمل سیشن نتائج حاصل کیے بغیر ختم ہوچکے ہیں۔مودی کی بی جے پی اپنے مخالفین پر التوا کے الزامات عائد کرتی رہی ہے مگر جب وہ حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو وہ بھی یہی کام کرتے ہیں۔ جہاں دونوں پارلیمان میں ایک ہی جیسا شور شرابہ ہوتا ہے وہاں المیہ یہ بھی ہے کہ دونوں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کم و بیش ہی ہو پاتے ہیں۔آزادی کے فوراً بعد پچاس کی دہائی میں سالانہ تین سیشن ہوتے رہے، جن کا دورانیہ ۱۴۰ دن کی طوالت پر بھی محیط ہے۔ لیکن اب سالانہ شرح ۶۰ دن ہے۔
بھارت کی ریاستیں توقانون سازی میں اس سے بھی زیادہ سست روی کا شکار ہیں۔ کچھ ریاستوں میں تو پورے سال میں صرف تیس دن کے ہی سیشن ہو پاتے ہیں۔ PRS Legislative کے صدر مدھاون کے مطابق ہریانہ کی ریاست میں ۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۵ء کے درمیان صرف ۱۲ دن سالانہ کے حساب سے اجلاس ہوئے۔ مدھاون کہتے ہیں کہ ہریانہ کی اسمبلی کے اجلاس میں اس قدر عدم دلچسپی کا رویہ دیکھنے میں آیا کہ ارکان نے ایک موقع پر صرف ۹۰ منٹ میں ۱۴ بل منظور کر لیے۔
بھارت میں جمہوری اداروں کے غیر مستحکم ہونے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک ان کا آئین ہے۔ جو حکو مت اور عدلیہ کو پارلیمان کے مقابلے میں زیادہ اختیارات دیتا ہے۔
راج کے عہد میں یہ بھارتی حکومت ہی تھی جس نے پارلیمنٹ کو ترتیب دیا اور اس کی نشستوں کو طے کیا۔بھارتی حکومت کے پاس اختیار ہے کہ جب اجلاس نہ بھی ہو تب بھی آرڈیننس منظور کرسکتی ہے ،جس کی وجہ سے اراکین کی توجہ کم ہو جاتی ہے۔اگر حکومت کوئی آرڈیننس لاتی ہے تو یہ ضروری ہے کہ ۲ ماہ کے اندر اسے پارلیمان سے منظور کروائے۔ مگر حکومت اکثر اوقات اسے نظرانداز کردیتی ہے۔ مودی کی حکومت نے ۴ مرتبہ ایک ہی آرڈیننس کو منظور کیا۔ حالانکہ دونوں ایوانوں میں اس کی مخالفت کی جارہی تھی۔ حکومت پارلیمان سے اجازت کے بغیر بین ا لاقوامی معاہدے بھی کرسکتی ہے۔
پارلیمان کے اپنے بنائے ہوئے اصول اس کی جمہوری ساکھ پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم اپنی جگہ کسی کو نا مزد کر کے پارلیمان میں بھیج سکتا ہے، جو سوالوں کے جوابات دے۔ عمومی طور پر، ۱۹۸۰ء کی ایک آئینی ترمیم بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہے جس کے تحت کوئی بھی رکن پارلیمان اپنی جماعت کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتا، اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کی رکنیت منسوخ ہو جائے گی۔ مدھاون کے مطابق سیاسی جماعتوں کے رہنما اس قانون کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اراکین پارلیمان کے پاس احکامات کی پیروی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ نہ وہ اپنے ضمیر کی سُن سکتے ہیں اور نہ آئین کی۔
کانگریس کے رکن پارلیمان، ششی تھرور کے مطابق آئین کی اس شق کا فائدہ تب ہوتا ہے، جب کمزور اتحادی حکومتیں یکجا رہنے کی جدوجہد کر رہی ہوں۔ مگر ایسے وقت میں جب ایک جماعت کی واضح اکثریت ہو تو وہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہے۔ تھرور نے مزید کہا کہ ’’میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ہماری اولین ترجیح ہمارا ووٹر ہونا چاہیے، مگر اکثر و بیشتر اراکین پارلیمان کو اپنا کام کسی اداکار اور فنکار جیسا لگتا ہے، کیوں کہ کچھ بھی ہوجائے، انتخابات کے نتائج طے شدہ ہوں گے‘‘۔
نوٹوں والے معاملے میں بی جے پی نے حزب اختلاف کے اس مطالبے کو بار بار مسترد کیا کہ وزیراعظم کی موجودگی میں اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے اور وہ بھی ووٹنگ کی بنیاد پر۔ مطالبہ مسترد کرنے سے نریندر مودی ذلت سے تو بچ گئے مگر آئینی ایجنڈے کو بہت پیچھے دکھیل دیا۔ اس ایجنڈے میں یونیفائیڈ سیلز ٹیکس پر عملدرآمد کے طریقہ کار کے حوالے سے بحث بھی شامل تھی۔ (یہ وہ ٹیکس ہے جسے گزشتہ اجلاس میں بی جے پی نے منظور کروایا ہے اور اسے وہ اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے)۔
(ترجمہ : عبد الرحمن کامران)
“The do-nothing Lok Sabha”.(“The Economist”. Dec.17, 2016)
Leave a Reply