تیونس: نئے دور کا آغاز؟

تیونس کو ۲۰۱۱ء میں آمر کی اقتدار سے بے دخلی اور جمہوریت کے راستے میں سفر کے آغاز سے ہی سخت مشکل حالات کا سامنا رہا ہے۔ معیشت جامد، کرپشن روز افزوں، دہشت گردی زوروں پر اور اصحاب سیاست میدان سے باہر ہیں۔

۱۳؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو ریٹائرڈ پروفیسر قیس سعیدتیونس کے نئے صدر منتخب ہوئے، اس تبدیلی سے امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے۔ اس موقع پر ہزاروں تیونسی عوام دارالحکومت میں جمع ہوئے خوشی اور جوش و جذبے کا اظہار کیا۔

صدرسعید نے اپنی کامیابی کو انقلابِ نو سے تعبیر کیا۔تاہم اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ انقلاب کس نوعیت کا ہوگا۔قیس سعید نے سیاست دانوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

۶۱ سالہ ریٹائرڈ پروفیسر نے ناموزوں انتخابی مہم چلائی، روایتی عربی میں سخت تقاریر کیں۔ ان کا کہنا تھا ہم جنس پرستی ایک ذہنی بیماری اور غیر ملکی سازش ہے۔انھوں نے وراثت میں مرد اور عورت کے یکساں حقوق کی بھی مخالفت کی۔قیس سعید نے مزید کہا کہ موجودہ سیاسی اور جمہوری نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔اگرچہ قیس سعید کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے، لیکن انہیں بائیں بازو، سیکولر جماعتوں اور معتدل اسلامی جماعت النہضہ کی حمایت حاصل تھی۔

قیس سعید نے اپنے حریف معروف تاجر نبیل القروی کو شکست دی ہے،القروی نے غریب عوام کومخاطب کرتے ہوئے ایک زبردست انتخابی مہم چلائی تھی۔ سیاسی اشرافیہ کے مقابلے میں یہ دونوں فریق حتمی مرحلے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ کئی ووٹروں کا خیال تھا القروی ایک موقع پر ست شخص ہے، جس پر پہلے ہی کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔اس تناظر میں قیس سعید کی شخصیت ایک اصول پسند شخص کی مانی جاتی ہے، جو کرپشن کے خاتمے اور اداروں کی اصلاح میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ قیس سعید نے بہت کم وقت انتخابی مہم میں صرف کیا، لیکن وہ ۷۳ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، ان ووٹروں میں ۹۰ فیصد نوجوان تھے۔ سگما کونسل کے مطابق ان کے تقریباً ایک تہائی ووٹروں نے پارلیمانی انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔قیس سعید کا کہنا تھا کہ عوام کو چاہیے اپنے مقامی نمائندوں کو ان کے کردار اور قابلیت کی بنیاد پر منتخب کریں۔ منتخب مقامی نمائندے مقامی قیادت کا انتخاب کریں گے،اس طرح مقامی نمائندے قومی اسمبلی کے ممبران کا انتخاب کریں گے۔قیس سعید کا کہنا تھا کہ طاقت کے ماخذ کا براہ راست تعلق عوام سے ہونا چاہیے۔مقامی نمائندوں کو اختیارات اور طاقت کی منتقلی کے عمل کو خاصے لوگوں نے سراہا۔ قیس سعید کے لیے اس وقت مشکل مرحلہ یہ ہے کہ وہ پارلیمان کی دو تہائی اکثریت کو آئینی ترامیم کے لیے راضی کریں۔

پارلیمان میں اس وقت ۲۰ جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے۔ ۲۱۹ میں سے ۵۲ سیٹ النہضہ کے پاس ہیں۔ القروی کی نئی جماعت قلب تونس ۳۸ سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔سابقہ حکمران جماعت ندا تونس کا تقریباً صفایا ہوگیا۔ ندا تونس کی شکست کی وجہ اس کے اہم افراد کا دوسری جماعتوں میں شامل ہونا اور محمد الباجی قائد السبسی کی وفات ہے۔ندا تونس صرف ۳ نشستیں حاصل کر سکی،اس نے ۲۰۱۴ء میں ۸۶ نشستیں حاصل کی تھیں۔

النہضہ کے پاس یہ پہلا موقع ہے کہ وہ اپنا وزیراعظم منتخب کروا سکے۔ لگتا ہے اتحادی جماعتوں کے درمیان مذاکرات میں خاصا وقت لگے گا اور بظاہر یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ان کے درمیان کسی بھی تنازع کا فائدہ قیس سعید کو ہوگا۔ عموماً صدر پالیسی ایشوز پر کم ہی بات کرتا ہے لیکن قیس سعید کو مضبوط مینڈیٹ حاصل ہے۔

موجودہ صدر کے لیے بے روزگاری اور قرضوں کی ادائیگی اہم چیلنج ہے۔عوام روزگار چاہتے ہیں لیکن آئی ایم ایف کے مطالبات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ عوام کا جمہوریت پر یقین اتنا پختہ نہیں،لیکن قیس سعید کی کامیابی اس بات کا مظہر ہے کہ ابھی کچھ امیدزندہ ہے اور وہ چاہتے ہیں کوئی ان کے زخموں کا مداوا کرے، انہیں مسائل سے باہر نکالے۔

(ترجمہ: محمود الحق صدیقی)

“A new hope: The election of Kais Saied gives Tunisians something to cheer”.(“The Economist”. Oct. 17, 2019)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*