
اشاعت کے ۲۰ سال مکمل ہونے پر افکار ملی کی جانب سے دہلی میں ’’دنیا کی تعمیرنو اور مسلمان کے عنوان پر ایک روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس کی صدارت مولانا سید جلال الدین عمری، امیر جماعت اسلامی ہند نے کی تھی۔ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوری، صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کلیدی خطاب کیا تھا اور کانفرنس کا افتتاح راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئر مین جناب کے رحمن خان نے کیا تھا۔ اس موقع پر علماء اور دانشوروں نے مختلف اہم موضوعات پر تقاریر و مقالات پیش کیے تھے۔ مشہور اسکالر و ماہر معاشیات پروفیسر محمد نجات اللّٰہ صدیقی کا مقالہ موجودہ دنیا کے معاشی مسائل اور اسلام جو اس موقع پر پیش کیا گیا تھا وہ افادہ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ معاشی ترقی کے اعتبار سے دنیا ایک نسبتاً اچھے دور سے گزررہی ہے۔ اگر ترقی کا پیمانہ مادی دولت، اشیاء اور خدمات کی شکل میں صرف کی جانے والی چیزوں اور ان چیزوں کی پیداوار کے لیے درکار آلات، خام مال وغیرہ میں اضافہ کو قرار دیا جائے تو گزشتہ چند دہائیوں سے دنیا مسلسل ترقی کر رہی ہے۔ اس کے باوجود لوگ مطمئن نہیں ہیں، نہ عام لوگ نہ ماہرین معاشیات و سماجیات۔ اس بے اطمینانی کے متعدد اسباب میں سے دوسرِ فہرست ہیں۔ اول یہ کہ اس ترقی کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہا ہے عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور انسانی حیوانی اور نباتاتی وجود میں طرح طرح کے عدم توازن نمودار ہو رہے ہیں۔ دوسری قابل تشویش بات عدم مساوات میں اضافہ اور ازالہ غربت میں نا کامی ہے۔ یہ اضافہ اور یہ نا کامی ملکوں کے مابین بھی ہوئی ہے اور ہر ملک کے اندر بھی واردہے۔یہ بات اس لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ اس کے ڈانڈے عالمی سطح پر امن و امان برقرار رہنے سے ملے ہوئے ہیں۔ جن غریب ممالک کو حالیہ ترقی سے کچھ بھی نہیں ملا، بلکہ بعض مشاہدین کے نزدیک ان سے کچھ چھن گیا، جیسا کہ صحاریٰ کے جنوب میں واقع بعض افریقی ممالک کے بارے میں کچھ ماہرین کا خیال ہے وہ اس کا ذمہ دار چھائے ہوئے عالمی معاشی اور مالیاتی نظام نیز چند ترقی یافتہ ممالک کی چودھراہٹ بلکہ استحصالِ بے جا کو گردانتے ہیں۔ اسی طرح امیر ترین ملکوں میں بھی فقر و فاتہ کا وجود بے گھر لوگوں کی معتدبہ تعداد اور تعلیم اور طبی خدمات سے محروم لوگ اس بات پر گواہ ہیں کہ معاشرہ دولت اور آمدنی کی تقسیم کے باب میں عدم توازن کا شکارہے۔ رہے دنیا کے دوسرے ممالک توان کے شہروں میں جھگی جھونپڑی والی آبادیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ پینے کے پانی کی قلت، صفائی ستھرائی کے اہتمام میں کمی اور آبادی کی کثیر تعداد کی طبی خدمات سے محرومی ایک طرف تو زندگی کو راحت کی بجائے اجیرن بنائے ہوئے ہے اور دوسری طرف اس سے جرام میں اضافہ ہو رہا ہے اور عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ عالم ثالث کے دیہاتوں میں کاشتکاری کے لیے بڑھتی ہوئی آبادی کا بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رہی، بڑی آبادیاں روز گار کے لیے شہروں کا رخ کر رہی ہیں۔ جہاں جھگی جھونپڑی کے سوا کوئی مسکن ان کے امکانات سے باہر ہے۔
یہ کہنا آسان ہے کہ یہ مسائل سر مایہ دارانہ نظام کے پیدا کیے ہوئے ہیں سوال یہ ہے کہ علاج کی کیا صورت ہو۔ گزشتہ صدی میں سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں سے بچنے کے لیے انسانی آبادی کے تقریباً تہائی حصہ نے سوشلزم کا تجربہ کیا جو بری طرح ناکام رہا۔ اب کیا کیا جائے؟
یہ بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب چند منٹوں میں نہیں دیا جاسکتا۔ آج کے موضوع کے پیش نظر ایسا کرنا ضروری بھی نہیں۔ ہمارے موضوع کی نسبت سے اہم بات یہ ہے کہ عالمی معاشی نظام اور اس کی جلومیں مروجہ مالیاتی بندوبست ایک ایسے عنصر سے عاری ہے جس کے بغیر انسان کبھی فلاح نہیں پاسکتا۔اخلاق کے بغیر سماجی عدل کا قیام ممکن نہیں اور امن عالم ظلم واستحصال کی فضا میں برقرارنہیں رہ سکتا۔ اب جب کہ ترقی کی موجیں مغربی ساحلوں کو خیر باد کہہ کر، جہاں شرحِ نموچارفیصد سے کم ہے، مشرق کی قدم بوسی کر رہی ہیں جہاں شرح نمو آٹھ فیصد سے زائد ہے، اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ روحانیت کے گن گانے والے، عالمی مذاہب کے یہ گہوارے، ہر بات میں مغرب کی نقالی کی بجائے معاشی نظام کی تشکیل اور مالیاتی بندوبست کی نئی ترتیب میں اس عنصر گم گشتہ کو اس کا صحیح مقام و لوا کر مغربی سرمایہ داریت اور اس کی خادم نیو کلاسیکی معاشیات کی جگہ ایک نئی طرح ڈالیں ایک نیا راستہ نکالیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستانی مسلمانوں اور ان ہی کی طرح چین اور جنوب شرق ایشیا کے مسلمانوں کے سامنے آج ایک ایسا موقع ہے جو تاریخ انسانی میں شاذ و نادر ہی سامنے آتا رہا ہے۔ اگر وہ ہمت اور حکمت سے کام لیں تو اکیسویں صدی میں ایشیا کے اقتصادی عروج میں فعال حصہ لے کر اس کے معماروں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اس تعمیر میں وہ اسلام کی دی ہوئی ان بصیرتوں کے حامل، ان پر کاربند اور ان کی طرف دعوت دینے والے بنیں گے۔ جو ایک طرف تو ایک عنصر گم گشتہ کی فراہمی کے ذریعہ انسانیت کے دکھوں کا علاج ثابت ہو سکتی ہیں اور دوسری طرح مشرق کی قدیمی روحانیت اور اخلاق نوازی کی بنا پر ہندو چین اور جنوب شرق ایشیا میں بسنے والوں کے دل و دماغ میں سما سکتی ہیں۔
معاشی ترقی اور مالیاتی ترتیبات کے باب میں اسلامی تعلیمات کی تفصیل تو کجا تلخیص بھی یہاں ممکن نہیں۔ صرف اتنا اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ اس نے انسانوں کو تمام تر مفادات و مصالح پر مبنی فیصلوں کی بجائے اخلاقی اقدار کو سامنے رکھنا سیکھایا ہے۔ صارف ہو یا پیدا کنندہ مل مالک ہو یا مزدور، ادھار دینے والا ہو یا ادھار لینے والا۔۔ یہ سب اگر ہر موقع پر صرف اپنے نجی مفادات کی بڑھوتری چاہیں تو وہ صورت حال پیدا ہوتی ہے جسے دنیا سرمایہ داریت کے طفیل آج بھگت رہی ہے۔قومی سطح پر یہی رویہ قومی مفادات کی خاطر انسانی مصالح کی پا مالی، دوسری قوموں کے ساتھ دنیا کے خداداد وسائل میں مساوی ساجھیوں جیسے سلوک کی جگہ ان کے استحصال اور اپنی چودھراہٹ جمانے کا رحجان پیدا کرتا ہے۔ سچائی، ایمان داری، انصاف، مساوات ہمدردی۔۔ جیسی اخلاقی قدریں انسان کو یہ سکھاتی ہیں کہ اپنے مفاد کی تحصیل کے ساتھ دوسروں کے بھلے کا بھی لحاظ رکھیں مفادات کے ساتھ اقدار کے حامل قومی سطح پر بھی دوسرے انسانوں کا خیال کرتے ہیں اور خود جیو اور دوسروں کو جینے میں مدد دو کو بین الاقوامی تعلقات میں رہنما بنا سکتے ہیں۔ مشرق کی تمام قوموں نے اخلاق کی جڑیں روحانی تصورات میں پیوستہ پائی ہیں بالعموم ان کا تصور حیات وکائنات ان کو یہ سکھاتا ہے کہ جب بولیں سچ بولیں، جب تو لیں ٹھیک تولیں، ادھار لیں تو ادائیگی کی نیت سے لیں، نادار کمزور لاچار کو اپنے مال میں سے ضرورکچھ دیں وغیرہ۔ انہوں نے یہ سیکھا تھا کہ دوسرے انسانوں کو ذرائع سمجھنے کی بجائے، ایسے ذرائع جو اپنے نجی مفادات کے فروغ کے لیے استعمال کیے جا سکیں، انسانی خوش تعلقاتی کو مقصود بالذات سمجھیں، چند صدیوں سے دوسروں کی تقلید، احساس کمرتی اور کمزوری و ناطاقتی کی وجہ سے ان کے طریقے بدل گئے تھے مگر اب یہ صورت حال بدل سکتی ہے۔
کیا یہ حالت واقعی بدل جائے گی؟ کیا اس تبدیلی میں اسلام اور مسلمان کوئی کردار ادا کرسکیں گے؟ اگر دونوں سوالات کے ایجابی جوابات ممکن ہوں تو کیا اس طرح پوری دنیا میں ایک خوشگوار تبدیلی آ سکے گی؟
پیش گوئی بڑا پر خطرکام ہے وہ بھی اتنے بڑے معاملہ میں۔ میں اس کی جرات نہیں کر سکتا۔ البتہ یہ سوچا جا سکتا ہے کہ اس تبدیلی کی راہ ہموار کرنے میں ہم کیا حصہ لے سکتے ہیں۔ اسلام کے امکانات بہت وسیع ہیں۔ لیکن کوئی پیغام بغیر پیغام بر نہیں پہنچا۔ اس سے بڑی خوش خیالی کیا ہو سکتی ہے کہ ہم مسلمان کچھ نہ کریں اور سمجھیں کہ اس ممکنہ تاریخی تبدیلی کا کام یعنی اخلاق سے عاری معاشی نظام اور اخلاقی اقدار سے بے نیاز علم معاشیات کو روحانیت پر مبنی اخلاقی اقدار سے روشناس کرانے اور انسانوں کے معاشی طرز عمل نیز قوموں کی معاشی پالیسیوں کونرے مفادات و مصالح کا خادم بنائے رکھنے کی بجائے اخلاقی اقدار سے مانوس کرنے کا انقلابی کارنامہ، اسلام خود انجام دے لے گا۔!!
دنیا کے لیے تو اسلام وہ ہے جو مسلمان پیش کریں وہ قرآن کو بھی ہماری تفسیر و تشریح سے سمجھتے ہیں۔ محمد ﷺ اور ان کی سنت بھی ان تک ہمارے ہی ذریعہ پہنچتی ہے پڑھنے اور سننے کا موقع تو ہزاروں لاکھوں میں ایک کو ملتا ہے باقی تو ہمیں دیکھ کر ہمارے درمیان رہ کر ہم سے لین دین اور دوسری طرح کے تعامل کے ذریعہ اور ہمارے بارے میں خبریں سن کر ہی رائے قائم کر سکتے ہیں۔
موجودہ دنیا کے معاشی مسائل کے حل میں اگر اسلام کا کوئی حصہ ہو گا تو اس کا آغاز مسلمانوں ہی کی طرف سے ہونا ہے۔ تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ ظاہر ہے یہ کام صرف نظری نہیں، اگرچہ اسلام کی معاشی تعلیمات اور اس کی مالیاتی ترتیبات کی نظری تقدیم بڑا اہم کا ہے۔ گزشتہ سو برسوں میں اسلامی معاشیات اور اسلامی مالیات پر جو کام ہو اوہ مسلمانوں کے لیے ہوا۔ اس کے پیچھے الا ماشاء اللہ مسلم اکثریتی سماج کا مفروضہ پایا جاتا ہے۔ ایک تکثیری سماج جس کے درمیان دنیا کے تہائی مسلمان بستے ہیں، ایسے ملے جلے سماج کے لیے کام ہونا باقی ہے۔ یہی کام مستقبل کے لیے زیادہ مفید ہو سکے گا کیونکہ خود مسلم اکثریتی معاشرے ایک عالمی تکثیری معاشرہ کے اجزاء ہیں۔ اس نظریاتی خلا کو پر کرنا ہو گا۔ مگر اصل کام تو طرز عمل بدلنے اور پالیسی سازی میں پاسِ اخلاق کا ہے۔ آج مسلمان سماج اپنے ناداروں، کمزوروں اور لاچاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ مسلمان معاشروں کا ریکارڈ کیا ہے؟ ان سب کے پہلو بہ پہلو آج کے مسلمان کا پیداوار دولت کے بارے میں کیا رویہ ہے؟ کیا یہ رویہ فعال ہے؟ کیا فرد مسلم افزائش دولت اور اپنے اسلامی مشن کو ایک دوسرے سے اس طرح مربوط دیکھتا ہے۔ جس طرح صحابہ کرام نے بالخصوص مکہ سے ہجرت کر کے خالی ہاتھوں مدینہ آنے والوں نے دیکھا تھا؟
سچی بات یہ ہے کہ اگر ہم مسلمانوں کو بالخصوص ہندوستان میں اس تاریخی مرحلہ میں کوئی کردار ادا کرنا ہے تو ہمیں بڑی تیاریاں کرنا ہوں گی۔ سب سے پہلا کام خود پر تنقیدی نظر ڈالنا ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ ہم میں کیا کمی ہے جسے دور کرنا ہے چاہیے اپنے پریس کا جائزہ لیجئے۔ چاہے اپنی مجالس کا آج ہمارے درمیان اپنی کمیاں دریافت کرنے کا کوئی چلن نہیں۔ ہر طرف غیروں کے مظالم اور ان کی خباثتوں کا چرچا ہے۔ گویا ہمارے اپنے نقائص انہی گندے ٹیلوں کے تحت چھپ جائیں گے۔ اس کیفیت نے اصلاح، ذات کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ ہمارے اندر اپنے ہی تجربوں سے سبق سیکھنے کا مادہ مفقود ہے کیوںکہ ہم ان تجربات کا بے لاگ جائزہ نہیں لے سکتے۔ ہمارے درمیان اگر کوئی شامت کا مارا احتساب اجتماعی اور نقد ذاتی کی جرأت کرتا ہے تو ہمارے کان اسے سننے سے اور ہماری آنکھیں اس کا وجود تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتی ہیں۔ اسی کیفیت نے ہمارے لیے دوسروں کے تجربوں سے کچھ سیکھنا بھی مشکل بلکہ سچ یہ ہے کہ نا ممکن بنا دیا ہے، کیونکہ باوجود اس خستہ حالی اور زیر قدم پامالی کے ہم خود کو ساری اقوام عالم سے اعلیٰ و ارفع سمجھتے ہیں۔ ایک طرف تو خود اپنوں کو یہ نظر آتا ہے کہ اخلاق و کردار کے معاملہ میں ہم پستی کی طرف جا رہے ہیں، دوسری طرف جیسے جیسے ہمارا حال بگڑتا جا رہا ہے ہمارے درمیان ایسی پیش گوئیوں کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ جن مین مسلمانوں کے عروج اور غلبہ دین متین کو عمل صالح اور تعمیر کردار پر نہیں صرف مسلمان ہونے پر موقوف قرار دیا گیا ہو۔ اب ہم انہیں خوش خیالوں کے سہارے جیتے ہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ مردے از غیب بآمادد کارے بکند، کے انتظار میں دن گزارتے ہیں۔
کچھ کرنا ہے تو یہ اطوار بدلنے ہوں گے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا، آج کے تیز رفتاری سے ترقی کرنے والے ہندوستان میں ہم مسلمانوں کو ایک سنہری موقع ملا ہے۔ ساری دنیا کی آنکھیں ہندو چین پر لگی ہوئی ہیں۔ جو یہاں ہوگا ساری دنیا دیکھے گی۔ انفرادی رویہ ہو یا اجتماعی طرز عمل دونوں کے اسلامی نمونے پیش کرنے کے وسیع مواقع میسر ہیں کام چوری اور کرپشن سے بھرے اس ماحول میں فرض شناسی اور امانت و دیانت کی شمعیں روشن ہوں تو کون نہیں نوٹس لے گا؟ سماج کے پچھڑے طبقات کو اوپر اٹھانے کی مساعی اور لاچارو نادار کی دست گیری و حاجت روائی، کہاں چھپ سکے گی؟ ہمارے دین نے ان خدمات کی انجام دہی کو ذرائع نہیں مقاصد کا درجہ دیا ہے۔ جبھی تو ان کا ذکر مومنین کی صفات کے طورپر آیا ہے نہ کہ رائے عامہ ہموار کرنے کے وسائل کے طور پر۔
روایتی دین داری، فعال معاشی تگ و دو سے نا آشنا رہی ہے۔ البتہ جذبہ عبودیت سے سر شارمعمار ان عالم کے انداز دوسرے تھے۔ اسلام کی تاریخ میں ابتدائی چارصدیوں کے کارناموں کا دجلہ و فرات کی وادی جیسے مرکزی علاقوں کی نسبت سے تو چرچا رہا لیکن اسی تاریخ کے ان اوراق کو بھی پلٹنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ دولت کمانے کے ساتھ عیش خوشی ضروری نہیں نیز اس بات کا مظاہرہ کیا جا سکے کہ اپنی قوت بازو سے کمائی دولت کو کس طرح فلاح عام کا خادم بنایا جاتا ہے۔ ایک صحت مند معاشرہ کی تعمیر اور مسلمان جو آج کی نشست کا موضوع ہے اس کا تقاضا علماء اور دانش وروں کے ساتھ مسلمان تاجر، صناع اور کاریگر سے بھی ہے۔ دلوت کمائیے اور اسے مزید افزائش دولت میں لگائیے، اس طرح کہ آپ کی نظریں ذاتی نفع کے ساتھ ساتھ دوسروں کو روز گار فراہم کرنے، وسائل حیات عام کرنے اور اس بات پر ہوں کہ راہوارِ ترقی کی لگا میں خود غرض، تنگ نظر، تسلط پسندوں کے ہاتھوں سے چھین کر وسیع النظر، خدام انسانیت کے ہاتھوں میں لانی ہے جو قرآن کے الفاظ میں: زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد برپا کرنا چاہتے، للذین لایرون علو فی الارض ولا فسادا۔ (سورۃ قصص: ۳۸۔) عام طور پر مذہبی تحریکی لوگ تقسیم دولت پر ہی زور دیتے ہیں اور اس کی جلد از جلد تعمیل کے لیے ریاست کی قوت قاہرہ استعمال کرنے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات تو اسی کی خاطر سارے کاموں پر اس کام کو فوقیت دیتے ہیں کہ اقتدار حاصل کیے جائیں۔ مگر گزشتہ چند صدیاں ہمیں جو سبق سکھا گئیں ان کو بھولنا نہیں چاہیے۔ ان میں سے ایک سبق یہ ہے کہ افزائش دولت کے بغیر تقسیم دولت مقصد میں کامیاب نہیں ہوتی۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ ریاست کی بڑھتی مداخلت افزائش دولت میں مخل ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے اسلام نے ذاتی نفع کے محرک اور ریاست کے سر قیام عدل کی ذمہ داری کے پہلو بہ پہلو اخلاق کے عنصر پر زور دے کر ہمیں افراط تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ پر ڈالنا چاہا ہے۔ یہی اعتدال و توازن جدید انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اسی کو ہمیں اپنا اقتصادی رمز بنا کر آگے آنا چاہیے۔
ہمارے زیر انتظام کچھ ایسے ادارے بھی ہیں جو اقتصادی اہمیت کے حامل ہیں۔ اوقاف و جمع و تقسیم زکوۃ وصدقات کی کمیٹیاں اور بچت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے ارادے سے قائم کیے جانے والے دوسرے اسلامی مالیاتی ادارے۔ آج ان میں سے بیشتر ہمارے مسائل کا حل بننے کی بجائے خود مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال کو بدلے بغیر ان بلند حوصلوں کی تکمیل کیسے ممکن ہے جن کا اسلامی بینکنگ اور فنانس کی بڑھتی لہر کے ضمن میں چرچا ہے؟ مسلمان ہندوستان میں شریک حکومت ہیں۔ ان کے حوصلے بلند ہونے ہی چاہیئے۔ سوال ان اوصاف کا ہے جن کے بغیر حوصلہ کی بلندی کارگر نہیں ہوتی۔ اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ اوصاف بڑی ریاضت کے بعد بدلتے ہیں۔
کرنے کے کاموں کی فہرست طویل تر کیے بغیر اتنا کہنا ہے کہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں بشرطیکہ توجہ اپنی تیاری پر مرکوز ہو نہ کہ اغیار کی سازشوں پر۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’افکارِ ملّی‘‘دہلی، جنوری ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply