ویلنٹائن یوم پر سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی نیٹ ورک ٹیلی وژن پر صدر باراک اوباما پر کیچڑ اچھال رہے تھے اور میں بہت دور دوحہ (قطر) میں وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی وہ تقریر سن رہا تھا جس میں وہ اسلامی دنیا کے نمائندوں کو اوباما انتظامیہ کی خارجہ پالیسی سمجھا رہی تھیں۔ یہ امریکا اسلامک ورلڈ فورم کی سالانہ تقریب تھی جس کا اہتمام بروکنگز انسٹی ٹیوٹ نے کیا تھا۔ گزشتہ سال کے اوباما یوفوریا کے مقابلے میں اس سال موڈ خاصا آزمائشی تھا۔ اسلامی دنیا کے نمائندوں میں یہ رائے مکمل طور پر پھیلی ہوئی تھی کہ صدر اوباما نے گزشتہ سال بہت اچھے الفاظ دیئے تھے تاہم ان پر عمل کہیں بھی دکھائی نہیں دیا۔ مذہبی رہنمائوں کے ایک انٹر فیتھ گروپ کی جانب سے کارڈنل تھیوڈور میک کیرک کے سوال کا بھی ہلیری کو سامنا کرنا پڑا۔ سوال یہ تھا کہ غزہ کی پٹی کے مسلمانوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے امریکا نے عملی سطح پر کیا کیا ہے؟
یہ بہت اچھا سوال ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سوال اوباما کی خارجہ پالیسی کی بنیاد کو چیلنج کرتا ہے۔ ہلیری کلنٹن نے ایران کے بارے میں جو سخت جملے ادا کیے وہ بھی توجہ پانے میں کامیاب رہے تاہم عرب دنیا کو ان سے فلسطینیوں کے مسائل حل کرنے کے بارے میں بہت کچھ سننا تھا۔ جنوری ۲۰۰۹ء کی شدید بمباری (اور اس میں تقریباً ڈیڑھ ہزار فلسطینیوں کی شہادت) کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اس ناکہ بندی نے حالات مزید خراب کیے ہیں۔ خوراک کی فراہمی نہیں روکی جارہی تاہم فلسطینیوں کو تعمیر نو میں شدید مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ تعمیراتی سامان کی ترسیل کی اجازت نہیں۔ چند غیر ضروری قسم کی اشیاء پر بھی پابندی عائد ہے۔ سگریٹ کی فراہمی کی اجازت بھی حال ہی میں دی گئی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کو کنٹرول کرنے والی تنظیم حماس کا محاصرہ اٹھانے کے لیے تین شرائط رکھی ہیں۔ اول یہ کہ غزہ سے اسرائیلی شہریوں پر راکٹ برسانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ دوم یہ کہ غزہ میں اسلحے کی اسمگلنگ روکی جائے اور سوم یہ کہ اسرائیلی فوجی شالت کو رہا کیا جائے۔ شالت کو حماس نے جون ۲۰۰۶ء سے یرغمال بنا رکھا ہے، راکٹوں سے حملے روکے جاچکے ہیں، اسلحے کی اسمگلنگ روکنے پر بھی بات چیت ہوسکتی ہے مگر شالت کا معاملہ اٹکا ہوا ہے۔ ہلیری کلنٹن کی تقریر سے قبل ترک وزیر اعظم طیب اردگان کی تقریر کا زبردست خیر مقدم کیا گیا۔ انہوں نے اسرائیلی پالیسیوں پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے غزہ کو اوپن ایئر جیل قرار دیا۔
کارڈنل میک کیرک کے سوال کا جو جواب ہلیری کلنٹن نے دیا وہ اگرچہ پرزور تھا تاہم موزوں نہیں تھا۔ انہوں نے اس نکتے پر زیادہ زور دیا کہ جو کچھ فلسطینیوں پر بیتی ہے اس سے قبل تشدد کی ایک بڑی لہر غزہ ہی سے اٹھی تھی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ فلسطینیوں کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ہے اور بتایا کہ امریکا نے اسرائیل پر دبائو ڈالا ہے کہ وہ ضروری اشیاء کی ترسیل پر عائد پابندیاں ختم کرے اور ’’بوند بوند‘‘ ترسیل کو سیلاب میں تبدیل ہونے دے۔ ساتھ ہی ساتھ امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ غزہ کی تقدیر کا فیصلہ اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان جامع تصفیے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔
غلط جواب۔ غلط اس لیے نہیں کہ دوحہ میں مسلم دنیا کے نمائندے کوئی بڑی حوصلہ افزا بات سننا چاہتے تھے بلکہ اس لیے کہ اس سے اوباما کی مشرق وسطیٰ سے متعلق حکمت عملی کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔ امریکی صدر کے منصب پر فائز ہوتے ہی باراک اوباما نے مژدہ سنایا تھا کہ مشرق وسطیٰ کا مسئلہ دو ریاستوں کی صورت میں حل کیا جائے گا۔ ٹائمنگ واضح اور موزوں تھی۔ انہی دنوں اسرائیل میں دائیں بازو کی حکومت قائم ہوئی تھی جس کے سربراہ بنیامین نیتن یاہو تھے۔ اس حکومت کے اتحادی فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے بات چیت کے مخالف تھے۔ فلسطینیوں کی اکثریت مغربی کنارے کو کنٹرول کرنے والے فتح گروپ اور اس سے کہیں زیادہ عسکریت پسند حماس میں بٹی ہوئی تھی۔ امریکی ایلچی جارج مچل کی جانب سے بات چیت شروع کرنے کی کوششیں اس لیے کارگر ثابت نہ ہوسکیں کہ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں بسانے کا سلسلہ روکنے سے انکار کردیا تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ اوباما انتظامیہ راستے میں کہیں اٹک گئی ہے۔ جنوری میں صدر اوباما نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ مشرق وسطیٰ ان کے اندازوں سے زیادہ سخت ثابت ہوا ہے۔ یہ کوئی ایسا اعتراف نہیں جس سے مشرق وسطیٰ میں اعتماد کی بحالی کی راہ ہموار ہوتی ہو۔
اگر باراک اوباما پہلے غزہ کے مسئلے کو حل کرنے پر توجہ دیتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ جب انہوں نے صدر کا منصب سنبھالا تب یہ بحران پیدا ہوا تھا اور اب بھی برقرار ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنا مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں اور پھر اس سے یہ تاثر بھی ملتا کہ اوباما انتظامیہ پیچیدہ مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور اگر ایسا ہوتا تو فریقین اعتبار بھی کرتے۔ یہ امکان اب بھی باقی ہے گوکہ اوباما انتظامیہ کے بعض اعلیٰ افسران کامیابی کے بارے میں نہ صرف یہ کہ پرامید نہیں بلکہ خاصے مایوس ہیں۔ اگر امریکا حماس کو شالت کی رہائی پر آمادہ کرلے تو مسئلہ حل کرنے میں خاصی مدد ملے گی کیونکہ شالت کا یرغمال بنایا جانا اسرائیل میں بہت بڑا اشو ہے۔ اگر شالت رہا کردیا جائے تو امریکا اسرائیل کو غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے پر راضی کرسکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ امریکا حماس سے بات نہیں کرے گا۔ اگر اوباما امریکا کے دشمنوں سے بات کرنے کی پالیسی پر کاربند ہیں تو حماس سے بات کرنی پڑے گی۔ اور حماس کو بھی فوری جواب دینا پڑے گا۔
فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کی راہ میں کئی دوسری مشکلات بھی حائل ہیں۔ اس مسئلے کے چار میں سے تین فریق (اسرائیل، غرب اردن کی انتظامیہ اور مصر) چاہتے ہیں کہ حماس مشکلات سے دوچار رہے۔ مختصر مدت میں تو اس کا سیاسی فائدہ ہوسکتا ہے تاہم دور اندیشی یہ ہے کہ اس صورت حال کو تبدیل کیا جائے۔ اگر حماس کی مشکلات برقرار رہیں تو آنے والی نسل اسرائیل سے اور بھی شدید نفرت کر رہی ہوگی۔
ڈک چینی اور ان کے رفقا باراک اوباما کی ناکامی کے لیے کوشاں ہیں۔ حماس کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس کے پاس بہترین موقع ہے۔ اگر اب بھی فلسطین کا مسئلہ حل نہ ہوا تو بعد میں بہت مشکل ہوگا۔ اوباما کے بعد صرف سراب دکھائی دیتا ہے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘۔ یکم مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply