
دو تین بلاگرز اور سوشل میڈیا میں سرگرم آدمیوں کی گمشدگی نے کئی مباحث چھیڑ دیے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی کو لاپتا کر دینا کسی بھی سماجی اور سیاسی نظام میں انتہائی ناپسندیدہ اور قابل مذمت عمل ہے۔ یہ عمل جو نائن الیون کے بعد ’دہشت گردی‘ کے عنوان سے پاکستان سمیت متعدد ممالک میں شروع ہوا تھا۔ امریکی CIA کی نگرانی میں پرویز مشرف جیسے حکمرانوں کی مرضی اور مفاد کے مطابق بڑے وحشیانہ طریقے سے جاری رہا۔ اس کی کچھ مثالیں میری مختصر کتاب ’مغربی جمہوریت کا داغ داغ چہرہ‘ میں موجود ہیں۔ اس عمل کا انتہائی شفیع اور ناقابلِ قبول ہونا ایک الگ پہلو ہے۔ یہاں میں اس موضوع کو ایک دوسرے زاویے سے زیر بحث لارہا ہوں۔ بلاگرز اور سوشل میڈیا پر سرگرم چند افراد کی گمشدگی کے تناظر میں سیکولرازم اور لبرل ازم کا چرچا بڑی شدومد کے ساتھ شروع ہوگیا ہے۔ اس فکر کے لوگوں کی خواہش اب اس دعوے کے ساتھ سامنے آرہی ہے کہ ۲۰۳۰ء تک مذہب اور اخلاقی اقدار کے نام پر انسانی آزادی کے آگے بند باندھنے والے عناصر خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے اور ساری دنیا میں لبرل ازم کے جھنڈے لہرا رہے ہوں گے۔ تقدیس اور عظمت نہ شخصیات کو حاصل رہے گی اور نہ مذہبی کتابوں اور اخلاقی اقدار اور خاص تہذیبی روایات کو بلکہ لبرل رویوں ہی کو سب سے مقدس و مقبول چیز مانا جائے گا۔ شخصی آزادی پر کسی عنوان سے کوئی قدغن قبول نہیں ہوگی۔ خواہ کوئی ’بھینسے‘ یا ’موچی‘ یا اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز نام سے فیس بک اکاؤنٹ چلائے گا یا اخبارات میں کالم اور مضمون لکھے گا یا کارٹون بنا کر پیغمبر اسلامؐ اور قرآن جیسی آسمانی کتاب کا تمسخر اڑائے گا، کسی کو جرأت نہیں ہوگی کہ آزادی اظہار کے آگے کوئی رکاوٹ کھڑی کرے۔ ان مزعومات اور دعوؤں کو دیکھ کر یہ سوال سامنے آکھڑا ہوا کہ لبرل ازم اصل میں ہے کیا چیز؟ اس فلسفے کی تاریخ کیا ہے؟ یہ کس ذہن کی ایجاد ہے اور تاریخ میں اس فلسفے سے اقوام عالم میں سے سب سے زیادہ فائدہ کس قوم نے اٹھایا؟
لبرل ازم کا فلسفہ برطانوی مفکر جان لاک (John Locke) نے پیش کیا تھا۔ اسی لیے سولہویں صدی کے اس مفکر کو Father of classical liberalism کہا جاتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں ہے کہ جان لاک کو ’عہدِ تنویر‘ یا دورِ روشن خیالی (Enlightenment Age) پر اثرانداز ہونے والا سب سے بڑا مفکر مانا جاتا ہے۔ لبرل ازم فلسفہ کے اثرات کا دائرہ سماجی رویوں تک ہی محدود نہیں رہا تھا۔ اس نے معاشی اور سیاسی نظام پربھی گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ جان لاک خود سقراط، ارسطو اور افلاطون سے متاثر تھا، لیکن اس کی فکر نے بابائے معاشیات ایڈم اسمتھ اور برطانیہ میں آزادی نسواں کی علمبردار میری اسٹیل (Mary Astell) جیسے لوگوں کو بھی اپنے سحر میں لے لیا۔ برطانیہ اور پھر پورے یورپ میں آنے والی صنعتی معیشت کی صورت گری میں بھی جان لاک کے اس فلسفے نے اہم کردار ادا کیا۔ مغرب کے جمہوری اور سرمایہ دارانہ نظام کو مستحکم فکری بنیادیں اسی فلسفے نے فراہم کیں۔ ۱۸۲۵ء میں وضع ہو کر متداول ہونے والی اصطلاح Laissez-faire اس فلسفے کے مغز کا درجہ رکھتی ہے۔ اس اصطلاح کا مطلب ’حکومت کی طرف سے کاروباری اور معاشی سرگرمیوں پر کم سے کم مداخلت‘ ہے۔ اسی فلسفے کی کوکھ سے ایک اور فلسفے ’روشن خیالی‘ (Enlightenment) نے جنم لیا۔ اس کا ایک مطلب یہ تھا کہ سماجی زندگی کا سفر ماضی کی ’تاریک روایات‘ (جن سے اصل مراد مذہبی تعلیمات اور اصول ہیں) کے پرانے چھکڑے میں بیٹھ کرکرنے کے بجائے ’عقل‘ (Rationalism) کے گھوڑے پر سوار ہو کر کیا جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی سفاکانہ فطرت سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے لبرل ازم کی فیکٹری کا بنا ہوا بے مہار شخصی آزادی کا لالی پوپ (Lollypop) ان کے ہاتھ میں پکڑا دیا گیا تھا۔ ریاست نے بڑی ہوشیاری سے فرد کی وفا اور اطاعت میں سے اپنا غالب حصہ رکھوا کر فرد کو لبرل ازم کے نام پر اس کی خواہشات کے پیچھے لگا دیا۔ نفسانی خواہشات کی تکمیل و تسکین کے لیے یہ فلسفہ کہتا ہے کہ فرد کے مواقع، کسی چیز کے چناؤ اور عمل (Opportunities Choice & Action) کو حکومت، سماج اور مذہب کے دباؤ یا پابندی سے یکسر آزاد ہونا چاہیے۔
لبرل ازم کی تحریک کے عقب میں ہمیں اصلاحِ مذہب کی تحریک (Protestantism) کے نام کی ایک اور تحریک بھی نظر آتی ہے۔ ہم ذرا غور کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ سولہویں، سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے یہ سارے فلسفے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے اور باہم تقویت دیتے نظر آتے ہیں۔ تحریک اصلاحِ مذہب کی یہ تعریف بیان ہوئی ہے: ’’جدید مذہبی اصلاح پسندی کی تحریک، جو دانش و فکر کے میدان اور عیسائیت کے روحانی و اخلاقی موضوعات و مشمولات میں آزادی پرزور دیتی ہے‘‘۔ لبرل ازم کی ایک اور تعریف ہے: ’’ترقی پر یقین رکھنے والا ایک سیاسی نظریہ و فلسفہ ہے جو نسلِ انسانی میں ضروری اچھائی پر زوردیتا ہے، جو فرد کی خودمختاری کے علاوہ سیاسی اور سماجی آزادیوں کی ضمانت کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ ایک ایسا فلسفہ جس میں (نسلی، صنفی اور طبقاتی پہلوؤں سے) سماج کے اندر موجود عدم مساوات کو ختم کرنے میں حکومت کو سہولت کار اور مددگار تصور کیا جاتا ہو‘‘۔
لبرل ازم کا تصور فرد کی آزادی سے چلا تھا لیکن آگے چل کر اس کے ڈانڈے سیکولرازم کے فلسفے کے ساتھ مل گئے۔ یہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کے گرد گھومتا اور نسلی، صنفی اور طبقاتی یکسانیت و مساوات سے ہوتا ہوا یہ تصور سیاست و ریاست کے امور کو مذہب کے اثر سے محفوظ رکھنے پر جاٹھہرا۔ ہمارے ملک میں بھی لبرل، سیکولر اور لبرل اسلامسٹ گروہ ریاستِ پاکستان کو اسی تصور کے تابع دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ملکی امور کو اسی مغربی پیمانے سے ناپنے اور اسی کے سانچے میں ڈھالنے پر مُصر ہیں۔ لبرل ازم سے ان کی مراد یہ ہے کہ ریاست جمہوریہ ہوسکتی ہے، لیکن اسلامی جمہوریہ نہیں ہوسکتی۔ ریاست کو نسلی، صنفی اور طبقاتی امتیازات ہی سے پاک نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں اسلام کو بحیثیت مذہب تفوق کا حق ملنا چاہیے۔ ان کے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ اور اس سے قبل کئی امریکی صدور کا بائبل کے نسخے پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھانا قابلِ اعتراض نہیں، لیکن اگر کہیں کوئی پاکستانی صدر یا وزیراعظم یا سپریم و ہائی کورٹ کا چیف جسٹس یا افواجِ پاکستان کے سربراہ ہاتھ میں قرآن لے کر اپنے منصب کا حلف اٹھا لیں تو اس کو یہ ریاست میں مذہب کی مداخلت سمجھتے ہیں۔ ٹرمپ صدارت کا حلف اٹھانے سے قبل اگر چرچ گیا تو یہ حرج کی بات نہیں، لیکن مملکتِ پاکستان کے جن عہدوں کا ذکر ہوا ہے ان میں سے کوئی منصبی حلف سے پہلے مسجد میں جاکر دو نفل پڑھ لے تو یہ اس کی پرلے درجے کی بنیاد پرستی تصور ہوگی۔ ان لوگوں کو قراردادِ مقاصد کے متن سے بھی سخت خلجان محسوس ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لبرل ازم کو ریاست کے قوانین کی پابندی گوارا ہے لیکن اسے مذہب کی پابندی منظور نہیں ہے۔
ہم برطانیہ اور امریکا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ رومن کیتھولک عقیدے سے جدائی کے باوجود اپنے مزاج کے لحاظ سے یہ ملک کبھی غیر مذہبی ملک نہیں رہے ہیں۔ انہوں نے رومن کیتھولک عقیدے سے علیحدگی اختیار کی لیکن مذہب سے رشتہ نہیں توڑا۔ ہاں یہ ضرور کیا کہ ریاست و معاشرت اور معیشت و تمدن میں مذہب کو دخل دینے سے روک دیا۔ امریکا کے موجودہ اور تمام سابق صدور کے عقائد کو دیکھیں تو عیسائیت کے دوسرے فرقوں کے ماننے والے تو ملتے ہیں لیکن رومن کیتھولک عقیدہ رکھنے والا صرف ایک جان ایف کینیڈی منتخب ہوسکا تھا۔ یہ حقیقت میں یہودیت کا رومن کیتھولک عقیدے سے ایک انتقام تھا کہ اسے تو عیسائی دنیا میں عضو معطل بنا دیا گیا لیکن ان ملکوں کی ہمہ جہتی پالیسیاں Zionized christianity کے تابع کردی گئیں۔ اس سے مراد صہیونی عیسائیت ہے۔ اب بھلے ڈونلڈ ٹرمپ بائبل کی تلاوت اور چرچ کی زیارت کرتے رہیں، وہ ملکی اور عالمی سطح پر جو پالیسیاں بنائیں گے وہ اسی صیہونی عیسائیت کے تقاضوں کے مطابق ہوں گی۔ عیسائیت کے ’تطہیر پسند‘ (Puritans) تصور اور صہیونی عیسائیت میں گہری قربتیں ہیں۔
مارٹن لوتھر کی اصلاحِ مذہب کی تحریک اس طرف پہلا قدم تھا اور اس کے بعد جان کالون (John Calvin) کی ’تطہیری تحریک‘ نے اس قربت کے باقی فاصلے بھی مٹا دیے تھے۔ تطہیر پسند وہ بااثر گروہ تھا جس نے ۱۶ ویں اور ۱۷ ویں صدی میں چرچ آف انگلینڈ کو رومن کیتھولک اثرات سے پاک کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ ۱۹۵۸ء میں برطانوی ملکہ الزبتھ اول کے تخت نشین ہونے کے بعد جب اس تحریک کا اثر و رسوخ شاہی دربار تک پھیلا تو برطانوی سیاست اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ چرچ آف انگلینڈ نے رومن کیتھولک چرچ سے جب اپنا رشتہ توڑا تو یہ بڑی حد تک Judaism اور عہد نامہ قدیم کے دورِ یعقوبی سے ہم آہنگ ہوگیا۔ برطانیہ کا یہی ریاستی عقیدہ بن گیا۔
انہی تطہیر پسندوں میں سے کچھ گروہ برطانیہ سے نکل کر شمالی امریکا کے شمال مشرقی حصے میں جاکر بسے اور وہاں New England کے نام سے پانچ چھ ریاستوں پر مشتمل بستیاں آباد کیں اور وہاں اس فکر کو مقبول بنایا۔ امریکا کی مذہبی ہی نہیں بلکہ سماجی اور سیاسی زندگی پر بھی ان تطہیر پسندوں نے اپنا رنگ چڑھایا۔ امریکا ریاستی حیثیت سے تثلیث کے عقیدے سے منحرف ہو کر پروٹسٹنٹ یا Unitarians کے عقائد سے ملتے جلتے فرقوں کے تابع ہوگیا۔ یہ محض کوئی سازشی نظریہ (Conspiracy theory) نہیں، بلکہ تاریخ کے سانحات و واقعات کی کڑیاں ملائیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یورپ میں سولہویں، سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں جو فلسفے اور نظریے مروج ہوئے اور جو فکری تحریکیں برپا ہوئیں، ان کے پیچھے یہودی ہاتھ تھا اور ان کا سب سے زیادہ فائدہ صہیونیت کو ہوا۔ صہیونیت یہودی مذہب کا عالمی سطح کا ایک ایجنڈا ہے۔ اس سے مراد یہودیوں کو ان کے اجداد… ابراہیمؑ، اسحاقؑ اور یعقوبؑ… کی سرزمین فلسطین پر آباد کرکے انہیں داؤد اور سلیمان علیہم السلام کے دور کی عظمت و شوکت اور طاقت سے ہمکنار کرنا ہے۔ مسیحیت صہیونیت کے تابع ہوئی تو گویا اب یہ اس امر کی پابند ہے کہ وہ اس منزل تک پہنچنے میں یہودیوں کی ہر طرح سے مدد کرے۔ یہودیوں کے لیے فکری اور اعتقادی طور یہ منزل قریب لانے کے لیے ضروری تھا کہ پاپائے روم کے تابع طاقتور عیسائیت کا رسوخ و اقتدار محدود کیا جائے اور ایسے سیاسی و معاشی اور سماجی نظریے پیش کیے اور روبہ عمل لائے جائیں، جن کے نتیجے میں حضرت عیسیٰؑ کو مصلوب کرنے کی وجہ سے عیسائیوں کے دل میں بیٹھی ہوئی نفرت زائل کردی جائے، جس کی وجہ سے صدیوں سے عیسائی یہودیوں پر مظالم توڑ رہے تھے۔ گزشتہ کئی صدیوں میں رومن کیتھولک چرچ انہی فلسفوں اور تحریکوں کے دباؤ میں آیا۔ صورتحال یہ ہوگئی کہ کچھ عرصہ قبل پوپ پال ثانی اور ان کے جانشین پوپ بنڈیکٹ شانز دہم (xvi) نے باقاعدہ فتویٰ کے ذریعے یہودی قوم کو قتلِ مسیح سے بَری قرار دے دیا۔
تاریخی حقیقت یہی ہے کہ مذہبی اصلاح پسندی کی تحریک ہو یا تحریکِ تطہیر، لبرل ازم ہو یا سیکولرازم، جمہوریت ہو یا سرمایہ دارانہ معاشی نظام ان سب کی پشت پر یہودی ہاتھ رہا ہے۔ ان فلسفوں اور نظریات اور نظاموں سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والے یہودی ہی چلے آرہے ہیں۔ عیسائی عقائد میں اس اتھل پتھل کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ چرچ نے جاگیردار طبقہ اور اُس زمانے کی اصطلاح میں Nobles (اشراف) کی صورت میں طاقتور سول اور ملٹری بیورو کریسی کے ساتھ ملی بھگت کرکے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ صلیبی جنگوں کے عرصے سے لے کر پندرہویں صدی تک بحیثیت مذہب رومن کیتھولک عقیدے کی روح فنا ہوچکی تھی۔ صلیبی جنگوں میں عیسائیوں کے ہاتھوں یہودیوں پر بھی اتنے ہی مظالم توڑے گئے تھے، جتنے مسلمانوں پر ٹوٹے تھے۔ یورپی ممالک میں سولہویں صدی تک یہودی سخت سرکاری پالیسیوں کا مسلسل نشانہ بن رہے تھے۔ برطانیہ کے شاہ ایڈورڈاول کے زمانے میں یہودیوں کو دیوار سے لگائے رکھا گیا۔ ان پر بھاری ٹیکس عائد کیے گئے اور سخت پابندیاں لگی رہیں۔ آخر ۱۲۹۰ء میں اس بادشاہ نے ان کو برطانیہ سے نکل جانے کا حکم صادر کردیا تھا۔ رومن کیتھولک چرچ کے خلاف اصلاح پسندوں کی بغاوت کے پیچھے واضح طور پر یہودی ہاتھ تھا۔ مارٹن لوتھر کی تحریکِ اصلاح کے معاً بعد تطہیری تحریک شروع ہوگئی تھی۔ آلیور کرامویل جو دس سال تک تطہیری تحریک کا روحِ رواں رہا اور برطانیہ کی مذہبی بنیادوں پر خانہ جنگی میں شاہ پسندوں کے مقابلے میں پارلیمان پسندوں کے لشکر کا سالار اور ایک مدبر آدمی مانا جاتا تھا، اس کے دباؤ پر ۱۶۵۶ء میں یہودیوں کو دوبارہ انگلینڈ میں آکر آباد ہونے کی اجازت ملی۔ تطہیری تحریک کے تصورات ہی کا اثر تھا کہ مسیحیت کو صہیونی عیسائیت کے قالب میں ڈھال دیا گیا۔ اس وقت میرے سامنے لبنانی مصنف محمد سماک کی دوسری بار ۱۹۹۳ء میں شائع ہونے والی کتاب ’الاصولیۃ الانجیلیۃ اوالصیہونیۃ المسبحۃ والموقف الامریکی‘ کھلی پڑی ہے۔ مصنف نے ایک تفصیلی بحث میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کہ اصلاحی اور تطہیری تحریکیں عیسائیت کو انجیلی اصولیت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تھیں یا مسیحیت کو صہیونی رنگ میں رنگنے کے لیے تھیں؟ اعداد و شمار اور ٹھوس حوالوں کے ساتھ مصنف نے یہ نتائج اخذ کیے ہیں کہ یہ تحریکیں دراصل عیسائیت کو مشرف بہ صہیونیت کرنے کے لیے اٹھی تھیں۔
جس عرصے میں تطہیر پسند شمالی امریکا میں جاکر آباد ہورہے تھے، اسی عرصے میں بہت سے یہودیوں نے بھی یورپ سے نقل مکانی کی اور امریکا میں جابسے تھے۔ انسانی مساوات، ذرائع ابلاغیات اور اظہار و تقریر کی آزادی، مذہبی آزادی، معاشی سرگرمیوں اور کھلی مارکیٹ اور نقل و حرکت کی آزادی جیسے اصول امریکا کے آئین اور جمہوری نظام کی بنیاد قرار پائے۔ جس گروہ نے اس نظام میں سب سے زیادہ عافیت محسوس کی وہ یہی یہودی تھے۔ وہی جمہوری آزادیوں اور انسانی حقوق کے تصورات کے بڑے Beneficiary بنے۔ انہوں نے بہت جلد امریکا کے اگلی صف کے سیاسی دل و دماغ میں اپنی جگہ بنالی تھی۔ جان ایڈمز امریکا کے پہلے نائب صدر اور دوسرے صدر (۱۸۰۱۔۱۷۹۷ء) تھے۔ عہدِ روشن خیالی کے معروف فرانسیسی فلسفی والٹیئر کی یہودیوں کے بارے میں ایک منفی رائے پر جان ایڈمز نے والٹیئر سے ایک گرما گرم قلمی مناظرہ کر دیا تھا۔ منصبِ صدارت سے فارغ ہونے کے سترہ سال بعد ۱۸۱۸ء میں یہ جان ایڈمز ہی تھے جنہوں نے پہلی بار فلسطین کی سرزمین بطورِ وطن یہودیوں کو لوٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ فلسطینیوں سے ان کا وطن چھیننے کی داستان جتنی المناک ہے، اسی قدر طویل ہے۔ یہاں مقصد صرف یہ حقیقت واضح کرنا ہے کہ سولہویں، سترہویں اور اٹھارویں صدی کے تمام جدید نظریات کی آبیاری بھی صہیونیوں نے کی تھی اور اس فصل کا بڑا حاصل یہودیوں ہی کے آنگن میں پڑا تھا۔ لبرل ازم کا پودا انہی کے گملے میں اُگا تھا، لیکن دنیا جانتی ہے کہ مغرب کی عیسائی دنیا کو لبرل ازم کے پیچھے لگا تو دیا مگر یہودی خود لبرل نہیں بنے۔ وہ آج بھی اپنی مذہبی روایات اور تلمودی تعلیمات کے بڑی حد تک پابند ہیں۔ معروف مگر سستی سی مثال کے مطابق یہودیوں نے دنیا کو ٹرک کی اس بتی کے پیچھے لگا دیا جس پر بڑے دلکش انداز میں ’لبرل ازم‘ لکھا ہوا ہے، لیکن وہ خود اس ٹرک میں سوار نہیں ہوئے۔
ہمارے ہاں لبرل ازم کے کچھ شیدائی اس کی تائید اپنے مذہبی مصادر سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان میں سیکولر ہوں یا لبرل اسلامسٹ، تاریخ کے ان ابواب سے یا تو قطعی طور پر ناواقف ہیں یا پھر ان فلسفوں کا جادو اُن کے سر پر چڑھ کر بول رہا ہے۔ لبرل اسلامسٹ دانشور یا تو کمال کی سادگی سے یا پھر زبردست ہوشیاری کے ساتھ لبرل ازم اور اسلام میں مشترک قدریں اور یکساں روایات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لارہے ہیں۔ یہ مشاہدہ کی بات ہے کہ جس شجر کا نام لبرل ازم ہے اور جس کے ساتھ ’مادر پدر آزادی‘ کا پھل لگتا ہے اس کی سرزمینِ اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسلام آزادی عمل و اظہار کو پروان چڑھنے سے نہیں روکتا لیکن یہ ضروری قرار دیتا ہے کہ اس کی جڑیں اسلام کے بنیادی اصولوں کی زمین میں پیوست رہیں۔ اسلام میں ایسی حریتِ افکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ کوئی:
چاہے تو کرے کعبے کو آتش کدۂ پارس
چاہے تو کرے اس میں فرنگی صنم کدہ آباد
خالص اسلام کے ساتھ ایسی مشترک قدریں تو تحریکِ طالبان، القاعدہ، داعش وغیرہ میں کہیں زیادہ موجود ہیں۔ یہ تین چار گروہ تو اس کے ضابطۂ حیات ہونے کو مانتے اور اس کا نفاذ چاہتے ہیں۔ لیکن امت کے اجتماعی ضمیر نے ان کے دہشت گردانہ طریقِ کار کی وجہ سے ان کو مسترد کر دیا ہے۔ ایسے چند نکات تو ہندو مت، بدھ مت، جین مت، سکھ دھرم اور دنیا کے ہر دوسرے مذہب سے بھی نکال کر لائے جاسکتے ہیں۔ اگر ان چند نکات کی بنا پر ہم پاکستان کو ایک ہندو، سکھ، بدھ، جین یا کسی اور مذہب کا مرکز نہیں بناسکتے تو اسلام کی کچھ جھلکیاں لبرل اِزم میں دیکھ کر اس ملک کا مستقبل اس فلسفے سے کیسے جوڑ سکتے ہیں؟
(بحوالہ: “munir-khalili.blogspot.com”۔ ۲۳ جنوری ۲۰۱۷ء)
کتاب ضرور سامنے کھلی پڑی ہو گی مگر ذہن بند ہے.