
* انسانیت دوست اور قانون کے پابند ملک کا تاثر:
جنگ جس طرح لڑی گئی اس نے امریکا اور اتحادیوں کے انسان دوست اور قانون پسند نہ ہونے کے بارے میں الزامات کی تصدیق کردی۔ War Lords اور جنگجوؤں کو ساتھ ملانے اور حکومتوں میں شریک کرنے کا عمل،فوجی اور فضائی طاقت کا بلا امتیاز استعمال، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، انسانی جان کے احترام کے حوالہ سے قانون شکنی،قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی اور ان کے انسانی حقوق کی پامالی، Collateral Damage کے عنوان سے عام معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ایسے اقدامات تھے جنہوں نے عوامی سطح پر ردعمل کومزید تقویت دی اور جن کی موجودگی میں آج شاید ہی کوئی یہ یقین کرنے کو تیار ہو کہ دہشت گردی کے بارے میں امریکی جنگی مہم انسان دوستی اور قانون دوستی کے تقاضوں پر مبنی ہے۔
* ناقابل شکست ہونے کا تاثر:
یہ بات متنازعہ نہیں کہ طاقت اور ترقی کے لحاظ سے امریکا آج کی دنیا میں اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہے دفاعی ٹکنالوجی کے میدان میں امریکی برتری کے بارے میں بھی دوآراء نہیں ہیں۔ درحقیقت روس کے خاتمہ کے بعد دنیا میں امریکا کو چیلنج کرنے والا بظاہرکوئی نہ تھا۔ لیکن بے سروسامان طالبان کے ہاتھوں امریکا کو جس حزیمت کا سامنا ہے اس سے امریکا کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر مجروح ہوا ہے اور یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ انسانی عزائم کے مقابلہ میں ٹکنالوجی کی طاقت سے کوئی جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔ جبکہ بڑی تعداد میں انسانی ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بناء پر مزاحمتی تحریکات کو ملنے والی عوامی تائید نے نئی قوت فراہم کی جس نے اس وقت بھی افغانستان میں ایک عوامی بغاوت کا روپ دھارا ہوا ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جسے طاقت سے کنٹرول کرنا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے۔ عراقی عوام کونسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر براہ راست لڑاکر عراق میں اس کا رُخ باہم کشمکش کی طرف موڑا گیا، افغانستان میں اس کوشش میں ہنوز کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
* عالمی نظام کی ناکامی کی ذمہ داری کاتاثر:
عالمی نظام کو سبوتاژ کرنے کے عزائم کے خلاف چھیڑی جانے والی جنگ میں امریکی ساکھ سے جڑا ہوا ایک عنوان یہ بھی ہے کہ وہ خود عالمی نظام کا کس قدر احترام کرتا ہے۔اس تناظر میں دیکھاجائے تو عالمی نظام کی کمزوریاں اور اس حوالہ سے امریکی کردار کھل کر سامنے آیا ہے۔ افغانستان اور پھر عراق پر حملہ اور یہاں ہونے والی مختلف کارروائیوں کے ذریعے بین الاقوامی تعلقات اور اس حوالہ سے قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں ہوتی رہی ہیں۔ حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کوبھی بار بار نظرانداز کیاگیا۔ اقوام متحدہ کی ساکھ اور اس کا کردار مجروح ہوا۔ یہ تاثر کہ وہ کوئی آزادانہ کردار ادا کرنے کے قابل نہیں بلکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے دن بدن گہرا ہوتاجارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے فیصلے امریکی ترجیحات کے مطابق ہونے کی تازہ ترین مثالوں میں سے ایک اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد طالبان رہنماؤں کی فہرست کو القاعدہ فہرست سے علاحدہ کرنا اور پھر فہرست سے کئی راہنماؤں کا نام نکالنا ہے۔
* امریکا کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے بارے میں تاثر:
امریکا نے اپنے مقاصد اور حکمت عملی کے حوالہ سے اپنے اعلان کردہ موقف میں بار بار تبدیلی کی ہے۔جنگ کا اعلان کردہ محرک اور ہدف دہشت گردی کا خاتمہ تھا جو بعد میں دہشت گردوں کے خاتمہ اور پھر القاعدہ، طالبان اور صدام حسین کے خاتمہ، حکومتوں کی تبدیلی اور مقامی لوگوں کو اقتدار اور سلامتی کی ذمہ داریوں کی منتقلی میں تبدیل ہوگیا۔ افغانستان میں ان ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے جن پر ’دہشت گردوں‘ کی مدد اور پناہ دینے کا الزام تھا اور جنہوں نے آج تک اپنے اس طرزعمل کا دفاع کیا ہے۔ وہ تمام شرائط جو اس سے قبل مذاکرات کے لیے عائدکی جاتی تھیں اب مذاکرات کے امکانی نتائج کے طورپر پیش کی جارہی ہیں۔
اس تناظر میں یہ تاثر عام ہے کہ امریکا سے زمینی حقائق کوسمجھنے اور جس ردعمل کا اسے سامنا کرنا پڑے گا اس کا اندازہ لگانے میں غلطی ہوئی ہے جبکہ طویل مدت کے کسی واضح منصوبہ کا فقدان بھی نمایاں ہوکرسامنے آیا ہے۔ اس کے علاوہ ترجیحات کا عدم تسلسل اور اپنے نظام کے مختلف حصوں میں ارتباط وتعاون کی کمی نے امریکا کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے بارے میں تاثر خراب کیا ہے۔
جنگ کے بارے میں ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسے اپنی مرضی سے شروع توکیا جاسکتا ہے مگر اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا نہیں جاسکتا۔ جنگ اپنی سمتیں خود متعین کرتی ہے جو بہت سے مواقع پر اسے شروع کرنے والے کے لیے غیر متوقع ہوسکتی ہیں۔ اس کا عکس ہمیں امریکا کی زیرقیادت لڑی جانے والی جنگ میں نظر آتا ہے جس میں امریکا یہ جاننے کے باوجود کہ اس کے امیج اور ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے اپنی جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس حوالہ سے امریکا کی خارجہ امور پر ہاؤس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی برائے بین الاقوامی تنظیمات، انسانی حقوق اور نگراں امور کی رپورٹ کا یہ حصہ اہمیت کے ساتھ نوٹ کرنے کے قابل ہے:
امریکی پالیسیوں،اقدار اور لوگوں کے بارے میں بین الاقوامی رائے عامہ کے مشاہدات کی مختلف سطحوں، رجحانات اور وجوہات پر بحث کرنے کے بعد رپورٹ یہ تسلیم کرتی ہے کہ یہ درست ہے کہ دنیا کے تقریباً تمام خطوں میں ’’۱۹۵۰ء کے عشرے سے لے کر سال۲۰۰۰ تک امریکا کے بارے میں پایاجانے والا مثبت رجحان سال ۲۰۰۲ سے عموماً منفی رجحان میں تبدیل ہو چکا ہے‘‘۔ اس گرتے رجحان کی وجوہات کے تعین کے طور پر کہا گیا ہے کہ ’’یہ امریکا کی مخصوص پالیسیوں سے اختلاف کے بنا پر ہے نہ کہ امریکی اقدار یا لوگوں کی مخالفت میں‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی بنیاد طرزِ فکرکا وہ یک طرفہ انداز (Unilateralism) ہے’’جو بین الاقوامی اتفاقِ رائے کو نظرانداز کرنے پر مبنی ہے، خصوصاً فوجی طاقت کے استعمال کے حوالہ سے‘‘۔ مزید برآں عدم اطمینان اور نفرت میں اضافہ ہونے کا باعث یہ امر بھی ہے کہ امریکی انتظامیہ نے اپنے بیان کردہ جمہوری رویے، انسانی حقوق، برداشت اور قانون کی حکمرانی وغیرہ کے اصولوں کو کئی جگہ جان بوجھ کر نظرانداز کیا ہے جس سے امریکیوں کے بارے میں منافق ہونے کا تاثر ابھرا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکا میں آنے والے غیرملکیوں (Immigrants) سے رویے اور ویزا کے طریق کار خصوصاً مسلمان درخواست گزاروں کے ساتھ سلوک نے امریکیوں کے بارے میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اور بالآخر یہ رپورٹ قراردیتی ہے کہ اسے اسلام کے خلاف جنگ سمجھا جانے لگا ہے۔ مسلم دنیا میں امریکا کے بارے میں یہ عام خیال پایا جاتا ہے کہ امریکا ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر دراصل اسلام کو تباہ کرنے کی کوشش کررہاہے۔
امریکا کی کامیابیاں
جنگ کا متعین طورپر ہدف کیا ہے اور اسکی روشنی میں اس جنگ میں کامیابی کو کس طرح بیان کیاجائے۔ جنگ کی نوعیت مبہم ہونے کی بنا پر یہ بالکل غیریقینی ہے۔ جنگ کو شروع کرتے ہوئے جو مقاصد بیان کیے گئے تھے ان میں عملاً کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے تاہم اگر ہم امریکی نقطہ نظر سے دیکھیں تو دس سال کے دوران دہشت گردی کے خلاف شروع ہونے والی اس جنگ کی کامیابیاں (اگرکوئی ہیں)پر نگاہ ڈالی جائے تو درج ذیل تصویر بنتی ہے:
٭ عراق اور افغانستان میں حکومتوں کا خاتمہ ہوا۔ دونوں جگہ نئی حکومتیں قائم کی گئیں اوراگرچہ جنگوں کی ابتداء میں اسے کوئی ہدف قرار نہیں دیاگیا لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان ملکوں میں دستور کی ازسرنو تشکیل ہوئی اورانتخابات کا عمل شروع ہوا۔ عراق وافغانستان میں ڈیویلپمنٹ کا بھی کچھ نہ کچھ کام ہوا ہے۔
٭ اگرچہ افغانستان میں جنگ ہنوز جاری ہے اور استحکام کے آثار ابھی نظرنہیں آتے لیکن اب کوئی چھ ملین بچے (بشمول لڑکیاں) تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ متعدد نجی یونیورسٹیاں قائم ہوگئی ہیں۔ شہری سہولتیں اور انفراسٹرکچر میں کچھ بہتری آئی ہے اور چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے ہزاروں کاروبار اور منصوبے افغانستان کے طول وعرض میں شروع ہوئے ہیں۔ عراق میں حالات بظاہر پرسکون ہوگئے ہیں۔ تاہم اس وقت بھی وہاں ۴۳۰۰۰ سے زائد فوجی موجود ہیں اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ عراقی معاشرہ کو آج نسلی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر زیادہ گہری تقسیم اور انتشار کا سامنا ہے۔
٭ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن (اور اس کی اعلیٰ قیادت کے ایک بڑے حصہ) کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ وہ ہلا ک ہوگئے اور اسی بناء پر یہ امید کی جاتی ہے کہ القاعدہ بھی کمزور ہوجائے گی۔
٭ امریکا اور اس کے اتحادی ناٹو نے اپنے دائرہ کار کو نہ صرف وسعت دینے میں کامیابی حاصل کی بلکہ نیٹوکی اپنی حدود سے باہر کارروائیوں کوعملاً قانونی حیثیت حاصل ہوگئی۔ افغانستان کے بعد عراق اور اب لیبیا میں نیٹو کو ملنے والا کردار اس کی براہ راست مثالیں ہیں۔
٭ گزشتہ چند سالوں کے دوران ’دہشت گردی‘ کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔
٭ رائے عامہ کی تائید کے حصول کے نقطۂ نظر سے جنگ کا ایک اہم میدان رائے عامہ تشکیل دینے والوں (Opiniom Makers) پر اثرانداز ہونا ہے۔ (اسی بنا پر عراق میں تو امریکی فوج اپنے ساتھ اپنے حمایتی اور ہمدرد صحافی (Embeded Journalists) بھی لے کر گئی تھی)۔ اس تناظر میں ذرائع ابلاغ اور علم ودانش کا کردار نمایاں ہوکرسامنے آیا۔ اس میدان میں امریکا اوراس کے اتحادیوں کی غیرمعمولی طاقت ۱۱/۹سے پہلے بھی واضح تھی اور ۱۱/۹کے بعد بھی اس صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ ہورہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں وسیع اثرات رکھنے والے (Mainstream) میڈیا اور علم ودانش کے حلقوں میں گفتگو اور توجہ کا محور ان ہی نکات پر مبنی ہے جو امریکی سوچ کو نمایاں کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ تاہم ایک جانب یہ حقیقت کہ زمینی حقائق کو زیادہ دیرتک پوشیدہ نہیں رکھا جاسکتا اور دوسری جانب ٹیکنالوجی کی ترقی نے فریق مخالف کو بھی یہ موقع فراہم کیا ہے کہ اس کا نقطۂ نظر دنیا کے سامنے آسکے۔
مذکورہ بالا جائزہ میں ہم نے امریکا کی ساکھ اور اس پر پڑنے والے بوجھ کا جائزہ لیا ہے لیکن درحقیقت اس پورے عمل میں بیشتر یورپی ممالک نے بھی امریکا کے ساتھ ساتھ اپنی ساکھ کومتاثر کیا ہے۔
امریکی قیادت میں جنگ کی کامیابیوں اور ان کا میابیوں کے لیے دی جانے والی قیمت کے مندرجہ بالا جائزہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں میں سے کوئی فریق بھی ایک دوسرے کوختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ القاعدہ کی قیادت کی ہلاکتوں کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کے اثرات ۲۰۰۱ء کے مقابلہ میں کم ہوئے ہیں۔درحقیقت القاعدہ ختم نہیں ہوئی بلکہ اس نے ایک نظریہ کی شکل اختیار کر لی اور آج صورتحال یہ ہے کہ محروم اور مایوس لوگوں کی ایک بڑی تعدا دخواہ القاعدہ سے وابستہ نہ ہو اس کے نظریات میں دلچسپی محسوس کرتی ہے جبکہ طالبان ۲۰۰۱ء کے مقابلہ میں واضح طورپر زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔ نیز قومی مزاحمت اور غیرملکی فوجوں کی مخالفت اور Collateral Damage کے عنوان سے ہونے والے جانی نقصانات نے ان کی طاقت اور حمایت کے تصور کو مضبوط تربنادیا ہے۔ دوسری جانب امریکا اس وقت بھی دنیا میں طاقتور ترین ملک ہے تاہم ۲۰۰۱ء کے مقابلہ میں اس کی سیاسی و اقتصادی قوت، ساکھ اور دنیا پراثرانداز ہونے کی صلاحیت شدید طورپر متاثر ہوئی ہے اور دنیا کی قیادت کا جو موقع اسے حاصل ہوا تھا وہ تیزی سے اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
۱۱؍ستمبر اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پرچین کی پالیسی
دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صورت میں امریکا نے ایک جارحانہ مہم جوئی کاآغاز کیا تو ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کی حیثیت سے چین کے لیے خاموشی اختیار کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس کے پاس چار امکانی راستے تھے۔ اول: یہ کہ کسی بھی تحفظ کا اظہار کیے بغیر اس جنگ میں اپنے وسائل کے ساتھ شریک ہوجائے۔ دوم:مشروط حمایت یعنی اپنی حمایت کے بدلہ امریکا سے کوئی مطالبات منوائے جائیں۔ سوم:یہ کہ اپنے تحفظات کی روشنی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے شروع ہونے والی اس مہم سے اپنی مخالفت یاکم ازکم لاتعلقی کا اعلان کردے لیکن امریکا کے لیے کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرے اور چوتھے یہ کہ بین الاقوامی سطح پر امریکا کے ساتھ ہمدردی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر بننے والے ماحول سے اپنے آپ کو علاحدہ نہ رکھے سیاسی حمایت فراہم کردے لیکن عملی طورپر کوئی ذمہ داری اپنے سرنہ لے۔ نہ ہی اپنے انسانی ومادی وسائل کو اس جنگ کا ایندھن بنائے۔ اسی امکان کا ایک جزو یہ تھا کہ امریکا اورالقاعدہ کے درمیان ہونے والے تصادم کی اس صورتحال کو ممکنہ حد تک اپنے لیے موقع بنالے۔
ذیل میں کی گئی بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے اس امر میں کوئی تعجب نہیں کہ چین نے اپنے لیے آخری راستے کا انتخاب کیا۔
۱۱/۹ سے پہلے واقعات کی ایک فہرست تھی جس نے چین اور امریکا کے تعلقات میں الجھاؤ پیدا کر دیا تھا۔ جن میں۱۹۹۸/۱۹۹۹ء میں جوہری توانائی کے جاسوسی کے اقدامات سمیت، ۶ مئی ۱۹۹۹ء میں بلغراد میں چین کے سفارت خانے پر ہونے والے حادثاتی امریکی دھماکے اور اپریل ۲۰۰۱ء میں امریکی نگرانی کرنے والے ہوائی جہاز اور چین کے لڑاکا طیارے کے درمیان تصادم جیسے واقعات شامل ہیں۔ ۱۱/۹ کے واقعہ نے ان دونوں ممالک کو ایک نئی بنیا دفراہم کی کہ وہ اپنی اپنی وجوہات وضروریات کے پیش نظر دہشت گردی کے خلاف جنگ پر تعاون کو بڑھاتے ہوئے اپنے تعلقات کو مستحکم بنائیں۔ چین نے اس موقع کو بین الاقوامی سطح پر اپنی مثبت تصویر پرابھارنے کے لیے بھی استعمال کیا اور ایسی ریاستوں کے ساتھ تعلقات رکھنے کے الزام کو مسترد کرنے کے لیے اس سے فائدہ اٹھایا جن پر کسی طرح دہشت گرد تنظیموں کو پناہ گاہ فراہم کرنے یا انہیں سرپرستی فراہم کرنے کا الزام تھا۔
اس پسِ منظر میں ۱۱/۹ کے واقعہ پر ابتدائی چینی ردعمل گہرے دکھ اور ہمدردی کے اظہار پر مبنی تھا۔ ۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء کواپنے امریکی ہم منصب صدر بش سے بات کرتے ہوئے چین کے صدر Jiang Zemin نے اس عزم کا اظہار کیا کہ چین کی خواہش ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے کی جانے والی کوششوں میں شامل ہو اوروہ امریکا اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مکالمے اور تعاون کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے روسی، برطانوی اور فرانسیسی ہم منصبوں کے ساتھ بھی مشاورت کی۔ اس کے علاوہ چین کی وزارتِ خارجہ نے طالبان حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے رسمی تعلقات سے بھی انکار کیا۔
تاہم چین ۱۱/۹ کے حملوں کے ردعمل میں طاقت کے استعمال کے معاملہ میں محتاط رہا۔ اس نے افغانستان پر حملے کے لیے اتحادی افواج میں شمولیت اختیار نہیں کی اور بعد میں سلامتی کونسل میں عراق پر حملے کی قراردادوں کی بھی مخالفت کی۔ افغانستان میں امریکا کے فوجی آپریشن کی بیجنگ نے مشروط حمایت کی۔ چین نے واضح کیا کہ کوئی بھی کارروائی ٹھوس شہادتوں کی موجودگی میں ہونی چاہیے، بین الاقوامی قوانین کوپوری طرح مدنظر رکھاجائے، معصوم شہریوں کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے اور کوئی بھی کارروائی شروع کرنے سے پہلے سلامتی کونسل کی منظوری لازمی ہونی چاہیے۔
چین کا یہ رویہ سرد جنگ کے بعد کی دنیا کے بارے میں اس کے نقطۂ نظر سے مطابقت رکھتا ہے جوکہ یک قطبی کے بجائے کثیرقطبی دنیا (Multi Polarity) عالمی امور میں اقوام متحدہ کے بڑھتے ہوئے کردار، علاقائی سا لمیت وریاستی خودمختاری، ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور اس کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی کے گرد گھومتا ہے۔
بین الاقوامی دہشت گردی پر چین کا موقف دہشت گرد گروہوں کی بنیاد، ارتقاء اور ان کی خصوصیات اور سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی بنیادی وجوہات اوربین الاقوامی سیاسی، اقتصادی اور سماجی نا انصافیوں کے ساتھ ان کے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے ضمن میں بنیاد پرستی سے متعلق مسائل، عالمگیریت کے اثرات اور ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے اثرات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے چینی تجزیہ سرد جنگ کے بعد امریکا کی غیرمتوازن خارجہ پالیسی کی طر ف بھی اشارہ کرتا ہے جس کی وجہ سے امریکا کو ایک مغرور عالمی طاقت کے طورپر دیکھا جاتا ہے جوکہ غیرمنصفانہ بین الاقوامی سیاسی اور اقتصادی نظام کا سرپرست ہے اورجو دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت اور مختلف نسلی او رمذہبی گروہوں کے خدشات کی پروا کیے بغیر اپنے مفاد میں عمل کرتا ہے۔
افغانستان میں ہونے والے فوجی آپریشن امریکا اور نیٹو کی افواج کو جنوبی اور وسطی ایشیا میں لانے کا سبب بنے جن کے ساتھ چین کی ۵۰۰۰ کلومیٹر طویل سرحدیں ہیں۔ اس پس منظر میں چین کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ امریکا اپنی فوج کی توسیع اس کے پڑوس تک کرنا چاہتا ہے اور چین کے پڑوسی ہمسایہ خطہ میں لمبے عرصے تک موجود رہنا چاہتا ہے۔ اس بناپربھی چین دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد فراہم کرنے کے حوالہ سے محتاط رہا اورسیاسی دائرے میں تعاون کے باوجود چین نے امریکا کے فوجی اقدامات سے جوکہ ریاستی خودمختاری کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اورجوابی کارروائی کے خدشات بڑھاتے ہیں ِ اپنے آپ کو علاحدہ رکھا۔
چین کو امریکا کی بدلتی ہوئی ترجیحات سے بھی اس اعتبار سے فائدہ ہوا کہ وقتی طور پر بش انتظامیہ کی توجہ بین الاقوامی طورپر چین کی طرف سے مستقبل کے ممکنہ چیلنج کے بجائے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر منتقل ہوگئی تھی۔ بیجنگ نے انسدادِ دہشت گردی کے خلاف جو مضبوط سیاسی اقدامات کیے وہ اس کے شمال مغربی علاقوں تبت اور سنکیانگ کے بارے میں اس کی تشویش کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ دہشت گردی عام طورپر چین کے لیے بڑا خطرہ نہیں ہے۔ مثلاً سنکیانگ میں ہونے والے واقعات میں چھوٹے چھوٹے متفرق گروہ ملوث ہیں۔ کسی بڑی منظم تحریک کی موجودگی کے اشارے وہاں نہیں ملتے۔ پھر بھی ۱۱/ ۹ کے بعد کے ماحول نے چین کوموقع فراہم کیا کہ وہ یوگر مسلمانوں کی علاحدگی کی تحریک کو بین الاقوامی دہشت گردی کے خطرہ کے طورپر سامنے لاکر خود کو بھی بین الاقوامی دہشت گردی کے نشانہ کے طورپر پیش کرے۔ سنکیانگ کی بے چینی کا اسامہ بن لادن کے ساتھ تعلق جوڑتے ہوئے چین نے امریکا سے اصرار کیا کہ وہ مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک (ETIM) کو بھی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرے۔ اس مطالبہ کو پہلے تو واشنگٹن نے ماننے سے انکار کیا۔ لیکن بعد ازاں اس مطالبے کو اس وقت قبول کرلیا جب امریکا کو افغانستان میں سرگرمیوں اور عراق پر حملے کے لیے چین کی تائید درکار تھی۔
اس کے ساتھ ہی موقع بہ موقع بیجنگ نے امریکا کی دورخی پالیسیوں اور خاص طورپر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے دوہرے معیارات کو بے نقاب کرتے ہوئے سخت ردعمل کااظہار کیا۔بالخصوص اس وقت جب واشنگٹن نے چین کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے عنوان سے ہدف تنقید بنایا۔ چین نے امریکا کے عراق پر حملے کو ترقی یافتہ دنیا کی جانب سے بہت بڑی انسانی تباہی کا نام دیا اور امریکا پر متکبرانہ رویے اور اس کی پالیسیوں میں امتیازی طرزعمل کاالزام لگایا جس کے دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی اور خودمختاری پرحملہ کے بدنام زمانہ ریکارڈ ہیں جو بین الاقوامی تعلقات کے عالمی طورپر تسلیم شدہ معیار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس نے افغانستان میں عام شہریوں کی اموات، خفیہ قیدخانوں اور قیدیوں پر تشدد پر بھی یہ کہتے ہوئے تنقید کی کہ ’’امریکا اور خفیہ قیدخانے عملاً ہم نام ہوگئے ہیں‘‘۔
بیجنگ نے بہرحال اس شدید تنقید کو امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات میں جاری مجموعی تعاون پر اثرانداز ہونے نہیں دیا اور یوں اپنی پالیسی کے بنیادی اصولوں، طویل مدتی مقاصد اور فوری پالیسی ردعمل کے درمیان توازن قائم رکھا۔ دوسری طرف محتاط اندازِ فکر کی اپنی اپروچ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چین نے وقت کا زیادہ سے زیادہ بہترین استعمال کیا اور سیاسی و معاشی میدان میں زبردست ترقی حاصل کی۔ امریکا کے برعکس چین نے عالمی سطح پر اپنی ساکھ بہتر بنائی۔ بہت سے مبصرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جس ملک کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے وہ چین ہے۔ جب امریکا بڑی رقم جنگی آپریشن پر خرچ کررہا تھا اس وقت چین اپنی ترجیحات پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے تھا اور موجودہ صورت ِحال میں بڑی معاشی طاقت کے طورپر ابھر کر سامنے آیا۔ اس کی ایک علامت IMF کا یہ اعلان ہے کہ ۲۰-۲۰۱۶ء میں چین کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گی۔
اپنی قومی ترقی پر توجہ مرکوز رکھنے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے فوائد چین نے اس سارے عرصے کے دوران میں حاصل کیے۔ جن میں علاقائی سطح پر تجارتی ومعاشی توازن کو مزید مضبوط بنانا، ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعات کا حل، دنیا کے مختلف حصوں میں تعاون بڑھانا، افغانستان میں معاشی وترقیاتی منصوبوں میں حصہ لینا اور دہشت گردی کا نشانہ بننے سے خود کو محفوظ رکھنا بھی شامل ہے۔
تاہم چین کے اپنے قومی مفاد سے ہٹ کر دہشت گردی کے عالمی مسئلہ سے حقیقی طورپر نمٹنے اور عالمی نظام کو منصفانہ بنانے اور دہشت گردی کے حقیقی اسباب کوختم کرنے کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو چین کی اس پالیسی نے ان مسائل کو حل کرنے میں کوئی خاص مدد فراہم نہیں کی ہے۔ چنانچہ دس سال کے دوران لڑی جانے والی اس جنگ میں جسے عملاً چین کی حمایت بھی حاصل ہے، لاکھوں انسانی جانوں کے ضیاع اور اربوں کے وسائل جھونک دیے جانے کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا دنیا ۲۰۰۱ء کے مقابلہ میں اب زیادہ محفوظ ہوگئی ہے؟اور کیا افغانستان میں حقیقی امن کے بغیر ایشیا کے ایک بڑے حصہ میں امن اور اس کے نتیجہ میں امکانات کے مطابق ترقی کی توقعات کی جاسکتی ہیں؟
مجموعی انسانی ترقی کے حوالہ سے یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ کئی ٹریلین ڈالر کے اخراجات جنگوں پر صرف کرنے کے بجائے غربت وجہالت اور بیماری کے خاتمہ اور اقتصادی تعاون واشتراک کی کوششوں پر صرف کیے جاتے تو کیا دنیا کی صورتحال بہتر نہ ہوتی؟
٭ عین ممکن ہے کہ سیکیورٹی پردی جانے والی غیرمعمولی توجہ اوراس کے اہتمام پراٹھنے والے بے تحاشااخراجات کے ذریعہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام میں وقتی طورپر کامیابی حاصل ہورہی ہولیکن کیا دہشت گردی کے خطرات میں واقعی کمی ہوگئی ہے اور آئندہ انسانی زندگی رواں دواں اور پرسکون قرار دی جاسکے گی؟
٭ مذکورہ بالا سوال سے منسلک سوال یہ ہے کہ کیا دہشت گردی کے محرکات کونظرانداز کرکے محض دہشت گردوں کے خاتمہ سے دنیا اس خطرے سے محفوظ اور امن وترقی کی جانب پیش رفت کرسکتی ہے؟ ظاہر ہے محرکات کی موجودگی میں دہشت گردوں کے خاتمہ کے باوجود نئے لوگ ان کی جگہ لینے کے لیے ہمیشہ موجود ہوں گے۔
٭ اوران تمام سوالات کے تسلسل میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر القاعدہ اوراس سے وابستہ لوگوں کی پرتشدد کارروائیوں کا محرک عالمی نظام اور اداروں سے مایوسی تھی توکیا دہشت گردی کے خلاف جنگ اوراس کے نتائج نے عالمی نظام کے بارے میں امیدافزا صورتحال پیدا کی اور کیا اپنی موجودہ گرتی ہوئی ساکھ کے ساتھ امریکا دنیا میں امن، سلامتی اور ترقی کے لیے ایک حقیقی قیادت پیش کرنے کے قابل ہے؟
کیا کیا جائے؟
٭ دہشت گردی کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی مختلف قسموں کی وضاحت کی جائے۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ فوجی اقدامات اور جنگ سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اس کے بجائے مناسب حکمت عملی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مسئلے کے ان سیاسی پہلوؤں پر توجہ دی جائے جو تشدد شروع کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ درحقیقت سیاسی پہلوؤں پر توجہ کے ساتھ ساتھ اگرپولیس اور نگرانی کے نیٹ ورک کو تشدد کی کارروائیوں کو روکنے اور ان کا قبل ازوقت اندازہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے اور تشدد کی کارروائیوں کو جرم قرار دیتے ہوئے مجرموں سے نپٹنے کے لیے عدالتی عمل اختیار کیا جائے تو تشدد میں ملوث گروہوں کے ممکنہ پیروکاروں کی بڑی تعداد کو اس محدود تعداد سے علاحدہ کیاجاسکتا ہے جو تشدد کو کسی صورت ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
٭ اعلیٰ سطح پر اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ بین لاقوامی نظام کی تشکیل اوراس پر عمل درآمد کا میکنزم بنیادی طورپر مغربی (یورپ وامریکا کی) تہذیب اور اس کے اپنے تصورِجہاں کی بنیاد پر تشکیل پایا ہے۔ یہ سب ممالک، جو کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں ترقی کی اعلیٰ سطح پر فائز ہیں اور اس برتری سے لطف اندوز ہورہے ہیں، کسی بھی معاملہ میں فیصلہ سازی پر اس طرح اثرانداز ہوتے ہیں کہ اس سے طاقتور کو کمزور کے خلاف فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عالمی اداروں کو آگے بڑھنے اور یہ ثابت کرنے کے قابل ہونا چاہیے کہ وہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے برخلاف دنیابھر میں انصاف کی فراہمی کے نظام کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ محرومی اورمایوسی کی اصل وجوہات کو تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مؤثر عالمی نظام دنیا کے طاقتور کھلاڑیوں کے مقابلے میں کمزور کو انصاف فراہم کرسکے۔
اس ضمن میں یہ امر خوشی کا باعث ہے کہ ۶ستمبر۲۰۱۱ء کو China’s Peaceful Development کے نام سے جاری ہونے والی دستاویز میں مساوات کے اصولوں، آزادی، خودمختاری اور تمام ممالک کی سلامتی، صحیح معنوں میں تکثیریت، اپنی تہذیب کی حفاظت اوراسے برقرار رکھنے کاحق، روایات، ثقافت اور اقدار، قائل کرنے اور منطق کی طاقت کے ذریعہ تنازعات کے حل کے لیے غیرفوجی ذرائع کا استعمال، طاقت کے استعمال کو قانون کے ماتحت کرنے، انصاف کے بین الاقوامی نظام، بین الاقوامی قوانین کا احترام اور مختلف ممالک اور اقوام کی اجتماعی خودانحصاری کی حفاظت، بین الاقوامی تعاون اور ہم آہنگی کے احترام پر زور دیاگیا ہے۔
٭ اس منصفانہ عالمی نظام کی طرف بڑھنا بلاشبہ ایک لمباسفر ہے۔ لیکن اس سفر کوشروع کرنا اور تیز تر بنانا بھی ناگزیر ہے۔ یہ نہ صرف ایشیا کے لیے جو اس کانفرنس کا موضوع ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اہم میدان ہے بلکہ تمام دنیا میں ترقی اور خوشحالی کے لیے بھی ضروری ہے۔ اوریہ باہمی تعاون، پائدار امن کے لیے تحرک، ہم آہنگ دنیا (Harmonious World) کے اورانسانی اقدار کے احترام سے ہی ممکن ہو گا۔
٭ چین سے جو کہ ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور جس کے اپنے Stakes عالمی نظام میں بڑھتے جارہے ہیں اور جو سلامتی کونسل کا واحد ایشیائی ملک ممبر ہے یہ امید رکھنا ایک قدرتی عمل ہے کہ وہ ہم آہنگ ترقی (Harmonious Development)، سب کے لیے ترقی اور انسانی اقدار پرزور دینے کے ساتھ ساتھ اس سفر کے لیے پیش رفت نہ صرف نظری سطح پر بلکہ عملی سطح پر بھی کرے گا۔
زیرنظر تحریر مصنف کے انگریزی مقالہ کا ترجمہ ہے جو انہوں نے ستمبر ۲۰۱۱ء میں بیجنگ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں پیش کیا۔
☼☼☼
Leave a Reply