
ایک ایسے وقت میں کہ جب دنیا بھر میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو (بی آر آئی) کو شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے، سری لنکا میں راجا پکسا خاندان کا دوبارہ اقتدار میں آنا چینی قیادت کے لیے انتہائی خوش آئند ہے تاہم دوسرے تمام فریقین کے لیے یہ سب کچھ زیادہ اچھا نہیں۔
جنوبی ایشیا کی سب سے پُرانی جمہوریتوں میں سری لنکا بھی شامل ہے مگر اب خطرے میں دکھائی دے رہی ہے۔ آئندہ ماہ صدارتی انتخاب ہونا ہے، جس میں راجا پکسا خاندان کے ایک فرد کی فتح یقینی ہے۔ یہ خاندان مطلق العنانیت، تشدد اور کرپشن کے حوالے سے خاصا بدنام ہے۔ گزشتہ برس صدر میتھیلی پالا سری سینا نے آئینی بغاوت کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی۔ خیر، یہ بغاوت کامیاب ہو بھی جاتی تو گوٹا بایا راجا پکسا کی ممکنہ صدارت کو کسی طور برداشت نہ کر پاتا۔
گوٹا بایا اس وقت مضبوط ترین صدارتی امیدوار ہے۔ وہ ملک کا وزیر دفاع رہ چکا ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب اس کا بھائی مہندا راجا پکسا، یعنی میتھیلی پالا سری سینا کا پیش رَو، ملک کا صدر تھا۔ مہندا پکسا کا اقتدار کم و بیش ایک عشرے پر محیط تھا۔ اس دوران اقتدار کے تمام مآخذ پر چار بکسا بھائی متصرف رہے۔ تمام وزارتوں اور محکموں پر اُن کا غیر معمولی کنٹرول تھا اور ملک کے بجٹ کا کم و بیش ۸۰ فیصد اِن کی مرضی سے خرچ ہو پاتا تھا۔ اُنہوں نے اقربا پروری کی بدترین مثال قائم کی۔ مہندا پکسا نے اپنے منصب کے اختیارات میں غیر معمولی اضافے کی کوشش بھی کی اور ایسی آمریت قائم کی جس پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔
مہندا پکسا کا جھکاؤ واضح طور پر چین کی طرف رہا۔ سری لنکا میں چین کا اثر و رسوخ بڑھنے دیا گیا اور اس کے نتیجے میں ملک پر چین کے قرضے بھی بڑھے۔ مہندا پکسا دور کے قرضوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ ہی کے باعث صدر میتھیلی پالا سری سینا کو ۲۰۱۷ء میں ایک معاہدے کے تحت بحر ہند کی اہم ترین اسٹریٹجک بندر گاہ ہمبنٹوٹا ۶۰۶۷ ہیکٹر (۱۵۰۰؍ایکڑ) متصل اراضی کے ساتھ ۹۹ سال کی لیز پر چین کے حوالے کرنا پڑی۔ ہانگ کانگ اسٹائل کی رعایت ۱۹ویں صدی کے برطانوی نوآبادیاتی نظام کی طرز سے ہم آہنگ تھا۔
اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ صدر بنتے ہی گوٹا بایا پکسا کو امریکی عدالتوں میں سابق دور کے جنگی جرائم کے مقدمات سے مکمل استثنیٰ مل جائے گا۔ جب پارلیمان نے صدر منتخب ہونے کے حوالے سے باریوں کی حدود کو بحال کیا تو مہندا پکسا کے لیے دوبارہ صدر بننا ممکن ہوا۔ یہ دیکھتے ہوئے گوٹا بایا نے امریکا میں سکونت ترک کرکے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا تاکہ صدر کے منصب پر فائز ہوا جاسکے۔
۲۰۰۹ء میں مہندا راجا پکسا کے دور میں سری لنکا کی ۲۵ سالہ خانہ جنگی ختم ہوئی مگر خیر، مہندا امن کا ایجنٹ نہیں تھا۔ خانہ جنگی کے آخری برسوں میں امدادی کارکنوں، تامل شہریوں اور راجا پکسا فیملی کے مخالفین سمیت ہزاروں افراد غائب کردیے گئے یا اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سری لنکن فوج نے خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے جب آخری حملہ کیا تو مبینہ طور پر کم و بیش چالیس ہزار تامل شہری مارے گئے۔ اقوام متحدہ نے اِسے بین الاقوامی قانون کو یکسر مسترد کرنے والا اقدام قرار دیا۔ خانہ جنگی کے دور کے ملٹری کمانڈر سرتھ فونسیکا نے بتایا کہ گوٹا بایا راجا پکسا ہتھیار ڈالنے والے تامل باغیوں کو فوری طور پر ہلاک کرنے کا حکم دے دیا کرتا تھا۔
تامل شہریوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے کے بعد راجا پکسا برادران کو سری لنکا میں مجموعی طور پر ہیرو کا درجہ دیا گیا۔ اس سے دونوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اُنہوں نے کثیرالنسلی ملک کو یک نسلی (سنہالیز) ملک میں تبدیل کرنے کی ٹھانی۔ سنہالی اکثریت نے دیگر تمام نسلی اقلیتوں پر حقوق اور اختیارات کے دروازے بند کردیے۔
اس وقت سری لنکا میں سنہالی اکثریت اور مسلم اقلیت کے درمیان بھی شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ یہ کشیدگی ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ گوٹا بایا راجا پکسا نے صدر کا منصب پالیا تو ممکنہ طور پر یک نسلی ریاست کے ایجنڈے ہی کو بحال کیا جائے گا۔ اپریل میں ایسٹر کے موقع پر کئی گرجا گھروں کو بموں سے نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ۲۵۳؍افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ ان حملوں کا الزام اسلامی شدت پسندوں پر عائد کیا جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ان دھماکوں کے حوالے سے معلومات پہلے سے حاصل نہیں تھیں۔ خفیہ اداروں نے بھارتی ذرائع کی مدد سے اطلاع دے دی تھی کہ دھماکے کیے جانے والے ہیں مگر صدر اور وزیر اعظم میں سے کسی نے بھی ان رپورٹوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا، اس لیے کوئی پیشگی اقدام نہیں کرسکے۔ میتھیلی پالا سری سینا نے صدر کی حیثیت سے اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے کو برطرف کرتے ہوئے مہندا راجا پکسا کو ذمہ داریاں سونپیں، تاہم ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس اقدام کو یکسر غیر آئینی قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا۔
راجا پکسا برادران نے ’’اسلامی بم دھماکوں‘‘ کو ملک میں سنہالی قوم پرستی کے مزید فروغ کے لیے پہلے ہی استعمال کرلیا ہے۔ گوٹا بایا راجا پکسا نے صدارتی انتخاب میں کامیابی کی صورت میں ملک کو اسلامی انتہا پسندی سے نجات دلانے کے لیے خفیہ اطلاعات اور نگرانی کے نظام کو مزید سخت کرنے کا اپنے ووٹروں سے وعدہ کیا ہے۔ اقلیتوں، میڈیا اور شہری آزادی کے لیے آواز اٹھانے والوں کو مزید خوفزدہ کرنے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت مقدمات کا سامنا کرنے والے ایک متنازع شخص کو صدر کے منصب تک پہنچنے کا موقع مل رہا ہے۔
چند اور پریشان کن خبریں بھی ہیں۔ قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ اگر گوٹا بایا راجا پکسا کو صدر کا منصب مل گیا تو چین سے تعلقات بحال ہوجائیں گے۔ سری لنکا دنیا کی معروف و مصروف ترین تجارتی بحری گزر گاہوں کے نزدیک واقع ہے۔ چین کا سری لنکا کے مزید نزدیک آنا بہت سے ممالک کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے۔ بحری معاملات میں برتری کے حوالے سے چین کو بھارت، امریکا، آسٹریلیا اور جاپان سے شدید مطابقت کا سامنا ہے۔ ایسے میں سری لنکا برتری کے حصول کے لیے چین کی بھرپور معاونت کرسکتا ہے۔ چین اس وقت بحر ہند کی اہم ترین گزر گاہوں کے نزدیک اسٹریٹجک اہمیت کی حامل بندر گاہوں اور ایسے ہی دیگر مقامات پر تصرف کے لیے کوشاں ہے۔ اِسے ’’اسٹرنگ آف پرلز‘‘ (موتیوں کی لڑی) کہا جارہا ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ سری لنکا کی ہمبنٹوٹا پورٹ کو اپنی مجوزہ بحری شاہراہِ ریشم کے لیے کلیدی نوعیت کا عنصر قرار دے چکے ہیں۔ یہ چین کے لیے ایک انتہائی قیمتی موتی ہے۔ چینی قیادت سری لنکا کو ایک اہم ملٹری آؤٹ پوسٹ میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ بات بھارت، امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔ اگر گوٹا بایا راجا پکسا کو صدر کا منصب ملا تو مہندا راجا پکسا کے دور میں جن سے زیادتی ہوئی اُنہیں انصاف کے ملنے میں مزید تاخیر ہوگی، ملک میں مذہبی اور نسلی کشیدگی مزید بڑھے گی اور چین کو ایشیا و بحرالکاہل کے خطے (اوشیانا) میں اپنی پوزیشن غیر معمولی حد تک مستحکم کرنے کا موقع ملے گا۔ ایسے میں سری لنکن جمہوریت ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہدف پذیر دکھائی دے رہی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The End of Sri Lankan Democracy?” (“project-syndicate.org”. Oct. 17, 2019)
Leave a Reply