
جب دسمبر ۲۰۰۴ء میں ایشیا میں زلزلہ اور سونامی آیا تو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے فیصلہ کیا کہ بھارت آفات سے نمٹنے کے لیے دوسرے ممالک کی امداد قبول نہیں کرے گا بلکہ خود ہی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جائے گا۔ انہوں نے کہا ’’ہم خود ہی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو بیرونی مدد لیں گے‘‘۔ یہ بھارت کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت کے بارے میں ایک اہم سیاسی بیان تھا اور بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ منموہن سنگھ کی حکومت نے ۲۰۰۵ء کے سمندری طوفان کے بعد امریکا اور ۲۰۰۸ء میں سچوان کے زلزلے کے بعد چین کو امداد کی پیش کش کی۔ یہ قومی فخر اور خود کفالت کا اظہار تھا اور امداد فراہم کرنے والے بڑے ممالک کے لیے ایک واضح پیغام بھی تھا۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے پالیسی تبدیل کرنے کے دباؤ کے باوجود ۲۰۱۸ء میں کیرالہ میں سیلاب کے دوران بھی بیرونی امداد قبول کرنے سے انکار کیا۔ لیکن مودی جنہوں نے خودانحصار بھارت کے نعرے کے ذریعے قوم پرستی کی مستقل مہم چلائی اب اچانک پالیسی بدلنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے بھارت سے آنے والی تصویروں میں سڑک پر بغیر آکسیجن مرتے انسانوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ جن کی تدفین کرنے والا بھی کوئی نہیں، پالتو کتوں کوانسان کی آخری رسومات کے لیے استعمال کیاجارہا ہے، کورونا کی دوسری لہر نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جس کے بعد مودی حکومت نے ۴۰ کے قریب ممالک کی جانب سے امداد کی پیشکش قبول کرلی۔ بھارتی سفارت کاروں نے آکسیجن پلانٹس اور دوائیوں و دیگر سامان کے لیے غیر ملکی حکومتوں سے بات چیت کی ہے۔ بھارت کے اعلیٰ ترین سفارت کار ہرش وردھن شرینگلہ نے شرمناک یوٹرن کی توجیح پیش کرتے ہوئے حکومتی فیصلے کی سوشل میڈیا پر تعریف کی۔ انہوں نے لکھا ’’ہم نے امداد دی ہے، ہماری مدد کی جارہی ہے، اس سے پتا لگتا ہے کہ کس طرح آزاد دنیا ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر تی ہے‘‘۔ دنیا ایک دوسرے کے ساتھ کام کررہی ہے، مگریہ کوئی مودی کی خارجہ پالیسی کی کامیابی نہیں بلکہ کورونا کی وجہ سے بگڑتی صورتحال میں محاسبہ کا لمحہ ہے۔
وزیراعظم مودی کی قوم پرست حکومت کے سات برس بعد ان کا اہم ترین ’’خود انحصار بھارت‘‘ کا ایجنڈا کوڑے دان میں پڑا نظر آتا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور سے بھارت کو چار ملکی اتحاد میں چین سے مقابلے کے لیے ہند بحرالکاہل خطے کی حکمت عملی میں اہم ملک تصور کیا جارہا ہے۔ اس کردار کو ادا کرنے کے لیے بھارت کو مزید محنت کرنی ہوگی۔ اس دوران کورونا کی دوسری لہر میں چین نے بھارت کے پڑوسی ممالک میں اپنی سرگرمیاں دگنی کردی ہیں، جس سے چین کے جنوبی ایشیائی ممالک سے تعلقات مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔ جس کا مقابلہ کرنا بھارت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ کوئی شک نہیں چند مہینوں میں دہلی میں معمول کی صورتحال لوٹ آئے گی، لیکن وبا سے نمٹنے کے دوران نااہلی کا مظاہرہ نئی دہلی کو اسلام آباداور بیجنگ سے مذاکرات میں کمزور کردے گا۔ اس سے بھی زیادہ نقصان بھارت کی عالمی ساکھ کو ہوگا،پہلے ہی مودی کی آمرانہ حکومت کی وجہ سے بھارت کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔ یہ حکومت کا بہت بڑا مسئلہ ہے، یہ عالمی ساکھ ہی تھی جس نے بھارت کو عالمی سطح پر اہم اداروں کی نمائندگی کے لیے منتخب کروایا۔ کچھ وقت بعد بھارت کی سڑکوں پر مرتے مریضوں اور جلتی لاشوں کی تصاویر پس منظر میں چلی جائیں گی۔ لیکن بھارت کی سفارتی قدر اور جغرافیائی اہمیت دوبارہ بحال کرنے میں مہینے او ر کئی برس لگ سکتے ہیں۔ اس کے لیے مسلسل کوششیں کرنی ہوں گی اور مودی کے منتخب کردہ وزیر خارجہ ایس جے شنکراس کام کے لیے بالکل بھی موزوں نہیں ہیں۔
مارچ میں جب بھارت میں کورونا کی دوسری لہر شروع ہوچکی تھی توجے شنکر کی وزارت پاپ اسٹار ریحانہ اور ماحولیاتی تبدیلی کی کارکن گریٹا کے خلاف سرکاری بیانات دینے اور سوشل میڈیا مہم چلانے میں مصروف تھی۔ گزشتہ مہینے بھارت میں کورونا بحران کے عروج پر جے شنکر دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں موجود بھارتی سفیروں کے ساتھ عالمی میڈیا میں نام نہاد یکطرفہ بیانیے کے مقابلے کے لیے اجلاس کررہے تھے، جس سے مودی حکومت کی کورونا کی دوسری لہر کے دوران نااہلی کا پتا لگتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جے شنکر حکومت کی ویکسین دوستی پروگرام کے سب سے پُرجوش حامی تھے۔ جس کے تحت نئی دہلی نے ۵۹ ممالک کو بھارت کی تیار کردہ ویکسین آسٹرازینیکا کی تقریباً ۶۶؍اشاریہ ۶ ملین خوراکیں فراہم کیں، ویکسین کے بکس پر مودی کی نمایاں تصاویر لگائی گئی تھی۔ یہ ویکسین تجارتی معاہدے، دوطرفہ گرانٹ اور غریب ممالک کے لیے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اسکیم کے تحت فراہم کی گئی تھیں۔ دریں اثنا بھارت میں ویکسی نیشن کا عمل انتہائی مایوس کن رہا ہے، دنیا میں سب سے زیادہ ویکسین بنانے والا ملک ہونے کے باوجود بھارت کی محض ۲ فیصد آبادی کو ویکسین لگائی جاسکی ہے، کورونا کی دوسری لہر کے بے قابو ہونے کی یہی سب سے بڑی وجہ تھی۔ ذاتی شان وشوکت کے لیے دنیا بھر میں ویکسین بانٹنے کے بعد مودی نے بھارت کی ۱۶ سالہ پالیسی تبدیل کردی، اب وہ امریکا سے ویکسین کی ۲۰ ملین خوراکوں کا انتظار کررہے ہیں۔ حالانکہ بھارت آفات کے دوران بیرونی امداد وصول کرنے کے خلاف رہا ہے۔ امریکا ااور روس جیسے دوست ممالک سے بھارت کا امداد قبول کرلینا اچھی مثال نہیں، لیکن بھارت نے چین سے انتہائی کشیدہ تعلقات کے باوجود وہاں کی امداد کو بھی قبول کرلیا۔ بھارتی وزیراعظم کے لیے سب سے زیادہ توہین آمیز بات پاکستان کی جانب سے طبی سامان کی فراہمی کی پیشکش کرنا ہے۔ صورتحال اس قدر افسوسناک ہے کہ بھارت کو بھوٹان جیسی چھوٹی ریاست سے روزانہ ۸۸ ہزار پاؤنڈ آکسیجن درآمد کرنا پڑرہی ہے۔ زیادہ تر بھارتی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا ملک گزشتہ سال معاشی بحران کا شکار رہا، اسی لیے بیرونی امداد قبول کرنا پسند یا ناپسند سے زیادہ مجبوری بن گیا تھا۔ لیکن وہ اس پر کیا کہیں گے کہ وبا کے بدترین دور میں بھی نئی دہلی میں ۲؍ارب ڈالر کی مالیت سے سرکاری دفاتر کی تعمیر کا کام بلاروک ٹوک جاری ہے اور اس میں مودی کے لیے رہائش گاہ کی تعمیر بھی شامل ہے۔ مودی نے کئی عالمی دوروں کے ذریعے بھارت کا قومی وقار بڑھانے پر فخر کیا۔ ان کے قوم پرست حامی سمجھتے ہیں کہ بھارت امریکا اور چین کی طرح ایک عالمی طاقت بن چکا ہے، یہ تاثر اندورنی سیاسی فائدے کے ساتھ جڑا ہے، ہندوتوا یا ہندو قوم پرستی کے نظریہ نے ہی ان کی بالادستی کو ممکن بنایا تھا۔ لیکن اب اس صورتحال میں مودی کے حامیوں کا عالمی طاقت کاخواب بکھر چکا ہے۔مودی کے حامیوں کو ایک بار پھر تیسری دنیا کے ملک کا شہری ہونے کی حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا، جو بیرونی امداد کے بغیر چل نہیں سکتے۔ چونکہ وبا کی وجہ سے معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے، اس لیے مودی اب اپنے حامیوں کے سامنے معاشی ترقی کو بھی پیش نہیں کرسکتے۔ مودی نے نام نہاد خارجہ پالیسی کے ذریعے بھارت کے لیے جو فخر، وقار اور عالمی احترام کی عمارت تعمیر کی تھی وبا نے اس کو مسمار کردیا ہے۔ وبائی امراض نے بھارت کو کئی اور طریقوں سے بھی نقصان پہنچایا۔ کواڈ کے رُکن ملک آسٹریلیا نے اپنے شہریوں کے بھارت سے وطن واپسی پر پابندی لگادی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں ۵برس قید کی سزا تجویز کی ہے۔ مارچ میں کواڈ کے سربراہی اجلا س میں طے پایا تھا کہ گروپ ۲۰۲۲ء تک ہند بحرالکاہل کے خطے میں کورونا ویکسین کی ایک ارب خوارکیں تقسیم کرے گا۔ اس ویکسین کے لیے سرمایہ امریکا اور جاپان کو فراہم کرنا تھا، جبکہ ویکسین کی تیاری بھارت میں ہونا تھی اور ویکسین کی تقسیم آسٹریلیا کو کرنا تھی۔ اس اقدام کا مقصد گروپ کے سیکورٹی مرکز ہونے کے تاثر کو دور کرنا اور چین کے مقابلے میں اپنی ساکھ کو بہتر بنانا تھا۔
بھارت کی جانب سے وبا سے متاثرہ اپنے شہریوں کو ویکسین کی فراہمی میں مشکلات کے بعد کواڈ کی جانب سے مقررہ وقت پرایک ارب ویکسین کی خوارکوں کی تقسیم کا امکان ختم ہوچکا۔ جس کے نتیجے میں کواڈ میں نئی دہلی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اگر وبا کے نتیجے میں بھارت لڑکھڑا جاتا ہے تو کواڈ کا امریکی خواب کبھی حقیقت نہیں بن سکے گا۔ بیجنگ پہلے ہی بھارت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے آگے بڑھا رہا ہے تاکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کر سکے۔ گزشتہ مہینے چینی وزیر خارجہ نے افغانستان، بنگلادیش، نیپال، پاکستان اور سری لنکا کے ہم منصبوں کے ساتھ کورونا کے حوالے سے تعاون کے لیے اجلاس کیا، جس میں بھارت موجود نہیں تھا۔ اگرچہ افغانستان، بنگلادیش، نیپال اور سری لنکا کو بھارت کی جانب سے کچھ ویکسین فراہم کی گئی ہے، لیکن اس سے زیادہ کی توقع کی جارہی تھی۔ نئی دہلی کی جانب سے اپنے کمرشل وعدے پورے نہ ہونے کے بعد یہ ممالک ویکسین کی فراہمی کے لیے بیجنگ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ایشیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان پر کشش اور بااعتماد ہونے کی دوڑ لگی ہے، جس میں بھارت چین سے پیچھے ہوتا جارہا ہے۔ چین پہلے ہی متنازع سرحد پر بھارت پر دباؤ ڈال چکا ہے۔ لداخ میں کشیدگی میں کمی کے باوجود چین نے گزشتہ موسم گرما میں بھارت کے زیر قبضہ علاقوں سے فوجیں واپس بلانے سے انکار کردیا ہے۔ جس کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کے آخری دور میں بھارت کی ان علاقوں پر چینی قبضے کے حوالے سے بات چیت کی کوشش ناکام ہوگئی۔ اب متنازع سرحد کے قریب مستقل عسکری انفراسٹرکچر تعمیر کرکے چینی فوجوں کو تعینات کردیا گیا ہے۔ اگر بھارت کی جانب سے کبھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جانا تھا تو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ابھی تھی، لیکن کورونا کی دوسری لہر نے صورتحال کو بالکل الٹ دیا۔ اسی طرح ان حالات کا نئی دہلی کے اسلام آباد سے بیک چینل مذاکرات پر بھی اثر پڑے گا۔ جہاں پاکستان ممکنہ طور پر بھارت کی کمزور پوزیشن کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ بھارت ان مذاکرات کو ترک بھی نہیں کرسکتا، کیوں کہ بھارت، چین اور پاکستان سے بیک وقت مقابلے کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد سے مذاکرا ت پر مجبور ہوا ہے۔ وبا سے ملک اور معیشت کو پہنچنے والے نقصان سے بھارت کے لیے خطرات میں بہت اضافہ ہوگیا، جس سے پاکستان کو مذاکرات میں غیر متوقع فائدہ پہنچے گا۔ اگرچہ بھارتی سفارتکار اب بھی بیجنگ اور اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات میں کسی نقصان سے بچ سکتے ہیں، لیکن ان کے لیے ملک کی عالمی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔
لبرل جمہوریت کی حیثیت سے بھارت کی ساکھ پہلے ہی ختم ہو چکی ہے، مگر حالات سے نمٹنے کے لیے ملک کی صلاحیت آج بھی ترقی پذیر ملکوں کے لیے ایک مثال تھی۔ لیکن کورونا کی دوسری لہر سے نمٹنے میں ناکامی اور پیسے وصول کرلینے کے باوجود ایشیائی اور افریقی ممالک کو ویکسین فراہم نہیں کر پانا، ایسا نقصان ہے جس کی بھر پائی ممکن نہیں ہے۔ بھارتی فی الحال مودی کی نااہلی سے آنے والی انسانیت سوز تباہی سے نمٹ رہے ہیں۔ جس سے نئی دہلی کے عالمی طاقت بننے کے عزائم کو ایک دھچکا لگا ہے۔ مودی کے ماتحت وزیرخارجہ جے شنکر بڑے فخر سے ڈینگیں مارتے تھے کہ وہ کئی گیندیں بیک وقت ہوا میں اچھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورایسے کہ کوئی بھی گیند زمین پر نہیں گرے گی۔ لیکن اب تمام گیندیں فرش پر پڑی ہیں اور ان گیندوں کو دوبارہ اٹھا کر کام شروع کرنے کے لیے ملک کو عاجزی، ایمانداری اور غیر معمولی کوششوں کی ضرورت ہوگی۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“The End of Modi’s Global Dreams”.(“Foreign Policy”. May 3, 2021)
Leave a Reply