
نواز شریف کے واقعہ سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستانی عوام جمہوریت کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر اتر آنے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اسلام آباد پرنواز شریف کے اترنے سے پہلے چار یا پانچ ہزار افراد حراست میں لیے گئے تھے اور جب لوگوں نے گھیرا توڑ کر ایئر پورٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی کچھ اور بھی پکڑے گئے لیکن ان میں سے زیادہ تر مسلم لیگ نواز کے ممبران اور حامی تھے۔
نیپال میں جمہوریت لانے کی غرض سے راجہ کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے جو انتشار وہاں دیکھا گیا ویسا کوئی ہنگامہ نہیں تھا میرا تصور یہ تھا کہ لاہور، فیصل آباد، ملتان، سیالکوٹ یا کم از کم بغل ہی میں راولپنڈی میں لوگ نواز شریف کی آمد پر بازاروں میں پولیس مزاحم ہوں گے۔ جس جوش اور ولولے سے وکلاء نے چیف جسٹس محمد افتخار چوھدری کی بحالی کے لیے اپنا چار ماہ کا احتجاج جاری رکھا اسے دیکھ کر مجھے یقین ہو گیاتھا کہ وقت پڑنے پر قریب اور دور سے امیرو غریب فوجی حکومت کے خاتمہ کا مطالبہ کرنے کے لیے یکجا ہو جائیں گے۔
تاہم جب وقت آیا اور نواز شریف پاکستان کے دارالحکومت میں تھے تو اسلام آباد میں بھی احتجاج کم ہی ہوا۔ لوگ نہیں کہہ سکتے کہ اس پر انہیں حیرت ہوئی۔ نواز شریف نے پی آئے اے یعنی ملک کی قومی ہوائی کمپنی کے جہاز پر سفر کیا تاکہ یہ واضح رہے کہ وہ اپنے ملک میں نظر بچا کر نہیں داخل ہو رہے تھے۔ درحقیقت نواز شریف نے اپنے سفر سے پہلے مقام اور تاریخ کا اعلان کر دیا تھا۔ انہوں نے شیر کی کھوہ میں اسے للکارا اور سنگین نتائج کے باوجود مشرف کے سامنے آئے اس کا کوئی عوامی رد عمل نہیں ہوا۔ اس کی کئی تاویلیں ہو سکتی ہیں کہ عوام باہر کیوں نہیں نکلے۔ وہ تو روزی روٹی کمانے کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ۴۵ سالہ دور اقتدار میں فوج نے ان کی توانائی کا اس حد تک چوس لیا ہے کہ وہ حکومت کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت ہی نہیں رکھتے، ہو سکتا ہے کہ یہ اسباب معمولی ہوں۔ پھر بھی یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ جب نواز شریف تین گھنٹے تک ہوائی آڈے پر آرہے تو پاکستانی عوام حسب معمول پر سکون رہے۔ شاید ان پر خوف طاری ہو گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیئے جانے والے دن ہی جیسی کیفیت تھی۔
لوگوں نے نواز شریف کو حراست میں لیے جانے کا منظر اپنے ٹی وی اسکرین پر دیکھا۔ شاید ہی کوئی ایسا عوامی ہنگامہ ہوا ہو جس نے حکمرانوں کو ہلایا ہو۔ میں لوگوں کے احساس بے نیازی کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ جو ان کے چہروں سے عیاں ہے۔ میں صرف سات سال بعد ایک ملک بدر لیڈر کی واپسی پر ردعمل کا اندازہ لگا رہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ پاکستانی شہری کو اپنے وطن واپس آنے کا نا قابل انکار حق دیتا ہے۔ عدالت عظمیٰ حکومت کو اپنے موقف سے ہٹا نہیں سکی۔ نواز شریف اور ان کے بھائی دونوں ہی کا نام فیصلے میں لیا گیاتھا۔ ایسے اسباب جن کا بہتر علم مشرف حکومت کو ہی ہے اس نے اس قانونی پہلو پر غور کر لیا ہوگا، ورنہ تو ایسا کرنا توہین عدالت کا مرتکب ہونا تھا۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ عدلیہ جمہوری نظام کا ستون ہے۔ اس کی بالادستی فرد کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے پھر بھی عدلیہ خواہ کتنی ہی آزاد ہو عوامی حمایت پر منحصر رہتی ہے۔ دانشوروں اور دیگر لوگوں نے وکلاء کے احتجاج کے دوران اپنی طاقت آزمائی۔ لیکن جب شریف نے پہلا دھماکہ کیا تو انہوں نے سیاسی صف آرائی میں شرکت کیوں نہیں کی۔ جس چیز کا ذکر خفیہ میٹنگ میں ہوا تھا وہ منظر عام پر آ چکی ہے۔ سیاسی پارٹیاں فوج کی سر پرستی میں چلنے والی حکومت کو برطرف کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑاچھالنا چاہیں گی۔ بے نظیر بھٹو کے زیر قیادت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی ) نے نواز شریف سے فاصلہ بنائے رکھا بلکہ انہوں نے نام لے کر نواز شریف پر حملہ کیا۔ جیل کی صعوبتوں سے بچنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ ان کی مفاہمت کو بزدلی کی علامت سے تعبیر کیا گیا۔ شاید انہیں آسائش کی زندگی پر قید و بند کو ترجیح دینا اور مزاحمت اورا نکار کی آگ کو روشن رکھنا چاہیے تھا۔ پھر بھی انہوں نے فوج سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش نہیں کی جو جمہوریت کی ہی منکر ہے۔ اپنے ماضی یعنی جنرل ضیاء الحق سے قربت کے باوجود نواز شریف نے مشرف کی تمام تجاویز کو مسترد کر دیا۔ اس انقلاب کے بعد جس میں انہیں اقدار سے ہٹایا گیا تھا نواز شریف نے جو کچھ کہا تھا اس پر وہ قائم رہے یعنی وہ فوج سے سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس بے نظیر نے اپنی تمام اعتدال پسندانہ اسناد کے باوجود مشرف سے معاملات طے کیے ہیں اور مبینہ طور پر انہیں صدر مملکت تسلیم کیا ہے۔ بشرطیکہ وہ وردی اتار دیں۔ بہ الفاظ دیگر سات سال تک انہوں نے ملک کے ساتھ جو کچھ بھی کیا اسے بھلا دیا گیا میثاق جمہوریت کے خلاف جا رہا ہے جس پر انہوں نے نواز شریف کے ساتھ دستخط کیے تھے۔ یہ دستاویز پورے بر صغیر میں عوامی خود مختاری کی مبادیات کی حیثیت رکھتا ہے اس کے حسن آغاز میں ہی کہا گیا ہے کہ تاریخ سے یہ سبق لیتے ہوئے کہ فوجی آمریت اور قوم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے قوم کو ایک نئی سمت کی ضرورت ہے جو موجودہ نظام جیسی فوج پسندانہ اور صف بندی کے طریقہ کار سے مختلف ہو۔ فوج کی مداخلت ملک کی اقتصادیات اور جمہوری اداروں اور اس کے ساتھ دفاعی صلاحیتوں اور ملک کی سا لمیت کو منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔
خود مختاری کی راہ میں کوئی عارضی پڑائو نہیں ہوتا۔ عوام یا تو خود مختار ہوتے ہیں یا نہیںہوتے۔ محدود طور پر ہی سہی اقتدار میں فوج کی شرکت پاکستان کو اس کے نقطہ آغاز پر ہی پہنچا دے گی اور جمہوریت کی بحالی کی تمام کوششوں کے مقصد کو فوت کر دے گی۔ بے نظیر نے کہا ہے کہ فوج سے ان کے ۰ ۸ فی صد معاملات طے ہو چکے ہیں۔ میں بنیاد پرستی سے لڑنے کے لیے ان کی پاکستان واپسی کی شدیدخواہش کو سمجھ سکتا ہوں لیکن جمہوریت کی قیمت پر ایسا نہیں کیا جا سکتا۔
مذہبی جماعتوں کا کردار موقع پرستانہ لگتا ہے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے ) جو مذہبی جماعتوں کا اشتراک ہے و ہ شجاعت حسین کی سر براہی میں مشرف کی مسلم لیگ کی مدد سے بلوچستان کی ریاستی حکومت کو چلا رہی ہے ایم ایم اے کی زبان کچھ بھی ہو وہ ان کے انتخابات میں مشرف کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے زیادہ سے زیادہ اعتدال پسندوں کوباہر رکھنے کے لیے نیشنل اسمبلی میں کئی سیٹوں پر جیتنے میں اس کی مدد کی تھی۔ شاید نواز شریف کو آخری لمحے میں یہ احساس ہو گیا کہ یہ مشرف کے خلاف تنہا جنگ ہو گی۔ شہباز شریف کو لند ن میں ہی رکنے کے لیے کہا گیا اگرچہ انہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ سفر کرنے کے لیے بورڈنگ کارڈ حاصل کر لیا تھا۔ نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نے اعلان کیا ہے کہ اس سلسلہ کو وہاں سے جاری رکھنے کے لیے جہاں ان کے شوہر نے اسے چھوڑا ہے پاکستان کا سفر کریں گی۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ایسا کر سکتی ہیں لیکن جب تک کہ مسلم لیگ (نواز شریف) دیگر سیاسی جماعتوں اور صفوں کی رائے ہموار نہ کر لیں انہیں شاید زیادہ حمایت نہ ملے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘ ممبئی۔ شمارہ: ۲۵ ستمبر ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply