
کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر ۲۸ دسمبر ۲۰۰۹ء کو عاشورہ کے جلوس میں بم دھماکے کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی نے شہر کے قدیم علاقے کے اس حصے کا حلیہ ہی تبدیل کردیا ہے۔ ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت سے لے کر ٹاور تک کی سڑک جو کبھی بندر روڈ کہلاتی تھی اور جسے بعد میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے نام سے منسوب کیا گیا ایسی کئی عمارتیں تھیں جنہیں وقت کی دیمک تو کھوکھلا نہیں کرسکی لیکن تخریب کاری سے نہ بچ سکیں۔
بزرگ دکاندار محمد عمر بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں ہندو تاجروں کی دکانیں تھیں پاکستان کے قیام کے بعد ان سے یہ دکانیں مسلمانوں نے لیں اور اکثریت میں وہ لوگ تھے جو انڈیا سے یہاں آئے تھے۔ شہر کی اس مصروف ترین سڑک کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہاں ٹرامیں چلتیں تھیں اور زندگی انتہائی پرسکون گزرتی تھی۔
ایک اور بزرگ دکاندار مقیم الدین کی جناح کیپ کے نام سے قراقلی ٹوپیوں کی دکان تھی، جو مکمل طور پر جل گئی ہے، اس عمارت کو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے منہدم کرنے کی تجویز دی ہے۔
پولیس اور تاجروں کا کہنا ہے کہ ان تاریخی عمارتوں کو نذر آتش کرنے کے لیے تیزاب استعمال کیا گیا تھا جس سے ان عمارتوں کے خوبصورت چہرے جھلس گئے اور جلد سے جلد دکانوں کی مرمت کرکے کاروبار شروع کرنے کی کوششوں نے ان کی رہی سہی شکل بھی بگاڑ دی۔
کراچی کی قدیم عمارتوں اور ان کے فنِ تعمیر سے گہری دلچسپی رکھنے والی ماہرِ تعمیرات یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ ڈینسو ہال کے پورے بلاک میں بارہ عمارتیں ہیں جو تاریخی اہمیت کی حامل ہیں ان میں سے پانچ کو قومی ورثہ بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ ان کے مطابق انگریز اس علاقے کو نیٹیو ٹاؤن یا بلیک ٹاؤن کہتے تھے، ۱۸۴۳ء میں بندر روڈ بنایا گیا تو اس کے بعد قدیم شہر بڑھنا شروع ہوا اور اس علاقے کا نام مارکیٹ کوارٹر رکھا گیا۔ اس علاقے میں جو عمارتیں ہیں وہ شہر کی سب سے قدیم عمارتیں ہیں ان کی اپنی ایک شناخت ہے۔
کراچی کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے سرگرم غیر سرکاری ادارے ہیریٹج فاؤنڈیشن نے آتش زنی سے متاثرہ عمارتوں کی عجلت میں مرمت اور انہدام پر متعلقہ اداروں کے پاس اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جس کے بعد اس علاقے کے سروے کا فیصلہ کیا گیا۔ سروے ٹیم میں شامل پاکستان انجنئرنگ کونسل کے نجیب ہارون نے بی بی سی کو بتایا کہ متاثرہ علاقے میں تاجر تنظیمیں، عمارتوں کے مالکان اور شہری ادارے موجود ہیں جن میں کوئی ربط نہیں ہے مگر سب کا اس بات پر اتفاق ہیں کہ اس کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے حالانکہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کئی ایسی عمارتیں تھیں جو قابل مرمت تھیں۔ نجیب ہارون کے مطابق انہوں نے کچھ تجاویز دی تھیں مثلا عمارتوں کا جو فریم ہے اسے بچایا جائے یا جو عمارتیں گری ہیں انہیں انہی کی بنیاد استعمال کرکے تعمیر کیا جائے۔ ایسے معاملات میں لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مفادات سامنے آ جاتے ہیں اور قانون اور اداروں کو درمیان میں آجانا چاہیے۔
یاسمین لاری کے مطابق کسی بھی شہر کی پرانی عمارتیں اس کا اثاثہ ہوتی ہیں ان سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ شہر کیا تھا یہاں کیسے ترقی ہوئی اور کون سے کمیونٹی تھی جس نے اس میں حصہ لیا۔ ’شہر کا انچ انچ قیمتی ہے اگر یہاں پلازہ بنائیں گے تو ظاہر ہے زیادہ پیسے بنیں گے مگر سوال یہ ہے کہ کتنا پیسہ بنائیں گے شہر کو بھی تو بچانا ہے آئندہ نسلوں کے لیے بھی کچھ بچاکر رکھنا ہے‘۔
(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply