فلسطین‘ عراق اور افغانستان کا دشمن ایک ہی ہے!

اس وقت ساری دنیا کمزوری و بے بسی اور بزدلی و بے حمیتی کے طعنے خاموشی سے سنتے ہوئے الزامات کے کٹہرے میں سرجھکائے کھڑی ہے۔ اس کے تمام حواس کے احساسات جامد ہو گئے ہیں۔ گویا اس کی کیفیت یہ ہے کہ نہ میں سن سکتا ہوں‘ نہ دیکھ سکتا ہوں اور نہ بول سکتا ہوں۔

لاپتا ہو جانے اور اغوا کر لیے جانے والے بے بس انسانوں کی چیخیں بلند ہوتی ہیں‘ تشدد سے دوچار مجبوروں کی سسکیاں آسمانوں تک پہنچتی ہیں‘ مگر انہیں اپنی ہی صداے بازگشت کے سوا کہیں سے کوئی جواب نہیں ملتا۔ بدترین خاموشی اور مایوس کن نظروں نے زبانوں کو گنگ کر رکھا ہے۔

فلسطین کے شہر غزہ میں یہودیوں کے راکٹ گرجتے اور عراق و افغانستان میں امریکیوں کے بم برستے ہیں۔ ہر جگہ پر ٹارگیٹ بنائے گئے انسانوں کو یہ راکٹ اور بم ابدی سکون کی وادی میں پہنچا دیتے ہیں۔ لیکن انسانیت کے اوپر بے بسی کا ایسا دبائو ڈال جاتے ہیں کہ اس میں چیخنے چلانے کی سکت بھی نہیں رہتی اور زندگی کے تمام تر مفہوم و معانی میں لاقانونیت محوِ رقص ہو جاتی ہے۔

پھر بھی یہ ظالم انسان اور انسانیت‘ وطن اور وطنیت اور حق اور حقوق کی باتیں کرتے ہیں۔ وحشیانہ حملوں کی تاریکی میں برقی پروپیگنڈے چمکتے ہیں اور معصوم و بے گناہ خون کے سمندروں میں چکنے چپڑے الفاظ پگھلنے لگتے ہیں جبکہ حق کی آوازیں خود ساختہ دہشت گردی کے لبادے میں لپیٹ دی جاتی ہیں۔ لیکن حقیقت فلسطین کے معصوم بچوں کے اپاہج پن اور اس کے ان اثرات کی صورت میں باقی رہتی ہے جو ان لڑھکتے جسموں پر موجود ہیں جن کو قبضہ گیر قوتوں نے دریاے فرات کے کنارے زخم زخم کر ڈالا ہے اور جن کی انسانی لاشوں نے افغانستان کی وادیوں اور کھیتوں کو ڈھانپ دیا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ وہ جدید عالمی ضمیر بھی انہیں دفن کر دیتا ہے جس کے اندر اس تہذیب کی مرغوبات کو ہضم کر جانے کی طاقت ہے جس کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اپنے باورچی خانے میں تیار کرتا ہے۔

الزام تراشی کے لیے اٹھنے والی انگلیاں کسی حکمران و رعایا‘ عربی و مغربی اور مسلم و مسیحی میں کوئی فرق نہیں کرتیں۔ کسی رنگ و نسل کا لحاظ نہیں رکھتیں۔ ہر کسی کو خاموشی کے حصار میں بند کر دیا گیا ہے اور ہر کوئی اپنی بے بسی پر طعنوں کا نشانہ بن کر رہ گیا ہے۔ ہر کوئی ایک میت ہے جب تک کہ قبر اس کی پہچان نہ بن جائے۔

کیا یہ رلا دینے والی ہنسی نہیں ہے کہ انسان حیوانات کی نسل ناپید ہو جانے کے خوف سے تو ان کے لیے پناہ گاہیں تیار کرے لیکن فلسطینی انسان کو وحشی یہودیت کے ہاتھوں اپنے ہی مکان کے ملبے تلے دبا دیا جائے؟

کیا یہ حیران کن اور تجب خیز تضاد نہیں ہے کہ ایسی نگرانی کے دعوے کی بنیاد پر عراق کے انسان پر دنیا تنگ کر دی جائے جو تسلط کے جبڑوں سے نکلتی ہو جبکہ اسی تسلط کے انگریزی دستے اس جرم میں عدالت میں پیش کیے جارہے ہیں کہ چھائونیوں میں وہ جنسی تشدد کیا کرتے تھے۔

’’انسانیت‘‘ کی لغت اپنی ان خوبصورت عبارات میں افغان انسان کو کیوں شامل نہیں کرتی جو عبارات ایئرکنڈیشنڈ ایوانوں سے محض اس لیے جاری کی جاتی ہیں کہ وہ ان کو اس انسانی زندگی کے مقابل کوئی کام دے سکیں۔ جس کو امریکی پالیسیاں آزادی کی بھٹی سے نکال کر آخرت کی سردی میں پہنچانے سے پہلے ہی گرم کردیتی ہیں۔

جس انسانی صورت حال کے جدید خد و خال سرخ یہودیوں کی چمڑیوں پر نئی سیاہی سے نقش کیے جارہے ہیں۔ اس کی دوات کے سفوف افغانی‘ عراقی اور فلسطینی انسان ہیں۔ ان سب پر امریکی (پرچم کے) ستاروں کی مہر لگی ہوئی ہے۔

یہ صورتحال انسانیت کو ہر خاموش خائف‘ ڈرپوک و بزدل اور بھاڑے کے ٹٹوئوں کی صورت میں جنگل کے قانون سے خوفزدہ کرتی ہے اور پھر اسی لمحے ہر کسی پر یلغار کر ڈالنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور کسی آہٹ و خاموشی پر بھی بس نہیں کی جاتی کیونکہ درندوں کا دل اس وقت تک بھر نہیں سکتا جب تک وہ سارے جنگل پر قبضہ نہ کر لیں۔

ہمارے عالم عرب و اسلام پر لگنے والا الزام تو اور بڑی مصیبت ہے۔ صرف مصیبت ہی نہیں بلکہ فوری اور مقررہ مصیبت ہے۔ دنیا میں ذلت و حقارت اور آخرت میں سخت حساب کی وعید!: ’’جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟‘‘۔ (النساء:۹۷)

مسلمانو! عنقریب سب کے سب میدان میں ہوں گے‘ سوائے اس کے جس کو میرا رب محفوظ رکھ لے۔ اس وقت عربی‘ ہندی اور افریقی مسلمان میں کوئی فرق نہ ہو گا۔ ہر کسی کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون گر رہا ہو گا اور ہر ایک کو عراقیوں کے ساز و سامان لاجواب کر رہے ہوں گے۔

اس وقت سرزمین افغانستان پر ٹینکوں سے کچل دی جانے والی کھوپڑیوں سے باہر نکل آنے والی پھٹی ہوئی آنکھیں سب کو اندھا بنائے جارہی ہوں گی۔ ہر جگہ مساجد کے مینار اور گنبد کہہ رہے ہوں گے: ’’آئو جہاد کی طرف!‘‘ کا نعرہ کہاں گیا؟ اسی لمحے آپ کو نداے ربانی کے یہ الفاظ یاد آجائیں گے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اﷲ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سر و سامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا‘‘۔ (التوبہ:۳۸)

لیکن اس وقت بہت کچھ ہاتھوں سے نکل چکا ہو گا۔ مسلمانو! تمہاری غیرت مردانہ کہاں چلی گئی ہے؟ تمہارے جذبۂ آزادی کو کیا ہو گیا ہے؟ تمہارا دعواے حق کہاں گیا؟ تمہاری دفاعی تیاری کہاں ہے؟ ہاں! خون کی وہ حرارت کہاں چلی گئی جو شریانوں میں دوڑتی ہے؟

شہدا کے جنازوں کے مناظر۔۔۔ گمشدہ انسانوں کے آنسو۔۔۔ پُرامن مکانات کی مسماری۔۔۔ معصوم نوجوانوں کا قتل۔۔۔ یہ سب معمول کی کارروائیاں بن گئی ہیں۔ حتیٰ کہ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہر کسی نے اپنے کندھے سے ہر چیز کا بوجھ اتار دیا ہے۔ سوائے اس کے کہ نانِ جویں کی فکر کی جائے تاکہ زندگی کا جسم سے رشتہ برقرار رکھا جاسکے اور اپنی موت مر کر اگلے جہاں میں قدم رکھا جائے لیکن اس زندگی کی حقیقت یہ موت نہیں ہے بلکہ ایک دوسری موت ہے:

’’اے نبی! کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں‘ تم کو اﷲ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘۔ (التوبہ:۲۴)

اس صورتحال کی شدت و المناکی کے باوجود ہمیں کسی مایوسی کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہم ایمان کو دوچند کر لیں‘ ہمت کو بلند کر لیں‘ عزم کو صادق کر لیں اور مرنے مارنے پر تل جائیں تو اﷲ کا کیا ہوا وعدہ ہی باقی رہے گا اور باطل شکست سے دوچار ہو گا: ’’اﷲ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہو کر رہیں گے۔ فی الواقع اﷲ زبردست اور زور آور ہے‘‘۔ (المجادلہ:۲۱)

ادھر فلسطین‘ عراق‘ افغانستان اور چیچنیا کے مجاہدوں کی استقامت و عزیمت کی مثالیں ہم سے کچھ دور نہیں ہیں۔ یہ مثالیں تو فتح و نصرت اور کامرانی و کامیابی کے نوشتے ہیں: ’’دل شکستہ نہ ہو‘ غم نہ کرو‘ تم ہی غالب رہو گے‘ اگر تم مومن ہو‘‘۔ (آل عمران:۱۳۹)

اﷲ سے اچھی امیدیں لگائو اور معاملے سے نمٹنے کے لیے اپنی تیاری رکھو جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے: ’’اور تم لوگ‘ جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت مہیا رکھو‘‘۔ (الانفال:۶۰)

ہر میدان میں مزاحمت کے علم بلند کرو‘ اپنے آپ کو جہاد و شہادت کی تیاری میں لگا دو اور خود کو جان قربان کرنے کے لیے تیار کرو۔ دن رات کے اوقات میں ذکر و دعا اور استغفار کثرت سے کرو‘ اپنی اولادوں کو اس طرح تربیت دو کہ وہ میدانِ جہاد میں جان قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ہاں! حضڑت عفرا کے بیٹوں معاذ اور معوذ کو اسوہ اور نمونہ بناتے ہوئے ایسی مزاحمت کے لیے اپنے بچوں کو تیار کرو جو طغیان و جبروت اور ہمارے خون‘ عزت اور سرزمین پر حملہ کرنے والوں کے سامنے ناقابلِ شکست چٹان بن جائے: ’’اﷲ اپنا کام کر کے رہتا ہے‘ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔ (یوسف:۲۱)

اے فلسطینی قیدیو! صبر سے کام لو‘ صبر کی تلقین کرو‘ ایک دوسرے سے جڑ جائو اور اس بات کا عزم کر لو کہ تمہارا دشمن ہر گز تمہارے عزم و ارادہ کو شکست نہ دے سکے۔ وہ تمہاری عزیمت کو متزلزل نہ کر سکے۔ تمہارے ایمان کو شکست نہ دے سکے‘ وہ تمہاری مزاحمت کے سامنے کوئی ایسا موقع نہ پاسکے جس سے وہ سستا سکے خواہ تمہارے راستے میں خود ساختہ آہنی دیوار ہی کیوں نہ ہو۔ تاکہ ہمارا ابدی ناموس قائم و دائم رہے اور یہی اس آیت کا مغز ہے: ’’یہ کبھی اکٹھے ہو کر (کھلے میدان میں) تمہارا مقابلہ نہ کریں گے‘ لڑیں گے بھی تو قلعہ بند بستیوں میں بیٹھ کر یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر‘‘۔ (الحشر:۱۴)

اس آیت میں جمعیت (جمیعاً) کے معنی کو عملی جامہ پہنانے کے حریص رہو۔ کسی ’’فتح‘‘ اور ’’حماس‘‘ کسی ’’جہادِ اسلامی‘‘ اور ’’قومی تحریک‘‘ میں کوئی فرق نہ ہو۔ تمہاری ایک ہی وحدت ہونی چاہیے جس کا نعرہ ’’مزاحمت‘‘ ہو اور نصب العین ’’جہاد‘‘ ہو۔ اس کی بنیاد ’’ثابت قدمی‘‘ ہو۔۔۔ فلسطینیوں! جان لو کہ جو قوم موت کی صنعت میں کمال حاصل نہیں کرتی اس کو زمین پر زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوتا۔

اس بات سے بھی بچو کہ تمہاری وجہ سے ’’فلسطینی اتھارٹی‘‘ کو مصائب کا سامنا کرنا پڑے یا اس کی وجہ سے تمہیں مشکلات میں ڈالا جائے۔ فتنہ پرور انگلیاں ہر کسی کے اندر خوابیدہ ہیں جن کو ملعون یہودی کے سوا کوئی حرکت نہیں دیتا۔ بقول رسولﷺ: ’’فتنہ سویا ہوا ہوتا ہے جو اس کو جگاتا ہے وہ ملعون ہے‘‘۔

اپنے ساتھ ہمارے عہد کو ذہن نشین رکھو اور اپنے خلاف کھٹکنے والی ہر سازش کا احاطہ اور توڑ کرو۔ لیکن تمہیں دشمن کی دشمنی بھڑکا کر کہیں تمہارے اور تمہارے ان بھائیوں کے درمیان حائل نہ ہو جائے جن کا مقصد بھی عزت و آبرو اور علاقہ و سرزمین کی آزادی ہے۔ ان کا ہدف بھی یہودی قبضے کو توڑنا اور بھگانا ہے اور ان کا مطلوب بھی مقامات مقدسہ کو واگزار کرانا ہے۔

عراق۔۔۔ جہاں دشمن کے تمام تر ہتھیار جواب دے گئے ہیں: ’’وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اﷲ اپنی چال چل رہا تھا اور اﷲ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔ (الانفال:۳۰)

کون سا حربہ اور ہتھکنڈہ باقی رہ گیا ہے جو امریکا نے وہاں قبضے کے جواز میں آزما نہ لیا ہو مگر وہ ناکام ہی ہوا۔ کوئی ایجنٹ ایسا نہیں رہا جس کے چہرے کو امریکا نے خوبصورت انداز میں پیش نہ کیا ہو مگر اﷲ نے اس کی نظروں کی خیانت اور آلہ کاری کی بدتری کو واضح کر کے رسوا کر دیا۔ قابض طاقت نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ وہاں ایک خود ساختہ عبوری دور قائم کر دیا ہے۔ تاکہ اس طرح وہ مزاحمتی طاقتوں کی سرگرمیوں کو محدود کر سکے اور مجاہدین کی معاونت کے راستے بند رکھ سکے لیکن وہاں تو صورتحال یہ ہے کہ: ’’اور اے نبی تو نے نہیں پھینکا بلکہ اﷲ نے پھینکا‘‘۔ (الانفال:۱۷)

مزاحمت کی شدت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور وہ یوں پھیلتی جارہی ہے گویا سرزمین عراق کے چپے چپے پر اپنے بیج بکھیر کر مجاہدین کو اٹھا کھڑا کرے گی۔ ایسے مجاہدین جو عراق کے راستوں پر چوراہوں میں یہ اعلان کرتے ہوئے گزریں گے کہ اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک وہ غیرملکی گھس پیٹھئے یہاں سے دفع نہ ہو جاتے جن کے ہاتھوں سے معصوموں کا خون اور جیبوں سے ہماری دولت گر رہی ہے اور ان کے کپڑے ہماری سرزمین سے چرائے گئے پیٹرول سے لت پت ہیں۔ یہ حقیقت ہر لمحہ مزید کھلتی جارہی ہے جو بزبان حال کہہ رہی ہے کہ عراق کے امن و امان کو کسی عبوری قانون کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا قیام قابضین کے انخلا سے وابستہ ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ عراقی قوم اپنے تمام گروپوں اور جماعتوں کے بل بوتے خود اپنا نظام چلانے کی طاقت رکھتی ہے۔ وہ جس نظام کو مناسب سمجھے اختیار کر سکتی ہے اور اپنے تمام اداروں اور محکموں میں امن و امان اور سکون و سلامتی قائم کر سکتی ہے: ’’اﷲ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور وہ دن وہ ہو گا جبکہ اﷲ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے‘‘۔ (الروم:۴)

(عربی سے ترجمہ: ارشاد الرحمن)

(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*