ہماری جن اخلاقی کمزوریوں نے معاشرہ کو کھوکھلا کر دیا ہے اور افراد معاشرہ کے ضمیر کو مردہ کر کے، دشمن کے سامنے لقمہ تر بننے پر مجبور کیا ہے، اور بالخصوص معاشرہ کا ہر باصلاحیت اور ذہین فرد، جس طرح دشمن کے عالمی اداروں کے سامنے فروخت ہونے پر آمادہ ہے، ان میں حرص و ہوس کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور حب جاہ اور حب مال کی کمزوریاں شامل ہیں۔ ان اخلاقی کمزوریوں کے ہوتے ہوئے، بڑی سے بڑی سیاسی اور انقلابی تبدیلی بھی حالات میں بنیادی تغیر برپا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
دولت پر ٹوٹ پڑنے کے سلسلہ میں اس وقت ہمارے حکمرانوں، افسروں، صنعتکاروں، تاجروں اور ڈاکٹروں وغیرہ کی سوچ اور طرزِ عمل یہ ہے کہ جو کچھ حاصل کرنا ہے، بس اسی وقت حاصل کرو۔ جتنا دولت مند بننا ہے، بس جلدی کرو، بن جائو۔ بعد میں موقع ملے یا نہ ملے، یہ خواب پورا کرلو۔ چونکہ سارے مقتدر طبقات اس کھیل میں مصروف ہیں۔ اس لیے مؤثر طبقات، حکومت، قانون اور پولیس کے ہر خوف سے بے نیاز ہوکر مواقع و مناسبت سے لوٹ مار کا مال جمع کرنے میں مصروف ہیں۔
جس ریاست کے اہلِ سیاست اور حکمرانوں کا نکتہ نظر یہ ہو کہ سیاست اور حکومت کے ذریعہ دولت کے ڈھیر جمع کیے جائیں۔ یہ دولت قومی خزانہ کی لوٹ مار کے ذریعہ ہو یا عالمگیریت کے بچھائے ہوئے سازشوں کے جال میں معاون کی حیثیت سے شرکت کے ذریعہ یا کسی بھی طرح سے دولت حاصل ہو۔ جس ملک کے افسران رشوت چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوں، اپنے ہی عوام کا خون پسینہ نچوڑ کر، ہر صورت میں جائداد بنانے کے جنون میں لگے ہوں اور اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں، جس ملک کی یونیورسٹیوں اور درس گاہوں کے اساتذہ پڑھنے پڑھانے کے بجائے، صرف اور صرف تنخواہوں اور مراعات سے دلچسپی رکھتے ہوں اور جو بینک بیلنس میں اضافہ کے حریص ہوں۔
جس ملک کی فوج اور اس کے افسران، حکومت پر اثرانداز ہو کر قومی خزانے کا بڑا حصہ اپنی مراعات کے لیے مخصوص کرنے کی نفسیات میں مبتلا ہوں۔ (اس منظر کے دیکھنے کے باوجود کہ قوم کی اکثریت روٹی کے حصول کی محتاج ہے)۔ جس ملک کا مولوی، قوم کو مسلکی اور گروہی اختلافات کا شکار بنا کر، اپنی ساری توانائیاں ملت کی تفریق میں خرچ کرتا ہو۔ جس ملک کا صوفی، مریدوں کی روحانی اور اخلاقی تربیت میں دلچسپی رکھنے کے بجائے مریدوں کی جیبوں پر نظر رکھتا ہو اور ان کی دولت سے مسرفانہ زندگی گزارتا ہو۔
جس ملک کا تاجر و صنعتکار، اشیائے ضرورت کی مصنوعی مہنگائی کے ذریعہ دولت جمع کرنے اور اپنے ہی عوام کو مہنگائی کے عذاب میں پیسنے کی بیماری میں مبتلا ہو۔ جس ملک کا ڈاکٹر جلد سے جلد دولت مند بننے کے لیے اپنی معائنہ فیس اور آپریشن فیس کے ذریعہ غریب افراد کو مفلس سے مفلس تر بنانے کے جنون میں مبتلا ہو۔ جس ملک کا وکیل جائز و ناجائز کیسوں سے بے نیاز ہو کر ہر صورت میں پیسے بنانے کے حرص میں مبتلا ہو۔ جس ملک کا سماجی کارکن صرف اور صرف فنڈ کے حصول سے دلچسپی رکھتا ہو، یہ فنڈ عالمگیریت کے قائم کردہ اداروں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہو یا حکومت اور اپنی پارٹی سے، اسے ہر صورت میں بس فنڈ سے دلچسپی ہو۔ جس ملک کا جج عوام کو چھوٹے چھوٹے مسائل میں، ٹیکنیکل قوائد کی بنا پر برسوں تک عدالتی چکروں میں پھنسائے رکھنے کا عادی ہو۔ اس ملک میں کرنے کا سب سے اولین کام کیا ہے؟ کیا سیاست، جمہوریت اور انقلاب کے ذریعہ چہروں کی تبدیلی اور نظام کی تبدیلی ہی اولین کام ہے؟ عامی سے عامی فرد بھی اس کا جواب یہی دے گا کہ اس طرح کی صورتحال میں ان طبقات کی نفسیات میں موجود ہمہ جہتی اور ہمہ گیر فساد کی اصلاح کی تحریک شروع کرنا ہی اولین کام ہے، جو اگر نہ ہوا تو یہ سارے طبقات خود تو تباہی اور زوال سے دوچار ہوں گے ہی، لیکن وہ اپنے ساتھ اہلِ وطن کو بھی لے ڈوبیں گے۔
رسالت مآبﷺ کا فرمان ہے کہ جو بندوں پر رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ یہ بھی آپ ہی کا فرمان کہ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔
دولت کے ارتکاز کے ذریعہ اللہ کی مخلوق کو بھوکوں مارنا۔ حکومتی وسائل پر چند خاص طبقوں کی اجارہ داری اور نچلی سطح پر وسائل کی عدم فراہمی۔ عام لوگوں کا روزگار کے لیے دربدر ہونا اور دن بھر کی محنت کے باوجود، اپنے بچوں کے تن اور روح کے رشتہ کو قائم رکھنے میں ناکام رہنا، روٹی کے حصول کے لیے ساری کوششوں کی ناکامی کے بعد خودکشی کے رجحانات کا بڑھنا۔ بددیانتی اور لوٹ مار کی وجہ سے حکومت کے سارے اداروں کا بربادی کا منظر پیش کرنا۔ عالمی اداروں کے سامنے ذلیل ہو کر، قوم کو غلام بنانے والی ان کی شرائط کو منظور کر کے قرض کی رقوم لینا اور قرض کی رقوم کو وزرا اور افسران کی عیاشیوں اور حکمرانوں کے اللوں تللوں میں ضائع کر دینا۔
یہ ساری باتیں المناک اور شرمناک ہیں اور ضمیر کی معمولی کسک رکھنے والی کسی قوم کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ زندہ قوموں کی علامتوں میں ایک بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ ان کے ہاں پیدا ہونے والا بگاڑ، قوم کے موثر طبقات میں موجود باضمیر افراد کو سراپا تحرک بنا دیتا ہے اور ان میں یہ عزم اور ولولہ پیدا کرتا ہے کہ ہماری موجودگی میں ریاست کے اداروں اور قوم میں جو فساد پیدا ہوا ہے، ہم اپنی اخلاقی قوت، دعوتی جذبے اور اپنے غیرمعمولی اثرات سے ہر سطح پر اس کی روک تھام اور اس کی اصلاح کریں گے۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس صورتحال ہے کہ فساد کا ہولناک منظر دیکھنے کے باوجود، معاشرہ کے دیندار افراد میں بھی قابل ذکر بے چینی، تحرک اور سرگرمی نظر نہیں آتی!!!
معاشرے کے جن طبقات کی خرابیوں نے (جن کا ذکر اوپر کیا گیا) آج ملت کو یہ دن دکھائے ہیں، یہ طبقات اگر اپنے اندر ڈوب کر رسالت مآبﷺ کی ان احادیث پر غور و فکر فرمائیں، جن میں خرابیوں کے اثرات و نتائج کا ذکر فرمایا گیا ہے اور انتباہات دیے گئے ہیں اور خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تو شاید ہمارے بچائو کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔
حضورﷺ کی چند احادیث اس طرح ہیں:
۱) دنیا کی محبت ساری برائیوں کی جڑ ہے۔
۲) ہلاک ہو بندۂ دنیا، ہلاک ہو بندۂ درہم۔ گرے اور نہ اٹھے۔ جب اسے کانٹا لگے تونکال نہ سکے (بخاری شریف)۔ (حضورﷺ جیسی شفقت فرمانے والی ہستی دولت سے آخری حد تک محبت کرنے والوں، یعنی درہم کے بندوں کو بددعا دے، لرزا دینے والی بات ہے)۔
۳) جو شخص یہ پروا نہ کرے کہ اس نے مال کہاں سے کمایا ہے تو اللہ تعالیٰ کو یہ پروا نہیں ہے کہ اسے کہاں سے دوزخ میں داخل کرے ۔
۴) جس شخص نے چالیس روز تک ذخیرہ اندوزی کی تو وہ اللہ سے بے تعلق اوراللہ اس سے بے تعلق۔
۵) جو شخص اپنے نفس پر ایک دروازہ کھولتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر فقر (محتاجی) کے ستر دروازے کھول دیتا ہے۔
۶) جو شخص گناہ (رشوت، لوٹ مار، سود، ذخیرہ اندوزی وغیرہ) کے ذریعہ مال حاصل کرے، پھر اس سے صلہ رحمی کرے یا صدقہ میں خرچ کرے یا اللہ کی راہ میں خرچ کرے، تو اللہ ان سب کو (قیامت کے دن) جمع کرکے، دوزخ میں ڈالے گا۔
۷) جو بندوں پر رحم نہیں کرتا، اس پررحم نہیں کیا جاتا۔
۸) جسے مسلمانوں کے مسائل سے دلچسپی نہیں، وہ ہم میں سے نہیں۔
۹) ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، تو جو شخص اس کنبہ یعنی (اس کی مخلوق) کے ساتھ زیادہ اچھا سلوک کرے، وہی اس کو زیادہ پیارا ہے۔
۱۰) وہ شخص مومن نہیں ہے جوخود تو اطمینان سے پیٹ بھر کر کھائے، جب کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو اور اس کے گھر میں فاقہ ہو۔
۱۱) جو دھوکا دے، وہ ہم میں سے نہیں۔
۱۲) اس شخص کے لیے خوشخبری ہو جسے اسلام کی ہدایت حاصل ہو اور جس کی معیشت بقدر کفایت (ضرورت) ہو، اور وہ اس پر قانع ہو۔
۱۳) ہر مالدار شخص قیامت کے دن یہ تمنا کرے گا کہ (کاش) اسے دنیا میں بقدر ضرورت ہی روزگار دیا جاتا۔
۱۴) میری امت کے بدترین لوگ وہ ہیں جو دولت میں پلتے ہیں۔ طرح طرح کے کھانوں اور طر ح طرح کے کپڑوں کے متلاشی رہتے اور (اپنی فصاحت ظاہر کرنے کے لیے) منہ پھاڑ کر بولتے ہیں۔
۱۵) ابنِ آدم کا حق صرف تین چیزوں میں ہے۔ اتنا کھانا جس سے کمر سیدھی ہوسکے، اتنا کپڑا جس سے ستر عورت (اعضا چھپا) سکے، ایسا گھر جس میں سکونت اختیار کر سکے۔ اس سے زائد کا محاسبہ ہوگا۔
۱۶) جو شخص دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایسے غم میںجو اس سے کبھی جدا نہ ہو۔ معاشی فکر میں جو کبھی تونگری میں تبدیل نہ ہو۔ ایسے حرص میں جو کبھی شکم سیر نہ ہونے دے۔
۱۷) جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی برائی چاہتا ہے تو اس کے مال کو مٹی اور پانی میں ضائع کر دیتا ہے، (یعنی غیر ضروری تعمیرات میں)۔
۱۸) جو شخص کفایت (ضرورت) سے زائد مکان تعمیر کرے گا قیامت کے دن اسے اس تعمیر کو اٹھانے کا پابند کیا جائے گا۔
۱۹) ہر تعمیر قیامت کے دن اپنے مالک کے لیے وبال ہے، مگر وہ تعمیر جو سردی و گرمی سے بچائے۔
۲۰) ہرامت کا ایک بچھڑا ہے، میری امت کا بچھڑا درہم و دینار ہے (حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے سونے چاندی سے بچھڑا بنایا تھا جسے پوجا جانے لگا تھا)۔
۲۱) بندہ کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک اس میں تین عادتیں نہ ہوں۔ مفلسی میں خرچ کرنا، اپنے نفس سے انتقام لینا اور سلام کرنا۔
۲۲) جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، وہ ایسا ہے گویا اس نے تمام عمر اللہ کی عبادت کی۔
۲۳) جس شخص نے کسی مومن کو آرام پہنچایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے آرام پہنچائے گا۔
۲۴) تمہارا اپنے بھائی کے ساتھ اس کی کسی ضرورت کی تکمیل کے لیے چلنا، میری اس مسجد میں (آپ نے ہاتھ سے مسجد کی طرف اشارہ کیا) دو مہینوں کے اعتکاف سے افضل ہے۔
۲۵) اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل یہ ہے کہ مسلمان کو مسرور کیا جائے اور اس کا غم دور کیا جائے۔ اس کا قرض ادا کیا جائے۔ بھوکا ہو تواسے کھانا کھلایا جائے۔
۲۶) تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (حقیقی) مومن نہیں ہوسکتا، جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
۲۷) دو عاتیں ایسی ہیں کہ ان سے بڑھ کر خراب عادت کوئی نہیں ہے۔ ایک اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور دوم اللہ کے بندوں کو نقصان پہنچانا۔ دو عادتیں ایسی ہیں کہ ان سے زیادہ اچھی عادت کوئی نہیں ہے۔ ایک اللہ پر ایمان لانا اور دوم اللہ کے بندوں کو نفع پہنچانا۔
۲۸) کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس کا پڑوسی اس کی شرانگیزیوں سے محفوظ نہ رہے۔
۲۹) دنیا (کی محبت) سے بچو کہ وہ ہاروت ماروت سے بھی زیادہ سحر کرنے والی ہے۔
۳۰) اپنے دلوں کو دنیا کی یاد میں مشغول نہ کرو۔
۳۱) آخرت کے مقابلہ میں دنیا ایسی ہے جیسے کوئی شخص سمندر میں انگلی ڈال کر نکالے۔ سمندر آخرت ہے، انگلی پر لگنے والا پانی دنیا ہے۔
۳۲) جو شخص دنیا کو بطریق حلال ہی سہی زائد از ضرورت اظہارِ مفاخرت کے لیے حاصل کرے، وہ قیامت میں اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا۔ جو شخص مانگنے کی ذلت سے بچنے اور اپنے نفس کی حفاظت کی خاطر دنیا طلب کرے، تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا چہرہ چوہدویں کے چاند کی طرح چمکتا ہوگا۔
۳۳) قیامت کے دن کچھ لوگ ایسے آئیں گے کہ ان کے اعمال وادیٔ تہامہ کے پہاڑوں جیسے ہوں گے۔ انہیں دوزخ میں لے جانے کا حکم ہوگا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا وہ نماز پڑھنے والے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا، ہاں وہ نماز پڑھتے تھے، روزہ رکھتے تھے اور رات کا کچھ حصہ بھی جاگ کر (عبادت میں) گزارتے تھے۔ لیکن ان میں یہ بات تھی کہ جب ان کے سامنے دنیا کی کوئی چیز پیش کی جاتی تھی تو وہ اس پر کود پڑتے تھے۔ (یعنی وہ حب مال کے مریض تھے اور دنیا پر لپک جاتے تھے)۔
۳۴) جس شخص کا حال یہ ہو کہ دنیا ہی اس کا مقصود بن جائے تو وہ شخص اللہ تعالیٰ سے کسی چیز میں نہیں (یعنی وہ اللہ سے حالت پردہ میں ہے)۔ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں چار عادتیں ڈال دیتا ہے۔ رنج و غم جو اس سے کبھی جدا نہیں ہوتا۔ مصروفیت کہ اس سے اسے کبھی فراغت نہیں ملتی۔ فقر (محتاجی) کہ وہ کبھی مالداری کو نہیں پہنچتا۔ یعنی دنیا دار کی حاجتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ اور اس کی آرزوئیں کبھی پوری ہونے نہیں پاتیں۔
۳۵) دنیا کو اہل دنیا کے لیے چھوڑ دو۔ جس نے دنیا سے اپنی کفایت (ضرورت) سے زائد لیا، اس نے گویا شعوری طور پر اپنی موت کا پروانہ حاصل کیا۔
۳۶) میری امت کے بدترین لوگ وہ ہیں جو نعمتوں میں پلتے ہیں اور انہی پر ان کے جسم نشوونما پاتے ہیں۔
۳۷) جو شخص دنیا سے محبت کرتا ہے اوراسے پاکر خوش ہوتا ہے، اس کے دل سے آخرت کا خوف نکل جاتا ہے۔
۳۸) بکریوں کے گلّے میں چھوڑے جانے والے دو خونخوار بھیڑیے اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا نقصان مال و جاہ کی محبت، مسلمان کے دین کو پہنچاتی ہے، (یعنی مال و جاہ کی محبت سے ایمان میں فسادِ عظیم برپا ہو جاتا ہے)۔
۳۹) سرکاری عمال (سرکاری حکام) آخرت میں تمنا کریں گے کہ اے کاش انہیں دنیا میں اوندھے منہ لٹکایا جاتا اور عہدے نہ دیے جاتے۔
۴۰) جس شخص کو دنیا میں دس افراد پر بھی ولایت (اختیار) حاصل ہوگی وہ قیامت کے روز اس حال میں آئے گا کہ اس کے ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے ہوں گے یا تو اسے اس کا عدل آزاد کرائے گا یا اس کا ظلم اسے ہلاک کر دے گا۔
۴۱) قیامت میں ایک شخص آئے گا۔ اس نے نیکی کے بہت سارے کام کیے ہوں گے۔ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ اسے دوزخ میں داخل کرو۔ وہ اپنے نیک کام گنوائے گا۔ اسے کہا جائے گا کہ تم نے ایک بار ایسی بات کہی تھی، جس سے مسلمانوں کے دو طبقے آپس میں لڑ پڑے تھے۔ پہلے اس کی سزا بھگتو، اس کے بعد تمہاری نیکیوں کا اجر ملے گا (یہ حدیث حضرت مولانا محمد یوسفؒ، حضرت جی کی ایک شائع شدہ تقریر میں ہے)۔
حضورﷺ کی یہ احادیث ہمیں جھنجھوڑنے، بیدار کرنے، حب جاہ و حب مال اور حرص و ہوس کے اثرات سے نکل کر مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنے اور اپنا کردار ادا کرنے کے جذبے کو ابھارنے کے لیے کافی ہیں۔
معاشرے کے موثر طبقات کی خرابیوں نے فسادِ عظیم برپا کیا ہے۔ اس لیے جب تک موثر طبقات کے دردمند افراد کی طرف سے اپنے طبقہ سے وابستہ افراد کو جھنجھوڑنے، سہارنے اور سنبھالنے کی کاوش نہیں ہوتی تب تک ہمارے حالات میں بہتری کی صورت کا پیدا ہونا مشکل ہے۔ چنانچہ معاشرے کے بالا اور مؤثر طبقات میں رجوع الی اللہ کی تحریک کی سخت ضرورت ہے۔ یہ رجوع الی اللہ کی تحریک ہی ہمیں اور ہماری نسلوں کو ذلت، غلامی اور تباہی سے بچا سکتی ہے۔
داعیانِ اسلام اور وارثین انبیا متوجہ ہوں
رجوع الی اللہ کی دعوت کا مرکزی نکتہ، اپنے آپ کو بدلنا اور اپنے اندر انقلاب برپا کرنا ہے، جس کے تحت موثر طبقات سے وابستہ افراد میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ اس دنیا میں اعمال اور کردار کے اثرات محض اُن افراد کی ذات تک محدود نہیں رہتے، بلکہ اجتماعی زندگی پر بھی پڑتے ہیں۔ بہتر اعمال و کردار سے قومی زندگی کا رخ بہتر ہوتا ہے۔ بُرے اعمال سے قومی زندگی زیر و زبر ہو جاتی ہے۔ بلکہ موثر طبقات کے فساد زدہ اعمال کا نتیجہ کئی نسلوں کی غلامی کے طوقوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
دعوت رجوع الی اللہ کے ذریعہ موثر طبقات کے ذہن میں یہ نکتہ بھی گوش گزار کرنے کی ضرورت ہے کہ دولت کے جس حرص کی خاطر وہ ملک و ملت کے ساتھ یہ سب کچھ کر رہے ہیں، وہ دولت کسی کام کی نہیں۔ اس لیے کہ انسان کی کل ضرورت روزانہ دو چار روٹیاں، چند جوڑے لباس، ایک بستر، ایک چھت، ایک نوکر اور ایک سواری سے زائد نہیں۔ باقی ساری دولت، جس کے لیے وہ ملک و ملت کو دائو پر لگا رہے ہیں، نہ صرف یہ کہ وہ ان کے کسی کام آنے والی نہیں، بلکہ اس کے تین بڑے نقصانات تو بالکل واضح ہیں۔
ایک یہ کہ قوم کے نقصان کی قیمت پر حاصل ہونے والی دولت، دولت مند افراد کی نسلوں کی سیرت و کردار کی پستی اور اخلاقی بربادی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
دوم یہ کہ لوٹ مار سے حاصل شدہ دولت سے افراد سکونِ قلبی سے محروم ہو جاتے ہیں اور ساری دولت اور شان و شوکت کے باوجود، وہ بے سکونی کے کانٹوں پر کروٹیں بدلتے ہیں۔
سوم یہ کہ یہ دولت قبر و آخرت میں افراد کے لیے عذابِ الیم کا موجب بن جائے گی۔
ہمارے ان موثر طبقات نے حرص و ہوس کے بتوں کی پرستش اور اس کے مظاہر کی وجہ سے پاکستان کی ملت اسلامیہ پر سب سے بڑا غضب یہ ڈھایا ہے کہ ایک تو عام لوگ پس کر رہ گئے ہیں اور وہ بدحالی کی انتہا پر پہنچ کر، آسمان کی طرف نظریں اٹھا رہے ہیں کہ کوئی غیبی ہاتھ آکر ان کی مدد کرے۔ دوسرے یہ کہ ہماری نئی نسل کا ہر فرد ان موثر طبقات کے قائم کردہ معیاروں کو آئیڈیل سمجھ کر دولت کے حصول ہی کو مقصد زندگی بنائے ہوئے ہے، اور حصولِ دولت کی خاطر اخلاقی قدروں اور اصولوں کی پاسداری کو غیرضروری سمجھتا ہے۔
یہ صورتحال ایسی ہے جو دیندار افراد کے لیے دعوت فکر ہے کہ وہ حالات کو بدلنے اور دعوت رجوع الی اللہ کے سلسلہ میں جو کچھ کر سکتے ہیں، کریں۔ اور اس سلسلہ میں اپنی جملہ توانائیاں صَرف کریں۔ اِس رُخ پر وسیع و ہمہ گیر، انتھک اور مسلسل و مستقل کام کے بعد ہی امید کی جاسکتی ہے کہ حالات میں کوئی جوہری تبدیلی واقع ہونا شروع ہو۔ صرف اِس جدوجہد کے نتیجہ میں توقع کی جاسکتی ہے کہ جدوجہد کرنے والے نوازے جائیں، بخشے جائیں اور قیامت کی حشر سامانیوں میں خصوصی فضل کے مستحق قرار پائیں۔
سوال یہ ہے کہ خونِ جگر سے لکھی ہوئی اس جھنجھوڑنے والی تحریر سے کچھ تاثر لے کر، مذکورہ بالا طبقات میں سے کچھ افراد ایسے نکل آئیں گے جو اپنے طبقوں میں اصلاحِ احوال اور رجوع الی اللہ کی تحریک شروع کریں اور انہیں بتائیں کہ موجودہ روش قدرت کے قانونِ مکافات کے تحت، طاقتور قوموں کی ذلت آمیز غلامی کو دعوت دینے کے برابر ہے؟ یہ غلامی عالمی سامراج کی موجودہ بالواسطہ غلامی سے کئی گنا زیادہ سنگین غلامی ہوگی۔
(ماخوذ: حافظ محمد موسیٰ بھٹو کی زیرطبع کتاب ’’ہمارے نفسی و اجتماعی مسائل‘‘)
Leave a Reply