
بدھ مت کی تعلیمات میں تشدد نہ کرنے کا اُصول بنیادی حیثیت رکھتا ہے لیکن سری لنکا میں کچھ بدھ راہبوں پر الزام ہے کہ وہ دوسری نسلی اقلیتوں اور مذاہب کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔
کولمبو کے نواح میں ایک چھوٹا سا مندر بڑا پرسکون ہے۔ اس میں بدھا کی شبیہہ کو جامنی اور سفید کنول کے درمیان رکھا گیا ہے جبکہ چھوٹے بدھا دیوار کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن اس کے اوپر والی منزل میں ایک بھاری بھرکم راہب کی حکومت ہے جو نارنجی رنگ کے کپڑے پہنے بیٹھا ہوا ہے۔ یہ ہے سخت گیر بدھ تنظیم ’دی بدھا بالا سینا‘ یا بدھسٹ پاور فورس (بی بی ایس) کا صدر دفتر۔
بدھ مت کی پرامن نصیحتیں جن کی وجہ سے یہ مذہب پہچانا جاتا ہے شاید ہی ان کی گفتگو میں کبھی آئیں ہوں۔
اس کے برعکس راہب گالا گوڈا آتھے گناناسارا تھیرو بدھ مت کی بات بطور ایک نسل کے کرتے ہیں۔ سری لنکا کے زیادہ تر بدھ سنہالا ہیں اور سنہالا تقریباً اس ملک کی آبادی کا تین چوتھائی ہیں۔
گناناسارا تھیرو کہتے ہیں کہ ’یہ ملک سنہالا کا ہے اور سنہالا ہی ہیں جنھوں نے اس کی تہذیب، ثقافت اور آبادیوں کو تعمیر کیا ہے۔ سفید فام لوگوں نے سب مسائل کھڑے کیے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ برطانوی نو آبادکاروں نے اس ملک کو تباہ کیا تھا اور حالیہ مسائل کے ذمہ دار بھی بقول ان کے ’باہر والے‘ ہی ہیں جس سے ان کا مطلب تامل اور مسلمان ہیں۔
حقیقت میں اگرچہ تاملوں کی ایک چھوٹی اقلیت یہاں انڈیا سے چائے کے باغات لگانے کے لیے آئی تھی، لیکن یہاں رہنے والے زیادہ تر تامل اور مسلمان اتنے ہی سری لنکن ہیں جتنے سنہالا ہیں اور ان کی جڑیں صدیوں پیچھے تک جاتی ہیں۔
گناناسارا تھیرو کہتے ہیں کہ ’’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سنہالا ملک دوبارہ سنہالا ہو جائے۔ جب تک ہم اس کو ٹھیک نہیں کرتے، ہم لڑتے رہیں گے‘‘۔
بدھ مت کا یہ پہلو کوئی پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا۔ بیسویں صدی کے اہم بدھ احیائے کار آناگارکا دھرماپالا غیر سنہالا لوگوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ آریائی سنہالا لوگوں نے اس جزیرے کو جنت بنایا ہے جبکہ عیسائی اور دوسرے مذاہب اس کو تباہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو بھی یہ کہہ کر نشانہ بنایا کہ وہ سود پر قرض دینے والے طریقوں سے اس مٹی میں جنم لینے والوں کا استحصال کر کے پھلے پھولے ہیں۔
۱۹۵۸ء میں ایک بدھ راہب ہی تھا جس نے وزیرِاعظم ایس ڈبلیو آر ڈی بندرانائیکے کو قتل کیا تھا۔ تامل ٹائیگروں کے خلاف ایک لمبی جنگ نے سخت گیر بدھوؤں کو ایک مرتبہ پھر اکٹھا کر دیا ہے۔ ۲۰۰۴ء میں نو راہبوں کو پارلیمان میں منتخب کر کے یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ جنگ سنہالا اور بدھ مت کو بچانے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔ بعد میں راہبوں کی اہم جماعت سے گناناسارا تھیرو الگ ہو گئے اور ایک الگ جماعت بی بی ایس کی بنیاد رکھی۔ ۲۰۱۲ء سے بی بی ایس نے براہ راست کارروائیاں شروع کر دیں۔ اس نے مسلمانوں کے مذبح خانوں پر یہ کہہ کر حملے کیے کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ایک لاء کالج پر حملہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے حق میں نتائج دیتا ہے۔ اب چونکہ ان کے تامل حریف کو شکست ہو چکی ہے ان کی کارروائیوں کا نشانہ مسلمان اور عیسائی ہی بنتے ہیں۔
بی بی ایس کے ترجمان دلانتھا وتھاناگے کہتے ہیں کہ ’جب بھی کوئی بدھ راہب کوئی غلط کام کرتا ہے تو ہماری شہرت کی وجہ سے ہم پر الزام لگایا جاتا ہے‘۔ ’بی بی ایس کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں ہے، بی بی ایس کسی کے خلاف بھی تشدد کو ہوا نہیں دے رہی۔۔۔ لیکن ہم کئی چیزوں کے خلاف ہیں‘۔
لیکن صرف وہ ہی نہیں کئی اور سنہالا بھی سری لنکا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی قدامت پرستی کی وجہ سے خوش نہیں ہیں۔ اب اس ملک میں عورتیں سر ڈھانپے ہوئے نظر آتی ہیں اور کئی علاقوں میں تو سعودی عرب کے زیرِ اثر وہابی مسلمانوں اور آزاد خیال لوگوں میں تناؤ بھی پیدا ہوا ہے۔ تاہم سری لنکن مسلمانوں کی طرف سے کسی پرتشدد کارروائی کی کوئی شہادت نہیں ملی ہے۔ بلکہ ان پر حملے ضرور ہوتے رہے ہیں۔
گزشتہ جون آلوتھگاما کے چھوٹے سے قصبے میں ایک مسلم اکثریت کے علاقے میں بی بی ایس کی ایک مسلم مخالف ریلی کے دوران ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مسلمانوں کے گھر اور دکانیں جلا دی گئی تھیں اور انہیں اسکولوں میں پناہ لینی پڑی تھی۔ سخت گیر بدھوؤں نے اعتدال پسند بدھوؤں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
گزشتہ برس واتھاریکا وجیتھا تھیرو کو اغوا کر کے بے ہوش کرنے کے بعد باندھا گیا اور زبردستی ان کے ختنے کر دیے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ان کی تذلیل کرنا تھا کیونکہ وہ بدھوؤں اور مسلمانوں کے درمیان قریبی تعاون کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ بدھ راہبوں نے ہی کیا تھا لیکن وہ کسی خاص شخص یا گروہ پر الزام نہیں لگاتے۔
اس سے کچھ ہفتے قبل وجیتھا تھیرو نے مسلمان برادری کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ایک نیوز کانفرنس منعقد کی۔ جس میں بی بی ایس نے توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس وقت انھیں گناناسارا تھیرو نے دھمکی دی تھی کہ ’اگر تم اس طرح کی دغا بازی میں دوبارہ شامل ہوئے تو تمہیں پکڑ کر مہاویلی دریا میں پھینک دیا جائے گا‘۔
مہاویلی دریا کی طرف اشارہ بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ۱۹۸۹ء میں سری لنکا کی حکومت کے خلاف بائیں بازو کے محاذ نے ایک بغاوت کی تھی، جس کے بعد ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۶۰۰۰۰؍ افراد لاپتا ہو گئے تھے اور اسی دریا میں بہت سی لاشیں پائی گئی تھیں۔ ایک اور ملک جہاں بدھ مت کے پیروکار مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں وہ میانمار ہے، جسے پہلے برما کہا جاتا تھا۔ یہاں کے بدھ دھڑے نے جس کا نام ’’۹۶۹‘‘ تحریک ہے تشدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
حال ہی میں بی بی ایس کے دعوت نامے پر اس کے رہنما شن وراتھو سری لنکا آئے۔ دونوں تنظیمیں کہتی ہیں اگرچہ ان کے ملکوں میں بدھ مت اکثریتی مذہب ہے لیکن مجموعی طور پر اس کو خطرہ ہے۔ وتھاناگے کہتے ہیں کہ ’’ہم اس کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ہم نے ایشیائی خطے میں اتحاد کے لیے ایک یاداشت پر دستخط کیے ہیں‘‘۔
جنوری میں سری لنکا میں میئتھرپالا سری سینا نئے صدر منتخب ہوئے۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ سابق صدر ماہندے راجا پاکسے کی انتظامیہ نے بی بی ایس کی پشت پناہی کی تھی۔ تاہم یہ بات عیاں ہے کہ سابق حکومت اس تنظیم کی حمایت کرتی تھی۔
بدھ مت کے امور کے نئے وزیر کارو جے سوریا کہتے ہیں کہ یہ گروہ اس لیے پروان چڑھا کیونکہ کہ ملک کے قانون کو توڑا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بی بی ایس تباہ ہو جائے گی۔
منگل کوگناناسارا تھیرو کو بغیر اجازت احتجاجی مظاہرہ کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا، لیکن بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ابھی تک تو نئی حکومت جس میں ایک مضبوط بدھ قوم پرست جماعت شامل ہے، نارنجی لباس کے لوگوں کے خلاف نرم ہاتھ ہی رکھے ہوئے ہیں۔
(بشکریہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۳۱ مئی ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply