
افریقا اور مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑی فوج مصر کی ہے۔ ۲۰۱۴ء کے یعنی تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مصر کی فوج دنیا بھر میں طاقت کے اعتبار سے تیرہویں نمبر پر ہے۔ بری، بحری اور فضائی فوج کی اچھی خاصی نفری کے ساتھ ساتھ مصر میں نیم فوجی یونٹس بھی ہیں جن میں وزارت داخلہ کے تحت سینٹرل سکیورٹی فورسز اور وزارت دفاع کے تحت نیشنل گارڈز اور بارڈر گارڈ فورسز شامل ہیں۔ ان تمام فورسز کی نگراں دی سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز ہے جو ۲۱؍افسران پر مشتمل ہے۔ اس کونسل کے اجلاس جنگ کے موقع پر یا پھر ہنگامی نوعیت کے حالات میں منعقد ہوتے ہیں۔ ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے عوامی انقلاب کے وقت بھی سبکدوش ہونے والے صدر حسنی مبارک نے تمام اختیارات دی سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز کے حوالے کیے تھے جو ۲۰۱۲ء کے عام انتخاب تک تمام معاملات کی عبوری نگراں رہی۔
مصر کی مسلح افواج کو امریکا سے غیر معمولی فوجی امداد ملتی ہے۔ مصر کو ہر سال امریکا کی طرف سے جو ڈیڑھ ارب ڈالر دیے جاتے ہیں اس کا بڑا حصہ فوجی امداد پر مشتمل ہے۔ جولائی ۲۰۱۳ء میں منتخب حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد مصر کے لیے امریکی امداد روک دی گئی تھی۔ بعد میں جب عبوری حکمران جنرل عبدالفتاح السیسی نے نام نہاد انتخابات میں بے مثال کامیابی حاصل کی، تب امریکی کانگریس نے مصر کی فوجی اور اقتصادی امداد بحال کردی۔ غیر جانب دار مبصرین کا کہنا ہے کہ جن انتخابات میں جنرل عبدالفتاح السیسی کو بھرپور کامیابی ملی، ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی اور مخالفین کو کسی بھی طور ابھرنے اور عوام کی نمائندگی کا حق حاصل کرنے سے روک دیا گیا۔
امریکا سے ملنے والی فوجی امداد کا بڑا حصہ سامان پر مشتمل ہوتا ہے۔ امریکا سے مصری فوج کو ٹینک اور جیٹ طیارے اتنی بڑی تعداد میں ملتے رہے ہیں کہ اب وہ فاضل ہوچلے ہیں اور بظاہر اُن سے استفادہ بھی نہیں کیا جارہا۔
مصری فوج کی طاقت
مصر کی حدود میں اُس کی فوج کو غیر معمولی قوت حاصل ہے۔ اس قوت ہی کی بدولت اُس کا وقار بھی قائم ہے اور وہ خاصی آزادی و خود مختاری کے ساتھ کام کرتی ہے۔ ۱۹۵۲ء میں محمد نجیب اور جمال عبدالناصر کی قیادت میں فری آفیسرز موومنٹ نے شاہ فاروق کا تختہ الٹا تھا۔ تب سے ۲۰۱۱ء میں حسنی مبارک کا دھڑن تختہ ہونے تک مصر میں آنے والے صدور (جمال عبدالناصر، انور سادات اور حسنی مبارک) کا تعلق فوج سے تھا۔ تین سال قبل جب کئی دوسرے افریقی و عرب ممالک کی طرح مصر میں بھی آزادی اور بیداری کی لہر اٹھی، تب ملک میں پہلی بار فوجی حکمرانی کی راہ میں دیوار کھڑی ہوئی۔ ڈاکٹر محمد مرسی ملک کے پہلے باضابطہ منتخب ہونے والے اور غیر فوجی صدر تھے۔
صدر محمد مرسی کو تمام آئینی اختیارات نہیں دیے گئے تھے اور اُنہیں فوج سمیت تمام ریاستی اداروں پر اپنا حکم چلانے کی اجازت نہیں تھی۔ سویلین صدر کی موجودگی میں بھی مصر کی فوج کو قانونی اور پارلیمانی نگرانی سے بچالیا گیا۔
مصری فوج کے اپنے اسپتال، دیہات، تعلیمی ادارے، کمپلیکس، سوشل کلبس، پٹرول اسٹیشن، فیکٹریز اور کمپنیاں ہیں۔ ان کی ملکیت میں فٹبال گراؤنڈ اور ریستوران بھی ہیں۔ فوج مصر کی تجارتی سرگرمیوں میں بھی مشغول ہے۔ بہت سے صنعتی یونٹس بھی اس کی ملکیت میں ہیں۔ سڑکوں اور مکانات کی تعمیر کے ٹھیکے بھی اُسے ملتے ہیں یا وہ لیتی ہے۔ تفریحی مقامات کے نظم و نسق کے ساتھ ساتھ وہ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں بھی مصروف ہے۔ مصر کی فوج معیشت میں غیر معمولی حصہ رکھتی ہے۔ اُس کے تمام اداروں کی مجموعی مالیت کتنی ہے، یہ کسی کو معلوم نہیں۔ اُس کی فیکٹریوں کا آڈٹ ہوتا ہے، نہ اُن پر کوئی ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ فوج کا بجٹ ہی نہیں افسران کے نام بھی صیغہ راز میں رکھے جاتے ہیں۔ مصری فوج کے افسران کی تعداد تین سے چار لاکھ ہے اور فوج کا حقیقی حجم کسی کے علم میں نہیں۔
قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے سربراہ خالد فہمی کہتے ہیں کہ مصری فوج بہت حد تک ’’گرے اکانومی‘‘ ہے۔ یہ نام اُسے اس لیے دیا جاسکتا ہے کہ اس کے بیشتر معاملات پردوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ کو فوج سے کسی بھی معاملے میں کچھ بھی پوچھنے کا اختیار نہیں۔ فوج کے کسی بھی ادارے یا کسی بھی معاملے کا آڈٹ نہیں کرایا جاسکتا۔
معروف صحافی جوشوآ حمار کے مطابق مصری فوج قومی معیشت کا کم و بیش ۴۰ فیصد کنٹرول کرتی ہے۔ جرمن اخبار ’’ڈائی ویلٹ‘‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوری ۲۰۱۱ء کی عرب بیداری کے بعد سے مصری معیشت میں فوج کا حصہ ۴۵ فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ بہت سے ماہرین اِن اندازوں کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مصری معیشت میں فوج کا حصہ یا عمل دخل ۶۰ فیصد تک ہے۔
جولائی ۲۰۱۳ء میں مخالفین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کے ذریعے مصری فوج نے یہ پیغام دیا کہ وہ معیشت کو مکمل طور پر اپنی مٹھی میں لینا چاہتی ہے اور اس معاملے میں وہ کسی کی کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اب مصری فوج نے سڑکوں کی تعمیر اور دیگر پرکشش منصوبوں میں اپنا عمل دخل بڑھا دیا ہے۔ اس نے اپنے اتحادیوں کو بھی اہم عہدوں پر بٹھادیا ہے تاکہ کسی بھی کام میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو۔ ٹھیکوں کے حصول میں ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کیے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر محمد مرسی نے نہر سوئز کے احیا کا خواب دیکھا تھا۔ انہوں نے جو منصوبہ عوام کے سامنے رکھا اس پر مکمل دیانت سے عمل کی صورت میں مصر کی آمدنی میں سالانہ اربوں ڈالر کا اضافہ متوقع ہے۔ مصری فوج نہیں چاہتی کہ نہر سوئز کی توسیع اور کسی حد تک تعمیر نو کا ٹھیکہ کسی اور کو ملے۔ نہر سوئز کے راستے عالمی تجارت کا آٹھ فیصد آگے بڑھتا ہے۔ یہ ایک اسٹریٹجک اثاثہ بھی ہے۔ نہر سوئز کو توسیع دینے کے منصوبے میں بندر گاہ اور ٹرمنل کی توسیع، نئے ایئر پورٹ کی تعمیر اور ایک نئے صنعتی زون کی ترقی بھی شامل ہے۔ یہ منصوبہ دو عشروں میں مکمل ہوگا اور اس پر کم و بیش ۸؍ارب ۶۰ کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے۔
صدر محمد مرسی کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے فوج نے نہر سوئز کے توسیعی منصوبے کا کنٹرول مکمل طور پر سنبھال لیا ہے۔ فوج اس پورے منصوبے میں سب سے بڑے اور کلیدی کنٹریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ نہر سوئز کے توسیعی منصوبے کے ٹھیکوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ جن بڑے ۱۴؍اداروں نے نہر سوئز کے توسیعی منصوبے کے لیے ٹھیکے حاصل کیے ہیں یا بولی دی ہے، اُن کے فوج سے روابط ہیں۔ ان اداروں نے مصر میں مشترکہ منصوبے شروع کیے ہیں۔ مثال کے طور پر نہر سوئز کے توسیعی منصوبے سے جڑی ہوئی ایک کمپنی سرکاری ملکیت کی ’’عرب کنٹریکٹرز‘‘ ہے جس کے سربراہ سابق نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم ابراہیم ملحب ہیں۔ ابراہیم ملحب کو صدر محمد مرسی کا تختہ الٹے جانے کے بعد فوج نے عبوری طور پر وزیراعظم کے منصب پر فائز کیا تھا اور پھر جنرل عبدالفتاح السیسی کے صدر منتخب ہونے پر اُنہیں مستقل وزیر اعظم کا درجہ دے دیا گیا۔
نہر سوئز کے توسیعی منصوبے کے لیے بولی دینے والی ایک اور کمپنی میریٹائم ریسرچ اینڈ کنسلٹیشن سینٹر ہے جس کا بورڈ آف ڈائریکٹر تقریباً پورا کا پورا سابق فوجی افسران پر مشتمل ہے اور اس بورڈ کے سربراہ ٹرانسپورٹیشن کے وزیر ہیں۔ دیگر کمپنیاں بھی مصر کے حلیفوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ٹھیکے حاصل کرتی رہی ہیں۔ ۲۰۱۳ء میں صدر محمد مرسی کا تختہ الٹے جانے کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مصری فوج کی بھرپور مدد کی تاکہ جمہوری قوتوں کے خلاف اُس کے قدم مضبوط ہوجائیں۔ گزشتہ برس فوجی بغاوت برپا ہونے کے بعد ستمبر سے دسمبر ۲۰۱۳ء کے دوران سڑکوں، پُلوں، سرنگوں اور رہائشی کمپلیکسز کی تعمیر سے متعلق ۶ بڑے ٹھیکے فوج کو مل گئے۔
مصر یا ملٹری اِن کارپوریٹڈ؟
جولائی ۲۰۱۳ء کے بعد سے تو مصر کی ہر اتھارٹی میں سب کچھ کسی نہ کسی فوجی افسر کے ہاتھ میں دکھائی دے رہا ہے۔ جرنیل معیشت کے ہر شعبے کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔ فوج اور اس کے ہم نوا معیشت کو پوری طرح اپنے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ اس شعوری کوشش کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب مصر میں ہر طرف ایسے کاروباری ادارے دکھائی دیتے ہیں جن کا نظم و نسق فوج کے ہاتھ میں ہے۔ ایک طرف تو فوج کے اپنے تجارتی، صنعتی اور مالیاتی ادارے ہیں اور دوسری طرف ریاستی اداروں پر بھی فوج نے قبضہ جمانا شروع کردیا ہے۔ یہ سلسلہ اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ اب فوج کے اثرات سے کوئی بھی شعبہ محفوظ نہیں رہا۔ ایسا نہیں ہے کہ مصر کی فوج کے معاشی ایڈوینچرز کے بارے میں کوئی بات ڈھکی چھپی ہے۔ علاقائی پریس میں سب کچھ سامنے آتا رہتا ہے۔ اسرائیل کے مشہور اخبار ہاریز نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ السیسی نے عوام کی خدمت کے نام پر اقتدار سنبھالا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے عوام کی خدمت کو بہانہ بناکر فوج کو مزید مضبوط کیا ہے اور اب فوج کے اعلیٰ افسران زندگی کے ہر شعبے کو اپنی گرفت میں لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ مصری فوج نے معیشت کے بہت بڑے حصے پر قبضہ تو کر رکھا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی کوئی ذمہ داری نبھانے کو تیار نہیں۔ جب معیشت کی خرابی کا ذکر آتا ہے تو فوج اپنا دامن بچالیتی ہے۔ جب فوج معیشت پر پوری طرح متصرف ہونا چاہتی ہے تو پھر اُسے معیشت کی تمام خرابیوں کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہیے۔
معیشت میں فوج کے کردار کے حوالے سے خصوصی مطالعہ کرنے والے امریکا کی کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی کے محقق جوشوآ اسٹیچر کہتے ہیں کہ مصر میں ہم ایک ایسی معیشت کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو تقریباً مکمل طور پر فوج کے ہاتھوں چلائی جارہی ہے۔
گزشتہ ستمبر میں جرمن انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل اینڈ سکیورٹی افیئرز کے لیے ایک مقالے میں مشرق وسطیٰ کے امور کے معروف ماہر اسٹیفن رول نے لکھا تھا کہ اگر مصر میں حسنی مبارک دور کی طرح یک طرفہ پالیسی ہی جاری رہی تو پھر معاشرے میں حقیقی امن اور سکون کبھی نہیں آسکے گا۔
مصر کی فوج نے اچھی خاصی منصوبہ بندی کے ذریعے معاملات کو اپنے حق میں کیا ہے۔ فوج کے تحت چلنے والے ادارے کسی بھی منصوبے کے لیے کم بولی دینے کی پوزیشن میں اس لیے ہیں کہ وہ ایک طرف تو ٹیکس ادا نہیں کرتے اور دوسری طرف کم آمدنی والے علاقوں سے انتہائی غریب افراد کو مزدوری پر لگاتے ہیں۔ ماہانہ ۲۸ ڈالر تک پر گزارا کرنے والے یہ غربا مصری فوج کے معاشی انجن کا ایندھن ہیں۔ اس حقیقت سے بھی صرفِ نظر ممکن نہیں کہ مصری فوج اپنے حریف اداروں کے لیے سخت ناموافق حالات پیدا کرتی ہے۔ بیورو کریسی پر قابض ہونے کے باعث فوج کسی بھی ادارے کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں کچھ خاص مشکل محسوس نہیں کرتی۔ فوج منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے حریفوں کو جھکنے یا پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔
مصری فوج نے ملک کے ۸۷ فیصد غیر زرعی رقبے پر بھی اپنا تصرف قائم کرلیا ہے۔ ملک بھر میں فوج جہاں بھی چاہتی ہے، اپنی مرضی کے مطابق زمین حاصل کرتی ہے اور اس پر اپنی مرضی ہی کے مطابق تعمیرات بھی یقینی بناتی ہے۔ بہت سے شہروں اور قصبوں میں بڑے بڑے قطعاتِ اراضی فوج نے ہتھیا رکھے ہیں۔ ان کی نگرانی کے لیے واچ ٹاور بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ان مقامات کی تصاویر لینا بھی ممنوع ہے یعنی عوام پر یہ واضح کردیا جاتا ہے کہ یہ ملٹری زون ہے۔ قاہرہ میں ساڑھے چار لاکھ مربع گز کا ایک بڑا پلاٹ ہے جس پر شاندار تعمیرات کی گئی ہیں۔ یہ پلاٹ گریٹر قاہرہ کے سامنے واقع ہے۔ متحدہ عرب امارات کی ایک کمپنی عمار گروپ اس پراجیکٹ کی نگرانی کرتی ہے۔ ’’کائرو کمپلیکس‘‘ کی مجموعی لاگت کم و بیش ۱۸؍ارب مصری پاؤنڈ ہے۔ گزشتہ فروری میں ایک باضابطہ سرکاری معاہدے کے تحت اس منصوبے پر کام کا آغاز ہوچکا ہے۔
یہ منصوبہ مکمل طور پر ایک پرائیویٹ شہر کا تصور پیش کرتا ہے۔ اس کا ایک پرائیویٹ روڈ بھی ہوگا جو شہر کے باقی حصوں سے اِس منصوبے کو ملائے گا۔ ملک کی جو بھی حالت ہے اس کا اس منصوبے پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا۔ قاہرہ کے وسط میں واقع اس پرائیویٹ شہر کا ملک کے باقی ماحول سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہوگا۔
’’اپ ٹاؤن کائرو پروجیکٹ‘‘ سے جڑے ہوئے لوگوں میں مصر کے مرکزی بینک کے گورنر اور مالیات، سرمایہ کاری، منصوبہ بندی، سپلائی، بجلی، پٹرولیم، ہاؤسنگ اور زراعت کے وزیر بھی شامل ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مصر کے عوام کو بہتر معیارِ زندگی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جو کام عوام نے انہیں سونپا ہے، وہ یہ نہیں کرتے اور نجی طور پر چلائے جانے والے اداروں کو کامیاب بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ کوئی حساب لینے والا نہیں۔ احتساب کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے۔
مصر کی فوج کو جو بیرونی امداد ملتی ہے، اس کا قومی خزانے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ امداد براہِ راست مصری فوج کے اکاؤنٹس میں جاتی ہے۔ اس امداد کے خرچ کیے جانے کے بارے میں کسی سے کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری طرف مصری فوج قومی خزانے سے ہر سال کم و بیش ۷۰؍ارب مصری پاؤنڈ لیتی ہے۔ یہ سب غریبوں کے خون پسینے کی کمائی ہے جس کا کوئی حساب طلب نہیں کیا جاسکتا۔ مصر کا عام باشندہ آج بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہا ہے۔ اس کی زندگی میں پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں۔ عوام کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سادگی اپنائیں اور ان کی محنت کی کمائی پر فوج کے تعیشات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
مصر کے فوجی حکمران عوام پر زور دیتے رہے ہیں کہ انہیں ملک اور قوم کے لیے اپنی صحت اور دولت قربان کرنی چاہیے۔ جب بھی ملک کی مالیاتی حالت کا تذکرہ آتا ہے، حکمران شور مچانے لگتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے جس کے بارے میں زیادہ پریشان ہوا جائے۔ یعنی سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا۔ معیشت کا حال بُرا ہے مگر فوجی حکمران اس طرف کسی کی توجہ جانے ہی نہیں دیتے۔ تمام فوائد بٹور کر یہ مسائل کو عوام کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ دو ماہ قبل ہی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ۷۸ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بجلی اور اشیائے خورونوش کے نرخوں میں بھی بہت جلد ۲۰۰ فیصد تک اضافہ کیے جانے کا امکان ہے۔ عوام کے لیے زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مصر کی فوجی اسٹیبلشمنٹ صرف خرابیاں پیدا کر رہی ہے۔ مصر کے ۴۰ فیصد باشندے خطِ افلاس سے نیچے رہتے ہوئے زندگی بسر کر رہے ہیں مگر دوسری طرف سرکاری مشینری سارے مزے لوٹ رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین اور فوجیوں کی تنخواہوں میں ہر سال باقاعدگی سے اضافہ کیا جاتا ہے۔ ایک طرف تو عوام پر زور دیا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سادگی اپنائیں اور دوسری طرف قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا بہانہ گھڑ کر فوجی بجٹ کو ہمیشہ صیغۂ راز میں رکھا جاتا ہے۔ فوج کے افسران کو کیا کیا سہولتیں ملتی ہیں، یہ کسی کو نہیں معلوم۔ فوج کے لیے مختص بجٹ کس طور خرچ کیا جاتا ہے، یہ بھی کسی کے علم میں نہیں۔ جب عوام پر خرچ کی جانے والی رقوم کا حساب طلب کیا جاتا ہے تو فوج پر خرچ کی جانے والی رقوم کا بھی حساب طلب کیا جانا چاہیے۔ جنوری ۲۰۱۱ء سے اب تک فوج کی تنخواہوں میں تین بار اضافہ کیا جاچکا ہے۔ آخری بار تمام افسران اور عام فوجیوں کی تنخواہوں میں کیا جانے والا اضافہ ۵۰ فیصد تھا۔ فوج کے بعض افسران کی تنخواہیں کروڑوں میں ہیں۔ منیجر آف سکیورٹی کو ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالر کے مساوی تنخواہ دی جاتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر اعلیٰ افسران کو کس قدر تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہوں گی۔
سوال صرف حاضر سروس افسران اور فوجیوں کے لیے بلند تنخواہوں اور مراعات کا نہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مصری فوج کے مزے کم نہیں ہوتے۔ ریٹائرڈ افسران کو بیشتر سرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کردیا جاتا ہے۔ ان کے لیے بہت سی ایسی سہولتیں بھی ہوتی ہیں جن کا عام آدمی کے لیے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ نہر سوئز کا سربراہ ایک سابق فوجی چیف آف اسٹاف ہے۔ بندر گاہوں کے سربراہان بھی سابق جرنیل ہیں۔ میری ٹائم اور لینڈ ٹرانسپورٹ کمپنی کے سربراہان بھی سابق فوجی افسران ہیں۔ وزیر صحت کا مالیاتی اور انتظامی امور کا نائب ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہے۔ یہی حال دیگر وزارتوں اور محکموں کا ہے۔ فوج نے ہر جگہ اپنے آدمی بٹھائے ہیں تاکہ بیورو کریسی سے اپنی مرضی کے فیصلے آسانی سے کرائے جاسکیں۔ موجودہ سپریم کانسٹی ٹیوشنل کورٹ کا سربراہ ایک سابق فوجی افسر ہے جو کسی زمانے میں فوجی عدالت کا جج ہوا کرتا تھا۔
مصر کی فوج نے معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ یہ آکاس بیل ہے جو درخت کا خون چوس رہی ہے۔ معیشت اور معاشرے کے ہر شعبے پر فوج مکمل متصرف ہونے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ فوج کے ہاتھوں مصری معیشت کا جو حال ہے اُسے دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ مصر کبھی فوج کے اثرات سے آزاد ہوسکے گا۔
“The Egyptian military empire”.
(“Middle East Monitor”. July 9, 2014)
Leave a Reply