
چند روز قبل پاکستان میں عیدالفطر منائی گئی۔ عید کے حوالے سے مجھے دو واقعات یاد آتے رہے۔ہم سال میں دو عیدیں مناتے ہیں، لیکن سنا ہے کہ اللہ پاک کے دوستوں یعنی ’’ولیوں‘‘ کی تو ہر روز عید ہوتی ہے۔ ہماری عید ہوتی ہے سویاں، کھیر اور مٹھائیاں کھانے یا پھر قربانی کے بکرے کی کلیجی اور چانپیں کھانے سے، جبکہ ان کی عید ہوتی ہے قلب میں تجلیات نازل ہونے اور نور کا سیلاب آنے سے۔ ہماری عید چاند کی مرہونِ منت ہوتی ہے اور عاشقان کی عید دید کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ ہماری عید شکم پروری کا نام ہے اورمحبانِ الٰہی کی عید روح پروری کا نام ہے۔ معذرت۔ بات اِدھراْدھر نکل گئی۔ میں کہہ رہا تھا کہ عید آئی تو مجھے دو واقعات یاد آتے رہے جن سے میں محظوظ ہوتا رہا۔ پہلا تاریخی واقعہ ہے دسمبر ۱۹۴۱ء کا یعنی میری پیدائش سے پہلے کا، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے، کیونکہ تاریخ کا دامن تو انمول واقعات کے موتیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ۲۹ دسمبر ۱۹۴۱ء کو عید کا دن تھا۔ اس روز ناگپور میں مسلم لیگ کا جلسہ بھی تھا جس میں قائداعظمؒ نے خطاب کرنا تھا۔ نماز عید کا اہتمام جلسہ گاہ کے گرائونڈ میں کیا گیا تھا۔ قائداعظمؒ کی تقریر سننے کے لیے سارے علاقے سے ہزاروں لوگ آئے ہوئے تھے اور وہ قائداعظمؒ کی رفاقت میں نماز عید ادا کرنا چاہتے تھے۔ اس ہجوم میں قرب و جوار کے علاوہ دوسرے اضلاع سے بھی آئے ہوئے لوگ بھی شامل تھے۔ ایک اندازے کے مطابق نمازیوں کی تعداد پچاس ساٹھ ہزار کے قریب تھی۔ خطبے کے بعد امام صاحب دعا سے فارغ ہوئے تو قائداعظمؒ سے مصافحہ کرنے کے لیے بے چین لوگوں کاہجوم ان کی طرف بڑھنے لگا۔ قائداعظمؒ نے وفورِ جذبات کا یہ منظر دیکھا تو مائیک پرتشریف لائے۔ اردو میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے حاضر جوابی اور حسِ مزاح سے کام لیا اور کہا کہ حضرات میری طرف سے آپ سب کو عیدمبارک۔ میں آپ کے جذبات کی انتہائی قدر کرتاہوں لیکن اگر آپ سب لوگ مجھ سے ہاتھ ملائیں گے تو میرا ہاتھ یہیں رہ جائے گا۔ قائداعظمؒ کے ان الفاظ نے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی اور وہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلسہ گاہ میں بیٹھنے لگے۔
اس حوالے سے مجھے جو دوسرا واقعہ یاد آیا اس کے راوی جنرل محمد اکبر خان (رنگروٹ) ہیں جو قیام پاکستان کے وقت میجر جنرل کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ کراچی کے انچارج تھے اور قائداعظمؒ ان پر نہ صرف اعتمادکرتے تھے بلکہ انہیں اس قدر پسند کرتے تھے کہ جب قائداعظمؒ علالت کے سبب زیارت میں مقیم تھے تو انہوں نے خاص طور پر میجر جنرل اکبر اور ان کی بیگم کو وہاں آنے کی دعوت دی اور انہیں زیارت میں اپنا مہمان بنایا۔ میجر جنرل محمداکبر خان نے اپنی یادداشتیں ’’میری آخری منزل‘‘ نامی کتاب کی صورت میں مرتب کی ہیں۔ لکھتے ہیں ’’قیام پاکستان کے بعد پہلی عید ۱۸؍اگست ۱۹۴۷ء کے دن تھی۔ قائداعظمؒ نے مجھے فرمایا کہ ’’میں عیدگاہ میں نماز پڑھوں گا۔ مگر میں وہاں اپنے لیے کوئی خاص انتظام نہیں چاہتا۔ جہاں جس کو جگہ مل جائے نماز ادا کرے۔ البتہ میں قوم کو عیدمبارک کہنا چاہتا ہوں لہٰذا لائوڈ اسپیکر کا انتظام تم کرنااور صرف تم مجھے مسجد کی سیڑھیوں پر ملنا۔ میں فلاں وقت وہاں پہنچوں گا۔۔۔‘ جنرل صاحب لکھتے ہیں ’’چونکہ مجھے معلوم تھا کہ شائقین پہلی صف میں جگہ لینے کے خواہش مندہوتے ہیں اس لیے میں نے اپنے اے ڈی سی اور اردلی کو پہلے ہی مسجد میں بھیج دیا تاکہ وہ میرے لیے اور قائداعظمؒ کے لیے جگہ رکھیں اور لائوڈ اسپیکر کا ٹیسٹ وغیرہ بھی کرلیں۔ پھر بھی میں قائداعظمؒ کے تشریف لانے سے تقریباً دس منٹ پہلے وہاں پہنچ گیا۔ جیسے ہی میری درخواست پر امام مسجدنے لائوڈاسپیکر لا کر رکھااور اسے ٹیسٹ کرنے کے لیے آدمی آیا تو چند مولوی صاحبان بھاگ کر آئے اور مائیکروفون کو پکڑکر کہا کہ ہم اس شیطانی آلے کو مسجدمیں استعمال نہیں ہونے دیںگے۔ اتنے میں کمپنی کے آدمی نے ٹیسٹ کرنے کے لیے جیسے ہی کرنٹ چھوڑا اور بجلی کی تار لگا دی تو مائیکروفون کی تار نے شاٹ مارا۔ چنانچہ تینوں حضرات اچک کر دھم سے گرے اور حواس باختہ ہو کر بے حِس لیٹ گئے۔ میں ڈرا کہ کہیں بجلی کے شاک سے مر نہ گئے ہوں۔ مگرانہیں کچھ نہ ہوا تھا، یا تو وہ سہمے ہوئے تھے یا پھر ڈرامائی انداز کامظاہرہ کررہے تھے۔بہرحال میرے کہنے پر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے اور پھر کوئی مزاحمت نہ کی۔ (۱۹۴۷ء کا مولوی لائوڈ اسپیکر کو شیطانی آلہ سمجھتا تھا جبکہ آج کا مولوی لائوڈ اسپیکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا)
میجر جنرل محمد اکبر خان رقم طراز ہیں ’’میں قائداعظمؒ کو منبر کے قریب لایا تو انہو ںنے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ عموماً ان انسانوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے جن پر وہ مہربان ہوتاہے۔ اسی بناپر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو فرمایا کہ جو چیز تمہیں بہت ہی عزیز ہے میرے لیے قربان کرو۔ آخرکار حضرت ابراہیمؑ نے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربانی کے لیے پیش کیا۔ آج کل اللہ تعالیٰ بھارت و پاکستان کے مسلمانوں کی آزمائش کر رہا ہے۔ ہم سے بہت سی قربانیاں طلب کی گئیں۔ ہماری نوزائیدہ مملکت کے عوام کے جسم دشمنوں کے کاری زخم لگانے کی وجہ سے خون میں لت پت ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائی جو ہندوستا ن میں ہیں، ظالموں کے عتاب اور تشدد کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں پر ظلم کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں، مگر انشا اللہ تعالیٰ اگر ہم اسلامی جذبہ سے سرشار ہو کر ثابت قدم رہے تو حضرت ابراہیمؑ کی طرح اللہ تعالیٰ ہماری قربانی قبول کرے گا۔ لہٰذا آئو ہم سب مل کر جذبۂ جہادسے سرشار ہو کر دشمنوں کے ناپاک عزائم کا عزم سے مقابلہ کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے سرفراز ہوجائیں۔ جس قدر قربانیاں ہم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کی غرض سے دیں گے اس سے کہیں زیادہ اجر عظیم سے اللہ تعالیٰ ہمیں نوازے گا۔ ہم اس مبارک دن میں دشمنوں کے عزائم کا استقلال و عزم۔۔۔ جرأت ہوش مندی۔۔۔ اتفاق و اتحاد اور نظم سے کرنے کا عہد کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی تقلید کرکے اسلامی روایات کو پائندہ و تابندہ رکھیں۔ پاکستان زندہ باد‘‘۔ (صفحات ۱۰۷۔۸)
قائداعظمؒ کے الفاظ کے باطن میں جھانکیے تو آپ کو ان میں ’’صوفی‘‘جناح کی ایک جھلک نظرآئے گی۔ ایساصوفی جو اسلامی تعلیمات کا ادراک رکھتا ہے۔ ایساصوفی جس کا قلب ایمانِ محکم اور رضائے الٰہی کے نور سے منور ہے۔ کچھ حضرات قائداعظمؒ کی جوتیاں اٹھانے کے لیے بے تاب تھے، لیکن انہوں نے کسی کو بھی اس کی اجازت نہ دی اور مسجد۔۔۔ اللہ کے گھر سے۔۔۔ اپنی جوتیاں خود اٹھائے نہایت عاجزی سے باہر نکل گئے۔ سیڑھیوں کے قریب جنرل محمداکبر کو خداحافظ کہا اور خاموشی سے گورنمنٹ ہائوس چلے گئے جہاں نہ کوئی دعوت تھی اور نہ ہی عیدملن پارٹی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ ۲۶ جولائی ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply