اگر یورپ کو اس کے سِروں پر آباد لوگوں کے حوالے سے دیکھا اور پرکھا جائے تو معاملات بہت مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ انگلینڈ میں معاشی بحران، عدم مساوات اور سیاسی انتشار کے احساس نے لوگوں کو یورپی یونین سے الگ ہونے کی تحریک دی اور یوں یورپی یونین سے باضابطہ اور مرحلہ وار الگ ہونے کا عمل شروع کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ دوسری طرف مغربی بلقان کے خطے میں بالکل ایسے ہی حالات نے لوگوں کو یورپی یونین سے وابستہ ہونے کی تحریک دی ہے!
مغربی بلقان میں ۳۱ فیصد آبادی سفر کی آزادی کے لیے یورپی یونین کا حصہ بننے کو بے تاب ہے۔ ۳۲ فیصد کی خواہش ہے کہ تعلیم حاصل کرنے سے متعلق بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے یورپی یونین میں شامل ہوں اور ۳۰ فیصد چاہتے ہیں کہ بہتر معاشی امکانات کے حصول کے لیے یورپی یونین کا حصہ بنیں۔ مغربی بلقان کے ۶۸ فیصد باشندوں کی نظر میں بے روزگاری نمایاں ترین مسئلہ ہے جبکہ 55 فیصد باشندوں کا خیال ہے کہ معاشی امکانات کا فقدان اس خطے کا بنیادی مسئلہ ہے۔
فرار کی ضرورت
اس وقت مغربی بلقان کے خطے کی صورتِ حال ایسی ہے کہ لوگ بہت سی وجوہ کی بنیاد پر نکل بھاگنے کے لیے بے تاب ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ یورپ میں کہیں اور ان کے لیے زیادہ امکانات پیدا کردیے جائیں تاکہ وہ وہاں اپنا مستقبل ڈھنگ سے سنوار سکیں۔ مغربی بلقان میں قانون کی حکمرانی کا تصور بہت مدھم ہے۔ معاشی مشکلات ہیں کہ بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ ریاستی ادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے ہیں۔ ہنر مندوں کے لیے بہتر معاشی امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ریاستی ادارے بہت اہم ہیں مگر ان کا استحکام یقینی بنائے رکھنے کا میکینزم نہ ہونے کے برابر ہے۔ غیر ہنر مند افراد چاہتے ہیں کہ نوکریوں کے لیے یورپ کے دیگر ممالک کا رخ کریں۔ ہنر مند افراد چاہتے ہیں کہ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کریں جہاں ان کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والے ادارے بڑی تعداد میں ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یورپ کے دیگر ممالک میں سماجی فوائد بھی بہت معقول ہیں۔
مغربی یورپ میں اوسط سالانہ فی کس آمدن کم و بیش ۳۴۸۶۰ ڈالر ہے، جبکہ مغربی بلقان کے خطے میں سالانہ اوسط فی کس آمدن محض ۴۹۳۶ ڈالر ہے۔ ایسے میں اگر مغربی بلقان کے لوگ مغربی یورپ میں آباد ہونے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے بے تاب ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ مغربی بلقان کو یورپی یونین میں شامل کیے جانے کا امکان بہت کمزور ہے تاہم ترکِ وطن کے ذریعے مستقبل تابناک بنانے کی کوشش تو کی ہی جاسکتی ہے۔ مغربی یورپ میں ایک طرف تو سفر کی سہولتیں میسر ہیں اور دوسری طرف معاشی امکانات بھی غیر معمولی حد تک زیادہ ہیں۔ لوگ اپنی مرضی کے مطابق نوکری بھی حاصل کرسکتے ہیں اور مرضی ہی کے مطابق زندگی بھی بسر کرسکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ مغربی بلقان کے بیشتر باشندوں کو مغربی یورپ خوابوں کی جنت جیسی دکھائی دیتی ہے۔
کوسوو کے سوا مغربی بلقان کے تمام ہی ممالک یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان سفر کی غیر معمولی سہولتوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں۔ کوسوو کو بھی یہ سہولت مل سکتی ہے۔ شرط اتنی ہے کہ وہ کرپشن پر قابو پائے، قانون کی حکمرانی یقینی بنائے اور مونٹی نیگرو سے اپنی سرحد کا تعین کرے۔
امید اور حقیقت کا ملاپ
یورپ کے بہت سے ممالک میں نقل مکانی کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اب خطرناک حد کو چھو رہی ہے۔ باقاعدہ نقل مکانی کا بڑھتا ہوا رجحان یورپی معاشروں کے لیے متعدد مسائل بھی پیدا کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ کو محنت کشوں کی ضرورت ہے۔ آبادی میں معمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے تاہم یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یورپ میں مجموعی طور پر بیروزگاروں کا تناسب ۱۰ فیصد اور نوجوانوں میں ۲۰ فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یورپ میں لیبر مارکیٹ اس وقت زیادہ توسیع کی گنجائش سے محروم ہے۔ یورپ تمام تارکین وطن کا خیر مقدم کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
یورپی یونین کا حصہ بنائے جانے کے حوالے سے مغربی بلقان کے باشندے اس وقت مایوسی کا شکار ہیں۔ یورپی یونین کے رکن ممالک کے باشندوں کی اکثریت اس وقت توسیع کے موڈ میں نہیں۔ ۲۰۰۳ء کے تھیسالونی کے سربراہ اجلاس میں طے پایا تھا کہ یورپی یونین کی توسیع کی جائے گی تاہم اندرونی معاشی مسائل، معاشرتی پیچیدگیوں اور دیگر مسائل کے باعث یہ ارادہ ترک کردیا گیا۔ یورپی یونین کے متعدد ممالک کے لیے تارکین وطن کو کسی نہ کسی طور ایڈجسٹ کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
التباسِ نظر کو تھامے رہنا؟
ایسا نہیں ہے کہ مغربی بلقان کا معاملہ یورپی یونین کے راڈار سے مکمل طور پر غائب ہوچکا ہے۔ جرمنی اور اس کی کئی ہم خیال ریاستوں نے یہ معاملہ اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ حال ہی میں ٹریسٹ میں منعقدہ سربراہ اجلاس میں خطے کے مستقبل پر بحث کی گئی۔ اجلاس میں طے پایا کہ خطے کا مستقبل یورپی یونین کی بقا میں مضمر ہے۔ اصلاحات کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ بنیادی مقصد معاشی استحکام یقینی بنانا ہے۔ سیاسی توازن بھی برقرار رکھنا ہے۔ اس حوالے سے کسی میعاد کا تعین تو نہیں کیا گیا تاہم کوشش یہ کی جارہی ہے کہ یورپی یونین کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے۔
بلقان کا ’’نیا‘‘ مسئلہ
مغربی بلقان میں نئی اور پرانی رقابتوں کی کمی نہیں، نسلی و لسانی تفریق بھی کہیں کہیں بہت زیادہ ہے۔ ریاستی ادارے کمزور ہیں اور یہی سبب ہے کہ حکومتی نظام مطلق العنانیت کی زد میں ہے۔ افلاس کی بڑھتی ہوئی سطح معاشرتی اضطراب کو راہ دے رہی ہے۔ عدم مساوات نے معاشی اعتبار سے انتہائی پیچیدہ صورتِ حال پیدا کردی ہے۔ لوگ مجبور ہوکر بہتر مستقبل کے لیے خطے سے باہر جاتے ہیں۔
ہاتھ سے نکلتی ہوئی آبادی
مغربی بلقان کے خطے کو آبادی میں تیزی سے رونما ہوتی ہوئی کمی کے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں جو لوگ خطے سے باہر جاتے ہیں وہ تھوڑی سی بھی ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں واپس نہیں آتے۔ خطے کی ۲۰ فیصد سے زائد آبادی مغربی یورپ میں آباد ہوچکی ہے۔ بوسنیا ہرزیگووینا کے ۳۳ فیصد، البانیا کے ۲۸ فیصد اور مقدونیہ کے ۲۱ فیصد باشندے ملک سے جاچکے ہیں۔ ان میں واضح اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ یہ ایک بڑا معاشرتی بحران ہے جو آگے چل کر بڑے معاشی بحران کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ خطے سے جاتے ہیں اُن کی واپسی کا امکان انتہائی معدوم ہوتا ہے۔ مغربی یورپ کے ترقی یافتہ معاشرے کو چھوڑ کر یہ لوگ واپسی کا سوچتے بھی نہیں۔
پورے خطے کے لیے یورپی یونین ایک بہت بڑا سہارا ہے۔ یہ وہ بندر گاہ ہے جہاں مغربی بلقان کے لوگوں نے اپنی امیدوں کے جہاز لنگر انداز کر رکھے ہیں۔ ترکی اور سعودی عرب اس خطے کے مسلمانوں کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ روس بھی مغربی بلقان میں دلچسپی لے رہا ہے۔ ریاستی اداروں کی ناکامی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی ممالک اپنے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
اس وقت مغربی بلقان کے خطے میں صرف ۳۹ فیصد باشندے یورپی یونین کی رکنیت کو اپنے لیے ضروری اور سرمایۂ افتخار سمجھتے ہیں۔ ۳۶ فیصد غیر جانبدار ہیں اور ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو آج بھی اشتراکیت کے دور کو یاد کرکے سرد آہیں بھرتے ہیں۔ ان کے خیال میں اشتراکیت کا دور زیادہ برا نہیں تھا۔ زندگی کا معیار بھی متوازن تھا اور معاشی امکانات بھی گئے گزرے نہیں تھے۔ مگر خیر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ غیر معمولی ترقی اور خوش حالی کے باوجود آج بھی امریکا اور یورپ میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں ہیں جو ماضی کو یاد کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں۔ کوسوو اور البانیا میں ۸۰ فیصد افراد کو امید ہے کہ ان کا ملک ایک نہ ایک دن یورپی یونین کا رکن ہو رہے گا۔ دوسری طرف بوسینیا ہرزیگووینا اور سربیا کے لوگ اس حوالے سے مایوسی کا شکار ہیں، امید ہار بیٹھے ہیں۔ ان میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اپنی پس ماندگی کے لیے یورپ کو موردِ الزام ٹھہرانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مغربی بلقان میں قانون کی حکمرانی نہیں، معاشی امکانات محدود ہیں، افلاس کی سطح بلند ہے اور حقیقی جمہوری روایات زیادہ طاقتور نہیں تو اس کے لیے مغربی یورپ کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مغربی بلقان کو یورپی یونین کی رکنیت ملے نہ ملے، قانون کی حکمرانی قائم کرنا اور ریاستی اداروں کو مستحکم کرنا ان کے لیے لازم ہے۔ افلاس اور کرپشن سے چھٹکارے کے لیے معاشی اصلاحات بھی ناگزیر ہیں۔ مگر افسوس کہ اس پہلو پر توجہ نہیں دی جارہی۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی بلقان کی تمام ریاستوں کو اپنی بقا یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی اصلاحات متعارف کرانا ہوں گی۔
اگر مغربی بلقان میں قانون کی حکمرانی عام نہ ہوئی، جمہوری اقدار کو زیادہ فروغ نہ ملا، معاشی استحکام پیدا نہ ہوا، کرپشن پر قابو نہ پایا جاسکا اور معاشرتی سطح پر پائی جانے والی بے چینی کو ختم نہ کیا جاسکا تو ایک ایسا بحران پیدا ہوگا، جو پورے مغربی یورپ کے لیے ایک بڑا دردِ سر ہوگا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The EU and the Balkans: Parallel lives forever?”. (“theglalist.com”. July 16, 2017)
Leave a Reply