
ایک لمحے کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ القاعدہ اور دیگر اسلامی تنظیموں کی جانب سے امریکا اور مغرب کے خلاف جنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ہم یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ اسلام کے نام پر گزشتہ عشروں کے دوران کیے جانے والے تمام دہشت گرد حملے اسی جنگ کا ایک ناگزیر حصہ تھے او ریہ کہ موجوہ تصادم جو اب تقریباً پچا س ممالک سے زائد تک پھیل چکا ہے اور ہزاروں لاکھوں افراد کی جانیں لے چکا ہے‘ جس میں مسلمانوں کی آپس میں باہمی خونریزی کے واقعات بھی شامل ہیں یہ سب کچھ اس ’’اعلان جہاد‘‘ کا فطری نتیجہ ہے‘ جو اسامہ بن لادن نے اللہ کی راہ میں کر رکھا ہے۔ اگر فی الواقع ایسی جنگ جاری ہے بھی تو واقعات اور شواہد کو دیکھتے ہوئے دس اسباب اور وجوہ ایسی ہیں‘ جن کی بناء پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری یہ جنگ کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوپائے گی! یہ اسباب اور وجوہ درج ذیل ہیں۔
۱۔سب سے پہلا سبب تو یہ ہے کہ غیرمسلم دنیا موجودہ واقعات کے جواز اور عدم جواز کے حوالے سے باہمی طورپر اور سیاسی اعتبار سے بھی مکمل طور پر منقسم ہے۔ ان میں سے بعض غیر مسلم ممالک تو ایسے ہیں ‘جنہوں نے ایسی کسی بھی جنگ کے وجود کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کردیاہے‘ چنانچہ ان کے خیال میں ایسی کوئی جنگ کہیں بھی لڑی نہیں جارہی اور وہ اس بنیاد پر اسے مسترد کرتے ہیں جبکہ ان کے برعکس چند ممالک اور اقوامِ امریکی صدر جارج بش کے ہمنوا ہیں کہ جو جنگ ہم لڑرہے ہیں وہ اکیسویں صدی کی ایک فیصلہ کن نظریاتی جنگ ہے! چنانچہ ان منقسم اور متضاد آراء اور خیالات نے اس معاملے کو مذاکرات‘ مکالمے اور گفت و شنید سے لے کر جوہری ہتھیاروں تک کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے او رپبلک ڈپلومیسی سے لے کر مسلمانوں کے اہم ترین مقامات پر قبضے کا مشورہ بھی دیا ہے‘ جن میں مکہ کا مقدس شہر بھی شامل ہے۔ اس اختلافِ رائے نے ان دو طرح کے طبقات کے مابین مسئلے کو حل کرنے کی غرض سے بھی ایک وسیع خلیج پیدا کر رکھی ہے‘ چنانچہ ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس جنگ کو براہ راست دہشت گردوں تک لے جانا صحیح ہوگا‘ جبکہ دوسرا گروہ اس خیال کا مخالف ہے‘ اس کا کہنا ہے کہ ایسی کسی بھی جنگ کا خواہ وہ داخلی شہری آزادیوں کے حوالے سے لڑی جائے یا پھر حریفانہ جیو پولیٹکل اندازوں کے پیش نظر جاری رکھی جائے‘ ہر دو صورتوں میں ایسی کسی بھی جنگ کا بظاہر کوئی جواز اور فائدہ نظر نہیں آتا۔
۲۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ واقعات اور شواہد کے پیش نظر اسلام کو کس بھی قیمت پر شکست سے دوچار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عالمی برادری اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی مجموعی قوت‘ طاقت اور استطاعت کا ابھی پوری طرح سے کوئی اندازہ نہیں لگایا گیا۔ اس کے برعکس اس کی اہمیت کو گھٹا کر دیکھا اور پیش کیا جارہا ہے۔ اسلام کی نوعیت‘ فطرت اور سرشت کو ٹھیک طور سے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی‘ نہ ہی یہ امن کا مذہب ہے‘ نہ اس مذہب کو کسی نے ہائی جیک کیا ہے اور نہ ہی بعض لوگ اسے اپنے محض اغراض و مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اس کے برعکس اس مذہب کا اخلاقی نظام‘ جہادی اخلاقیات اور کسی بھی غیر اسلامی نظام اقدار کے ساتھ عدم اشتراک کا رویہ آپس میں مل کر اس مذہب کی تعریف کا تعین کرتے ہیں اور قران مجید میں بھی اس کا جواز موجود ہے۔ آپ روایتی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے اسلام کو محض ایک ’’مذہب‘‘ بھی قرار نہیں دے سکتے‘ یہ ایک ماورائے قوم سیاسی اور اخلاقی تحریک ہے‘ جس کے مطابق بنی نوع انسان کے تمام مسائل کا کافی اور شافی حل اس کے پاس موجود ہے‘ چنانچہ اسلام کی رو سے یہ بات خود انسانیت اور بنی نوع انسان کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ ا سلامی حکومت کے اندر اسلام کی حکمرانی کے تحت اپنی زندگی بسر کریں‘ اس طرح مغرب کی جانب سے مسلمان ممالک میں مغربی جمہوریت کی بحالی اور فروغ کا تصور محض مہمل اور بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی جمہوریت کا تصور اسلامی تعلیمات کے تناظر میں قطعی طور پر ناقابلِ تسلیم ہے۔ اس کا ثبوت خود اسلامی تاریخ میں بھی موجود ہے۔ اسی طرح اسلامی تحریک کے فوجی اور سیاسی بازوؤں کو بھی ایک دوسرے سے علیحدہ اور الگ کرنے کا تصور بھی خاصا مضحکہ خیز نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے امریکی وزیر دفاع ڈونلڈرمسفلیڈ کایہ بیان احمقانہ لگتا ہے کہ ’’عراق میں لڑنے والے باغی مسلمان کسی بھی وژن سے محروم ہیں‘ اسی لیے وہ شکست خوردہ ہیں۔‘‘ اس جنگ میں اگر واقعی اسے جنگ کہا جاسکتا ہے تو اس میں حقیقی شکست ان لوگوں کی ہوگی‘ جو اس جنگ کو چھیڑنے کے ذمہ دار ہیں۔
۳۔ اسلام کے مغرب کے مقابل ناقابل شکست ہونے کاتیسرا سبب یہ ہے کہ مغربی قیادت کی سطح جتنی بلند ہونی چاہیے تھی اس قدر بلند نہیں۔ اس کے برعکس اس کی سطح بہت نیچی ہے‘ بالخصوص موجودہ امریکی قیادت پر تو یہ بات بالکل صادق آتی ہے۔ یاد کیجیے اسلامی احیاء او رنشاۃ الثانیہ کی نصف صدی کے دوران سفارتی‘ سیاسی اور عسکری اعتبار سے اسلامی حکومتیں اپنے عروج پر تھیں‘ اس کے برعکس موجودہ امریکی حکومت اور انتظامیہ کے پاس کوئی اسٹرٹیجک سمت موجو دنہیں ہے‘ نہ ہی اس کے جنگی منصوبے کسی مشترکہ غور و خوض کے نتیجے میں جنگی ضروریات کو دیکھ کر بنائے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے مقاصد کی وضاحت کے لیے اس کے پاس موزوں اور مناسب زبان اور ذریعہ اظہار بھی موجود نہیں ہے! یہاں مشہو فلسفی اینڈ منڈبرک کا یہ قول یاد آرہا ہے۔ مارچ ۱۷۷۵ء میں اس نے کہا تھا ’’ایک عظیم الشان سلطنت اور چھوٹے دماغ ایک دوسرے کے ساتھ کبھی نہیں چل سکتے۔‘‘ چنانچہ اسلام کے خلاف اس جنگ میں اگر واقعی اسے جنگ کہا جاسکے‘ مجھے برک کا یہ قول سچ ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ ’’ایک عظیم الشان سلطنت چھوٹے دماغوں کے ساتھ کبھی نہیں چل سکے گی۔‘‘
۴۔ چوتھا سبب مغربی پالیسیوں کا ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ ان پالیسیوں کی انانیت کی کشمکش کو عجلت کے نتیجے میں ان افراد نے تیار کیا ہے‘ جو اسلام کے حوالے سے نہایت اشتعال انگیز رویوں کے حامل ہیں۔ ان لوگوں میں اسلام سے خوفزدہ افراد بھی شامل ہیں‘ جو اسلام کے نام پر یہ پالیسیاں وضع کررہے ہیں۔ اس محاذ جنگ کو بھی یہ پالیسی ساز افراد اپنی ذات کے فروغ کی غرض سے استعمال کررہے ہیں اور ان میں سے بیشتر کا خیال ہے کہ ان کی آراء اور خیالات بے حد اہمیت کے حال ہیں‘ بہ نسبت ان مسائل کے‘ جن کے بارے میں وہ یہ پالیسیاں وضع کررہے ہیں۔ چنانچہ یہ اسی بدحواسی اور خود پرستی کا نتیجہ ہے کہ مغربی پالیسیاں کسی مستقل اور باقاعدہ نوعیت سے محروم ہیں۔
۵۔پانچواں سبب‘ ترقی پسند حلقوں کے ذہن میں موجود وہ کنفیوژن ہے‘ جس کا تعلق اسلام کی ترقی‘ فروغ اور پیش رفت کے حوالے سے ہے۔ کمیونزم سوشلزم اور سوویت روس کے زوال کے بعد یہ ترقی پسند افراد اپنی بنیادی اور اصل شناخت سے محروم ہوچکے ہیں‘ لیکن رسی جل جانے کے بعد ان کے بل نہیں گئے‘ چنانچہ وہ آج بھی نوآبادیاتی نظام کے مخالفانہ موقف پر ہی انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ بہرطور مغرب کے ان مسائل کو بھی اس کے نوآبادیاتی ماضی کا ایک لازمی نتیجہ قرار دینا‘ ایسا کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ تاہم اس کے باوجود اسلامی احیاء اور نشاۃ الثانیہ کی اندرونی قوت اور داخلی طاقت کو بھی نہ سمجھنا ایک زبردست غلطی ہوگی! یہ طاقت اور قوت نوآبادیاتی نظام کا شکار رہنے کے نتیجے میں نہیں پیدا ہوئی‘ بلکہ اس کا تمام تر انحصار اپنے عقیدے کی بڑھتی ہوئی قوت اور اپنے عقائد کے نظام کی حقانیت پر ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی اسلام کے حق میں جاتی ہے کہ آج کے بیشتر ترقی پسندوں کے پاس بھی روایتی طور پر اسلام کے رجعت پسندانہ اور فرسودہ تصّورات کے بارے میں کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے‘ نہ ہی وہ اپنے مخالفین کے سلسلے میں اسلام کے مظالم کا ذکر کرتے ہیں‘ نہ ہی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا کوئی تذکرہ ان کی زبانوں پر آتا ہے۔ یہودیوں اور ہم جنس پرستوں سے اس کی شدید نفرت پر بھی اب کوئی تبصرہ نہیں کیا جاتا‘ جن کے خلاف تشدد پسند کارروائیوں کا اسلام میں پورا جواز موجود ہے۔ چنانچہ اب جرمنی کے نازی ڈکٹیٹر اڈولف ہٹلر کی خودنوشت سوانح عمری ’’میری جدوجہد ‘‘ عرب ممالک میں ’’جہاد‘‘ کے عنوان سے پڑھی جارہی ہے۔
۶۔ اسلام کی روز افزوں بڑھتی ہوئی قوت اور طاقت کا ایک اہم سبب ان غیرمسلموں کا پراسرار رویہ اور اظہارِ اطمینان ہے ‘ جن کا تعلق امریکا کی پسپائی سے بتایا جاتا ہے‘ چنانچہ ایسے غیرمسلم جو اس قسم کے اطمینان کا اظہار کررہے ہیں‘ درحقیقت ’’ٹروجن گھوڑے ‘‘ہیں جن کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ان میں بعض اس اصول پر عمل پیر اہیں کہ ’’دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے‘‘ جبکہ دیگر کا خیال یہ ہے کہ ’’وہ اسلام کے خلاف مغرب کی اس جنگ میں کسی بھی صورت میں مغرب کی حمایت نہیں کریں گے۔‘‘ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا فیصلہ بالکل درست اور صحیح ہے۔ تاہم ان تمام حقائق کے باوجود نتائج ان سب کے لیے یکساں ہی ہیں۔ اسلام کی پیشرفت کے نتائج کو یہ دونوں طبقات یکساں طورپر بھگتنے کے لیے مجبور ہیں۔
۷۔ساتواں سبب‘ مغرب کی اخلاقی غربت اور اخلاقی اقدار کے مجموعی نظام کے افلاس میں مضمر ہے‘ بالخصوص امریکا کا اخلاقی نظامِ اقدار زوال اور تباہی کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ چنانچہ آزاد منڈی کی معیشت ‘آزادانہ انتخاب‘ تجارتی مقابلہ اور کاروباری مسابقت کو وہاں آزادی اور لبرٹی کا نیا نام دیا گیا ہے۔ ان چیزوں کااسلام اور اس شریعت سے قطعاً کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا‘ خواہ آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں! اسلام کے اخلاقی نظامِ اقدار میں ایسی چیزوں کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ تعجب خیز واقعہ تو یہ ہے کہ دلوں اور دماغوں کے نام پر جو جنگ لڑی جارہی ہے‘ اسی کے دوران امریکا کی پہلی کیولری ڈویژن نے ’’آدم اسمتھ آپریشن‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے عراق جیسے جنگ زدہ ملک کو تجارتی اور کاروباری مارکیٹنگ کے اسرار و رموز سکھانا شروع کردیئے ہیں۔ ان حالات اور حقائق کی روشنی میں کم از کم امریکا کو تو وہاں کامیابی اور فتح حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہاں مجھے شیخ محمد الطباطبائی کی یہ بات یاد آرہی ہے‘ جو انہوں نے مئی ۲۰۰۳ء میں بغداد کی ایک مسجد کے نمازیوں سے خطاب کے دوران کہی تھی۔ ان کے الفاظ یہ تھے…
’’مغرب ہمیشہ آزادی اور خود مختاری کی دہائی دیتا رہتا ہے۔ اسلام ایسی کسی آزادی کو تسلیم نہیں کرتا۔ اصل آزادی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت ہی میں مضمر ہے۔‘‘
۸۔آٹھواں سبب‘ اسلام کے ناقابل شکست ہونے کا یہ ہے کہ اس کی موجودہ پیش رفت ترقی اور آگے ہی آگے بڑھتے رہنے کی رفتار اسی طرح بدستور جاری رہے گی‘ کیونکہ اس غرض اور مقصد سے دستیاب ذرائع ابلاغ کو بڑی خوبی اور مہارت کے ساتھ استعمال کیا جاہا ہے ۔ اس کے علاوہ اسلامی ویب سائٹ کے ذریعے الیکٹرانک جہاد کے فروغ کے علاوہ مغربی نظریات کے پرچار کی مسلمان علماء اور اسکالرز کی جانب سے شدید مخالفت بھی جاری ہے۔ آپ اسے درپردہ ایک سیاسی شراکتی معاہدہ بھی کہہ سکتے ہیں‘ جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین اسلام کے عالمی نقطہ نظر کی پہنچ کو وسیع تر کرنے کی غرض سے عمل میں آچکا ہے۔ اس سلسلے میں مغرب کے پروڈیوسرز اور براڈ کاسٹرز کی جانب سے الجزیرہ ٹی وی چینل کو فراہم کی جانے والی مدد کا تذکرہ بطور حوالہ پیش کیا جاسکتا ہے۔
۹۔ نواں سبب جو اسلام کی مزید پیشرفت کا ضامن ہے‘ وہ ہے مسلم ممالک اور عربوں کے مادی اور معدنی ذرائع اور وسائل پر امریکا کا کلی انحصار! یاد رہے کہ اپریل ۱۹۱۷ء میں سابق امریکی صدر روڈ وولسن نے امریکی کانگریس کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردے‘ جس کے بارے میں وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ یہ جنگ چھیڑنے میں ہمارا کوئی ذاتی مفاد اور مقصد پوشیدہ نہیں ہے۔ اس وقت تو اس نوعیت کا اعلان جنگ ممکن بھی تھا‘ لیکن آج کی تبدیل شدہ صورتحال اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے گی ‘ کیونکہ امریکا کی صارفانہ احتیاج اور مختلف شعبوں میں کیے جانے والے معاشی اور اقتصادی نوعیت کے اقدامات اور ضروریات لامتناہی حد تک بڑھ چکی ہیں‘ جن کے لیے اسے مسلم اور عرب ممالک کے ذرائع اور وسائل پر کلی انحصار کرنا پڑتا ہے‘ چنانچہ آج کے امریکا کا مکمل انحصار مشرقِ وسطیٰ میں موجود تیل کے کنوؤں سے برآمد ہونے والے تیل کے ایک ایک بیرل تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے اور مستقبل میں بھی یہ صورتحال جوں کی توں رہے گی‘ چنانچہ وہ اس حیثیت میں ایسا کوئی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔
۱۰۔ آخر میں مغرب کو اس بات کا پورا یقین ہوچلا ہے کہ ٹیکنالوجی پر مبنی مغربی معاشرے کا جدید ترین لائف اسٹائل اور منڈی کی معیشت پر مبنی اس کی اقتصادی ترقی اور پیشرفت بالآخر پسماندہ اور قدامت پرست اسلام کے تصورات کی بہ نسبت زیادہ ترقی یافتہ‘ اعلیٰ اوربرتر ہے ‘ یہ بھی مغرب کی ایک پرانی غلط فہمی یا خوش فہمی ہے۔۱۸۹۹ء میں سابق برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل نے اس خیال کا اظہار کیاتھا کہ پوری دنیا میں اسلام سے زیادہ رجعت پسندی کسی بھی مذہبی نظریے میں موجود نہیں ہے۔ بہرطور ایک صدی کا عرصہ گزرنے کے بعد آج اس بات پر پختہ یقین کیا جاتا ہے کہ جدید ترین ہارڈ ویئر اسلحہ اور اسٹار وار کے دفاعی حربے مغرب کو اس جنگ میں فتح سے ہمکنار کردیں گے۔
جون ۲۰۰۴ء کے دوران سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے اسکالر سلیمان العمر نے یہ اعلان کیا تھا کہ ’’اسلام ایک خاص منصوبے کے تحت رفتہ رفتہ پیشرفت کررہاہے‘جو ایک دن امریکا کی مکمل شکست و ریخت اور تباہی و بربادی کا باعث بن جائے گا۔‘‘
آج جو حقائق اور صورتحال ہمیں نظر آرہی ہے اور اوپر ہم نے اسلام کو شکست نہ ہونے کے جو دس اسباب بیان کیے ہیں‘ ان کی روشنی میں سعودی اسکالر سلیمان العمر کا دعویٰ بالکل صحیح اور درست معلوم ہوتا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ’’بیداری‘‘ حیدرآباد۔شمارہ اکتوبر۲۰۰۶ء)
Leave a Reply