
امریکا اور یورپ دونوں کے لیے چین بہت تیزی سے انتہائی خطرناک حریف میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ امریکی پالیسی ساز اس لیے زیادہ پریشان ہیں کہ چین کی قوت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ لاکھ کوشش کے باوجود چین سے تجارت میں ہونے والے خسارے کی خلیج پاٹنا اُن کے لیے ممکن نہیں ہو پارہا۔ ایک طرف چین نے مینوفیکچرنگ سیکٹر پر شکنجہ کَس دیا ہے اور دوسری طرف وہ عالمی سیاست میں بھی اپنی پوزیشن مضبوط سے مضبوط تر کرتا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ امریکا اور یورپ کے قائدین کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ اگر چین کو روکنے کی جامع اور معقول کوشش نہ کی گئی تو معاملات ہاتھ سے نکلتے چلے جائیں گے۔ دنیا تیزی سے ایک ایسی کیفیت کی طرف بڑھ رہی ہے، جب کوئی ایک طاقت پوری دنیا کو اپنے دستِ تصرف میں لینے کے قابل نہ رہے گی۔ امریکا، یورپ، چین اور چند دوسری قوتیں مل کر دنیا کو چلاسکیں گی۔ مشکل یہ ہے کہ اس ابھرتی اور پنپتی ہوئی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے امریکا تیار نہیں۔ یورپ کے قائدین نے سمجھ لیا ہے کہ معاملات اب مکمل طور پر مغرب کے ہاتھ میں نہیں۔ دنیا کو اب مغرب کی مرضی کے مطابق چلایا نہیں جاسکتا۔ امریکی قائدین اب تک نئی زمینی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ کسی نہ کسی طور چین کو دبوچ کر رکھا جائے۔ یہ ممکن نہیں۔ زیر نظر مضمون اِسی تناظر میں ہے۔
چین کو الگ تھلگ کرنا ناگزیر ہوگیا ہے مگر کیا ایسا کرنا ممکن ہے؟ سرِدست یہی دکھائی دے رہا ہے کہ ایسا کرنا انتہائی خطرناک بلکہ تباہ کن ہوگا۔ امریکا اور یورپ کی معیشتیں چینی معیشت سے اِس طور جڑی ہوئی ہیں کہ اُس سے مکمل طور پر کنارہ کش ہوکر وہ کھوکھلی رہ جائیں گی۔ چین نے متعدد معاملات میں امریکا اور یورپ کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ دونوں اُس پر انحصار کریں۔ امریکا اور یورپ میں بہت سی اشیا کی لاگت اس قدر ہے کہ چین ہی اُن کے لیے بہترین متبادل ہے۔ چین اب ایک باضابطہ حقیقت کے طور پر سامنے ہے جسے محض سمجھنا ہی نہیں، تسلیم کرنا بھی لازم ہوچکا ہے۔ عالمی معیشت سے چین کو الگ کرنے کا عمل پوری دنیا کی معیشتوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔
امریکا میں دونوں بڑی جماعتیں اب اس حقیقت کا ادراک کرچکی ہیں کہ چین محض مسابقت کے حوالے سے خطرناک نہیں بلکہ اب ایک باضابطہ حریف بن چکا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ ایک دشمن ہے۔ ۱۴ مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین سے الگ ہوئے بغیر چارہ نہیں۔ اور یہ کہ چین سے ہر طرح کے معاشی اور مالیاتی تعلقات ختم کرنے کی صورت میں امریکا کو فائدہ ہی پہنچے گا اور یہ فائدہ کم و بیش ۵۰۰ ڈالر تک کا ہوسکتا ہے۔
امریکا نے کورونا کی وبا کے دوران بھی چین سے تعلقات کم کرنے پر خاص توجہ دی ہے۔ صدر ٹرمپ نے دی فیڈرل ریٹائرمنٹ تھرفٹ انویسٹمنٹ بورڈ کو ہدایت کی کہ چینی کمپنیوں میں سرمایہ کاری روک دی جائے۔ انہوں نے ٹیلی کام سیکٹر میں چین کے سب سے بڑے ادارے ہواوے کو بھی حکم دیا کہ وہ سیمی کنڈکٹر تیار کرنے کے شعبے میں امریکی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چھوڑ دے۔ چین اور ہانگ کانگ کے تعلقات میں کشیدگی کا بھی امریکا نے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ جب چین نے ہانگ کانگ میں سیکورٹی کے حوالے سے چند سخت اقدامات کیے تب امریکی صدر نے ہانگ کانگ کو تجارت کے حوالے سے دی جانے والی رعایتیں بحال کرنے کا اعلان کیا۔
امریکا میں چند برسوں سے یہ بات کھل کر کہی جارہی ہے کہ اب چین سے الگ ہونے کا وقت آگیا ہے۔ الگ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ امریکا چینی کمپنیوں سے اپنے غیر معمولی تعلقات ختم کرے۔ اس وقت بیسیوں چینی کمپنیاں امریکی کمپنیوں کو بہت سی اشیا بہت بڑے پیمانے پر تیار کرکے فراہم کر رہی ہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ یہ سپلائی چین اب ختم کردی جائے۔ یہ بات کہنے کو بہت آسان ہے مگر اس پر عمل کرنے بیٹھیے تو معاملات ایسے الجھنے لگتے ہیں کہ سارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ امریکا میں بڑھتی ہوئی لاگت کے باعث بیسیوں امریکی کمپنیاں اب بہت کچھ چینی کمپنیوں کے ذریعے بنواتی اور منگواتی ہیں۔ یہ عمل دوچار سال کا نہیں، عشروں کا ہے۔ اس دوران چین کی قوت میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ چین کی بیسیوں کمپنیاں امریکی معیشت میں گندھ گئی ہیں، رچ بس گئی ہیں۔ ان کمپنیوں کو امریکی معیشت سے الگ کرنے کا عمل تعقل کا متقاضی ہے۔ اس معاملے میں دانش مندی اور دور اندیشی کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اگر معاملات کو سوچے سمجھے بغیر نمٹانے کی کوشش کی گئی تو خرابیاں صرف بڑھیں گی۔ صدر ٹرمپ کے مشیرِ تجارت پیٹرو نیویرو نے ’’ڈیٹھ بائی چائنا‘‘ کے زیرِ عنوان ایک کتاب لکھی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر امریکی معیشت سے چین کو الگ نہ کیا گیا تو معاملات اس حد تک بگڑیں گے کہ انہیں درست کرنا ممکن نہ رہے گا۔ واشنگٹن کے پالیسی ساز چین کو امریکی معیشت سے مکمل طور پر الگ کرنے کی باتیں ایک عشرے سے بھی زائد مدت سے کر رہے ہیں مگر یہ سب کچھ کسی بھی اعتبار سے آسان نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معقول متبادل کا انتظام کیے بغیر چین کو امریکی معیشت سے مکمل طور پر الگ کرنا انتہائی خطرناک، بلکہ تباہ کن ثابت ہوگا۔
کئی آپشنز پر غور کیا جارہا ہے۔ ایک طرف تو یہ کہا جارہا ہے کہ چین کو امریکی ٹیکنالوجی استعمال کرنے سے روکنا ہی معاملات کو درست کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ دوسری طرف یہ کہا جارہا ہے کہ چین کو بہت بڑے پیمانے پر ڈمپنگ سے روکنے کے لیے عالمی تجارتی تنظیم کے قوانین اور ضوابط میں تبدیلی لازم ہے۔ چین اب تک مینوفیکچرنگ سیکٹر کا سب سے بڑا ملک ہے۔ وہ ہر چیز بہت بڑے پیمانے پر تیار کرتا ہے۔ لاگت بہت کم ہونے کے باعث وہ کسی بھی ملک تک اپنی مصنوعات اتنے کم خرچ پر پہنچاتا ہے کہ کسی بھی دوسرے ترقی یافتہ ملک کے لیے اس سے مسابقت آسان نہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں مینوفیکچرنگ سیکٹر میں چین سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں۔ پس ماندہ ممالک تو خیر کسی گنتی ہی میں نہیں۔
یہ بات بھی اب کھل کر کہی جانے لگی ہے کہ چین کو اچانک اور، بظاہر سوچے سمجھے بغیر، امریکی معیشت سے الگ تھلگ کرنے کے انتہائی اثرات نتائج مرتب ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ چین ہر معاملے میں امریکا کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ بعض شعبوں میں چینی کمپنیوں کے تعاون سے امریکی معیشت نے چند ایک فوائد بھی حاصل کیے ہیں۔ بعض شعبے چینی معاونت ہی کے ذریعے اب تک برقرار رہ پائے ہیں۔ بہت سی اشیا چین سے درآمد کیے جانے کی صورت میں بہت سستی پڑتی ہیں۔ اگر یہ تمام اشیا امریکا میں بنائی جانے لگیں تو لینے کے دینے پڑ جائیں گی۔ امریکا نے اب تک ہائی ٹیک اور ایسے ہی دیگر ہائی پروفائل سیکٹرز پر توجہ دی ہے۔ چین بنیادی طور پر مینوفیکچرنگ سیکٹر کا جِن ہے۔ وہ اب تک اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ کوئی بھی بڑا ملک مینوفیکچرنگ سیکٹر میں اس کے سامنے کھڑا نہ ہوسکے۔ امریکا اور یورپ دونوں ہی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں چین سے مسابقت کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ ایسے میں چین کی معاشی اور مالیاتی قوت سے گھبراکر جذباتی نوعیت کے فیصلے کرنے کی کوئی منطق سمجھ میں نہیں آتی۔ واشنگٹن میں بھی سیاسی و معاشی امور کے تجزیہ کار اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ چین کو ایسے دشمن کے طور پر نہ دیکھا جائے جس سے ہر حال میں جان ہی چھڑانی ہے۔ سابق سوویت یونین واضح حریف تھا، مگر اُس سے نمٹنے کے معاملے میں بھی ایسی جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کو الگ تھلگ کرنے کے لیے جس نوعیت کی مہارت درکار ہے وہ فی الحال امریکا کے پاس نہیں۔ اس معاملے میں غیر معمولی دور اندیشی درکار ہے۔ چین کو دبوچنے کے لیے جامع پالیسی اور واضح حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ اب تک ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ ہوا میں تیر چلائے جارہے ہیں، بڑھکیں ماری جارہی ہیں۔ یہ کیفیت واشنگٹن کے پالیسی سازوں کی بدحواسی کا گراف بلند کر رہی ہے۔ چین کو قابو میں رکھنے کے لیے بہت کچھ درکار ہے جس کا اہتمام کرنے پر فی الحال توجہ نہیں دی جارہی۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ چین کی بہت سی کمپنیاں اس وقت امریکی معیشت میں اس طور گندھی ہوئی ہیں، اس طرح جڑی ہوئی ہیں کہ انہیں الگ کرنا خاصی محنت کا طالب ہے۔ اور اس کام میں کچھ وقت بھی لگے گا۔ کسی ایک حکم نامے کے ذریعے چین کو الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنا دونوں بڑی طاقتوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ چین کی توجہ اب تک صرف معیشت پر مرکوز رہی ہے۔ اس نے سیکورٹی کے معاملات میں امریکا کو منہ دینے کی زیادہ کوشش نہیں کی۔ امریکا نے ہانگ کانگ اور تائیوان کے حوالے سے بھی مہم جوئی کی کوشش کی ہے مگر چین نے ایسا ردعمل نہیں دیا جس سے معاملات خطرناک رخ اختیارکریں۔ وہ صرف اور صرف معیشت پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ تجزیہ کار امریکی حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ چین سے تعلقات اچانک ختم نہ کیے جائیں۔ سوچے سمجھے بغیر کیا جانے والا کوئی بھی اقدام نہ صرف یہ کہ مطلوب نتائج پیدا نہیں کرے گا بلکہ خرابیاں لائے گا۔
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بعض معاملات میں امریکی معیشت اب چینی کمپنیوں پر منحصر ہوکر رہ گئی ہے۔ دونوں معیشتیں بعض شعبوں میں سر سے جڑے ہوئے بچوں کی مانند ہیں۔ کسی ایک بچے کو الگ کرنے کی کوشش اُس کی ہی نہیں بلکہ دوسرے بچے کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ چین کو کنٹرول کرنے کا تاثر دے کر صدارتی انتخاب پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ چین کو قابو میں کرنے سے متعلق کوششوں میں ڈونلڈ ٹرمپ ہیرو کی حیثیت سے ابھریں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ خود امریکی پالیسی سازوں کو بھی درست اندازہ نہیں کہ چین اُن کی معیشت میں کہاں تک پیوست ہے۔ اگر سر سے جڑے ہوئے بچوں کو الگ کرنا ہو تو سب سے پہلے یہ اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ ان دونوں کے اعضائے رئیسہ جڑے ہوئے تو نہیں۔ اور یہ کہ ایک بچے کو الگ کرنے کی صورت میں دوسرے بچے کے زندہ رہنے کے امکانات کس حد تک ہیں۔ المونیم اور دوسری بہت سی دھاتوں کے حوالے سے چین کے علاوہ روس کے ادارے بھی امریکی معیشت سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ سوچے سمجھے بغیر کوئی عاجلانہ فیصلہ کرتی ہے تو کئی ممالک کی معیشتیں انتہائی خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہوں گی۔ یہی سبب ہے کہ ماہرین اس معاملے میں تحمل کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں۔ اگر چین کو الگ تھلگ کرنا بھی ہے تو اس کے لیے کئی سال کی محنت درکار ہوگی۔ سب سے پہلے تو ان کمپنیوں کی فہرست تیار کرنا ہوگی جو چینی کمپنیوں کی معاونت کے بغیر چلائی ہی نہیں جاسکتیں۔ چین کو سپلائی چین سے الگ کرنے کی صورت میں درجنوں امریکی کمپنیوں کا بھٹّا بیٹھ سکتا ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی ابتدائی کوششیں بھی اب تک ناکام ہی رہی ہیں۔ روسی کمپنی رسل کے معاملے میں ایسا ہوچکا ہے۔ کسی غلط کمپنی کے خلاف اقدامات سے سپلائی چین بُری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔ ایسی حالت میں بہت سے امریکی کمپنیاں دیوالیہ بھی ہوسکتی ہیں۔ امریکی پالیسی سازوں کو اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ چینی معیشت کوئی ایسی چیز نہیں جسے آسانی سے الگ کردیا جائے اورعالمی معیشت بُری طرح متاثر نہ ہو۔ وہ جانتے ہیں کہ چینی کمپنیاں عالمی معیشت سے اس طور وابستہ و پیوستہ ہیں کہ انہیں اچانک الگ کردینے سے کئی ممالک کی معیشت کو زبردست دھچکا لگے گا۔ امریکا کے علاوہ یورپ کے کئی ممالک بھی بُری طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔
اس وقت امریکی پالیسی ساز شش و پنج کی حالت میں ہیں۔ ایک طرف چین کو تیزی سے کنٹرول بھی کرنا ہے اور دوسری طرف یہ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ ایسا کس طرح کیا جائے۔ خواہش اپنی جگہ، امکانات اپنی جگہ۔ زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی معیشت کو مکمل تباہی سے بچانے کی غیر دانش مندانہ کوششیں ہی اُس کی مکمل تباہی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ پالیسی ساز بھی جانتے ہیں کہ چین کے حوالے سے اٹھایا جانے والا ایک غلط قدم اصل راستے سے بہت دور لے جاسکتا ہے۔
امریکی پالیسی ساز معاشی معاملات میں فزیکل اکانومی کے بنیادی عناصر کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ہائی ٹیک کے شعبے میں امریکا بہت آگے ہے اور ایسے ہی چند دوسرے شعبوں میں بھی اس کی مہارت سے انکار ممکن نہیں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ چین نے فزیکل اکانومی کے شعبے میں اپنی گرفت مضبوط رکھی ہے۔ معیشت کو متحرک رکھنے کے لیے مینوفیکچرنگ سیکٹر ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے مبادیات کو نظر انداز کرنے کی صورت میں صرف خرابیاں پیدا ہوں گی۔ امریکی پالیسی ساز بھی اس حقیقت کو کسی حد تک سمجھتے ہیں کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں چین غیر معمولی بالا دستی کا حامل ہے۔ اس شعبے میں اسے راتوں رات ہرایا نہیں جاسکتا۔ امریکی قائدین نے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو اب تک نظر انداز کیا ہے، جس کا چین نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔
چین کے حوالے سے کوئی بھی بڑا یا انقلابی نوعیت کا قدم اٹھانے سے پہلے امریکی پالیسی سازوں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ایسا کرنے سے امریکی معیشت کے فزیکل سیکٹر پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ آج کی دنیا میں ہائی ٹیک کی اہمیت غیر معمولی سہی مگر سبھی کچھ تو آن لائن یا ورچیوئل نہیں۔ بہت کچھ ہے جو آج بھی مرئی ہے، دکھائی دیتا ہے۔ مرئی معاملات کو غیر دانش مندانہ انداز سے نمٹانے کی کوشش کی گئی تو شدید منفی اثرات مرتب ہی نہیں ہوں گے، دکھائی بھی دیں گے اور بدحواسی بڑھائیں گے۔ ایسے میں انتہائی لازم ہے کہ چین کو کنٹرول کرنے سے متعلق کوئی بھی قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے تاکہ پوری معیشت متاثر نہ ہو۔ امریکی معیشت کے متاثر ہونے کا مطلب ہے دنیا بھر کی معیشتوں کا متاثر ہونا۔ یہ کیفیت معاملات کو مزید الجھا دے گی اور دنیا تصادم کی طرف بھی جاسکتی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The folly of decoupling from China”. (“Foreign Affairs”. June 3, 2020)
Leave a Reply