خلیجی ملکوں کی تجویز کو نافذ کرنے میں حائل رکاوٹوں میں سے دو رکاوٹوں کو عبور کرنے میں یمن کے مختلف سیاسی گروپوں، جماعتوں نے فوجی سیکوریٹی بورڈ اور قومی وفاقی حکومت تشکیل دے کر کامیابی حاصل کر لی ہے، ابتدائی مرحلہ اور تین ماہ تک برقرار رہنے والے ہنگامی مرحلے کے شروع میں یہی دونوں امور اور تجویز کے یہ دونوں پیراگراف سب سے اہم اور خطرناک تھے، یہ مرحلہ آئندہ ۲۱ فروری کو اس وقت ختم ہو جائے گا جب موجودہ نائب صدر مملکت عبدالرب منصور ہادی کو ملک کا دو سال کے لیے صدر منتخب کر لیا جائے گا، ان کے انتخاب کے بعد نگراں حکومت کے دوسرے مرحلہ کی شروعات ہوگی۔
فوجی سیکورٹی بورڈ اور وفاقی حکومت کو ملک میں امن و امان بحال کرنے اور اسے برقرار رکھنے، فوجی دھماکے اور انقلاب کے شعلوں کو فرو کرنے، ملک میں سیاسی و اقتصادی ٹھہرائو پیدا کرنے، مختلف حکومتی اداروں کی خدمات بحال کرنے، اور آزادیوں کا گلا گھونٹنے کی کارروائیوں کو بند کرنے کے لیے اس وقت دو متوازی خطوط پر چلنا اور قدم آگے بڑھانا ہوگا، بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نئی تشکیل شدہ حکومت پیچیدگیوں سے لبریز ہے اور اس کی راہ میں کانٹے ہی کانٹے بچھے ہوئے ہیں جس پر چلنا آسان نہیں ہے، مگر حکومت سے زیادہ فوجی بورڈ کو جو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں وہ زیادہ پیچیدہ اور پریشان کن ہیں، اس کی ذمہ داری مستقبل میں فوج کے موقف کے بھڑکنے اور فوجی انقلاب کے ہر طرح کے اسباب و عوامل کو دور کرنا ہے، خاص طور پر جبکہ اب بھی فوج کی بہت سی یونٹیں آپس میں بٹی ہوئی ہیں، بعض تو نوجوانوں کی انقلابی تحریک کی تائید و حمات کر رہی ہیں اور بعض اس کی مخالفت اور سختی سے اسے کچلنے کا رجحان رکھتی ہیں۔ البتہ اس فوجی بورڈ کی صدارت نائب صدر مملکت کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے امکان ہے کہ بہت سی پیچیدگیاں سلجھ جائیں گی اور مشکلیں آسان ہو جائیں گی۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ ان کے امور و معاملات میں سبکدوش ہونے والے صدر مملکت علی عبداللہ صالح مداخلت نہ کریں۔
مشکل یہ ہے کہ علی عبداللہ صالح کے پس منظر کو دیکھنے اور ان کے اندازِ حکمرانی پر نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے آخری لمحہ تک بورڈ کے کام کاج میں ضرور مداخلت کرتے رہیں گے، خاص طور پر ان کے صاحبزادے کی قیادت والی ریپبلکن گارڈ فورسز اور ان کے بھائی کی قیادت والی فضائیہ، اور ان کے بھتیجے کی قیادت والی سینٹرل سیکورٹی فورسز میں ان کی مداخلت کا امکان زیادہ ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نائب صدر اس وقت اپنی اس پوزیشن سے زیادہ مطمئن اور پراعتماد نظر آرہے ہیں جو پوزیشن انہیں خلیجی امن تجویز اور اسے نافذ کرنے والے وسائل نے عطا کیے اور انہیں قانونی حیثیت و صلاحیت و اختیارات دیے ہیں، ان صلاحیتوں و اختیارات کی روشنی میں صدر صالح کے لیے ممکن نہیں رہا ہے کہ وہ اس سے تجاوز کرنے کی کوشش کریں یا اسے نظرانداز کریں، بلکہ وہ وہی کر سکتے ہیں جسے ان کے نائب قبول و منظور کریں گے۔
اس وقت یمن پر حکمرانی دو صدور کی ہے، ایک تو وہ ہیں جن کے بیشتر اختیارات سلب کر لیے گئے ہیں، اور ان کی مدت بس ختم ہی ہونے والی ہے اور دوسرے وہ صدر ہیں جن کے پاس بین الاقوامی برادری کی جانب سے عطا کردہ قانونی حیثیت اور طاقت بھی ہے اور انہیں سیاسی و عوامی تائید و حمایت بھی حاصل ہے، اور اب بس صرف تھوڑی مدت کا انتظار باقی ہے اور کچھ عرصہ بعد ہی انہیں صدارت کا باضابطہ تاج پہنا دیا جائے گا اور آئندہ فروری سے وہ ملک کے تنہا صدر بن جائیں گے۔ جو تمام تر اختیارات اور قانونی صلاحیتوں کے حامل ہوں گے اور جنہیں بین الاقوامی، علاقائی، قومی و ملکی ہر طرح کی تائید و حمایت بھی حاصل ہوگی۔
فوجی بورڈ اپنی ذمہ داریاں ایسے وقت و حالات میں انجام دینے جارہی ہے جو نہایت کٹھن و مشکل اور شکوک و شبہات سے بھرے ہیں، انہیں اسی وقت اپنے کام میں کامیابی مل سکتی ہے جبکہ بین الاقوامی برادری ان سے تعاون جاری رکھے اور انقلابی تحریک کی تائید کرنے والی فوج کو یقین دہانی کرائی جائے بلکہ اس بات کی انہیں ضمانت دی جائے کہ سبکدوش ہونے والے صدر کی وفادار فوج کی جانب سے بغاوت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی طرح کی باغیانہ کارروائی انجام دی جائے گی۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کو احساس ہے کہ سڑکوں اور آبادیوں سے فوج اور فوجی سازو سامان کا انخلا اور ان کے اپنے بارکوں اور فوجی ٹھکانوں میں واپسی ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ بنیادی حل تلاش کرنا ضروری ہوگا اور اس کا بنیادی حل یہی ہو سکتا ہے کہ تمام فوجی قائدین کو ان کی جگہوں اور عہدوں سے ہٹا کر ان میں بڑے پیمانے پر ردوبدل اور تبادلے کیے جائیں اور ان کی جگہ ایسے نئے قائدین مقرر کیے جائیں جن کی وابستگی و تعلق کسی ایک علاقہ سے نہ ہو، اور نہ ان کے تعلقات میں سیاسی، قبائلی اور خاندانی اختلافات کارفرما ہوں۔
اس طرح کا بنیادی حل موجودہ حالات میں بظاہر نہایت دشوار معلوم ہو رہا ہے، مگر قبل از وقت صدارتی انتخابات کرا دینے اور عبدالرب کو سارے اختیارات سونپ دینے سے یہ مشکل آسان ہو سکتی ہے اور اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ آئندہ مرحلہ میں اس حل کے سوا کوئی چارہ کار نہیں، کیونکہ یمن کے اندر امن و امان کی بحالی کے حقیقی مرحلہ میں داخلے کی یہی کنجی ہے اور اسی کے ذریعہ سلامتی اور فوج کے قومی تشخص کو واپس لایا جاسکتا ہے اور اسی کے ذریعہ قبائلی، خاندانی اور دیگر محدود قسم کے مفادات کی جنگ سے اوپر اٹھا جاسکتا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ یمنی نئی حکومت کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس حکومت کی قیادت و سربراہی اگرچہ ایسی شخصیت کے ہاتھ میں ہے جو ماہر سیاست دان اور پرانے کھلاڑی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ ملک کی قابل احترام شخصیت بھی ہے اور وہ ہیں محمد سالم باسندہ ، ایسی شخصیت کی موجودگی کے باوجود چیلنج اس لیے ہیں کہ کامیابی کی ضمانت کے لیے اوصاف و معیار ہی نہیں بلکہ ریشہ دوانیوں سے دوری بھی ضروری ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اقتدار میں شریک ایسے لوگ بھی ہیں جو گھات لگائے بیٹھے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ حکومت ناکام ہو جائے۔
ہر کوئی باسندہ کو جانتا ہے کہ وہ صدر علی عبداللہ صالح کے قریبی سیاستدان تھے، ان دونوں کے تعلقات گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی کے اواخر سے نہایت مضبوط رہے ہیں جبکہ ان دونوں میں سے کسی کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا، مگر گزشتہ دہائی کے اوائل سے دونوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ صالح نے اپنے قریبی بعض نہایت تجربہ کار و ماہر مشیروں سے دوری اختیار کر لی تھی اور اس کے بعد وہ اپنے خاندان کی نئی نسل کے نوجوانوں پرزیادہ اعتماد کرنے لگے تھے، جن کے پاس نہ تجربہ تھا نہ مہارت۔ یہی نئی نسل کے نوجوان اور خاندان کے افراد اپنے دوستوں ساتھیوں اور معاونین و رشتہ داروں کو حکومتی اداروں اور ملکی مشنریز پر مسلط کرنے لگے، وقت گزرنے کے ساتھ ان حواریوں اور قرابت داروں کی وجہ سے حکومتی اداروں میں کرپشن، بدعنوانی، افراتفری اور مطلق العنانی پھیلتی اور جڑ پکڑتی گئی، اس کے ساتھ ہی ساتھ اس نئی نسل نے صدر کے اس نسل کے لوگوں کے ساتھ تعلقات کو تباہ و برباد کر دیا جنہوں نے ان کا ساتھ دیا تھا اور ساتھ مل کر حکومت و اقتدار کی بنیاد کھڑی کی تھی۔
اب جبکہ علی عبداللہ صالح یکا و تنہا ہو چکے اور ہر طرف سے کٹ کر گوشۂ تنہائی میں جابیٹھے ہیں اور ان کی تنہائی و علیحدگی میں دن بدن اضافہ ہی ہو رہا ہے، ملک رفتہ رفتہ اقتصادی، سیاسی، سیکوریٹی اور خدمات کی انجام دہی میں تیزی کے ساتھ ابتری کی طرف بڑھ رہا اور زبوں حالی کا شکار بنتا جارہا ہے، وسیع تر اصلاحات کے پروگراموں میں کسی طرح کی کامیابی نہیں مل سکی ہے اور بین الاقوامی امداد دینے والی طاقتیں الجھن و مایوسی کا شکار ہیں اور ہر آنے والی حکومت کی کارکردگی سے ناامیدی کا شکار ہو چکی ہیں، ان کی مایوسی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومتی باگ ڈور حقیقی معنوں میں یا تو صدر مملکت کے صاحبزادے کے ہاتھ میں آگئی تھی یا ان کے بھائی، بھتیجوں اور عزیز و اقارب کے ہاتھوں جنہوں نے خود حکومت اور حکومتی اداروں پر مسلط کر رکھا تھا اور انہیں ملک کے مفادات نہیں بلکہ اپنے مفادات عزیز تھے۔
۲۰۰۵ء سے بڑی تیزی کے ساتھ ملک میں ابتری و زبوں حالی شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ اس میں شدت پیدا ہوتی رہی یہاں تک کہ حقیقی بحران کی شکل اختیار کر گئی، اس کے نتیجہ میں ملک میں لاوا پکنے لگا، پھر سیاسی انقلاب کی صورت میں یہ پھٹا۔ پھر گزشتہ ۱۵ جنوری سے شروع ہونے والے انقلاب کو بھرپور عوامی تائید و حمایت حاصل ہوگی، اس انقلاب میں آہستہ آہستہ شدت پیدا ہوتی رہی، انہیں بین الاقوامی و علاقائی طاقتوں کی تائید و حمایت بھی حاصل ہوگئی، ان طاقتوں کو اندازہ ہو گیا کہ موجودہ انتظامیہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا یہ نادر موقع ہے، پھر موجودہ انتظامیہ کی برقراری نہ صرف یمن کے لیے بلکہ پورے علاقائی ملکوں کے لیے خطرہ بن گئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یمن کو اس مشکل سے نکالنے، بحرانوں سے محفوظ رکھنے اور سیاسی واقتصادی بدحالیوں سے نجات دلانے کا سہل راستہ یہی ہے کہ قبل از وقت جلد سے جلد صدارتی انتخاب کر لیے جائیں، یہ کام بھی مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔
(بشکریہ: ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن۔ ۲۵ دسمبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply